لجنہ اماء اللہ کے قیام کی ضرورت اور اہمیت
جس طر ح ایک گا ڑی اس وقت تک ٹھیک نہیں چل سکتی جب تک اس کے دونوں پہیے با لکل درست نہ ہوں ۔اور اگر خفیف سا نقص بھی کسی ایک پہیہ میں پا یا جا ئے تو ایسی گا ڑی اچھی طر ح نہیں چل سکے گی بعینہٖ یہی حا ل دنیامیں مر دو عو رت کا ہے۔ جب تک یہ دو نوں د نیا ئے عمل میں قدم بقد م اور پہلوبہ پہلو نہ چلیں ان کا تر قی کے ز ینہ تک پہنچنا مشکل ہے ۔بلکہ جس طر ح گا ڑی کے ایک طرف کا پہیہ نا قص ہوکر دوسری طرف کے پہیہ کے چلنے میں بھی روک ڈال دیتا ہے ۔اسی طرح اگر عورت تر قی کے میدان میں چلنے کے قا بل نہ ہو تو مرد کے ترقی کر نے میں روک ہو گی ۔
یہ ازلی قا نون قو موں اور ملکوں اور خا ندانوں میں یکساں طور پر چلتا ہے ۔یہی و جہ ہے کہ اسلام نے عو رت کی تعلیم اور تر بیت پر خا ص زور د یا ہے ۔علا وہ اس کے کہ عورت مرد کے کام میں بہت سی سہو لت کا با عث بن سکتی ہے۔عورت کی گود آئندہ نسل کا گہوا رہ بھی ہے۔پس اگر عورتیں اچھی تر بیت یا فتہ نہ ہوں تو اولا د بھی اچھی اور قا بل نہ ہو گی ۔اور جب اولاد اچھی نہ ہوئی۔تو قوم پروان کس طر ح چڑ ھے گی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الثا نی ا یدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرما تے ہیں :’’حقیقت یہی ہے کہ عو رتوں کی تعلیم و تر بیت کے بغیر کا م نہیں چل سکتا ۔مجھے خدا تعا لیٰ نے الہا ماًفر ما یا ہے کہ اگر پچاس فیصدی عو رتوں کی اصلا ح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی۔ گویا خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کو تمہاری اصلاح کے ساتھ وا بستہ کر دیا ہے ۔جب تک تم اپنی اصلا ح نہ کر لو ہمارے مبلغ خوا ہ کچھ کر یں کو ئی فا ئدہ نہیں ہو سکتا ‘‘۔(الا ز ھار لذوا ت الخمار صفحہ ۳۹۱)
حضورعو رتوں کو مخا طب کر کے مز ید فر ما تے ہیں:’’یہ کام ہما رے بس کا نہیں بلکہ یہ کا م تمہا رے ہی ہا تھوں ہو سکتا ہے۔ جب تک ہما ری مدد نہ کرو اور ہما رے سا تھ تعا ون نہ کرو۔ اور جب تک تم اپنی ز ند گیوں کو اسلام کے فا ئدہ کے لئے نہ لگا ؤ گی ۔اس وقت تک ہم کچھ نہیں کر سکتے اللہ تعالیٰ نے انسان کے دو حصے کر کے اس کے اندر الگ الگ جذ با ت پیدا کئے ہیں ۔عو رت مر د کے جذ با ت کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتی اور مر د عو رت کے جذ با ت کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا ۔پس چو نکہ ہم ایک دوسرے کے جذ با ت کو پہچا ننے سے قا صر ہیں ۔اس لئے مر دوں کی صحیح تربیت مر د ہی کر سکتے ہیں اور عو رتوں کی صحیح تر بیت عو رتیں ہی کر سکتی ہیں ۔‘‘(الازھا ر لذوات الخما ر صفحہ ۳۹۲)
چو نکہ یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ عو رتوں کی اصلا ح اور تربیت بہتر صورت میں عور تیں ہی کر سکتی ہیں اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثا نی ایدہ اللہ تعا لیٰ نے لجنہ اماء اللہ قا ئم فر ما ئی ۔پس لجنہ اماء اللہ ایک کڑ ی ہے اس با بر کت نظا م کی جس کے سا تھ محکم وا بستگی کے بغیر ہم خدا تعا لیٰ کے فضلو ں کے وا رث نہیں بن سکتے ۔لہٰذا احمدی بہنوں کو چا ہیے کہ وہ لجنہ اما ءا للہ میں شا مل ہو کر حضرت مسیح مو عود علیہ السلام کے قا ئم فرمودہ نظا م سے وا بستہ ہوں ۔
لجنہ اماءاللہ با ئیس سا ل سے قا ئم ہے ۔مگر ابھی تک اس کی طرف احمدی مستورات نے بہت کم تو جہ کی ہے ۔حا لا نکہ کو ئی تر قی نظام کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔اس وقت تک اگر خوا تین میں کچھ بیداری ہے تو وہ زیا دہ تر قا د یا ن کی مستو رات میں یا معدودےچند اور جگہوں میں جہا ں لجنہ قا ئم ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح ا یدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز کا الہام ’’اگر تم پچا س فیصدی عورتوں کی اصلا ح کر لو تو اسلام کو تر قی حا صل ہو جا ئے گی ۔‘‘کسی ایک شہر یا قصبہ کے لئے مخصو ص نہیں بلکہ سا ری د نیا کی احمدی عورتوں کے لئے ہے ۔اور یہ اصلا ح بغیر منظم ہو ئے اور بغیر آپس میں تعا ون کئے نہیں ہو سکتی ۔جب تک ہرایک احمدی عو رت یہ نہ سمجھ لے کہ میرا انفرا دی و جو د کو ئی حیثیت نہیں ر کھتا ۔بلکہ میرا وجو د دوسرے و جودوں کے ساتھ مل کر ہی طا قت اور قو ت پا سکتا ہے ۔اس وقت تک وہ تر قی نہیں کر سکتی ۔اور ظا ہر ہے کہ عو رتوں کے لئے وا حد طر یقہ منظم ہو نے کا صرف لجنہ اما ءاللہ ہے۔پس ہر احمدی عو رت کو چا ہیےکہ وہ لجنہ میں شا مل ہو اور ہر شہر یا قصبہ یا گا ؤں میں جہا ں دو یا دو سے ز یا دہ ا حمدی عو رتیں ر ہتی ہو ں وہ مل کر لجنہ قا ئم کر لیں۔ اور ایک دوسرے کے سا تھ پو را پو را تعا ون کر تے ہو ئے ایک دوسرے کی کمزوریوں سے چشم پو شی کرتے ہو ئے صبر استقلال اور ہمت کے ساتھ ا صلا ح کی کو شش کر یں۔ میں امید ر کھتی ہو ں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثا نی ا یدہ اللہ تعا لیٰ بنصر العزیز کے ارشا د کی تعمیل میں ایک سا ل کے اندر اندر سارے ہندو ستان میں لجنات قا ئم ہو جا ئیں گی ۔پس جہاں جہا ں اس وقت تک لجنہ قا ئم نہیں و ہا ں کی عو رتیں بہت جلد اپنے ہا ں لجنہ قا ئم کر کے لجنہ مر کز یہ قا دیا ن کو اطلا ع د یں ۔
اللہ تعا لیٰ کے کام کبھی نہیں ر کتے ۔اور بہر حا ل ہو کر رہیں گے ۔کیو نکہ وہ علیم و قدیر ہے ۔اور جو چا ہتا ہے کر کے ر ہتا ہے۔کسی قسم کی رو ک اس کے منشاء کو پو را کر نے میں حائل نہیں ہو سکتی پس اپنا کام تو اس نے کر نا ہی ہے ۔اور اپنی قدیم سنت کے مطا بق کرنابھی انسانی ہا تھو ں سے ہے ۔پھر کیوں نہ وہ ہا تھ ہما رے ہی ہا تھ ہوں ۔جن سے خدا ئی کام ا نجام پا سکیں ۔اور کیوں نہ وہ مبا رک ہستیاں ہم ہی ہوں جن سے الٰہی منشاء ظہو رپذ یر ہواحمدیت کا مقصد اور منتہیٰ ابھی بہت دور ہے۔جس طرح ایک سیڑ ھی کے آخری قد م تک نہیں پہنچا جا سکتاجب تک کہ اس کی ایک ایک سیڑ ھی پر قد م نہ رکھا جا ئے۔اسی طر ح ہمیں کر نا ہو گا جس ز ینہ پہ ہم نے چڑ ھنا ہے ۔اس کا پہلا قد م لجنہ اماءاللہ کا قیا م ہے ۔اگر پہلا قدم نہ ا ٹھایاگیا۔تو ہم اس مقام تک کیونکر پہنچ سکیں گی ۔جو ہما را مقصد اور نصب العین ہے۔میں امید کرتی ہوں کہ میری اس مختصر اور سا دہ اپیل پر ہما ری بہنیں خو د ہی تو جہ دے کر اپنی اپنی جگہ لجنہ قا ئم کر یں گی۔اور اس خدا ئی نظا م کا مفید پرزہ بننے کی کوشش کریں گی۔جس کے سا تھ ملنے سے ہی ہما رے لئے سب برکت و رحمت کے در وازے کھل سکتے ہیں ۔(مصبا ح فروری ۱۹۴۵ء)(خطابات مریم جلد اول صفحہ ۶تا۸)
(مرسلہ:آصفہ احمد۔ جرمنی)