’’آسمان سے بہت دودھ اُترا ہےمحفوظ رکھو‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے دودھ میں بہت سی خصوصیات رکھی ہیں۔یہ جسمانی بدن کے لیے بھی مفید چیز ہے۔جیساکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:’’ألبانُها شفاءٌ وسمنُها دواءٌ‘‘ یعنی گائے کے دودھ میں شفا اور اس کے مکھن میں دوا ہے۔ ایک اَور حدیث میں آپؐ نےفرمایا:’’ إن اللّٰه عزوجل لم ينزل داء إلا أنزل له شفاء إلا الهرم، فعليكم بألبان البقر، فإنها ترم من كل الشجر‘‘(شعب الإيمان )یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی دوا رکھی ہے سوائےبڑھاپے کے۔ پھر فرمایا:’’تمہارے لیے لازم ہے کہ گائے کا دودھ استعمال کیاکروکیونکہ وہ ہرقسم کے درخت کو کھاتی یعنی چرتی ہے‘‘۔ دودھ میں برکت بھی رکھی گئی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:’’ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِلَبَنٍ قَالَ : ’’ بَرَكَةٌ أَوْ بَرَكَتَانِ‘‘(سنن ابن ماجه، كتاب الأطعمة باب اللبن، نمبر 3321 ) کہ رسول اللہ ﷺکوجب بھی دودھ پیش کیا جاتا تو آپؐ فرماتےکہ اس میں ’’ایک یا دو برکتیں ‘‘ہیں۔
اسی طرح روحانی دُنیا میں بھی اس کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔ جس طرح ہمارے پیارے رسولﷺ نے معراج کے روحانی سفر میں دودھ کے پیالے کو پسند فرماتےہوئےنوش فرمایاجیسا کہ آتاہے۔’’وَأُتِيْتُ بِإِنَائَیْنِ أَحَدُهُمَا لَبَنٌ وَالْآخَرُ فِيْهِ خَمْرٌ، فَقِيْلَ لِيْ: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، فَقِيْلَ لِي: هُدِيْتَ الْفِطْرَةَ أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ‘‘(صحيح البخاري، كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ،نمبر3437) آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے سامنے دو برتن پیش کیے گئے، ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی۔ اور مجھے اختیار دیا گیا کہ میں دونوں میں جس کو چاہوں انتخاب کروں۔ چنانچہ میں نے دودھ کا برتن لیااوردودھ کو پی لیا۔ اس پر مجھ سے کہا گیا کہ تم نےفطرت کی راہ اختیار کی،یا فطرت کو پا لیا۔ ایک اور حدیث میں آپؐ نے خود بیان فرمایا’’ اَللَّبَنُ فِي الْمَنَامِ فِطْرَة‘‘ یعنی خواب میں دودھ دیکھنے کی تعبیر فطرت ہے۔
خواب میں دودھ کا پینا بھی اپنے اندر کئی معنی اور معارف رکھتا ہے ایک معنی ’’علم ‘‘بھی ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ کی ایک حدیث میں ہے: عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ’’ بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أُتِيْتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ، فَشَرِبْتُ مِنْهُ ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ: الْعِلْمَ ‘‘(سنن ترمذي، كتاب الرؤيا، باب فِي رُؤْيَا النَّبِيِّﷺ،نمبر2284) اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئےسنا میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا۔ میں نے اُس میں سے پیا اور باقی ماندہ عمر بن خطاب کوپیش کیا۔صحابہ کرام نے پوچھا؟ اے اللہ کے رسول ﷺاس خواب کی تعبیر کیا ہے؟آپؐ نے جواباً فرمایا : ’’علم ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امامِ صادق اورحضرت مسیح موعود علیہ السلا م کومخاطب کرکے فرمایا:’’ آسمان سے بہت دودھ اُترا ہےمحفوظ رکھو‘‘ وہ دودھ کیا ہے؟ کیاوہ دودھ تازہ ہے یا پرانا؟ کس قدرو مقدار سے وہ دودھ اُترا؟ اس کی تاثیر کیا ہے؟ اس کے اُترنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا تائید الٰہی سے اس کا نزول ہواہے؟ کیا نزول کے وقت وحی الٰہی کی بھی شمولیت رہی ؟ اس کا نزول کہاں ہوتا تھا؟ کیا اس کومحفوظ کرنے کا کوئی فائدہ بھی ہوگا؟ اس دودھ کو محفوظ نہ کرنے کا نقصان کیاہے؟
ان سوالات کے جوابات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یا آپؑ کے خلفائے کرام نے گاہے بگاہےاپنے خطابات و تحریرات میں دیے ہیں۔
وہ دودھ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م نے جہاں اس الہام کا ذکرکیاہے اُسی جگہ پراس کا مطلب بھی لکھ دیا ہے۔ چنانچہ آپؑ لکھتے ہیں:’’ یعنی معارف اور حقائق کا دودھ‘‘۔(حقیقۃ الوحی،روحانی جزائن جلد ۲۲،صفحہ ۱۰۵)یعنی آپؑ نے جوتحریرات لکھیں اور جو ارشادات بیان فرمائے وہ سب کے سب وہ معارف اور حقائق ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دودھ کا نام دیا۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’ایک پھل قوت ایمانی کا اسرار حقہ ومعارف دینیہ کا ذخیرہ ہے جو اس عاجز کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے عنایت ہوا ہے۔ پس جو شخص اس عاجز کی تالیفات پر نظر ڈالے گا یا اس عاجز کی صحبت میں رہے گا اس پر یہ حقیقت آپ ہی کھل جائے گی کہ کس قدر خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کودقائق و حقائق دینیہ سے حصہ دیا ہے۔‘‘( ازالہ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد۳صفحہ۱۵۹)ایک اور جگہ آپؑ فرماتے ہیں:’’میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقائق ومعارف چمک رہے ہیں۔ اٹھو اورتمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اورحقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے۔‘‘(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد۱۵صفحہ۳۶۷)
کیاوہ دودھ تازہ ہے یا پرانا؟ ایک خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا یہ معارف اور حقائق کا دودھ پرانا ہے۔ یعنی صرف پرانے قصّے اور کہانیاں ہی تو نہیں یاکیا اللہ تعالیٰ کی تائید و ں ونصرت سے تازہ بتازہ ہے اور تازگی دیتا ہے؟ اورکیاجو اس کو محفوظ کرتا ہے اس کے فائدہ کاموجب بھی ہے؟ ہاں لا ریب یہ تازہ ہے! جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں:’’وہ خدا جو بچے کے پیدا ہونے سے پہلے پستان میں دودھ ڈالتا ہے اس نے تمہارے لئے تمہارے ہی زمانہ میں تمہارے ہی ملکوں میں…ایک بھیجا ہے تا ماں کی طرح اپنی چھاتیوں سے تمہیں دودھ پلاوے۔ وہی تمہیں یقین کا دودھ پلائے گا جو سورج سے زیادہ سفید اور تمام شرابوں سے زیادہ سرور بخشتا ہے۔ پس اگر تم جیتے پیدا ہوئے ہو مردہ نہیں ہو تو آؤ اس پستان کی طرف دوڑو۔کہ تم اس سے تازہ دودھ پیو گے۔ اور وہ دودھ اپنے برتنوں سے پھینک دو کہ جو تازہ نہیں اور گندی ہواؤں نے اس کو متعفن کر دیا ہے اور اس میں کیڑے چل رہے ہیں جن کو تم دیکھ نہیں سکتے۔ وہ تمہیں روشن نہیں کر سکتا بلکہ اندر داخل ہوتے ہی طبیعت کو بگاڑ دے گا کیونکہ اب وہ دودھ نہیں ہے بلکہ ایک زہر ہے۔‘‘(گناہ سے نجات کیونکر مل سکتی ہے، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۶۴۸تا۶۴۹)
کس قدر و مقدار سے وہ دودھ اُتراہے؟ جس پاک ذات پر اس کا نزول ہوا ہےاس نے خود اس کاجواب عنایت کیا ہے اور فرمایا ہےکہ اس قدر اس کی مقدار زیادہ ہے کہ لوگ اس فضل خداوندی کو لیتے لیتے تھک جائیں گے۔ جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں:’’وہ خداجو رحمٰن ہے وہ اپنے خلیفہ سلطان کے لئے مندرجہ ذیل حکم صادر کرتا ہے کہ اس کو ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن علوم ومعارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی۔ یہ خدائے تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔اس جگہ بادشاہت سے مراددنیاکی بادشاہت نہیں اورنہ خلافت سے مراد دنیاکی خلافت بلکہ جو مجھے دیا گیا ہے وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اورمعارف الٰہی کے خزانے ہیں جن کو بفضلہ تعالیٰ اس قدر دوں گاکہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۵۶۶)
ایک اور جگہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:’’ یہ تو معلوم ہے کہ محمدی برکتیں معارف اور اسرار اور نکات اورکَلم جامعہ اور بلاغت اور فصاحت ہے۔ سو میری کتابوں میں اُن برکات کا نمونہ بہت کچھ موجود ہے۔ براہین احمدیہ سے لے کر آج تک جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دینی خدا تعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی اُستاد کے جاری کئے ہیں… اُس کی نظیر اگر موجود ہے تو کوئی صاحب پیش کریں۔ مگر انصاف کی پابندی کے لئے بہتر ہو گا کہ اوّل تمام میری کتابیں براہین احمدیہ سے لے کر فریاد درد یعنی کتاب البلاغ تک دیکھ لیں اور جو کچھ اُن میں معارف اور بلاغت کا نمونہ پیش کیا گیا ہے اس کو ذہن میں رکھ لیں اور پھر دوسرے لوگوں کی کتابوں کو تلاش کریں اور مجھ کو دکھلاویں کہ یہ تمام امور دوسرے لوگوں کی کتابوں میں کہاں اور کس جگہ ہیں۔‘‘(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ ۴۰۶)
اس کی تاثیر کیا ہے؟ ایک سوچنے والے کا خیال اس طرف جاتاہے کہ اِس الٰہی انعام کی تاثیر کیا ہے؟ اور کس قدر یہ مائدہ اپنے اندر تاثیر رکھے ہوئے ہے؟ اور تاثیر کی قدر و منزلت کیا ہے؟ اس کی قدر و قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ جس کےمقابلہ میں بڑے بڑے علماء وفضلاء بھی نہ ٹھہر سکے۔ اوران خزائن کے اند ر اس قدر طاقت ہے کہ عالم واُستاد طالبِ علمانہ کی طرح بن گے۔ ’’حضرت مستری قطب الدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے احمدیت میں داخل ہونے کا اصل باعث کتاب ’’آسمانی فیصلہ‘‘ اور ’’ازالہ اوہام‘‘تھی۔ میں جب آپؑ کی کتابوں کو پڑھ رہا تھاتو سب سے پہلے مَیں نے بڑے زور سے اپنے استاد کو تبلیغ شروع کی۔ مَیں حضورؑ کے ہی دلائل پیش کرتا تھا جو وہ توڑ نہ سکے اور کہنے لگے کہ ہم اصحاب ظواہر ہیں۔ پھر میں نے اُن کوقرآن کریم کی آیات اور احادیث پیش کیں اور کہا کہ ان کے ظاہری معنی کر کے بتائیں وہ ان کے معنی بھی نہ کر سکے۔ آخر انہوں نے کہا کہ میں تمہارے دلائل کو توڑ نہیں سکتا مگر مَیں مانتا بھی نہیں۔ میرے استاد قرآن کریم کے حافظ صحاح ستہ کے ماہر اور تمام علوم عربیہ سے واقف تھے۔ یہ قوّت میں نے حضورؑ کی کتابوں اور حضورؑ کے دلائل میں دیکھی کہ کوئی سامنے نہ آتا تھا اور علماء بھی دبتے تھے۔‘‘( مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل ۱۹ ؍مارچ ۲۰۲۱ء) یہ معارف وحقائق بہت سی تاثیرات کاخزانہ اپنے اندر رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک یہ ہےکہ یہ دل کی گہرائی میں اُتر جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت میا ں محمدالدین صاحبؓ آف کھاریاں لکھتے ہیں کہ ’’میں نے ’’براہین احمدیہ‘‘پڑھنی شروع کی۔ براہین احمدیہ کیا تھی؟ آبِ حیات کا بحر ذخّار تھا… براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے جب ہستی باری تعالیٰ کے اثبات کو پڑھتا ہواصفحہ90کے حاشیہ4پر اور صفحہ129 کے حاشیہ11پر پہنچا تو معاًمیری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ ایسی کھلی جس طرح کوئی سویا ہُوایا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہوجاتاہے۔ سردی کا موسم، جنوری 1897ء کی 19؍تاریخ تھی۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ جب میں ’’ہونا چاہیے‘‘اور ’’ہے‘‘کے مقام پر پہنچا۔ پڑھتے ہی میں نے فوراً توبہ کی ‘‘۔(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍مارچ ۲۰۲۱ء)
اس کے اُترنے کا مقصد کیا ہے؟ ہر چیز کی غرض و غایت ہوتی ہے۔ اور یہ خزانہ آب بھی اپنے اندر کئی اغراض رکھتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں۔ میں کب اس میدان کے قابل ہو سکتا تھا۔یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایت ہے۔ کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزت ظاہر ہو…اور درحقیقت یہ خداتعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نابینا معترض آکر اٹکا ہے۔ وہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے۔اور خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں ان خزائن مدفُونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جوان درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے۔ اس سے اُن کو پاک صاف کروں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 56،60ایڈیشن1984ء)
کیا تائید الٰہی سے اس کا نزول ہواہے؟ اس مقدس دودھ کا نزول یقیناًتائید الٰہی سےہی ہوا ہے۔ اگر تائید الٰہی شامل حال نہ ہوتی تو یہ کبھی ممکن نہ ہوسکتا۔ جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں پر امر تائیدحق اور اشاعت اسلام کو منقسم کردیا۔ چنانچہ منجملہ ان شاخوں کے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے۔جس کا اہتمام اس عاجز کے سپرد کیا گیا ہے۔اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خداتعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہوسکتے ہیں اور انسانی تکلف سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کردیے گئے۔‘‘(فتح اسلام ،روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 12،11) پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب میں کسی کتاب کا مضمون لکھنے بیٹھتا ہو ں اور قلم اٹھاتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی اندر سے بول رہا ہے اور میں لکھتا جا تا ہوں۔اصل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سلسلہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھا بھی نہیں سکتے۔خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آجاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم،ایڈیشن 1988ء،صفحہ 270) ایک اور جگہ حضور اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خداتعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔ بارہالکھتے لکھتے دیکھا ہے ایک خداکی روح ہے جو تیررہی ہے۔ قلم تھک جایاکرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا۔طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم،صفحہ 482تا483،ایڈیشن 1988ء)
کیا نزول کے وقت وحی الٰہی کی بھی شمولیت رہی ؟ لاریب ایسا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں۔ تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے… عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا اُن کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرف سے۔ اور بعض اوقات کچھ مدت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلو القا ہوا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے۔ اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے۔ یہ تو زبان عربی کے متعلق بیان ہے۔ مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے اُن زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں کچھ نمونہ اُن کا لکھا گیا ہے اور مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اﷲ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القا ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے۔‘‘ (نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18، صفحہ 434تا 435)
اس کا نزول کہاں ہوتا تھا؟ ایک سوچ بچار کرنے والاجب اس کلام کو پڑھتا ہے تو اس خیال میں ڈوب جاتاہے کہ اس کا نزول کہاں ہوتا ہوگا؟ اس کا جواب’’دل‘‘ اور’’سینہ‘‘ ہے۔یعنی ایک پاک و مطہر ہستی کے پاک وصاف دل پر۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خو د تحریر فرماتے ہیں:’’تائیدات الٰہیہ ایک تو بین اور ظاہر طور پر ظہور پذیر ہوتی ہیں اور عام لوگ ان کو دیکھ سکتے ہیں،مگر بعض مخفی تائیدات ایسی ہوتیں ہیں جن کے لئے میری سمجھ میں کوئی قاعدہ نہیں آتا کہ عوام الناس کو کیوں کر دکھا سکوں۔مثلاً یہی عربی تصنیف ہے۔میں خوب جانتا ہوں کہ عربی ادب میں کہاں تک دسترس ہے،لیکن جب میں تصنیف کا سلسلہ شروع کرتا ہوں،تو یکے بعد دیگرے اپنے اپنے محل اور موقع پر موزون طور پر آنے والے الفاظ القاء ہوتے جاتے ہیں۔اب کوئی بتلائے کہ ہم کیوں کر اس تائید الٰہی کو دکھلا سکیں کہ خدا کیونکر سینہ پر الفاظ نازل کرتا ہے۔اور دیکھو اس ایام الصلح میں اکثر مضامین ایسے ہیں جن کا میری پہلی تصانیف میں نام تک نہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس سے پہلے وہ کبھی ذہن میں نہ گزرے تھے،لیکن اب وہ ایک ایسے طور پر آکر قلب پر نازل ہوئے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آسکتا،جب تک خود تائید الٰہی شامل حال ہو کر اس کو اس قابل نہ بنا دیوے اور یہ خد اتعالیٰ کا فضل ہے جو وہ ایسے بندوں پر کرتا ہے جن سے کوئی کام لینا ہوتا ہے۔‘‘( ملفوظات جلداوّ ل،ایڈیشن 1988ء، صفحہ176)
کیا اس کومحفوظ کرنے کا کوئی فائدہ بھی ہوگا؟ کسی بھی چیز کامحافظ اُس چیز کی حفاظت کرتا ہے جو اُ س کے فائد ہ کے لیے ہو اور بوقت ضرورت اُس کے کام آئے۔ جب الٰہی حکم یہ ہے’’محفوظ رکھو‘‘! تو سوچ جاتی ہے اس طرف کہ، اس کا میری ذات کو کیا فائدہ ہوگا جو میں اس کو محفوظ رکھوں؟ ہاں ! تو اس کے محفوظ کرنے کےبہت سے فوائد ہیں۔ایک یہ ہے کہ اس سےروحانی زندگی ملتی ہے۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خو د تحریر فرماتے ہیں:’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے،مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پیئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔وہ زندگی بخش باتیں جومیں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے۔اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے، تو سمجھو کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔ لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کے لئے آبِ حیات کا حکم رکھتی ہے، دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی، توتمہارے پاس اس جُرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اُس کے سرچشمہ سے انکار کیا، جو آسمان پر کھولا گیا، زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل،روحانی خزائن جلد3صفحہ104) ایک فائدہ یہ بھی ہے اس خزانہ کا محافظ شیطان کےحملوں سے بچ کر دُنیا کا اُستاد بن سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر بیان فرمایا:’’آج آپ کو میری نصیحت یہی ہے اور یہ بڑی بنیادی اور اہم نصیحت ہے اور میں اسے باربار دہرانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنے کی عادت ڈالیں اس کے نتیجہ میں آپ شیطان کے بیسیوں حملوں سے محفوظ ہوجائیں گے،اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں آپ کی عزت ہوگی اور آپ کی زندگی کے کاموں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا اور جب وہ وقت آئے گا کہ دنیا پکارے گی ہمیں استاد چاہئیں، ہمیں سکھانے والے چاہئیں، تو آپ میں سے ہر ایک اس قابل ہوگا کہ وہ استاد بن سکے۔‘‘(مشعل راہ جلد2،صفحہ45-46) ایک اور بڑا فائدہ یہ ہےکہ اس کومحفوظ کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جیساکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے…حضرت صاحب کی کتابیں بھی خاص فیضان رکھتی ہیں۔ ان کا پڑھنا بھی ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘ (ملائکۃ اللہ، انوار العلوم جلد 5صفحہ 560)
یہ ایسامعرفت کا دودھ ہے جو کہ اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے اور اس کامطالعہ کرنے والے پر اللہ تعالیٰ راہ راست کھول دیتا ہے۔ جیسا کہ ایک خاتون کا واقعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا: ’’فلسطین کی ہماری ایک خاتون ہیں، وہ کہتی ہیں کہ مروجہ طرزِ فکر کے زیرِ اثر میرے بیٹے کا پکا ا ایمان تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر موجود ہیں اور آخری زمانے میں آسمان سے نازل ہوں گے اور اُمت کو دیگر اقوام کی غلامی سے تلوار کے زور پر آزاد کروائیں گے۔ نیز تلوار کے زور سے ہی جبراً لوگوں کو اسلام میں داخل کریں گے۔ لہٰذا مجھے بڑی شدت کے ساتھ اس دن کا انتظار تھا۔ پھر جماعت سے میرا تعارف ہوااور یہ تعارف میرے دیور کے ذریعہ ہوا جو نہ صرف جماعت کے بارے میں میرے ساتھ اکثر بات چیت کرتے تھے، بلکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب اور لٹریچر بھی بھیجتے رہتے تھے۔ اُن کتب میں مجھے بے مثل اور انمول موتی ملے۔ ایسے معارف کا مطالعہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ ایسی بلاغت اور اعجاز سے بھرپور عربی کلام جس میں علم و معرفت کے ہیرے رکھ دئیے گئے ہوں، میرے لئے بالکل نیا تھا۔ ایسے جواہر پاروں کے مطالعہ سے ہی قاری کا خدا سے تعلق قائم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور مکمل اطمینان ہونے کے بعد میں نے بیعت کر لی۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍ فروری ۲۰۱۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍مارچ ۲۰۱۴صفحہ۷)اسی خطبہ جمعہ میں الجزائر سے حجاز صاحب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:’’( وہ) کہتے ہیں کہ مسخ شدہ اسلامی تعلیم اور قرآنِ کریم کی غلط تفاسیر سے بالکل مایوس ہو چکا تھا۔ علماء کی تشریحات سن کر سوچتا تھا کہ کیا یہ خدا کا کلام ہو سکتا ہے؟ یہاں تک کہ اردن کے احمدی دوست کے ذریعہ احمدیت اور بانی سلسلہ کی تحریرات سے آگاہی ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پڑھنے سے قبل نوافل پڑھ کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ راہِ راست کی طرف رہنمائی فرمائے۔ جیسے جیسے پڑھتا گیا،سینہ کھلتا گیا،اور اس کلام کی ہیبت سے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں بلکہ یہ الٰہی وحی ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍ فروری 2014ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍مارچ2014،صفحہ7)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاسی خطبہ جمعہ میں مراکش کے خالد صاحب کا ذکرکرتےفرمایا:’’وہ کہتے ہیں۔ احمدیت سے تعارف کے بعد مجھے اس بات سے کسی قدر حیرت بھی ہوئی کہ امام مہدی آ کر چلا بھی گیا اور ہم اب اُن کے بارے میں سن رہے ہیں۔ سوچ سوچ کر میں نے خدا تعالیٰ سے رہنمائی کی دعا کی اور جماعت کی عربی ویب سائٹ پر موجود کتب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ سب سے پہلی کتاب جو میں نے پڑھی وہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ تھا۔جسے مَیں نے کئی مرتبہ پڑھا۔ اس کتاب میں عدل و احسان اور ایتاء ذی القربی کا مضمون پڑھ کر میری روح بھی وجد کرنے لگی۔ اس کے بعد میں نے ’’التبلیغ‘‘پڑھی اور دیگر کتب کا مطالعہ کیا۔ ان کتب نے روحانی دقائق اور دینی معارف کے ایسے دریا بہائے کہ اکثر میری زبان پر یہ فقرہ آتا تھا کہ مجھے خزانہ مل گیا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍ فروری 2014ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍مارچ2014،صفحہ7)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے:
تیری تعلیم میں کیا جادو بھرا ہے مرزا
جس سے حیوان بھی انسان ہوئے جاتے ہیں
سینکڑوں عیب نظر آتے تھے جن کو اس میں
وہ بھی اب عاشقِ قرآن ہوئے جاتے ہیں
گورے کالے کی اٹھی جاتی ہے دنیا سے تمیز
سب ترے تابع فرمان ہوئے جاتے ہیں
اس دودھ کو محفوظ نہ کرنے کا نقصان کیاہے؟ ایک انسان ہمیشہ کوئی کام کرنے سے پہلے جہاں فائدے کا سوچتا ہے۔وہاں اس کا دماغ اس طرف بھی ضرور جاتاہےکہ اگر میں اس کو نہ کروں تو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
’’بدقسمت اور اپنی جان پر ظلم کرنے والا تو وہ ہے۔جس نے اس سلسلے کو شناخت کیا اور اس میں شامل ہونے کی فکر کی۔ لیکن اس نے کچھ قدر نہ کی۔ وہ لوگ جو یہاں آ کر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور ان باتوں سے جو خداتعالیٰ ہر روز اپنے سلسلے کی تائید میں ظاہر کرتا ہے،نہیں سنتے اور دیکھتے،وہ اپنی جگہ پر کیسے ہی متقی اور پرہیز گار ہوں۔ مگرمَیں یہی کہوں گا کہ جیساچاہئے انہوں نے قدر نہیں کی۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تکمیل علمی کے بعد تکمیل عملی کی ضرورت ہے۔ پس تکمیل عملی بدوں تکمیل علمی کے محال ہے۔ اور جب تک یہاں آ کر نہیں رہتے تکمیل علمی مشکل ہے۔ بارہا خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہ دے سکے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟یہی کہ وہ لوگ یہاں نہیں آتے اور ان باتوں کو نہیں سنتے جوخدا تعالیٰ اپنے سلسلے کی تائید میں علمی طور پر ظاہر کر رہا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 124،125 ایڈیشن1988ء)
اللہ تعالیٰ سےدعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس روحانی دودھ سے کماحقہٗ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین