میرے خسر نذیر احمد خادم صاحب مرحوم (سابق معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ)
آج مجھے اپنے جس پیارے عزیز کا ذکر خیر کرنا ہے اورجن کے لیے پہلی دفعہ کسی بھی جماعتی اخبار و رسائل میں اپنی تحریر بھیج رہا ہوں وہ میرے خسر بزرگوار محترم نذیر احمد خادم صاحب سابق معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ہیں۔ آپ6؍ فروری2021ء بروزہفتہ معمولی سی علالت کے بعد طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں 76 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔ آپ موصی تھے اُسی روز آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل قطعہ نمبر 4 میں ہوئی۔آپ کی وفات حسرت آیات کو ایک سال سے اوپر کاعرصہ گذر چکا ہے مگر ابھی بھی یوں لگتا ہے کہ ابھی فون کی گھنٹی بجے گی اور آپ ہم سب کی خیریت پوچھیں گے اور خاص طور پر جمعہ کی رات کو کہ بیٹے کیا آپ سب نے پیارے آقا کا خطبہ جمعہ سنا ہے ؟ آپ کی خلیفۂ وقت سے بے پناہ محبت اور اخلاص و وفا کے تعلق، نظام جماعت کی اطاعت و احترام اور دیوانہ وار خدمت دین نے مجھے قلم کو جنبش دینے پر مجبور کیا۔آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک، صالح، صوم و صلوٰۃکے پابند، تہجد گذار، ہمدردو خیرخواہ،خلیق و ملنسار،اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل توکل کرنے والے، اور قرآن کریم سے والہانہ عشق کرنے والے اور عالم باعمل انسان تھے۔آپ کو اوائل عمر سے لے کر وفات تک مختلف جماعتی ذمہ داریوں پر کام کرنے کی توفیق ملی آپ نے ان تمام ذمہ داریوں کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ’’اور تم اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو۔ ‘‘(سورۃ النحل 92) کماحقہ نبھایا۔ گو کہ آپ واقف زندگی نہیں تھے مگر آپ نے پوری زندگی ایک واقف زندگی کی طرح گزاری۔ قلم سے تو آپ کا خاص ہی رشتہ تھا۔ آپ کی جنبش قلم سے سینکڑوں علمی و ادبی مضامین نکلے جو مختلف جماعتی اخبارات و رسائل کی زینت بننے کے ساتھ ساتھ افراد جماعت کے ازدیاد علم و ایمان کا باعث بھی بنتے رہے۔اسی لیے بہت سے افراد جماعت آپ کو آپ کی تحریروں کی وجہ سے جانتے تھے۔ احمدیہ گزٹ کینیڈامیں بھی آپ کے مضامین شائع ہوئے۔ آپ کی ایک کتاب ’’نورفرقاں‘‘کے نام سے شائع ہوئی۔ میں جب سات، آٹھ سال کا تھا تب سے آپ کو جانتا ہوں۔آپ اس وقت قائد ضلع بہاولنگر تھے اور ہمارے گاؤں 166مراد آیا کرتے تھے۔ آپ کی دامادی کا شرف تو خاکسار کو بہت بعد میں جاکر ہوا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے تقریر اور تحریر میں خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔آپ جب تقریر کرتے تو تمام مردو زن آپ کی تقاریر بڑے انہماک اور توجہ سے سنتے تھے۔ ہمارا گاؤں 166مراد سارے کا سارا احمدی گھرانوں پر مشتمل ہےاور سب ایک دوسرے کے رشتے دار ہیں۔ یہاں پر ایک بڑی خوبصورت وسیع و عریض مسجد ہے۔جب بھی پتا چلتا کہ خادم صاحب آئے ہوئے ہیں جلسہ جات ہوتے یاجمعہ کا دن ہوتا سب کشاں کشاں مسجد کی طرف چل پڑتے یہاں تک کہ ہماری مائیں اور بہنیں بھی سننے کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہوتیں۔اور پھر گھر آکر آپ کی تقریر میں سے اہم نکات پر باتیں کرتیں اور بچوں کو سمجھاتیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہم ٹوپی پہنے بغیر ہی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے۔ پہلی دفعہ جب آپ ہمارے گاؤں آئے تو ہمارے چچا رانا نصرت ناصر صاحب ( مرحوم) جو اس وقت صدر جماعت تھے ان سے کہنے لگے کہ تمام اطفال اور خدام کے لیے ٹوپیاں خریدیں پھر آپ جب بھی آتے اس بات کی نگرانی کرتے کہ ہم جماعتی پروگرامز اور نمازوں کے دوران ٹوپیاں پہنتے ہیں۔ مجھے ابھی تک یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ جب خادم صاحب نے ہمیں پہلی دفعہ ٹوپیاں پہنائیں ہم سب بچے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور خوب ہنستے۔ کیونکہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنا ہمارے لیے بالکل نئی چیز تھی۔آپ کا ہم سب پر بہت بڑا احسان ہے جس کا صرف میں ہی معترف نہیں بلکہ گاؤں کے تمام افراد جماعت احسان مند ہیں کہ خادم صاحب نے ہم سب کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا نہ صرف ہمارے گاؤں میں تربیتی اجلاسات اور کلاسز کے انعقاد کے ذریعے بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے بابرکت دور خلافت کے ان سالوں میں جب ابھی مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کا آغاز نہیں ہوا تھا آپ ضلع بہاولنگر کی ہر چھوٹی بڑی مجلس میں حضور رحمہ اللہ کے خطبہ جمعہ کی کیسٹس پہنچاتے اور اس بات کی نگرانی کرتے کہ تمام افراد جماعت حضور کا خطبہ سنیں تاکہ ان کو خلافت سے دوری کا احساس نہ ہواور سب خلافت سے جڑے رہیں۔آپ نے تعلیمی، تربیتی کلاسز کے ساتھ ساتھ اطفال الاحمدیہ کے اجتماعات منعقد کرا کر ہمارے ننھے منے دلوں میں چھوٹی عمر سے ہی حضرت مسیح موعودؑ،خلافت سے محبت اور گہری وابستگی، خلیفۂ وقت کا ادب و احترام اور نظام جماعت کے بارے میں عشق و وفا کے بیج بو دیے تھے۔جس کے لیے نہ صرف ہم بچے( جو اب بڑے ہو چکے ہیں )بلکہ ہمارے والدین بھی خادم صاحب کے احسان مند اور اللہ تعالیٰ کے شکر گذار ہیں۔ آپ کی وفات کی اچانک خبر سن کر شاید ہی ہمارے گاؤں کا کوئی فرد ہو گا جس نے خادم صاحب کے بچوں سے دلی تعزیت نہ کی ہوگی اور آپ کے احسانوں کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے لیے دعا نہ کی ہو گی۔آپ ہی کی کوششوں اور کاوشوں سے ہمارے گاؤں میں ربوہ سے بڑے بڑے بزرگانِ سلسلہ کے علاوہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی بزرگ ہستیاں تشریف لائیں۔ہم سب افراد جماعت آپ کو خادم صاحب ہی کہا کرتےتھے یہی وجہ ہے کہ آپ کا داماد بننے کے باوجود بھی منہ سے بے اختیار خادم صاحب ہی نکلتا تھا۔ آپ ہمارے گاؤں کو اپنا دوسرا گھر کہتے تھے۔ پھر یہیں پر آپ کی دونوں بیٹیاں بھی بیاہی گئیں۔ بڑی بیٹی کی شادی خاکسار کے ساتھ اور چھوٹی بیٹی میرے بھائی عزیزم ناصر محمود کی زوجیت میں آئیں۔ اس نئے رشتے کو بھی آپ نے خوب نبھایا۔ہم دونوں بھائیوں کا اتنا احترام کرتے اور اتنی شفقت سے پیش آتے کہ ہمیں حیا آتی۔ اگر میں یہ کہوں کہ بالکل اپنے حقیقی بیٹوں کا سا پیار آپ نے ہمیں دیا تو اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں۔ہمارے والدین، بھائی بہنوں اور ان کے بچوں تک کے ساتھ آپ کا اخلاص کا تعلق تھا۔ہمارے خاندان میں کوئی ذرا سا بھی بیمار ہوتا تو جھٹ دوائی لےکر ہمارے گاؤں پہنچ جاتے۔ہمارے عائلی معاملات میں آپ نے کبھی بھی مداخلت نہیں کی بلکہ جب بھی اپنی بیٹیوں سے فون پر بات کرتے سب سے پہلے ہم دونوں بھائیوں کی خیریت دریافت کرتے۔ ہماری اس پچیس سالہ شادی شدہ زندگی میں مجھے ایک بھی موقعہ ایسا یاد نہیں جب میری بیوی اپنے والدین سے بات کر رہی ہو اور انہوں نے یہ پوچھا ہو کہ تمہارے میاں کا تمہارے ساتھ سلوک کیسا ہے؟ بلکہ ہمیشہ دونوں بیٹیوں کو یہی کہتے کہ اپنے میاں کا خیال رکھا کرو، ان کی عزت کیا کرو اور گھر کی فضا اور ماحول کو خوشگوار رکھا کرو۔
اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے کہ صحبت صالحین اختیار کرو۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے سسر کی صورت میں ایک صالح دوست عطا فرمایا۔ یہ آپ کی خلافت سے والہانہ محبت ہی تھی کہ آپ کی باتوں اور نصائح کے بعد خاکسار نے باقاعدگی سے حضور انور کی خدمت اقدس میں خطوط لکھنے شروع کیے، قرآن کریم کو تین دفعہ ترجمہ کے ساتھ مکمل کیا، حضرت مسیح موعود ؑ کی ساری کتب کو ایک دفعہ اور بعض کو بارہا پڑھنے کی توفیق ملی۔ خادم صاحب کے سارے بچے خطبہ جمعہ بہت انہماک سے اور براہ راست سنتے ہیں اور یہ والدین کی تربیت ہی کا نتیجہ ہے میں نے بھی شادی کے بعد اسی قدر ذوق و شوق سے خطبہ سننا شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ میرے اس محسن پر بےشمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ مجھے اور ان کی اولاد کو ان کی خوبیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
خادم صاحب کے دادا چودھری شاہ دین صاحب چٹھہ نے اس خاندان میں احمدیت کا جو چراغ جلایا تھا جس کی لَو کو آپ کے بیٹے چودھری احمد دین صاحب چٹھہ نے اپنی زندگی میں بڑھائے رکھا اورپھر میرے خسر محترم نذیر احمد خادم صاحب نے اپنی زندگی کے آخری سانس تک خلافت احمدیہ سے عشق و وفا کرتے ہوئےاسے خوب بڑھاوا دیا اور اپنے بچوں کے دلوں میں بھی خلافت سے عشق و وفا کے بیج بوئے بلکہ کئی سعید روحیں آپ کی تبلیغ سے احمدیت کی آغوش میں آئیں۔ آپ نے پسماندگان میں اپنی اہلیہ ناصرہ صدیقہ صاحبہ کے علاوہ چار بیٹے مکرم ظہیر احمد طاہر صاحب، نائب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی، مکرم نصیر احمد شاہد صاحب مقیم جرمنی،مکرم تنویر احمد ناصر صاحب مقیم جرمنی، عزیزم ناصر احمد ندیم چٹھہ ربوہ، دو بیٹیاں خاکسار کی اہلیہ بشریٰ نذیر آفتاب، ریجنل صدر سسکاٹون اور عزیزہ صادقہ منورہ اہلیہ ناصر محمود بھٹی، زعیم انصاراللہ سسکاٹون ساؤتھ،سیکرٹری وصایا امارت سسکاٹون یاد گار چھوڑے ہیں۔آپ کا ایک نواسہ عزیزم ماہد شریف ناصرمتعلم جامعہ احمدیہ کینیڈا ہے۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت و محبت5؍مارچ 2021 ءکے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے فرمایا:’’نذیر خادم صاحب نے کالج کے زمانہ سے ہی خدمتِ دین کا آغاز کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریر و تقریر میں خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ جوانی سے لے کر زندگی کے آخری وقت تک تقریر و تحریر اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ خدمت دین اور تبلیغ دین میں لگے رہے۔ خدام الاحمدیہ ربوہ میں معاون صدر رہے۔ پھر معتمد کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ پھر نائب امیر ضلع بہاولنگر بھی رہے۔ نائب قائد عمومی مجلس انصار اللہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ دار القضاء ربوہ کے قاضی بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائےاور ان کے لواحقین کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی، ان کے بچوں کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘( الفضل انٹرنیشنل 19تا 29 ؍مارچ 2021 ءصفحہ 15)