چودھری محمد علی صاحب (نمبر18)
(گذشتہ سے پیوستہ)آدھی رات کا وقت ہوگا جب میردائود احمد لالٹین ہاتھ میں لیے ہمارے پاس آپہنچے۔ ان کے ساتھ ایک دو آدمی اور بھی تھے۔ وہ ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ ہمیں تو اس عرصے میں چودھری عبدالواحدکے خیمہ میں جگہ مل چکی تھی لہٰذا ہم مطمئن بیٹھے تھے۔ میر دائود احمد مجھے میاں صاحب کا یہ پیغام پہنچانے کے لیے آئے تھے کہ انہوں نے ہمارا خیمہ خالی کروالیا ہے اور ہم وہاں جا سکتے ہیں۔
آپ کو علم ہے کہ جب جلسہ سالانہ ختم ہوتا تو انتظامات کی خامیوں اور خوبیوں کے جائزہ کے لیے ایک میٹنگ ہوا کرتی تھی۔ غالباً ربوہ کے دوسرے جلسہ سالانہ کی بات ہے۔ ایسی ہی میٹنگ ہو رہی تھی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانؓی اس کی صدارت فرما رہے تھے۔ ہمارے خدام نے اس جلسہ کے لیے بہت کام کیا تھا۔ وہ خفیہ طور پر چنیوٹ، فیصل آباد اور سرگودھا تک پھیل گئے تھے۔ دشمن کا پروگرام تھا کہ جلسہ کے خیموں کو آگ لگائی جائے لیکن لڑکوں کو اس سازش کا کسی طرح پتا چل گیا چنانچہ وہ لوگ پکڑے گئے۔
حضور نے خدام کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے فرمایا آئندہ کوئی مخالف اس طرح کے اقدام کی کیا یہاں آنے کی بھی جرأت نہ کر سکے گا۔ اس پر حضرت مرزا عزیز احمد نے بڑے ادب سے گرہ لگائی کہ آئندہ شریر مخالفین کے ساتھ ساتھ شریف احمدی بھی یہاں آنے سے اجتناب کریں گے۔ حضور نے دریافت فرمایا وہ کیوں؟ آپ نے اپنی مثال دی اور بتایا کہ کسی طرح خدمتِ خلق کے رضاکار انہیں مشکوک جان کر تین دن تک ان کی نگرانی کرتے رہے۔آپ کا مطلب یہ تھاکہ اگر احمدیوں کو بھی بلاوجہ مشکوک سمجھا جانے لگے گا تو ہو سکتا ہے ان میں سے بھی کچھ یہاں آنے سے گریز کرنے لگیں۔
میں چونکہ انچارج خدمت خلق تھا لہٰذا جلسہ کے دنوں میں روزانہ شام کو ایک رپورٹ بنا کر بھیجا کرتا تھا۔ ایک روز میں نے اس کے ساتھ ایک رپورٹ حمید ڈاڈھاوغیرہ کی بھی لکھ بھیجی۔ دراصل انہوں نے ایک ایسی بات کی تھی جو بظاہر تو معمولی نظر آتی تھی لیکن تھی بہت اہم چنانچہ میں نے اس سے مرکز کو باخبر کرنا ضروری سمجھا۔ ہوا یوں کہ میں بازار میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرا ایک دوست، صوفی رفیق آگیا۔ اس نے مجھے اٹھایا اور اپنے ہمراہ ایک جگہ لے گیا جہاں حمید ڈاڈھا اور غلام رسول پینتیس پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگےآئو چودھری صاحب! کباب کھائو! کباب آگئے۔ اب دیکھئے اس قسم کے لوگوں کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے۔ بات کرتے کرتے کہنے لگے لو جی اپنی تصویر چھپوالی ہے لیکن حضرت خلیفہ اول کی تصویر غائب کردی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ایک رسالہ تھاجس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تصویر تو موجود تھی لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی تصویر نہیں تھی۔ میں نے یہ بات سنی تو مجھے شدید غصہ آیا اور میں نے کہامیں یہ کیا سن رہا ہوں؟ میں نے کہا کہ اس رسالہ کے ایڈیٹر حضورخود تو نہیں ہیں کہ انہوں نے اپنی تصویر شائع کردی ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی تصویر غائب کر دی ہے یا کیا حضور نے ایڈیٹر کو اس بات کے لیے مجبور کیا ہے؟ میںنے کباب والی پلیٹ ان کے منہ پر دے ماری اور وہاں سے اٹھ کر آگیا۔ دراصل یہ ان کی طرف سے ایک فِیلر تھا اور اگر میں اس وقت ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتا تو نہ جانے اور کتنی باتیں ہوتیں۔ ہم لوگ بکثرت اکٹھے بیٹھا کرتے تھے لیکن مجھے کیا علم تھا کہ اندر ہی اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ جب یہ فتنہ کھل کر سامنے آیا تو مجھے میاں صاحب نے کہا کہ تیار ہوجائو حضور تمہیں بلانے والے ہیں۔ میں نے پوچھا وہ کیوں؟ کہنے لگے گواہی لینی ہے۔ میں نے سوال کیاکیسی گواہی؟ فرمانے لگے تم نے رپورٹ بھیجی تھی ناں جلسہ کے موقع پر۔ وہ ریکارڈ پرہے۔ گواہی اسی حوالے سے ہوگی۔
میں سمجھتا ہوں نوجوان امامِ وقت کی آنکھیں اور ہاتھ اور پائوں ہوتے ہیں اور انہیں نظام کے ساتھ پوری طرح تعاون کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو اسے اوپر پہنچانے کے جائز طریقے موجود ہیں۔ وہ استعمال کرنے چاہئیں۔مجلسوں میں غیرذمہ دارانہ گفتگو جماعتی نظام میں دراڑیں ڈالنے کے مترادف ہے۔
زمانۂ لاہور ہی میں میرا تعارف شیخ محمد تیمور سے ہوا جو ایک معروف آدمی تھے اور قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصہ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے تھے تاہم اسے میری کم علمی سمجھ لیجئے کہ میں ان کے نام سے متعارف تھا نہ مجھے یہ علم تھا کہ وہ کسی مرحلہ پر احمدیت سے منسلک رہے ہیں حالانکہ ایک زمانے میں وہ جماعت میں بہت اہم آدمی تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اپنی وصیت لکھ کر ان ہی کے حوالے کی تھی جو ایک روایت کے مطابق انہوں نے آپ کی زندگی میں ہی کھول کر پڑھ لی تھی۔ ہاں! جب میں ان سے ملا تو وہ بطور احمدی نہیں پہچانے جاتے تھے۔
میرا ان سے تعارف فلاسوفیکل کانگریس کے ایک سمپوزیم میں ہوا جس میں انہوںنے اخلاقیات پر ایک اجلاس کی صدارت کی تھی۔ اس سمپوزیم میں پروفیسر تاج محمد خیال وائس چانسلر، پنجاب یونیورسٹی نے بھی خطاب کرنا تھا لیکن انہوں نے کسی وجہ سے عین وقت پر حاضر ہونے سے معذرت کرلی۔ قاضی محمد اسلم جو کانگریس کے سیکرٹری تھے پریشان تھے کہ ان کی جگہ کس کو بلایا جائے۔ میں نے کہا اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں خود کوشش کرکے دیکھوں۔ آپ نے فرمایادیکھ لو۔ سمپوزیم کا موضوع تھا بنیادی انسانی حقوق۔مجھے فوری طور پر کچھ نہ سوجھا چنانچہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی کتاب ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کھول کر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور اپنی تقریر کے لیے ضروری مواد حاصل کرلیا۔ میری تقریر کے بعد سوال و جواب میں میرے خیالات جو دراصل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ہی کے خیالات تھے کو بے حد سراہا گیا اور پریس میں بھی اس کا خوب چرچاہوا۔
سمپوزیم کے بعد حضور سے ملاقات ہوئی اور ان باتوں کا ذکر ہوا تو آپ بے حد خوش ہوئے۔ اسی دوران شیخ تیمور کا ذکربھی آگیا۔ آپ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ اُس وقت حضور کیا سوچ رہے تھے۔ ممکن ہے آپ کو وہ زمانہ یاد آگیا ہو جب شیخ تیمورقادیان میں مقیم تھے یا بعد کی باتیں جب وہ قادیان سے لاتعلقی اختیار کر کے غیرمبائعین میں شامل ہوگئے تھے۔ آپ نے اپنے منہ سے کچھ فرمایا تو نہیں لیکن معلوم نہیں کیوں میں نے محسوس کیا کہ حضور کے دل میں شیخ تیمور سے ملاقات کی خواہش ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر شیخ تیمور ابھی یہیں کہیں ہوں اور وہ رضامند بھی ہوجائیں تو ان کی ملاقات حضور سے کرادی جائے چنانچہ میں بھاگ کر وہاں پہنچا لیکن افسوس وہ اس وقت تک جا چکے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ شیخ تیمور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے معتمدِخاص تھے، وہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ دونوں ان کے شاگرد رہے تھے، سنا ہے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی کئی پیشگوئیوں پر بھی کچھ کام کیا یا کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور وہ ایک بار قادیان کے کسی جلسہ سالانہ میں آئے اور عوام الناس میں بیٹھے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نظر آپ پر پڑ گئی چنانچہ آپ تقریر ختم کر تے ہی ان کی طرف بڑھے اور پیچھے سے جاکر انہیں پکڑلیاتاہم یہ بات مشکوک ہے کہ وہ آخری وقت تک احمدیت پر قائم رہے تھے۔
اور اب کچھ ذکر پروفیسر خواجہ عبدالحمید کا جو ہمارے بہت ہی قابل اساتذہ میں سے تھے۔ مجھے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا شرف حاصل ہے۔ عالم تھے اور انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ ان کے فاضلانہ مقالے فلسفے کے معروف بلندپایہ رسالوں اور اردو کے مشہور جرائد مثلاً معارف، اعظم گڑھ میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ ایک بار وہ آل انڈیا فلاسوفیکل کانگریس میں پروفیسر سری نواسن اچاریہ کی صدارت میں اپنا مقالہ پیش کررہے تھے۔ ابھی خواجہ صاحب کی بات جاری تھی کہ سری نواسن کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے خواتین و حضرات! میں دخل درمعقولات پر معذرت خواہ تو ہوں لیکن پروفیسر عبدالحمید کے اس لیکچر سے میری بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگیا ہے اور میں ان معاملات پر اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوگیاہوں۔
ایک بار میں ان کے پاس حاضر ہوا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ رتن باغ تشریف لائیں اور حاضرین کو اپنے خیالاتِ عالیہ سے مستفید فرمائیں۔ انہوں نے کہاٹھیک ہے میں آجائوں گا لیکن میری دو شرطیں ہیں اوّل یہ کہ میں قرآن شریف کی آیات نہیں ان کا صرف ترجمہ پڑھوں گا اور دوم یہ کہ مرزا صاحب (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) وہاں تشریف نہ رکھتے ہوں۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے میرے لیے مرزا صاحب جیسی شخصیت کی موجودگی میں بولنا مشکل ہو جائے گا۔
۱۹۵۰ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر پاکستان سے میں، مرزا مجید احمد، مرزا ظفر احمداور گیانی واحد حسین سمیت بعض دیگر احمدی قادیان گئے تھے۔ جب ہم واہگہ پہنچے تو مرزا مجید احمد کو شدید بخار ہوگیا۔ ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ یہ سفر نہ کریں اور پاکستان میں رک جائیں مگر وہ نہ مانے۔ اسی کیفیت میں ہم نے بارڈر کراس کرلیا۔ اتفاق سے بارڈر سیکیورٹی فورس کا ایک افسر، ہنس راج میرا کلاس فیلو نکل آیا۔ اسے ہم نے اپنی بِپتا سنائی تو اس نے اٹاری یا امرتسر سے ایک ڈاکٹر بلوالیا۔ اس نے بھی انہیں واپس پاکستان بھجوا دینے کا مشورہ دیا مگر وہ نہ مانے۔ چونکہ ان کی طبیعت زیادہ خراب تھی اس لیے جب ہم قادیان پہنچے تو میں نے اپنے استقبال کے لیے آنے والے درویشوں سے کہا کہ وہ جلدی جلدی ایک چارپائی اور رضائی لادیں۔ ہم نے مرزا مجید احمد کو اس چارپائی پر لٹا دیا اور اوپر رضائی دے دی۔ اب جو درویش آتا سمجھتا کہ یہ جنازہ پڑا ہوا ہے۔چنانچہ سلام دعا تو بعد میں ہوتی وہ سب سے پہلے بآواز بلند انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتا۔ مرزا مجید احمد جو یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور سب کچھ اپنے کانوں سے سن رہے تھے کہنے لگےویسے تو میں شاید زندہ رہ جاتا لیکن اب میں بچنے والا نہیں ہوں۔ یہی وہ موقع تھا جب گیانی صاحب نے حاضرین کی ضیافتِ طبع کے لیے یہ واقعہ سنایا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک بار ایبٹ آباد میں ان کا ایک سکھ سے مناظرہ طے ہوگیا۔مناظرہ شروع ہوا تو سکھ مناظر نے یوں ظاہر کیا گویا کہ وہ گرنتھ صاحب کی کوئی عبارت پڑھ کر سنا رہا ہے جب کہ فی الحقیقت جو کچھ وہ پڑھ رہا تھا اس کا اپنا لکھا ہوا تھا اور گرنتھ صاحب سے اس کا دُور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ عبارت یہ تھی کہ ایک شخص جس نے ایسا ایسا لباس پہن رکھا ہوگا قادیان میں اترے گا اور وہ یوں یوں کہے گا۔ گیانی واحد حسین سمجھ گئے کہ سکھ مناظر من گھڑت تحریر پڑھ رہا ہے چنانچہ وہ کہنے لگےجو کچھ تم نے کہا ٹھیک ہے۔ اب میری بات بھی سنو۔ اس کے آگے یہ لکھا ہے کہ ایک جگہ جس کا نام ایبٹ آباد ہوگافلاں فلاں وقت ایک مناظرہ ہوگا اور سکھوں کی طرف سے ایک گیانی اس میں حصہ لے گا اور وہ اُلو کا…ہوگا۔ اس پر گیانی بہت سٹپٹایا اور چلّا کر کہنے لگا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ اس کا کہنا تھا گرنتھ صاحب میں ایسی کوئی تحریر موجود نہیں ہے اور مطالبہ کرنے لگا کہ اگر ہے تو اسے دکھائی جائے۔ اس پر گیانی واحد حسین نے جواب دیاتم وہ حصہ نکالو جو تم پڑھ کر سنا رہے تھے۔ اس سے اگلے صفحے پر وہ سب باتیں لکھی ہیں جو میں نے پڑھی ہیں۔ اس پر وہ سکھ کھڑا ہوگیا اور کہنے لگاسنو لوگو! میں بھی غلط کہہ رہا تھا اور گیانی واحد حسین بھی غلط کہہ رہے ہیں۔ اس پر کسی شخص نے امیر جماعت احمدیہ صوبہ سرحد، قاضی محمد یوسف کے پاس گیانی واحد حسین کی رپورٹ کر دی۔ قاضی صاحب نے گیانی صاحب کو طلب کیا اور انہیں کہا میں یہ شکایت حضرت صاحب کو بھجوا رہا ہوں۔ وہ یہ بات سن کر پریشان ہوئے۔ ان ہی دنوں انہیں لاہور کی دلی دروازے والی مسجد میں جانے کا موقع ملا۔ چودھری اسداللہ خان نے کسی طرح ان کی پریشانی بھانپ لی اور مشورہ دیا کہ بجائے اس کے کہ آپ کے خلاف یہ شکایت کسی اور ذریعہ سے حضور تک پہنچ کر ان کی ناراضگی کا موجب بنے آپ خود پیش ہوکر حضور کو کیوں نہیں بتا دیتے۔ گیانی صاحب حضور سے ملنے پہنچے تو آپ استراحت فرما رہے تھے۔ انہوں نے حضور کے پائوں دبانے شروع کر دیے اور باتوںباتوں میں ساری رام کہانی بھی کہہ ڈالی جسے سن کر حضور ہنس پڑے۔ جب یہ ملاقات ختم ہوگئی تو گیانی صاحب نے بآواز بلند کہایہاں امور عامہ کا کوئی آدمی ہے؟ جائو اور ولی اللہ شاہ ناظرامورعامہ کو یہ سارا واقعہ سنادو۔ اب مجھے کسی کی پروا نہیں ہے۔
مجھے یاد ہے انہوں نے ہمیں وہ خودساختہ اشلوک بھی سنائے جو انہوں نے اس مناظرے میں پڑھے تھے جس سے محفل کشتِ زعفران بن گئی اور مریض کا بخار بھی کچھ کم ہوگیا۔
نہ جانے کب کی بات ہوگی لیکن زمانۂ لاہور میں ایک بار کشمیرکے ساتھ اظہارِیکجہتی کے سلسلے میں ہڑتال تھی۔تمام کالج اور سکولز بند تھے۔ صرف ہمارا کالج کھلا تھا۔میں نے میاں صاحب کو فون کیا کہ آج انارکلی سے لے کر مال روڈ تک لڑکے ہی لڑکے ہیں اور نعرہ بازی ہو رہی ہے۔ میں نے بتایا کہ ہمارا بھی گھیرائو ہوچکا ہے اور ہڑتالیوں کا مطالبہ ہے کہ کالج بند کیا جائے لہٰذا آپ آج دفتر تشریف نہ لائیں تو بہترہوگا۔ میاں صاحب نے فرمایایہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آج تو میں ضرور آئوں گا۔ میں نے پوچھاآپ کس راستے سے آئیں گے؟ پھر میں نے ایک رُوٹ بھی تجویز کیا لیکن میاں صاحب سیدھے آگئے۔ میاں صاحب کے پاس سیکنڈ ہینڈ وُلزلے کار ہوتی تھی اور جیسا کہ یہ بات کئی بار بیان ہو چکی ہے کوئی درویش ہی یہ کار رکھ سکتا تھا۔ اس پر نظمیں بھی ہوتی تھیں اور لطیفے بھی بنے ہوئے تھے لیکن کوئی اسے حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ باوجود ہڑتال کے لڑکے اسے راستہ دیتے گئے اور میاں صاحب کالج پہنچ گئے۔ ہم گیٹ کے اندر کھڑے تھے۔ یہ گیٹ سلاخوں والا تھا اور اس میں سے باہر کا سارا منظر نظر آتا تھا۔ میاں صاحب کی گاڑی آئی۔ ہم نے گیٹ کھولنا چاہا لیکن آپ باہر ہی اتر گئے۔ ہم بہت پریشان ہوئے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ رُونما ہو جائے لیکن میاں صاحب نے لڑکوں سے کہاکہ آپ اپنے لیڈرز کو بلائیں۔ ان کو بلایا گیا۔ ایک گروہ لڑکوں کا آگیا۔ آپ نے پوچھا کہ یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے جواب دیا جی کشمیر کے لیے۔ میاں صاحب نے پوچھاآپ ٹی آئی کالج کی بندش کا کیوں مطالبہ کررہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیاسارے کالج بند ہیں، آپ بھی کالج بند کریں۔ آپ نے فرمایا آپ چند منٹ سنجیدگی کے ساتھ سوچ کر مجھے بتائیں کہ اگر اس ہڑتال سے ہمیں کشمیر مل جائے گا تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ صرف آج کے لیے نہیں، میں یہ کالج ہمیشہ کے لیے بند کردوں گا۔مجھے یہ بھی بتائیں کہ اس وقت آپ کی جگہ کلاس رومز ہیں یا یہ سڑکیں؟ آپ نے لڑکوں سے کہاآپ پڑھ لکھ کر، تعلیم حاصل کر کے، زیادہ اچھے پاکستانی بن کر کشمیر کاز کی زیادہ خدمت کر سکتے ہیں لہٰذا آپ بہتر پاکستانی بننے کی کوشش کریں، کشمیر کا مسئلہ خودبخود حل ہو جائے گا۔ کچھ اور بھی اسی قسم کی باتیں ہوئیں۔ لڑکے آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ میاں صاحب اپنی جگہ کھڑے رہے۔ ہم اندر کھڑے تھے۔ لڑکے آئے اور کہنے لگےآپ ٹھیک کہتے ہیں۔ پہلے اور نعرے لگ رہے تھے اب میاں صاحب کے نعرے لگنے شروع ہوگئے۔ یہ سب کچھ میاں صاحب کے خداداد رعب کی وجہ سے تھا لیکن رعب بھی ایسا جس کے پیچھے کوئی دنیاوی مصلحت یا غرض کا رفرما نہیں ہوتی تھی۔
مرزا وسیم احمد کی شادی ہوئی تو مرزا مظفر احمد، شیخ بشیر احمد، امیر جماعت احمدیہ لاہور جو مرزا وسیم احمد کے خالو بھی تھے ، فضلِ عمر ہوسٹل نے ان کی الگ الگ دعوتیں کیں جن میں حضور بھی مدعو تھے۔ جہاں تک فضل عمر ہوسٹل کی دعوت کا تعلق ہے اس کا انتظام ہال کے اندر کیا گیا تھا اور حالات کے مطابق ہال کی بہت اچھی طرح آرائش کی گئی تھی۔ حضور اندر داخل ہوئے تو انتظامات دیکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا۔ اچانک آپ کی نظر نیلے رنگ کے اس جاپانی ڈِنر سیٹ پر جا پڑی جو ہم نے چھان بورا اور روٹیوں کے بچے کھچے ٹکڑوں کی فروخت سے آہستہ آہستہ جمع ہونے والی رقم سے خریدا تھا اور دیکھنے میں بہت خوبصورت تھا۔ اُن حالات میں ہمارے پاس اس قسم کے برتنوں کی موجودگی ذہن میں کئی طرح کے سوال پیدا کرسکتی تھی۔ حضور نے بھی اس سیٹ پر قدرے حیرت کا اظہار کیا چنانچہ میں نے وضاحت پیش کی کہ ہم نے روٹیوں کے ٹکڑے بیچ بیچ کر یہ سیٹ خریدا ہے۔ اس پر حضور نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔
حضور سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد، مرزا وسیم احمد اور کچھ دیگر لوگ بھی ساتھ تھے۔ زمین پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں چودھری اسداللہ خاں اور ڈاکٹر عبدالحق شامل تھے۔ دونوں بڑے باذوق اصحاب تھے اور انہیں بےشمار لطائف یاد تھے جو وہ موقع بموقع سناتے رہتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالحق کوبعض اُلٹے پُلٹےشعر بھی یاد تھے جو وہ غالب کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ ان کے پاس غالب کی اصل، غیر مطبوعہ بیاض موجود ہے اور یہ اشعار اسی میں سے لیے گئے ہیں۔ اس محفل میں چودھری اسداللہ خاں نے ایک لطیفہ سنایا جسے سن کر سب لوگ لوٹ پوٹ ہوگئے تاہم حضور کی موجودگی کی وجہ سے ہر شخص اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ نتیجۃً عجیب سی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ اگرچہ ہنسی کی آواز سنائی نہ دے آ رہی تھی مگر نظر آرہا تھا کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد نے یہ بات نوٹ کرلی۔ اس وقت تو نہیں لیکن بعد میں آپ نے پوچھا کہ ہم ہنس کیوں رہے تھے تاہم وہ لطیفہ ایسا تھا جو انہیں سنایا نہ جا سکتا تھا لہٰذا بات گول کرنا پڑی۔
اب یاد کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے یہ بزرگان بھی کیا خوب لوگ تھے۔ ان میں خشکی یا کرختگی نام کی کوئی چیز نہ تھی اور شگفتگی اور بشاشت ان کے مزاج کا خاصہ تھی۔ ان سے محبت پُھوٹتی تھی اور ان کی محفل میں بیٹھ کر کبھی یہ احساس نہ ہوتا کہ ہم زاہدانِ خشک کی مجلس میں ہیں۔
ایک دفعہ میاں صاحب چہا کے شکار کے لیے شیخوپورہ کی طرف گئے۔ اس پارٹی میں مرزا مظفراحمد، مرزا مبارک احمداور مرزا منور احمد کے علاوہ سید عنایت علی شاہ، آئی جی پولیس بھی شامل تھے۔ مرزا مظفر احمد ان دنوں غالباً ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب یا کچھ اور تھے۔ شیخوپورہ سے ورے کوئی علاقہ تھا اور پندرہ بیس ہانکا کرنے والے ہمارے ساتھ تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس دن کوئی چہا نہیں اڑا۔ آٹھ بج گئے، نو بج گئے اور پھر دس بج گئے اور ہم ایک چہا بھی شکار نہ کرسکے۔ دس بجے کے بعد چہا ویسے ہی نہیں اڑتا۔ پھر گیارہ بج گئے، بارہ بج گئے اور شکار پارٹی ہے کہ آگے سے آگے چلتی جا رہی ہے۔ دوپہر کے کھانے کا انتظام لاہور میں تھا۔ جب ایک بج گیا تو سب مجھے کہنیاں مارنے لگے کہ بھائی (یعنی میاں صاحب) سے کہو کہ واپس چلیں۔ میں حیران تھا کہ وہ خود کیوں نہیں کہتے، مجھے کیوں کہہ رہے ہیں لیکن چونکہ میرے لیے سب ہی بے حد محترم اور پیارے تھے اور میں ان کے آگے بول نہ سکتا تھا لہٰذا خاموش رہا۔ جب زیادہ ہی دیر ہوگئی تو میں نے میاں صاحب کو الگ لے جا کر کہا کہ میری تے وکھیاں پَن دِتیاں نے ساریاں نے کہنیاں مار مار کے۔ پوچھنے لگےکیوں؟ کیاہوا ہے؟ میں نے کہا سب کہہ رہے ہیں کہ کھانے کا وقت ہوگیا ہے لہٰذا واپس چلیں۔ کہنے لگے کیا لاہور میں اَور خدا ہے اور یہاں اَور خدا ہے؟ جس خدا نے ہمیں لاہور میں روٹی کھلانی ہے وہی خدا ہمیں یہاں بھی روٹی دے سکتا ہے۔ ہم دو بجے تک چلتے رہے۔ پھر ایک نہر کے کنارے رک گئے، وضو کیا اور نماز پڑھی۔ نہر کی دوسری طرف عرفِ عام میں جانگلیوں کا ایک ڈیرہ تھا۔میاں صاحب نے مجھے کچھ پیسے دیے کہ وہاں جاکر کسی سے پوچھو کہ کیا اس کے گھر میں تندور ہے اور دودھ دینے والی گائے یا بھینس موجود ہے۔ اگر وہ اثبات میں جواب دے تو اس سے کہو کہ وہ ہمارے لیے گرم گرم روٹیاں اور نمکین لسی بھجوا دے اور ساتھ میں چھنّا بھیجنا نہ بھولے۔ آپ ضرور جانتے ہوں گے کہ چھنّا کانسی کے پیالے کو کہتے ہیں جس کا اب رواج نہیں رہا۔ مجھے ڈیرے پر ایک آدمی ملا۔ اس نے ہانکا کرنے والوں اور باقی سب پر نگاہ ڈالی تو اندازہ لگالیا کہ خاص ہی لوگ ہیں۔ وہ بڑا ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے جلد ہی معلوم کرلیا کہ بہت سینئر سرکاری افسران آئے ہوئے ہیں چنانچہ اس نے کہا اگر تو آپ نے پیسے دینے ہیں تو آگے بہت ڈیرے ہیں۔ آپ وہاں چلے جائیں۔ میں تو آپ لوگوں کا نوکر ہوں، میں پیسے نہیں لوں گا۔ وہ کچھ دیر میں روٹیاں لے آیا۔ گرم اور بے حد خستہ۔ ساتھ مکھن، پسی ہوئی سرخ مرچ اور نمکین لسی کی چاٹی تھی۔ اس ’’روکھی سوکھی‘‘ روٹی نے جو مزا دیا آج بھی یاد ہے۔
صاحبزادہ مرزا خورشید احمد کو انگریزی سے بہت شغف تھا لیکن رکھی انہوں نے سائنس ہوئی تھی۔ نورالدین امجد جن کا ذکر پہلے بھی آیا ہے ان کے کلاس فیلو تھے۔ انہوں نے حال ہی میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیفِ لطیف، کتاب البریّہ کا بنگلہ دیش سے انگریزی میں ترجمہ کر کے بھیجا ہے۔میں چونکہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا تھا جہاں سے بہت لڑکے مقابلے کے امتحان میں منتخب ہوتے تھے لہٰذا میں بھی یہ امتحان دینا چاہتا تھا۔ میرے قریبی دوست بھی یہ امتحان دے رہے تھے اور بیدی نے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو ایک خط لکھ دیا تھا کہ محمد علی کا دماغ خراب ہوگیا ہے اور وہ کہتا پھر رہا ہے کہ اس نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے، اسے کہیں کہ مقابلہ کا امتحان دے۔ ایک بار وہ خود بھی یہی بات کہنے کے لیے آگیا تھا۔ کچھ اور بھی مصلحتیں تھیں جنہیں یہاں میں بیان نہیں کرنا چاہتا چنانچہ ہم نے اپنے کالج میں سپیشل کلاسز شروع کیں تاکہ لڑکوں کو مقابلہ کے امتحان کے لیے تیار کیا جاسکے اور ہمارے نوجوان سِول سروس آف پاکستان اور دیگر سپیریئر سروسز کے علاوہ فوج، ایئرفورس او رنیوی میں جا سکیں۔ اس کلاس میں کنورادریس کے علاوہ نورالدین امجد اور بعض دیگر طلبہ شامل تھے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ مرزا خورشید احمد واقفِ زندگی ہیں میں نے انہیں بھی اس کلاس میں ڈال دیا۔ممکن ہے غلطی سے کوئی اور واقفِ زندگی بھی اس گروپ میں شامل کردیا گیا ہو۔ بہرحال تحریک جدید کی طرف سے ایک کمیشن بیٹھ گیا کہ میں واقفینِ زندگی کو ورغلا رہا ہوں۔ بڑی مشکل سے بریت ہوئی۔
بیٹھے بیٹھے تعلیم الاسلام کالج کے ایک غیرازجماعت استاد کا خیال آگیا ہے۔ ان کا نام حسن ظہیر تھا جو مشہور ادیب اور متحدہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کے سرکردہ ممبر، سجادظہیرکے چھوٹے بھائی تھے۔وہ معاشیات پڑھاتے تھے۔ بڑے لائق اساتذہ میں سے تھے لیکن کالج میں ان کا قیام مختصر ہی رہا کیونکہ وہ اسی عرصہ میں سنٹرل سپیریئر سروسز آف پاکستان ایگزامینیشن پاس کرکے سِول سروس کے لیے منتخب ہوگئے تھے۔
حسن ظہیر کے ذکر نے مجھے اپنے ایک اور بہت ہی پیارے دوست کی یاد دلا دی ہے۔ اس کا نام نورالحق تھا۔ اب فوت ہو چکاہے۔ وہ شبیر کا بھی دوست تھا۔ اس نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کرلی تھی اور پھر انڈسٹریل کیمسٹری میں امریکہ سے پی ایچ ڈی کرآیا تھا۔ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اسے کہاتم اپنے علم وفضل اور اپنی سوچ کے لحاظ سے پاکستان سے دس سال آگے ہو چنانچہ وہ امریکہ واپس چلا گیا۔ بعد میں دوبارہ یہاں آکر ڈیفنس سائنس کے شعبہ میں رہا۔
(باقی آئندہ)