حضرت مصلح موعود ؓ

اسلام کی ترقی اور اشاعت کے لیے وقفِ جدید کی تحریک خاص اہمیت رکھتی ہے (قسط نمبر2۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۱؍فروری۱۹۵۸ء)

(گذشتہ سے پیوستہ )ایک دفعہ وکالتِ تبشیر نے مجھے رپورٹ پیش کی تھی کہ مقامی جماعتوں کے مبلّغملا کر ہمارے کُل مبلّغدوسَوستّر ہیں۔ اب کُجا دوسَوستّر مبلغ اور کُجا اَٹھاون ہزار مبلّغ۔ اور ابھی یہ صرف رومن کیتھولک پادریوں کی تعداد ہے۔ اگر پروٹسٹنٹ فرقہ کے پادریوں کو ملا لیا جائے تو ایک لاکھ سے بھی زیادہ ان کے مبلّغوں کی تعداد بن جاتی ہے۔ قرآن کریم نے ایک جگہ بتایا ہے کہ اگر مسلمانوں میں سچا ایمان پایا جائے تو ایک مومن دس کفار کا مقابلہ کر سکتا ہے۔(الانفال:66)اس کے معنے یہ ہیں اگر اُن کے دوہزار سات سَومبلّغہوں تب تو انسانی طاقت کے لحاظ سے ہماری فتح کا امکان ہے لیکن ہمارے دوسَوستّر مبلغوں کے مقابلہ میں اُن کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ مبلّغہیں۔ اِس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے ایک مبلّغکے مقابلہ میں اُن کے تین چار سَو مبلّغکام کر رہے ہیں۔ پس بظاہر دنیوی نقطہ نگاہ سے ان کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ …صحابہؓ کے زمانہ میں دو دو ہزار گنا لشکر کا بھی مسلمانوں نے مقابلہ کیا ہے مگر یہ مقابلہ اُس سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ ہماری جماعت بہت قلیل ہے اور ساری دنیا میں ہم نے اسلام پھیلانا ہے۔ پس یہ کمی اِس طرح پوری ہو سکتی ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد دعاؤں میں لگا رہے اور ہر شخص اس بات کا عہد کرے کہ وہ دین کے لیے کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرے گا اور اسلام کی اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دے گا۔ میں نے اِس غرض کے لیے جماعت میں وقفِ جدید کی تحریک کی ہے اور اِس وقت تک جو اطلاع آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سَو چوالیس دوست اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں جن میں سے تیرہ معلّم پہلے بھیجے جا چکے ہیں اور سترہ اَور واقفین کو قابلِ انتخاب قرار دیا جا چکا ہے جن کے متعلق مقامی جماعتوں سے رپورٹ لی جا رہی ہے اور دفتر والوں نے مجھے لکھا ہے کہ ان کی رپورٹیں آنے کے بعد ان سترہ واقفین کے نام منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے۔

میں دیکھتا ہوں کہ باوجود اِس کے کہ ابھی اس کام کو شروع کیے چند دن ہی ہوئے ہیں جو وفد بھجوائے گئے ہیں اُن کے کام کے خوشکن نتائج نکلنے شروع ہو گئے ہیں۔ابھی تک ان مراکز کو قائم ہوئے صرف چند دن ہوئے ہیں اور یہ اتنا تھوڑا عرصہ ہے جس میں کوئی نمایاں نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اصل نتیجہ اُس وقت معلوم ہو گا جب چھ سات مہینے گزر جائیں گے۔ پس وہ لوگ تو اپنا کام کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اُن کی مدد کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ …۔

مولانا عبدالماجد صاحب دریابادی نے ایک دفعہ اپنے اخبار میں لکھا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد جماعت احمدیہ پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ جتنا بجٹ ان کا اب ہوتا ہے اتنا بجٹ ان کا پہلے کبھی نہیں ہوااور یہ بالکل درست ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے وقت جماعت کا سارا بجٹ تیس پینتیس ہزار کا تھا مگر اب صرف صدرانجمن احمدیہ کا ہی پچھلے سال تیرہ لاکھ کا بجٹ تھا اور اگر اس کے ساتھ تحریک جدید کو بھی شامل کر لیا جائے تو ہمارا بجٹ پچیس چھبیس لاکھ تک پہنچ جاتا ہے۔ اِس کو دیکھ کر مخالف بھی متأثر ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ جماعت پہلے سے ترقی کر رہی ہے اور جب’’وقف جدید‘‘مضبوط ہو گیا جس کی وجہ سے لازماً چندے بھی بڑھیں گے اور آدمی بھی بڑھیں گے تو ممکن ہے اگلے سال تینوں انجمنوں کا بجٹ چالیس پچاس لاکھ تک پہنچ جائے۔ پس ان قربانیوں کی طرف جماعت کے ہر فرد کو توجہ کرنی چاہیے اور ہر آدمی کو یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ کی مدد جلدی آئے۔ بیشک جہاں تک اﷲ تعالیٰ کے وعدوں کا سوال ہے ہمیں یقین ہے کہ اُس کی نصرت ہمارے شاملِ حال ہو گی اور اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے گا۔ لیکن اگر اس مدد کے آنے میں کچھ دیر ہو جائے تو مومن کا قلب اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب مومن کہہ اُٹھتے ہیں کہ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ(البقرۃ : ۲۱۵) یعنی انتظار کرتے کرتے ہماری آنکھیں تھک گئیں۔ اب اﷲ کی مدد کب آئے گی؟ فرماتا ہے اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ (البقرۃ : ۲۱۵) اﷲ کی نصرت آنے ہی والی ہے۔ گھبراؤ نہیں۔ تم گھبرا جاتے ہو اور سمجھتے ہو کہ نامعلوم اس کی مدد کب آئے گی حالانکہ وہ تمہارے بالکل قریب پہنچ چکی ہے۔ چنانچہ ان آیتوں کے نزول کے ایک دوسال بعد ہی مکہ فتح ہو گیا اور سارے عرب پر اسلام غالب آ گیا۔

اب بھی ایسا ہی وقت ہے کہ ہر احمدی کے دل سے یہ آواز اُٹھنی چاہیے کہ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ اے خدا! تیری مدد کب آئے گی؟ ہم نے تیرے دین کی ترقی کے خواب اُس وقت دیکھنے شروع کیے تھے جب یہ صدی شروع ہوئی تھی اور اب تو یہ صدی بھی ختم ہونے والی ہے مگر ابھی تک ہماری امیدیں بَر نہیں آئیں اور کفر دنیا میں قائم ہے۔ اے خدا! تُو اپنی مدد بھیج تا کہ ہم اپنی زندگیوں میں ہی وہ دن دیکھ لیں کہ اسلام دنیا پر غالب آ جائے اور عیسائی اور ہندو اور دوسرے تمام غیرمذاہب کے پیرو مغلوب ہو جائیں۔ اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں مسجدیں بن جائیں اور اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُ کی آوازوں سے سارا یورپ اور امریکہ گونج اُٹھے۔ اگر آپ لوگوں کے دلوں سے اِس طرح آواز اُٹھے تو آپ کو یقین رکھنا چاہیے کہ آپ کے دل میں ایمان کی چنگاری پیدا ہو گئی ہے۔ لیکن اگر یہ آواز نہ اُٹھے تو آپ سمجھ لیں کہ آپ لوگوں نے اپنے متعلق بِلاوجہ نیک ظنی کی۔ آپ سمجھتے رہے کہ ہم مومن ہیں حالانکہ مومن نہیں تھے۔ اسلام تو بہت بڑی چیز ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن کی علامت یہ ہے کہ اگر اُس کے کسی بھائی کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اُسے بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہے جیسے وہ تکلیف خود اسے پہنچی ہے۔(مسلم کتاب البِرّ وَالصِّلۃ باب ترَاحم الْمُؤْمِنِیْنَ۔الخ) جب ایک مومن بھائی کی تکلیف کو بھی دوسرا شخص اپنی تکلیف سمجھتا ہے تو اگر اسلام اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراضات کیے جاتے ہیں، آپؐ پر غلاظت اُچھالی جاتی ہے اور تمہارے دل میں کوئی درد پیدا نہیں ہوتا تو یہ ایمان کی کمی کی علامت ہے۔ بیشک جس بات کی ہمیں طاقت حاصل نہیں اُس کے متعلق خداتعالیٰ ہم سے کوئی سوال نہیں کرے گا لیکن ہمارے دلی جذبات کے متعلق تو وہ ہم سے سوال کر سکتا ہے۔ وہ کہے گا کہ اگر تمہارے دلوں میں سچا ایمان ہوتا تو تم ان مخالفتوں کو دیکھ کر کیوں نہ میری طرف جھکتے اور مجھ سے دعائیں کرتے۔ اور چونکہ تم میری طرف نہیں جھکے اس لیے معلوم ہوا کہ جو تمہارا فرض تھا وہ تم نے ادا نہیں کیا۔(الفضل۹؍مارچ۱۹۵۸ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button