نئی سحر
یہ پیاسی اَرواح کی تڑپ ہے
کہ کاش ہم بھی منائیں جلسہ
کہ ہر دسمبر اُبلتے سینوں
سسکتی آہوں ، ٹپکتی پلکوں سے
خوں بہائے گذر رہا ہے
وہ سردیوں کی طویل راتیں
اُداسیوں میں گزر رہی ہیں
جو تیری صحبت نصیب ہوتی
تو آج موسم کچھ اور ہوتا
میں بھولی بسری تمام یادوں کو کرکے یکجا
ترے ہی قدموں میں ڈھیر کرتا
مگر ہمارے وطن میں
ایسی منافرت کی ہوا چلی ہے
کہ جس کی زد میں
ہمارے بھائی لہو نہائے امر ہوئے ہیں
ہماری سوچوں، ہمارے جذبوں کو
رنگ دے کے
سحر ہوئے ہیں
وہ لعل سارے جو تیری رہ میں
لپک لپک کر فدا ہوئے ہیں
ولیدؔ ، شابلؔ ہوں یا ہوں ناصرؔ
شہید سارے مجھے ہیں پیارے
اُنہی کے دم سے ہماری نبضوں میں
زندگی کی رمق ہے باقی
یہ آہ و زاری یہ گریہ اپنا
کبھی نہ ضائع ہوا تھا پہلے
جو اَب کے آئی ہے اس میں شدت
نئے اُفق سے نرالے رنگ میں
نئی سحر اِک طلوع ہو گی
تمہاری نفرت ، تمہاری حسرت
تمہی کو رسوا کرے گی اک دن
شہید بیٹوں کی مائیں اب بھی
جوان بچوں کو پھر سے مسجد میں بھیجتی ہیں
جو دینِ واحد کی سر بلندی پہ
سجدہ گاہوں میں کٹ مرے ہیں
انہی کے بچوں ، یتیم بچوں کی ننھی آہیں
فلک کے سینے کو چیر کر اب
تمہارے اوپر
عذاب بن کر اتر رہی ہیں
(صفوان احمد ملک جرمنی)