حضورِ انور کے ساتھ واقفات نَو کی کلاس (مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ)
٭…آپ میرے جانے پر اداس ہو جاتے ہیں تو میرے جذبات کس طرح مختلف ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن کچھ دیر کے بعدا ٓپ لوگ اپنے کاموں میں مگن ہو جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ میں آیا تھا اور چلا گیا، لیکن میں آپ کو کبھی نہیں بھولتا۔ میں ہر وقت آپ لوگوں کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں
٭…استخارہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کوئی خواب دیکھیں گے یا اللہ تعالیٰ آپ کو الہام کے ذریعہ بتائے گا کہ یہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ استخارہ یہ ہے کہ اگر یہ بہتر ہے تو میرے ذہن کے خدشات اور خوف دور ہو جائیں اور اس رشتہ کو میرے لیے بابرکت بنادے اور اگر یہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو پھر اس رشتہ کو میرے سے دور کردے
دورۂ امریکہ کے دوران مورخہ 12؍اکتوبر کو واقفات نَو نے مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ میں اپنے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ چھ بج کر پانچ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز’’مسجد بیت الرحمٰن‘‘ کے مردانہ ہال میں تشریف لے آئے جہاں واقفات نو کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ جو عزیزہ فائزہ انور صاحبہ نے کی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی پیش کیا۔تلاوت کا اردو ترجمہ آمنہ نور شاہ صاحبہ نے پیش کیا۔بعد ازاں ثوبیہ جمیل صاحبہ نے آنحضرتﷺ کی حدیث مبارکہ اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔حدیث مبارکہ کادرج ذیل اردو ترجمہ عزیزہ ہالہ مسرور صاحبہ نے پیش کیا۔
’’حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ فرمارہے تھے کہ دنیا کی عورتوں میں سے بہترعمران کی بیٹی مریم تھیں اور اس زمانہ میں کی عورتوں میں سے بہتر عورت خدیجہ ہیں۔‘‘
(صحیح البخاری۔ کتاب احادیث الانبیاء)
اس کے بعد عزیزہ ہما منیر صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مجھے توتعجب ہوتا ہے کہ جب کہ ہر ایک انسان بالطبع راحت اور آسائش چاہتا ہے اور ہموم وغموم اور کرب وافکار سے خواستگار نجات ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جب اس کو ایک مجرب نسخہ اس مرض کا پیش کیا جاوے تو اس پر توجہ ہی نہ کرے۔ کیا للّٰہی وقف کا نسخہ 1300 برس سے مجرب ثابت نہیں ہوا؟ کیا صحابہ کرامؓ اسی وقف کی وجہ سے حیات طیبہ کے وارث اور ابدی زندگی کے مستحق نہیں ٹھہرے؟ پھر اب کون سی وجہ ہے کہ اس نسخہ کی تاثیر سے فائدہ اُٹھانے میں دریغ کیا جاوے۔
بات یہی ہے کہ لوگ ا س حقیقت سے ناآشنا اور اس لذت سے جو اس وقف کے بعد ملتی ہے۔ ناواقف محض ہیں۔ورنہ اگر ایک شمہ بھی اس لذت اور سرور سے ان کو مل جاوے تو بے انتہاء تمناؤں کے ساتھ وہ اس میدان میں آئیں۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 501)
بعدازاں آبیہ شکرورک صاحبہ نے اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ اس کے بعد ہبہ ہدایت چودھری صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پاکیزہ منظوم کلام:
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار
جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر نثار
خوش الحانی سے پیش کیا۔ اور اس اردو نظم کا انگریزی ترجمہ عزیزہ سلمیٰ طاہر نے پیش کیا۔
اس کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو اردو آتی ہے ہاتھ کھڑا کریں۔ اس پر واقفات نو نے اپنے ہاتھ کھڑے کیےتو اس پر فرمایا؛ کمال ہے، ۳۰ سے ۴۰ فیصد ہیں جن کو اردو آتی ہے۔ باقی جو واقفاتِ نو ہیں وہ بھی اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھیں۔اردو سیکھو تا کہ تم حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی کتب اصل زبان میں سمجھ سکو اور ان سے راہنمائی لے سکو۔ ترجمہ کبھی بھی اصل متن سے انصاف نہیں کرسکتا۔ کسی حد تک تو ترجمہ احاطہ کرتا ہے لیکن مکمل طور پر نہیں۔ اگرا ٓپ اپنا دینی علم بڑھانا چاہتی ہیں تو اردو سیکھیں۔ واقفاتِ نو کو اردو سیکھنی چاہیے تا کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی کتابیں سمجھ سکیں۔
حضورِ انور نے فرمایا؛آپ میں سے کتنی ہیں جو قرآنِ کریم کا ترجمہ جانتی ہیں اور کتنی ہیں جو ترجمہ سیکھ رہی ہیں۔ (واقفاتِ نو نے ہاتھ اٹھائے)
اس پر فرمایا؛آپ سب کو قرآنِ کریم کا ترجمہ سیکھنا چاہیے۔ اگر نہیں سیکھیں گے تو آپ کو قرآنی مضامین سمجھ نہیں آئیں گے۔ قرآنِ کریم میں دی گئی ہدایات اور احکامات سمجھ نہیں آئیں گے۔ لازماً ترجمہ سیکھیں اور روزانہ ایک یا دو رکوع تلاوت کریں اور پھر اس کا ترجمہ بھی پڑھیں۔ اگر ممکن ہو تو یاد رکھنے کی بھی کوشش کرو یا کم از کم مشکل الفاظ کا ترجمہ یاد کرو۔ الاسلام ویب سائٹ پر لفظی ترجمہ موجود ہے۔ وہاں سے سیکھنا شروع کریں۔ یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔
بعد ازاں واقفاتِ نو بچیوں نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کی اجازت سے مختلف سوالات کیے۔
ایک واقفہ نو راضیہ تبسم نے سوال کرتے ہوئے عرض کی کہ بچوں کو معاشرے کے بداثرات سے بچانے کے لیے پبلک یا پرائیویٹ اداروں میں بھجوانے کی بجائے گھر میں سکولنگ فراہم کرنے کے بارے میں حضور کیا فرماتے ہیں؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛اگر آپ اپنے بچوں کو گھر پر پڑھا سکتی ہیں اور ان کی ٹریننگ کرسکتی ہیں تو ابتدائی سالوں میں اپنے بچوں کو سکول بھجوانے کی بجائے گھر میں تعلیم دینا آجکل سب سے بہترین طریقہ ہے۔لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کتنا وقت دے سکتی ہیں۔ اور پھر یہ کہ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کی قوتِ برداشت بھی بہت اچھی ہیں۔ کیونکہ بچوں کو پڑھانا کوئی آسان کام نہیں۔ اس طرح نہیں کہ ایک چھوٹی سی غلطی پر آپ بچے کو تھپڑ ماردیں کہ غلط کیوں پڑھ رہا ہے۔ پس آپ کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر آپ کے صبر کا معیار اچھا ہے تو آپ پڑھا سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ زیادہ بہتر ہے۔ بہت سی مائیں یہ کررہی ہیں اور یہ طریق کافی کامیاب ہے۔ ایک مرتبہ جب بنیاد مضبوط ہو جائے اور بچے اپنے ایمان میں پختہ ہو جائیں، اپنے فرائض سمجھنے والے ہو جائیں اور اخلاقیات سمجھ جائیں، اخلاقی اقدار حاصل کرلیں یا یہ سمجھ لیں کہ دین ان سے کیا چاہتا ہے۔ تو اس کے بعد آپ انہیں سکول بھجوا سکتی ہیں۔
ایک واقفہ نو ہالہ مسرور نے سوال کیا کہ حضور میرے سکول کی طرف سے مجھے بعض کتب دی گئیں اور پھر ان کے مطالعہ کے بعد ان پر اپنا تجزیہ بیان کرنے کا بھی کہا۔ اس کتب کا متن غیر اسلامی تھا۔ مثلاً اس میں دہریہ خیالات، تعدد ازدواج، ڈرگز اور عریانی کے تصورات تھے۔ حضور کیا ایک احمدی کو ایسی اسائنمنٹ سے معذرت کرلینی چاہیے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛آپ اپنے استاد کو بتا سکتے ہیں کہ میں نے کتاب پڑھی ہے اور آپ اس کے مضامین سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ غیر اخلاقی باتیں ہیں اور مذہب کی بنیادی تعلیمات سے دور کرتے ہیں۔ اورمیرے اخلاق کے خلاف ہے، یہ میں پسند نہیں کرتی۔ اگرا ٓپ چاہتے ہیں کہ میں اس پر اپنا تجزیہ پیش کروں تو اس کتاب میں تمام چیزیں لغویات ہیں اور ان باتوں کے حوالہ سے اپنا نقطہ نظر بیان کریں اور بتائیں کہ آپ کیوں اتفاق نہیں کرتیں۔ اپنی رائے دیں۔ اگر پھر وہ آپ کو صفر مارک دیں تو پرواہ نہ کریں۔
ایک واقفہ نو تہمینہ منشاد نے سوال کیا کہ کیا حضور خیال کرتے ہیں کہ رشیا یوکرائن جنگ کے نتیجہ میں اور خاص کر روس کی جانب سے یوکرائن کے اندر حالیہ بمباری کے بعد دنیا بدل جائیگی۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛یہ صرف رشیا اور یوکرائن جنگ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ تو اب بڑھتی جائےگی اور لگتا ہے کہ روس اور یوکرائن سے بھی آگے پھیل جائےگی اور اس میں تمام دنیا ملوث ہو جائےگی۔اگر ساری دنیا اس میں شامل ہو جائے تو پھرمیں امید کرتا ہوں کہ لوگ سوچیں گے کہ یہ سب کیوں ہوا ہے۔ لیکن اس وقت تک اس بات پر غور کرنے کے لیے بہت ہی تھوڑے افراد رہ جائیں گے۔ وہ تب میرے خیال میں اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جھکیں گے۔ اچھائی کی طرف جھکیں گے اور سچا مذہب ڈھونڈھے کی کوشش کریں گے۔ اس وقت احمدی مرد و خواتین کا کام ہو گا کہ ان کی سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کریں اور انہیں بتائیں کہ اب تم نے اپنی خواہشات کا مزہ چکھ لیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہدایات اور احکامات کی پابندی کرو اور مجھ پر ایمان لاؤ۔ اگر اب بھی تم اس پر عمل نہ کرو گے تو پھر ایک اور جہنم مقدر ہوگی اور نتیجۃً دنیا تباہ ہو جائےگی۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہونے والا ہے۔ لیکن احمدیوں کو چاہیے کہ تیاری کریں کہ کس طرح دنیا کو اپنے خالق کی پہچان کروانے کی تبلیغ کرسکتے ہیں۔
ایک واقفہ نو تانیہ انجم قریشی نے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ جماعت میں بھی ایسے بچے جن کی ذہنی نشو ونما کم ہوتی ہے یا معذور بچوں بالخصوص autism سے متاثر بچوں کو stigmatize کیا جاتا ہے۔ حضور راہنمائی فرمائیں کہ اس stigmatization کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے اور کس طرح اس حوالہ سے برداشت اور تحمل پیدا کیا جاسکتا ہے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛اگر لوگ ایسے بچوں کا خیال نہ رکھیں اور ان کے والدین کے جذبات کا خیال نہ رکھیں تو ایسے لوگ جاہل ہیں۔ اس طرح نہیں ہونا چاہیے۔ ان سے مریض کی طرح ہی نیک برتاؤ کرنا چاہیے اور ان بچوں اور ان کے والدین سے ہمدردی کرنی چاہیے۔ یہی ایک راستہ ہے۔ میں ہمیشہ یہی کہتا آیا ہوں۔ آجکل autism یا اس کی ایک معمولی قسم یا ADHD عموماً 10سے 15فیصد لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ پس ہمیں اس کا ادراک کرنا چاہیے اور بچوں اور والدین کے جذبات کا خیال کرنا چاہیے اور انہیں بطور مریض ہی لینا چاہیے۔
ایک واقفہ نو تمثیلہ مدثر صاحبہ نے سوال کیا کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی دنیا قائم تھی تو پھر حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے کا حکم انسانوں کو بھی دینے کی بجائے صرف فرشتوں کو کیوں دیا گیا؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛یہ کہاں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ کہا کہ آدم ہی واحد انسان ہے، جس کو سجدہ کرو یا اس کی مدد کرو یا احترام کرو؟ یہ نہ تو قرآنِ کریم میں ہے، نہ ہی بائبل میں اور نہ ہی کسی قدیمی صحیفہ میں لکھا ہے۔ وہ آدم جس سے ہماری انسانی نسل کا آغاز ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت سے آدم تھے اور اللہ تعالیٰ نے اسی طرح فرشتوں کو ہر آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھیں ایک مرتبہ حضرت ابن عربی رحمہ اللہ جو کہ بہت اعلیٰ پایہ کے دینی عالم ہیں اور تاریخِ اسلام کی ایک مشہور شخصیت ہیں، ان کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ عمرہ کررہے تھے تو انہوں نے رؤیا میں بعض اور افراد کو بھی عمرہ کرتے دیکھا، جو کہ شکل و شباہت کے لحاظ سے مختلف تھے۔ ان سے حضرت ابن عربی رحمہ اللہ نے دریافت فرمایا کہ آپ آدم کی اولاد ہو۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ کس آدم کی بات کررہے ہو؟ آدم توبہت سارے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہمارے حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر ہے، لیکن آدم کوئی ایک نہ تھا۔ دنیا کو بنے صرف چھ ہزار سال تو نہیں ہوئے۔ دنیا تو لاکھوں کروڑوں سال سے قائم ہے۔ آسٹریلیا کے aborigines ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا دین ۴۵ ہزار سال سے قائم ہے۔ اور اسی طرح بعض اور قدیمی قومیں بھی ایسے ہی دعوے کرتی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے آدم کے لیے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ موجودہ انسانی نسل چھ ہزار سال پرانی ہے اس سے قبل بھی بہت سے آدم تھے۔
ایک واقفہ نو نوال مجید صاحبہ نے سوال کیا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ تو ایسی چیز بنانے کا مقصد کیا تھا جس نے بالآخر ختم ہی ہوجانا ہے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛آپ یہ دیکھیں کہ آپ کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ یہی سلسلہ ساری دنیا میں جاری ہے۔ ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے ایک عرصہ کے بعد فوت ہو جاتا ہے۔ بعض تیس سال، بعض چالیس او ربعض سو سال تک۔ زندگی کا دورانیہ اتنا ہی ہے۔ اسی طرح دنیاکا بھی ایک دورانیہ ہے اور موت کے بعد کا بھی ایک عرصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دنیا کی ابتدا جیسے ایک زور دار دھماکےسے ہوئی۔ یہی تم مانتے ہو اور یہی سائنس بھی کہتی ہے کہ دنیا کی ابتدا big bang سے ہوئی۔ پھر اس سے ستارے، نظام شمسی اور کائنات وجود میں آئی۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ پھر ہر چیز اسی black hole میں واپس چلی جائےگی۔ سائنس بھی یہی کہتی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں آیا ہے۔ پھر دوبارہ سے ایک big bang کے ذریعہ ایک نئی دنیا کا آغاز ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ ہماری دنیا کا آغاز اس طرح ہوا لیکن یہ دنیا بھی اربوں کھربوں سال پرانی ہے۔ تو اس چیز کی فکر نہ کریں کہ یہ کوئی جلد ختم ہونے والی ہے۔
ایک واقفہ نو ارفہ تنویر بٹ نے سوال کیا کہ حضور جب آپ کسی ملک سے اپنا دورہ مکمل کر کے واپس تشریف لے جاتے ہیں تو احمدی بہت اداس ہوجاتے ہیں۔ حضور کے کیا جذبات ہوتے ہیں؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛آپ کا کیا خیال ہے کہ میرے کیا جذبات ہونے چاہئیں؟ اگرا ٓپ میرے جانے پر اداس ہو جاتے ہیں تو میرے جذبات کس طرح مختلف ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن کچھ دیر کے بعدا ٓپ لوگ اپنے کاموں میں مگن ہو جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ میں آیا تھا اور چلا گیا، لیکن میں آپ کو کبھی نہیں بھولتا۔ میں ہر وقت آپ لوگوں کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں۔ اسی طرح نظام چلتا ہے۔ اسی طرح ہونا چاہیے کہ جو شخص آپ کے شہر یا علاقہ یا زندگی میں آئے، اس کو بالآخر جانا ہے اور ہمیں اس کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ ہمیں ایک دوسرے کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہم اپنے تعلق کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ یہی آپ کو کرنا چاہیے اور یہی مجھے کرنا چاہیے۔
عزیزہ کاشفہ وہاب مرزا نے سوال کیا کہ سورۃ النور کی آیت 36 میں اللہ تعالیٰ اپنے نور کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ زیتون کے تیل سے روشن ہوئی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت کی کیا اہمیت ہے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛زیتون کے تیل کی یہ خوبی ہے کہ وہ دھواں نہیں کرتا۔ اس سے صرف روشنی پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو ایک چیز ہے۔ پھر زیتون اس علاقہ کی علامت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، جس علاقہ میں زیادہ تر انبیاء مبعوث ہوئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کو پسند بھی ہے۔ اس وقت میرے پاس قرآنِ کریم نہیں ہے لیکن آپ اس کی اگلی چند آیات دیکھیں تو وہاں اس کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے۔ حضور نے فرمایا کہ تم وقفِ نو ہو، کتنی عمر ہے؟
اس پر بچی نے عرض کی کہ 13سال کی ہوں۔
حضورِ انور نے فرمایا؛13سال لیکن تمہاری انگریزی اچھی ہے۔ تو فائیو والیم کمنٹری سے اس کی تفصیل پڑھو۔ جہاں یہ آیت ہےوہاں اس کا جواب تفصیل سے دیا گیا ہے۔ ایک تو یہی بات ہے جو میں نے بتائی ہے کہ زیتون کا تیل جلایا جائے تو دھواں نہیں ہوتا صرف روشنی ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا استعمال استعارہ کے طور پر کیا ہے۔ تمام انبیاء کی روشنی ہے اور سب سے بڑھ کر نبی کریم ﷺ کی روشنی ہے۔
حضورِ انور نے سورہ نور آیت ۳۶ کا بھی ذکر فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو۔ وہ چراغ شیشے کے شمع دان میں ہو۔ وہ شیشہ ایسا ہو گویا ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے۔ وہ (چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو۔اسی طرح انبیاء کی بھی روشنی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ کا نور ہے۔
عزیزہ حانیہ رحمان خان نے سوال کیا کہ کیا واقفاتِ نو کو علم فلکیات میں جانے کی اجازت ہے، جیساکہ NASA یا SpaceX میں کام کرسکتی ہیں؟
فرمایا؛ہاں، اگر تمہیں اس میں دلچسپی ہے تو کر سکتی ہو۔ لیکن یہ بات یقینی بناؤ کہ جہاں کام کررہی ہو وہاں اپنے لباس کا خیال رکھو اور لباس اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ کام کرسکتی ہو لیکن NASA میں جانے سے پہلے اجازت حاصل کرلو۔
عزیزہ مریم مبارک احمد نے سوال کیا کہ کیا کوئی اتفاق نامی چیز بھی ہے، یا پھر ہر ایک عمل کو اللہ تعالیٰ کی مرضی قرار دینا چاہیے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛اگر آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو اگر آپ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور پھر وہ ہو بھی جائے۔ اسی طرح اگر آپ کہتی ہیں کہ فلاں شخص کا برتاؤ ایسا ہو، وغیرہ اور آپ اس کے لیے دعا کرتی ہیں، تو پھر ایسا ہو بھی جائے تو آپ چونکہ خدا پر ایمان رکھتی ہیں تو یہی کہیں گی کہ اللہ تعالیٰ نے مدد کی ہے۔اور اگر ایسانہ بھی ہو، تب بھی یہی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اسی میں ہوگی۔ لیکن اگر کوئی دہریہ ہے تو وہ ان چیزوں کو اتفاق کہے گا۔ اگر کوئی چیز گم گئی ہے اور آپ اسے تلاش کرنے کے لیے دعا کررہی ہیں اور اچانک آپ کے ذہن میں آجائے کہ وہ چیز تو فلاں جگہ رکھی تھی یا پھر وہ چیز آپ کو کہیں مل جائے تو آپ نے چونکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی، اللہ پر ایمان رکھتی ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہے۔ جبکہ دہریہ کہے گا کہ اتفاقاً یاد آگیا کہ فلاں جگہ چیز رکھی تھی۔ فرق یہ ہے کہ جب آپ دعا کرتے ہیں اور پھر وہ چیز مل جائے تو یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد ہے۔ اگر آپ نے دعا نہیں بھی کی، تب بھی ہمیں ہمیشہ یہی سوچنا چاہیے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتا ہے۔ اگر بغیر دعا کے بھی کوئی چیز مل جائے تب بھی وہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ملی ہے۔اگر کوئی خواہش بغیر دعا کیے پوری ہو جائے، تب بھی ہمیں اسے اللہ تعالیٰ ہی کی رضا قرار دینا چاہیے۔
عزیزہ سعدیہ نوال نے سوال کیا کہ حضور استخارہ کرنے کا ٹھیک طریق کیا ہے؟ مثلاً اگر کوئی رشتہ آتا ہے تو کیا ہم اس پر غور کرنے سے پہلے استخارہ کریں یا پھر جب فیملیز وغیرہ مل لیں، تب استخارہ کریں۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛ جب تمہیں یا کسی لڑکی کو کوئی رشتہ آئے پہلے چھان بین کر لینی چاہیے کہ ظاہری طور پر لڑکا کیسا ہے، دینی معیار کیا ہے، برتاؤ کیسا ہے، اخلاق کیسے ہیں۔ اگر لڑکا اچھا ہے، فیملی اچھی ہے، تو پھر استخارہ کرو۔ اللہ تعالیٰ سے راہنمائی طلب کریں کہ اگر یہ لڑکا میرے لیے بہتر ہے تو اللہ تعالیٰ مدد کرے۔ استخارہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کوئی خواب دیکھیں گے یا اللہ تعالیٰ آپ کو الہام کے ذریعہ بتائے گا کہ یہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ استخارہ یہ ہے کہ اگر یہ بہتر ہے تو میرے ذہن کے خدشات اور خوف دور ہو جائیں اور اس رشتہ کو میرے لیے بابرکت بنادے اور اگر یہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو پھر اس رشتہ کو میرے سے دور کردے۔ پس یہ استخارہ ہے کہ آپ کے دل میں ایک تسلی پیدا ہو جاتی ہے۔ سو فیصد تو تسلی ہونا مشکل ہوتا ہے لیکن ۹۰ فیصد تک تسلی ہوجاتی ہے۔ اگر دلی تسلی ہو تو رشتہ قبول کرلینا چاہیے اور اگر تسلی نہیں تو انکار کردینا چاہیے۔
عزیزہ سائرہ بھٹی نے سوال کیا کہ حضور کیا فرشتے بھی انسانوں کی طرح محدود زندگی رکھتے ہیں یا پھر جب اللہ تعالیٰ نے فرشتے بنا دیے تو پھر ہمیشہ رہتے ہیں؟
فرمایا؛فرشتوں کی کوئی جسمانی شکل نہیں ہوتی۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مختلف نام دیے ہوئے ہیں،مثلاً جبرئیل علیہ السلام جو انبیاء پر نازل ہوتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یہ کبوتر یا فاختہ کی شکل میں نازل ہوئے، آنحضرتﷺ پر انسانی شکل میں لیکن اس کے باوجود ان کا کوئی جسمانی وجود نہیں ہوتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا مظہر ہیں۔ چونکہ ان کا کوئی جسم نہیں تو یہ پیدا ہونے اور فوت ہونے کےمحتاج نہیں ہوتے۔ تو ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی ہے، جتنا چاہے زندہ رکھے، جیسا کہ ہر چیز فنا ہونی ہے، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ فرشتوں کو کیسے ختم کرے گا۔ چونکہ ان کا جسمانی وجود نہیں ہے، اس لیے یہ انسانوں کی طرح فوت نہیں ہوتے۔
عزیزہ افشاں زہرا میاں نے سوال کیا کہ کیا احمدی واقفاتِ نو موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کو روکنے کے لیے کچھ کرسکتے ہیں؟
اس پر فرمایا؛آپ کو زیادہ درخت لگانے چاہئیں۔ پھر گاڑی انتہائی ضرورت پر استعمال کریں یہ نہیں کہ 100گز دور برگر کی دکان پر جانے کے لیے گاڑی نکال لیں۔ ماحول کو آلودہ نہ کریں، carbon emissions کم کریں اور اس کے لیے درخت لگائیں۔ ہر واقفاتِ نو کو سال میں کم از کم دس درخت لگانے چاہئیں، اس طرح ہم ہزاروں درخت لگا لیں گے اور اس سے بھی مد د ملے گی۔ اس کے علاوہ لوگوں میں آگاہی پیدا کرنی چاہیے اور لوگوں کو ان کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائیں۔ کوشش کریں کہ climate change اور greenhouse effect کے بڑے پروموٹر بن جائیں۔ تو اس طرح آپ اپنے ملک، اپنے علاقہ اور شہر کی مدد کرسکتے ہیں۔
عزیزہ ہبۃ الحئی مشکوٰۃ نے سوال کیا کہ کیا تمام موصی لازماً جنت میں جائیں گے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛ہمیں یہ امید کرنی چاہیے کہ یہ سب جنت میں جائیں کیونکہ انہوں نے اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دین پھیلانا چاہتا ہے اور نیک بھی ہے۔یہ نہیں کہ جو موصی ہو کر پانچ نمازیں بھی نہ پڑھتا ہو،لڑائی جھگڑے کرتا ہو، بری عادات ہوں، اخلاقی حالت ٹھیک نہ ہو اور پھر امید ہو کہ وہ لازماً جنت میں جائیگا، تو ایسا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی مذہب سے عقیدت رکھتا ہے، پنجوقتہ نماز کا التزام کرتا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد قائم کرتا ہے، اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں، اس کے دین کی ترویج کے لیے اتنی بڑی مالی قربانی کرتا ہے، تو جب یہ تمام خوبیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو وہ شخص بلاشبہ جنتی ہے۔ تمام باتیں دیکھی جاتی ہیں، تمام خوبیاں ہوں اور پھر زندگی بھر مالی قربانی اور وفات کے بعد ایک بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو پھر امیدکی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا اور جنت میں مقام دے گا۔
عزیزہ فاتحہ مسرور نے سوال کیا کہ میری بہن اور میں بڑی باقاعدگی سے مسجد جاتے ہیں۔ ہماری جماعت کافی بڑی ہے لیکن ہماری عمر کی لڑکیاں مسجد نہیں آتیں۔ تو پھر میں اور میری بہن کس طرح احمدی سہیلیاں بناسکتی ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا؛دیکھیں بچیوں پر تو پنجوقتہ نمازیں مسجد میں جا کر ادا کرنا فرض نہیں ہے۔ اگرآپ جاتی ہیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ صرف آپ جاتی ہوں گی اور بھی بچیاں ہوں گی جو کہ مسجد آتی ہوں گی۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کے استفسار پر اس بچی نے عرض کی کہ حضور بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔
اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا؛چلو پھر ان بڑی عمر کے لوگوں سے کہا کرو کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بھی لےکر آئیں۔ انہیں بھی پتہ چلے گا کہ آپ آتی ہیں اور وہ اپنے گھروں میں جا کر بیٹیوں کو بھی کہیں گے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک دو مرتبہ مسجد آجایا کریں۔ دوسرا مسجد کے علاوہ بھی دیکھ سکتی ہیں۔ اچھی لڑکیاں ہوتی ہیں، اپنے آس پاس پڑوس میں دیکھیں۔ اپنے اجلاسات اور میٹنگز میں بھی مل جائیں گی۔
واقفات نو کی یہ کلاس سات بجے اپنے اختتام کو پہنچی۔