حضورِ انور کے ساتھ واقفینِ نَو کی کلاس (مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ)
٭…اردو بولنی سیکھو، پڑھنی سیکھو تا کہ آپ حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی کتب اصل صورت میں پڑھ سکیں۔ ترجمہ تو اصل متن سے انصاف نہیں کرسکتا۔ اس طرح آپ سمجھ سکیں گے کہ حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے تھے
٭…روزانہ پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کریں۔ یہ وہ ایک چیز ہے، جس میں ہر ایک ممبر جماعت کو ٹارگٹ بنا لینا چاہیے کہ وہ روزانہ پانچ نمازیں ادا کریں گے۔ یہ نہیں کہ صرف نماز ادا ہو، بلکہ مکمل توجہ سے ادا کی جائے۔ جب آپ نمازیں پڑھیں گے تو پھر آپ اپنی ذمہ داری سمجھیں گے
٭…مختصر دورانیہ کے رضاکارانہ کام کرنا کافی نہیں ہے…آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ اپنے عہد کے مطابق جماعت کو اپنی خدمات پیش کردیں جیساکہ آپ کی ولادت سے قبل آپ نے والدین نے وعدہ کیا تھا
دورۂ امریکہ کے دوران مورخہ 12؍اکتوبر کو واقفینِ نَو نے مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ میں اپنے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ پروگرام کے مطابق سات بج کر دس منٹ پر واقفین نو کی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔ کلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم مصباح الدین صاحب نے کی اور اس کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا۔ تلاوت کا اردو ترجمہ عزیزم حافظ اسیداللہ ورک صاحب نے پیش کیا۔
اس کے بعد عزیزم صہیب ظفراعوان نے آنحضور ﷺ کی حدیث مبارکہ پیش کی اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ حدیث مبارکہ کا درج ذیل اردو ترجمہ عزیزم احمدنور بہادر نے پیش کیا۔
حضرت ابوعبس ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:۔
جس کے قدم خدا کی راہ میں غبارآلود ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ اسے دوزخ پر حرام کردے گا۔
(صحیح البخاری، کتاب الجمعہ)
اس کے بعد عزیزم سیدنواس احمد نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا:۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالی کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے، یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لیے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میراشوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔ پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکاہوں اور اس وقف کے لیے اللہ تعالی نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں، بلکہ تکلیف اور دکھ ہو گا، تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا۔ اس لیے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو نصیحت کروں اور یہ بات پہنچا دوں۔ آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یانہ سنے۔ اگر کوئی نجات چاہتاہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلبگار ہے، تو وہ اللہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں، اللہ ہی کے لیے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اس کی روح بول اُٹھے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنجب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا۔ خدامیں ہو کر نہیں مرتا، وہ نئی زندگی پانہیں سکتا۔‘‘
( ملفوظات، جلد اول، صفحہ 501 تا502)
اس اقتباس کا انگریزی ترجمہ عزیزم ماہر احمدوڑائچ نے پیش کیا۔اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام
خدمت دین کو اِک فضل الٰہی جانو
اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو
عزیزم عقیل احمداکبر نے خوش الحانی سے پیش کیا۔ اور اس نظم کا انگریزی ترجمہ عزیزم معیز احمد نے پیش کیا۔
بعد ازاں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا؛
اردو بولنی سیکھو، پڑھنی سیکھو۔ تا کہ آپ حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی کتب اصل صورت میں پڑھ سکیں۔ ترجمہ تو اصل متن سے انصاف نہیں کرسکتا۔ اس طرح آپ سمجھ سکیں گے کہ حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے تھے۔
حضورِ انور نے فرمایا؛پھر اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ جب تلاوت کررہے ہو تو اس کا مطلب بھی سمجھنے کی کوشش کرو۔ روزانہ قرآنِ کریم کا ایک رکوع ترجمہ کے ساتھ تلاوت کرو۔ لفظی ترجمہ بھی الاسلام ویب سائٹ پر موجود ہے۔ کچھ پارے تو ہیں، باقی بھی جلد آجائیں گے۔ پس ترجمہ قرآنِ کریم سیکھنے کی کوشش کرو تاکہ آپ کو سمجھ آئے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے کیا چاہتا ہے۔ کیا احکامات ہیں۔ مذہب پر عمل کرنے کی کیا ہدایات ہیں۔ ٹھیک ہے۔ بس یہ دوباتیں ہمیشہ یاد رکھو۔
نیز فرمایا؛پھر ایک اور ضروری چیز پنجوقتہ نمازیں ہیں۔ نمازوں کی ادائیگی کبھی بھی کسی صورت نہیں بھولنی۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ ہاتھ اٹھائیں، جنہوں نے پانچ نمازیں پڑھی ہیں۔ پھر فرمایا؛ پانچ نمازیں ہر ایک مسلمان پر فرض ہیں۔آپ سب کو پانچ نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔
بعد ازاں واقفینِ نو نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے سوالات کیے۔
عزیزم تیمور عبد اللہ نے سوال کیا کہ وہ کون سی ایسی چیز ہےجس میں یوایس اے جماعت کے ممبران کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بہتر ی کرنی چاہیے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛ روزانہ پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کریں۔ یہ وہ ایک چیز ہے، جس میں ہر ایک ممبر جماعت کو ٹارگٹ بنا لینا چاہیے کہ وہ روزانہ پانچ نمازیں ادا کریں گے۔ یہ نہیں کہ صرف نماز ادا ہو، بلکہ مکمل توجہ سے ادا کی جائے۔ جب آپ نمازیں پڑھیں گے تو پھر آپ اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے اور پھر آپ مذہب کے بارے میں مزید علم حاصل کریں گے اور اپنی ذمہ داریاں سمجھیں گے۔
عزیزم احتشام نجیب چودھری نے سوال کیا کہ خلافت سے قبل کس طرح حضور نے خلفیہ وقت سے قرب کا تعلق قائم رکھا۔ خاص کر جب کہ حضور اتنی دور غانا میں تھے اور پھر خلافت کے یوکے منتقل ہونے کے بعد حضور ایک عرصہ ربوہ میں رہے۔ حضور ہمیں امریکہ میں رہنے والوں کا کیا نصیحت فرمائیں گے کہ ہم بھی اسی طرح خلافت سے قرب حاصل کرسکیں۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛میری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی تھی، جس میں یہ سکھایا گیا تھا کہ خلافت کے بغیر کوئی زندگی نہیں، کوئی روحانی زندگی نہیں۔ جب میں وقف کرکے غانا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو باقاعدگی سے خطوط لکھتا تھا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو بھی اسی طرح خطوط لکھتا تھا۔ پھر میں اپنے لیے دعا بھی کرتا رہتا تھا کہ میں ہمیشہ خلافت کے قریب رہوں اور کبھی بھی ایسا کچھ نہ کروں کہ جس سے خلیفہ وقت کو تکلیف ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں، جن سے آپ خلافت سے تعلق مضبوط کرسکتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح سے زندہ تعلق قائم رکھیں اور پھر خلیفہ وقت کے لیے مسلسل دعائیں کرتے رہیں۔ اپنے لیے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایمان میں بڑھائے اور خلیفۃ المسیح سے تعلق میں ترقی اور مضبوطی عطا فرمائے۔
عزیزم قمر احمد خان نے سوال کرتے ہوئے سوال کیا کہ ا للہ تعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 120 میں فرماتا ہے کہ ’شیطان ان کو گمراہ کرے گا اور وہ اللہ کی تخلیق میں تغیر کریں گے۔‘
طبی میدان میں ترقی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہم اپنی شکل و شباہت بہتر کر سکتے ہیں، جیسا کہ کاسمیٹک سرجری، بوٹاکس اور مختلف ٹرانسپلانٹ وغیرہ کے ذریعہ۔ کیا یہ طریق قرآنِ کریم کی اس ہدایت کے خلاف ہیں؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛یہ علم اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے اور یہ علم انسان کی بہتری کے لیے ہے۔ یہ کوئی تبدیلی تو نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی بہتر بنانے کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دوسری قسم کی بھی تبدیلی یا تغیر کرو گے جو کہ تمہیں جہنم میں لے جائےگا اور اس سے معاشرے کا امن برباد ہو جائیگا۔ یہ کلوننگ ہے۔ کلوننگ منع ہے۔ اس کے ذریعہ آپ انسان کی تمام خصوصیات تبدیل کردیتے ہیں اور اسے جانور بنا دیتے ہیں اور اسی طرح کسی جانور کی شکل تبدیل کردیتے ہیں۔ یہ منع ہے۔ اس کے علاوہ تمام دیگر چیزیں انسان کی بہتری کے لیے ہیں اور یہ جائز ہیں۔
اس کے بعدعزیزم مصطفیٰ احمد ظفر اللہ نے سوال کیا کہ بعض اوقات ہم بطور وقفِ نو یہ خیال کرتے ہیں کہ مجلس خدام الاحمدیہ اور جماعت کے مختلف کام کررہے ہیں اور باقاعدہ وقف کرنا ضروری نہیں ہے۔ ہم اپنے آپ کو کیسے motivate کرسکتے ہیں؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ کیا آپ کے والدین نے ایک مختصر وقت کے لیے یہ قربانی دی تھی اور اپنے بچے کو وقف کیا تھا یا پھر مستقل خدمت کے لیے کیا تھا۔ آپ اس بات کا احساس کریں کہ آپ کے والدین نے آپ کی تمام زندگی احمدیت کی خدمت کے لیے پیش کی تھی۔ ایم ٹی اے، سیکیورٹی وغیرہ میں مختصر دورانیہ کے رضاکارانہ کام کرنا کافی نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے کہا ہے کہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچ کر آپ تجدیدِ عہد کریں کہ آپ اپنا وقفِ زندگی جاری رکھیں گے اور پھر ۲۱ سال کی عمر میں دوبارہ تجدیدِ عہد کریں۔ مرکز کو باقاعدہ اطلاع دیں کہ آپ کس فیلڈ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، کب تک تعلیم جاری رہے گی۔ مرکز سے پوچھیں کہ آیا جماعت کو میری خدمات کی ضرورت ہے یا پھر آپ اپنی فیلڈ میں جاب کریں اور تجربہ حاصل کریں۔ مرکز آپ کی اس بارے میں رہنمائی کردے گا۔ آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ اپنے عہد کے مطابق جماعت کو اپنی خدمات پیش کردیں جیساکہ آپ کی ولادت سے قبل آپ نے والدین نے وعدہ کیا تھا۔
عزیزم مدثر احمد صاحب نے سوال کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ہمارا مقدر لکھ دیا ہوا ہے تو پھر ہم اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے محنت کیوں کریں؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛آپ کی قسمت کا تو اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے، آپ کو تو علم نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اگر آپ اچھے کام کریں گے تو ان کا اچھا اجر پائیں گے اور اگر غلط کریں گے تو اس کی سزا پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی نہیں فرمایا کہ آپ اصلاحِ نفس نہیں کرسکتے، نہ ہی یہ فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ کہتے ہیں کہ ایک بڑا مجرم شخص تھا، اس نے ۹۹ قتل کئے ہوئے تھے۔ بالآخر اس کے ذہن میں آیا کہ اس نے اتنے گناہ کئے ہیں، وہ کبھی بھی معاف نہیں کیا جائیگا۔ کسی نے اس کو بتایا یا اس کے ذہن میں آیا کہ اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے۔ پس وہ کسی نیک شخص کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ میں اتنے جرم کرچکا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرسکتا ہے؟ اس پر اس بظاہر نیک شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس نے سوچا کہ جہاں ۹۹ قتل کئے ہیں، وہاں ایک اور سہی۔ چنانچہ اس نے اس شخص کو بھی قتل کردیا۔ پھر کسی نے اس کو بتایا کہ اس شخص نے جو تمہیں بتایا، وہ ٹھیک نہ تھا۔ تم فلاں جگہ جاؤ، وہاں جو شخص ہے، وہ تمہیں اس بارے میں صحیح رہنمائی دے گا۔ چنانچہ یہ مجرم شخص اس سے ملنے چلا گیا۔ لیکن راستے میں ہی فوت ہو گیا۔ جب وہ مرا تو جنت اور دوزخ کے فرشتے آگئے۔ جنت والا فرشتہ کہتا کہ یہ نیک ارادے سے سفر کررہا تھا اور راستے میں ہلاک ہو گیا ہے، اس لیے میں اسے جنت میں لےجانے کے لیے آیا ہوں جبکہ دوزخ والا فرشتہ کہنے لگا کہ یہ بڑا ظالم انسان ہے، یہ جہنم میں جائےگا۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ راستے ناپے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ جس شخص کے پاس وہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی امید کرتے ہوئے جارہا تھا اور جتنا فاصلہ وہ طے کرچکا تھا، وہ زیادہ تھا بنسبت اس فاصلہ کے جتنا کہ باقی تھا۔ چنانچہ وہ فرشتہ جو جنت سے آیا ہوا تھا، اسے جنت میں لے گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ قسمت جانتا ہے۔ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن غفورا ور رحیم بھی اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرسکتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں اور جس حد تک ہماری استطاعت ہے، ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ چاہے تو ہمارے گناہ بخش دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مقدر بھی تبدیل کرسکتا ہے۔ لیکن اگر ہم برے کام کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ سزا دے گا اور اگر ندامت پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں تو اللہ تعالیٰ یقیناً معاف کرسکتا ہے۔
عزیزم گلفام اشرف نے سوال کیا کہ کیا پاکستان میں حالیہ سیلاب احمدیوں پر مظالم کی سزا ہے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛یہ صرف احمدیوں پر مظالم کی وجہ سے نہیں، اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں۔ اب تو ان کے سیاستدانوں اور ملاں نے بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ ملک میں سیلاب اور قدرتی آفات، بدامنی اور سیاسی انتشار سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ لیکن اس بات کا ادراک نہیں کرنا چاہتے کہ یہ ان کے بُرے کاموں اور معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے کا نتیجہ ہے۔ میرے خیال میں احمدیوں پر مظالم اس کی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔
عزیزم فاتح احمد نون نے سوال کیا کہ بعض اوقات نماز وقت پر ادا کرنے میں سستی ہو جاتی ہے اور پھر ہم ارادہ کرتے ہیں کہ آئندہ سستی نہیں کریں گے۔ اس سستی کو کیسے ختم کرسکتے ہیں۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ جب آپ تھکے ہوں تو آپ کھانا کھانا بھول جائیں۔ تو جب آپ تھکے ہونے کے باوجود کھانا کھانا نہیں بھولتے، جسمانی غذا کو نہیں بھولتے تو نماز تو آپ کی روحانی غذا ہے۔ اگر آپ کا ایمان پختہ ہے اور آپ اللہ سے پیار کرتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کا فرض ہے، تو پھر آپ نماز پڑھیں گے۔ آپ کو نماز کی اہمیت معلوم ہے کہ اس سے انسان اپنے خالق کا قرب حاصل کرتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ سب کچھ عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے تو پھر آپ کو شکر بھی ادا کرنا چاہئے۔ اس کا ایک طریق یہ ہے کہ بغیر کسی سستی کے نماز وقت پر ادا کی جائے۔
ایک وقفِ نو اسماعیل احمد نے سوال کیا کہ حال ہی میں ملکہ الزبیتھ فوت ہوئی ہے اور حضور ِ انو رنے اس کی فیملی سے اظہارِ افسوس کیا ہے۔ ملک الزبیتھ کی وہ کون سی ایسی خصوصیت ہے جو حضورِ انور کو سب سے زیادہ پسند تھی اور مستقبل کے رہنماؤں کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛میں نے تو اس بارے میں سوچا نہیں۔ وہ ملک کی ملکہ تھی اور بطور برطانوی شہری میرا فرض تھا کہ میں اظہارِ افسوس کرتا۔ برطانوی سلطنت نے ہمیشہ سے تمام مذاہب کو آزادی دی ہے حتیٰ کہ colonialism کے دور میں بھی۔ برصغیر پاک و ہند میں عیسائی حکومت ہونے کے باوجود اور عیسائیت اور عیسائی پادریوں کو حکومتی سرپرستی حاصل ہونے کے باوجود مسلمانوں کو مکمل آزادی دی۔ اس سے قبل سکھ حکومت کے دوران مساجد ویران ہوتی تھیں اور عبادت کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ اس لیے حضرت اقدس مسیحِ موعودعلیہ السلام نے بھی ان کی تعریف کی۔ اگرچہ انہوں نے بعض غلط کام بھی کیے ہیں لیکن تمام مذاہب کو آزادی دینا ایک اچھا قدم تھا اور اسی وجہ سے تعریف کی۔ برطانوی حکومت کی وجہ سے مسلمان محفوظ رہے نہیں تو ختم ہوجاتے۔
عزیزم شایان اسلم نے سوال کیا کہ حضورِ انور شہر زائن، ڈیلس اور اب میری لینڈ تشریف لائے ہیں۔ اب تک حضور ِ انور کو کیا چیز بہت پسند آئی ہے اور کیا بہتر کیا جاسکتا ہے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛ہر جگہ بہترین ہے۔ جہاں بھی میں احمدیوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اچھے ہیں، ایمان میں مضبوط ہیں، خوش ہیں، نمازوں کے لیے آرہے ہیں، تو میں خوش ہوتا ہوں۔ کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ میں باہر تو کہیں نہیں گیا، صرف مسجد گیا ہوں اور احمدیوں سےملا ہوں۔ بس یہی میری خوشی ہے کہ آپ سب کے ایمان مضبوط ہیں اور خلافت سے مضبوط تعلق رکھتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ آپ اپنے ایمان اور خلافت سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کریں۔
عزیزم مرزا مامون احمد بیگ نے سوال کیا کہ حضور کی ایسے افراد کے لیے کیا راہنمائی و ہدایت ہے جو انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے وکیل بن رہے ہیں۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛’انصاف‘اور کوشش کریں کہ کامل عدل و انصاف کے بارے میں جو قرآنِ کریم نے ہدایات دی ہوئی ہیں، انہیں تلاش کریں۔ قرآنِ کریم کی کئی آیاتِ کریمہ ہیں، ان سے راہنمائی مل جائے گی، میں نے بھی کئی جگہ مختلف خطابات میں آیات بیان کی ہوئی ہیں، وہاں سےمل جائیں گی۔ تو اگر کامل انصاف قائم کرسکیں یا اس کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں تو اس سے بہتر انسانی خدمت کیاہو سکتی ہے۔
عزیزم فاران سمیع جدران نے سوال کیا کہ حضور کی رائے میں کیا یوایس اے میں رہنے والے افراد کے لیے حج و عمرہ کرنا محفوظ ہے؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛بالکل۔ آپ کرسکتے ہیں۔ کسی کے پاسپورٹ پر نہیں لکھا کہ وہ احمدی ہے۔ بعض احمدی ایسے بھی ہیں جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہیں اور ان پر احمدی لکھا ہوا ہے، اس کے باوجود وہ حج و عمرہ کے لیے جاتے ہیں۔ اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو جاسکتے ہیں۔
عزیزم فہد میاں نے سوال کیا کہ حضور جب دورہ پر کسی ملک تشریف لاتے ہیں تو اس ملک کے ہر احمدی اور ان کی فیملیز کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حضور انور سے شرفِ ملاقات حاصل کرسکیں۔لیکن بہت کم لوگ یہ سعادت حاصل کرپاتے ہیں۔ ان احمدیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے حضور کیا کہیں گے جو ملاقات کا شرف حاصل نہیں کرسکے۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛بہت سے احمدی ہیں، صرف یہاں یوایس اے میں نہیں بلکہ دیگر جگہوں پر بھی ہیں، پاکستان میں بھی ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں احمدی ہیں، انڈیا میں افریقہ میں۔ تو خلیفہ وقت تو ہر ایک کوجا کر نہیں مل سکتا۔ اب تو اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے ہر ایک احمدی ایم ٹی اے کے ذریعہ خلیفہ وقت سے رابطہ میں ہے۔ ہر جمعہ آپ خلیفۃ المسیح کا خطبہ سن سکتے ہیں۔ پس اگر آپ کا خلافت سے پختہ تعلق ہے تو آپ خطبہ سنیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح آپ اللہ تعالیٰ کو خوش کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ خلافت سے اپنا تعلق مضبوط کرسکتے ہیں۔ صرف فیملیز کے ساتھ ملاقات کرنا آپ کا مقصد نہ ہو۔ اصل چیز یہ ہے کہ اپنا ایمان بڑھانے کی کوشش کریں اور خلافت سے تعلق مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔
عزیزم اوصاف احمد تفہیم نے عرض کیا کہ میں ۱۲ سال کا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب حضور میری عمر کے تھے تو حضور کو کون سا کھیل پسند تھا اور کون سا مضمون پسند تھا؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ تاہم میں کھیل میں اچھا نہیں تھا۔ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ حقیقت سننا چاہتے ہیں تو مجھے کبھی کوئی مضمون پسند نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مدد کی۔ میں بس ایک اوسط درجہ کا طالبِ علم تھا۔
فرمایا؛لیکن آپ کو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو محنت کرنی چاہیے۔ آپ وقفِ نو ہیں۔ آپ کیا بننا چاہتے ہیں۔
اس پر اوصاف نے عرض کی کہ میں انجینئر بننا چاہتا ہوں۔ اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا بس اگر انجینئر بننا چاہتے ہو تو محنت کرو۔
عزیزم احتشام عباسی صاحب نے عرض کیا کہ کالج جانے والے طلباء تعلیم کے ساتھ ساتھ جماعتی کاموں میں توازن کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛آپ پانچ دن کالج جاتے ہیں اور ویک اینڈ پر دو دن فارغ ہوتے ہیں۔ اگر آپ ویک اینڈ پر وقت ادھر اُدھر ضائع نہ کریں اور کمپیوٹر وغیرہ پر لغو چیزیں نہ دیکھیں تو آپ وہی وقت جماعت کو دے سکتے ہیں۔ پہلی بات ہے کہ خدام الاحمدیہ سے کہیں کہ آپ کو کچھ کام دیں۔ پھر ٹارگٹ رکھیں کہ ویک اینڈ پر چار سے پانچ گھنٹہ دینی تعلیم پر دیں۔ اپنا دینی علم بڑھائیں۔ یہ آپ کو مستقبل میں جماعت کی خدمت کرنے میں مدد دے گا۔ ساتھ ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ سے کہیں کہ وہ کوئی ڈیوٹی دینا چاہتے ہیں تو دیں۔
عزیزم محمد احمد سید طاہر نے سوال کیا کہ جماعت کی حالیہ ضروریات کے پیشِ نظر حضور ہمیں ہائی سکول کے بعد کس فیلڈ میں جانے کا مشورہ دیں گے۔
اس پر فرمایا؛آپ کی دلچسپی کس میں ہے۔ موصوف نے عرض کیا کہ کمپیوٹر سائنس ٹیکنالوجی میں دلچسپی ہے۔
اس پر فرمایا؛ٹھیک ہے۔ مرکز کو بتائیں کہ یہ آپ کی دلچسپی ہے اور آپ تعلیم مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو مرکز کی طرف سے راہنمائی مل جائےگی۔ فی الوقت آپ کو جس بھی مضمون میں دلچسپی ہے، اس میں دلجمعی سے تعلیم حاصل کریں۔
عزیزم عبدا لودود بھٹی نے سوال کیا کہ ایسے واقفینِ نو جو اپنی تعلیم مکمل کرچکے ہیں اوراپنی فیلڈ میں جاب حاصل نہیں کرسکے، وہ دیگر فیلڈز میں چلے جائیں یا پھر اپنی ہی فیلڈ میں کوشش کرتے رہیں؟
اس پر حضورِ انور نے فرمایا؛ بطور وقفِ نو تعلیم مکمل کرنے کے بعد سب سے پہلے آپ مرکز سے راہنمائی لیں۔ بتائیں کہ آپ نے تعلیم مکمل کرلی ہے اور پوچھیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ کیا جماعت چاہتی ہے کہ آپ کو امپلائی کرے یا پھر اپنی فیلڈ میں تجربہ حاصل کریں۔ مرکز راہنمائی کرے گا۔ لیکن اس دوران وقت ضائع کرنے کی بجائے کوئی نہ کوئی کام کریں، چاہے کوئی چھوٹا ہی کام کیوں نہ ہو۔ اگرا ٓپ کی فیلڈ میں کام نہیں مل رہا اور اس کی بجائے کوئی اور چھوٹا موٹا کام مل رہا ہو تو وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ کام کیا جائے۔ مصروف رہنا بہتر ہے اور مرکز سے بھی راہنمائی لیتے رہیں۔
واقفین نو کی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ کلاس آٹھ بج کر تین منٹ پر ختم ہوئی۔
٭…٭…٭