جلسہ سالانہ کا مقصد: دینی، روحانی اور اخلاقی ترقی کا حصول (جلسہ سالانہ قادیان ۲۲ء کے اختتامی اجلاس سے حضورِ انور کا بصیرت افروز خطاب)
٭…قادیان دار الامان کے ۱۲۷ویں جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب
٭…آٹھ افریقی ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ کے اجلاسات، نیز چھ ممالک سے براہ راست تصویری مناظر کی ٹیلی کاسٹ
٭… سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے کی دوسری شرط بیعت کی ارشاداتِ ربّانی، احادیثِ مبارکہ اور
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی نصائح کی روشنی میں پُر معارف تشریح
(اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے، ۲۵؍دسمبر ۲۰۲۲ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) جماعت احمدیہ مسلمہ بھارت کا ۱۲۷واں جلسہ سالانہ بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس بستی قادیان دارالامان میں ۲۳، ۲۴ و ۲۵؍دسمبر ۲۰۲۲ء کو اپنی تمام ترعظیم الشان روایات کے ساتھ بخیروخوبی منعقد ہوا جس میں۳۷ ممالک سےساڑھے چودہ ہزار کے قریب افراد نے شمولیت کی سعادت پائی۔
یاد رہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے۱۸۹۱ء میں اذن الٰہی سےجلسہ سالانہ کی بنیاد قادیان دارالامان کی بستی میں رکھی جہاں مسجد اقصیٰ میں پہلا جلسہ منعقد ہوا۔ بعد ازاں ۱۹۴۸ء میں خلافتِ احمدیہ کے یہاں سے ہجرت کر جانے تک قادیان کے جلسہ ہائےسالانہ کو خلفائے کرام کی بنفس نفیس موجودگی کے باعث مرکزی حیثیت حاصل رہی۔
خلافت احمدیہ کی ولولہ انگیز قیادت میں جماعت احمدیہ روز بروز ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے۔ جماعت کو جمع کرنے کا ایک سنگِ میل تب طے ہوا جب فاصلوں کی دوریوں کے باوجود ایم ٹی اے کے توسط سے خلفائے کرام کا جلسہ سالانہ قادیان کے اختتامی اجلاس سے براہ راست مخاطب ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر خدا تعالیٰ کے افضال کے نتیجے میں وہ دَور آیا کہ باہمی رابطہ دو طرفہ ہونے کے باعث قادیان دارالامان کے براہِ راست مناظر بھی ٹیلی کاسٹ ہونے لگے۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے ایک اور سنگ میل اس صورت میں جماعت کو عنایت فرمایا جس کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍دسمبر۲۰۲۲ء میں فرمایا۔ چنانچہ جلسہ سالانہ قادیان کے علاوہ چھ افریقن ممالک نائیجیریا،آئیوری کوسٹ،گنی بساؤ،ٹوگو، برکینا فاسو اورمالی اس جلسے میں شامل تھے اور وہاں سے براہ راست تصویری مناظر بھی دکھائے گئے جبکہ زمبابوے اورگنی کناکری بھی جلسہ سالانہ قادیان کے اختتامی اجلاس میں شامل تھے۔ لا ریب یہ خلافت احمدیہ کی برکات کا ہی ثمرہ ہے اور امت مسلمہ کو امت واحدہ بنانے کی ایک کڑی ہے جسے ہم آج کے اختتامی اجلاس میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت صدارت میں ایوان مسرور، اسلام آباد سے ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ اس جلسہ کی اختتامی کارروائی تمام عالم میں براہ راست نشر ہوئی۔
اختتامی اجلاس کی کارروائی کے لیے حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دس بج کر اکتیس منٹ پر ایوان مسرور، اسلام آباد میں رونق افروز ہوئے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام شاملین کو ’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘ کا تحفہ پیش فرمایا۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا جس کی سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کو ملی۔ آپ نے سورۃ البقرۃ آیات۲۸۵تا۲۸۷کی تلاوت اور تفسیر صغیر سے ان کا ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں ناصر علی عثمان صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام بعنوان ’’مناجات اور تبلیغ حق‘‘ میں سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کیے جن کا آغاز اس شعر سے ہوا:
اَے خدا اَے کارساز و عیب پوش و کردگار
اَے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار
دس بج کر۵۱منٹ پر قادیان دار الامان سے بلند کیے جانے والے فلک شگاف نعروں کی گونج میں امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ منبر پر رونق افروز ہوئے اور ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘کا تحفہ عنایت فرما کر اپنے خطاب کا آغاز فرمایا۔
خطاب حضورِ انور
تشہد، تعوذ اور سورت فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ قادیان کا آخری دن ہے۔اسی طرح بہت سے افریقی ممالک بشمول نائیجیریا،آئیوری کوسٹ، گنی بساؤ، گنی کناکری، ٹوگو، بورکینا فاسو،مالی اورزمبابوے میں بھی ان دنوں میں جلسہ ہورہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعے ہمیں ایک دوسرے کو دیکھنے اور سننے کی بھی توفیق دی ہے۔ایک ہی وقت میں تمام ممالک میری باتیں دیکھ اور سن رہے ہیں اسی طرح ہم انہیں دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعودؑ سےاپنے وعدےکو پورا کرنے کا اظہار ہے۔
وہ جلسہ جو آج سے ۱۳۰سال پہلے ہوا، جس کا حضورؑنے باقاعدہ اعلان فرمایا تھا۔ گوکہ ۱۸۹۱ء میں بھی جلسہ ہوا تھالیکن وہ ایک دن کا تھا اور حضورؑ کی تازہ تصنیف ’آسمانی فیصلہ‘حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے پڑھ کر سنائی تھی۔ جماعتی تاریخ میں ۱۸۹۱ء کے جلسےکو ہی پہلا جلسہ سالانہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن باقاعدہ تاریخیں مقرر کرکے اشتہار دےکر جس جلسے کا انعقاد ہوا وہ میرے نزدیک ۱۸۹۲ء کا جلسہ تھا۔
آپؑ نےاس جلسے کا مقصد دینی،روحانی اور اخلاقی تربیت بیان فرمایااوراس پر بہت شدت سےزور دیا، یہی مقصد ہے جس کے حصول کے لیے ہر ملک میں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے جلسہ منعقد ہوتا ہے۔ ۱۸۹۱ء کے مختصر جلسے میں۷۵؍افراد تھے جبکہ ۱۸۹۲ء کے باقاعدہ جلسے میں ۳۲۷افراد شامل ہوئے۔ جبکہ آج اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اس قدر ہےکہ ہرملک میں ہزاروں کی تعداد میں شاملین موجود ہیں۔کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور اس کے وعدوں کا ثبوت نہیں؟ یہی ایک بات حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کو ظاہر کرنے کےلیےکافی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں پر ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔اس کے لیے ہمیں اپنے عہدوں اور وعدوں کو نبھانا ہوگا۔
دوسری شرط بیعت
بہرحال مَیں ابھی بعض ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں گا اور دوسری شرطِ بیعت سے متعلق بعض باتیں کروں گا، جو یہ ہےکہ ’’بیعت کنندہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہرایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساداوربغاوت کے طریقوں سے بچتا رہےگا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔‘‘ اس شرط میں آپؑ نے ۹؍برائیوں سے بچنے کا ذکر فرمایا ہے۔
جھوٹ سے بچنا
جھوٹ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کہنےسے بچو۔ حضرت مسیح موعودؑ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم جھوٹ نہ بولو کہ جھوٹ بھی ایک حصّہ شرک ہے۔ فرمایا: قرآن کریم نے دروغ گوئی کو بت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ہرگز کسی جھوٹے اور سخت ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا۔ آنحضرتﷺ نے سب سے بڑےگناہ گنواتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کا شریک بنانااور والدین سے قطع تعلقی کرنا۔ پھر فرمایا جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔یہ بات آپؐ نےباربار بڑے جوش کے ساتھ فرمائی۔ ایک اور روایت میں آپؐ نے فرمایا: کہ یقیناً سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی یقیناً جنّت کی طرف لے جاتی ہے۔منافق کی تین علامات گنواتے ہوئے حضورِاکرمﷺ نےفرمایاکہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تووعدہ خلافی کرتا ہے، جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔اس روایت میں جھوٹ کی ہی تین مختلف حالتیں بیان ہوئی ہیں۔
جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔ عام طور پر دنیادار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں مگر مَیں کیوں اس کو باور کروں۔ مجھ پر سات مقدمےہوئے ہیں اور کسی ایک میں بھی مجھے جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائےکہ کسی ایک میں بھی خداتعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔
اللہ تعالیٰ کے علم میں ہمارے اعمال کی فہرست ہے، ہمیشہ خدا تعالیٰ کےحضور استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ آج کل کے معاشرے میں قدم قدم پر ہمیں جھوٹ نظر آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تھوڑی بہت غلط بیانی کوئی گناہ نہیں، بڑی بات نہیں، لیکن یہی باتیں بڑی ہیں۔ ہر احمدی کو اپنی سچائی کے معیار اونچے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ معیار اونچے کر لیں تو کئی مسائل حل ہو جائیں۔ ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت خدا کی بادشاہت قائم کرنے کے لیے کی ہے۔ اگر ہم نے جھوٹ کا سہارا لے لیا تو ہم خدا کے بجائے شیطان کی حکومت قائم کرنے والے ہوں گے اس لیے بہت غور و فکر کی ضرورت ہے۔
زنا سے بچنا
دوسری شرط بیعت میں دوسری بات زنا سے بچنا ہے۔ آج کے دور میں میڈیا نے اس کی تمام حدیں توڑ دی ہیں، ان حالات میں ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ گندی فلمیں اور دل میں گندے خیالات پیدا کرنا بھی زنا کی قسمیں ہیں۔ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ آج کل میڈیا میں بچوں کے پروگرامز میں بھی ان کے ذہن کو زہر آلود کیا جا رہا ہےاوربے حیائی اور فحشاء کی طرف لے جایا جاتا ہے۔
آخرت کے عذاب کے اوراس کی شدت کے متعلق توخدا تعالیٰ جانتا ہےلیکن جو ان غلاظتوں میں پڑتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی مختلف بیماریوں میں پڑتے ہیں۔ ہم نے اس برائی سےخود کو بھی، اپنی نسلوں کو بھی اور دوسروں کو بھی بچا نا ہے۔ یہ برائی پھیلانا دہریت پھیلانے کا ذریعہ ہے جو خدا سے دور لے جاتے ہیں۔
حضورِانور نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم جو یہاں رہتے ہیں ہمیں بہت فکر سے کوشش کرنی چاہیے۔ بلکہ اب تو میڈیا نے ہر ملک میں بے حیائی کو عام کر دیا ہے۔
بد نظری سے بچنا
حضرت مسیح موعودؑ نے بد نظری سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورة النور آیت 32 مع ترجمہ اور پھر حضرت مسیح موعودؑ کی اس آیت کے حوالے سے بیان فرمودہ تفسیر پیش کی۔آپؑ فرماتے ہیں کہ دل پاک نہیں ہو سکتا جب تک کہ آنکھ پاک نہ ہو۔
حضور انور نے فرمایا کہ اسلام نے نظروں کو نیچارکھنے کا حکم مردو عورت دونوں کو دیا ہے، اور حیا کے اس معیار کو قائم فرمایا ہے کہ برائی کا امکان ہی باقی نہ رہے۔اسی طرح ایک پاکیزہ معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ اس حکم کی وسعت صرف ظاہری طورپر دیکھنے تک ہی نہیں۔ آج کل میڈیا، کمپیوٹر، ٹی وی پر غلط اور ننگے پروگرام آتے ہیں جس حوالے سے احتیاط کرنی چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت ام سلمیٰؓ کو ایک نابینا سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اس میں ان لوگوں کا بھی جواب ہے جو بسا اوقات یہ کہہ دیتے ہیں کہ جماعت میں پردہ کے متعلق زیادہ سختی کرتے ہیں۔
فسق و فجور سے بچنا
اگلی برائی فسق و فجور کے متعلق حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآن کریم میں فسق و فجور کرنے والوں کے متعلق سخت ارشاد ہےجو بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہمیشہ استغفار کرنا چاہیے کیونکہ آج کل فسق پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔
فاسق کے متعلق قرآن کریم میں آگ کے عذاب کا انذار ہے۔ فسق و فجور سے پاک ہونے سے متعلق حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ انسان کا خود فسق کی زندگی گزارنا اور صالح اولاد کی خواہش کرنا اس کے لیے شرک کے مترادف ہے۔
ظلم نہ کرنا
اس شرطِ بیعت میں بیان کردہ اگلی بات ظلم نہ کرنا ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ظلم کرنے والوں کو دردناک دن کے عذاب میں ہلاکت سے ڈرایا ہے جبکہ جو ظلم نہیں کرتے ان سے امن کا وعدہ ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ ظلم و تعدّی کرنے والوں کا کیا انجام ہوگا؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جو غریب ہوگا جس کے پاس دولت نہ ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ پیش ہوگا لیکن اگر کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر بہتان لگایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو اُس مظلوم کو اُس کی کوئی نیکی دی جائے گی اور کسی سے اُس کی خطائیں لی جائیں گی اور اُس پر ڈال دی جائیں گی اور پھر اُسے آگ میں پھینک دیا جائےگا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ سب اُس کے ظلم کے بدلے ضائع ہوجائیں گی۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے درمیان کوئی روک نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ کسی پر ظلم نہ کرو۔ کسی کو گالی مت دو خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے۔ تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لیے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے۔ پس یہ ہیں وہ باتیں اور بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہمیں اپنے روز مرّہ کے معاملات میں ان سے بچنا چاہیے۔
خیانت نہ کرنا
پھر خیانت کرنے والوں کے انجام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی طرح بحث نہ کر جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پس ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم بیعت کا حق ادا کررہے ہیں۔ کہیں اس میں خیانت تو نہیں کررہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے خیانت سے، جھوٹ سے پرہیز نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے کیے گئے عہدوں کو پورا کریں۔ ایک عہد بیعت بھی ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ذریعےہم نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے۔ پس ہمیں اپنے عہد بیعت کو پورا کرنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ یہ وہ روحانی خوبصورتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ماننے والوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
فساد و بغاوت سے بچنا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بغاوت کو پھیلانا قتل سے بڑھ کر ہے۔ اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو بُرا نہ کہتے پھرو بلکہ اپنی اصلاح کرو۔ خدا اُس کو بدل دے گا یا ہلاک کردے گا۔ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے۔ میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو۔ خدا کے حقوق اور بندوں کے حقوق تلف نہ کرو۔ پس ہمیں اپنےجائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے نمونے ایسے ہیں۔ ہر احمدی کو شرائط بیعت پر غور کرتے رہنا چاہیے تبھی ہم اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور نے فرمایا کہ جلسہ سالانہ کے شاملین یا وہ سننے والے جو دنیا میں مختلف جگہوں پر ایم ٹی اے کے ذریعے سن رہے ہیں یہی ہم سب کے لیے ایک لائحہ عمل ہے۔
لجنہ اماء اللہ کے سو سال مکمل ہونے پر پیغام
حضور انور نے فرمایا کہ لجنہ کی تنظیم کو بنے ہوئے بھی سو سال ہوگئے ہیں۔ لجنہ یہ جائزہ لیں کہ ان سو سال میں کس حد تک اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کی ہے۔ کس حد تک اپنے بچوں اور اپنی نسل کو بیعت کا حق اداکرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےدعویٰ سے جوڑنے والا بنایا ہے۔ اگر تو اس طرح اپنی نسلوں کی تربیت کی ہے تو پھر لجنات اللہ تعالیٰ کی شکر گزار بندیاں ہیں لیکن جہاں کمیاں رہ گئی ہیں وہاں ایک عزم کے ساتھ یہ عہد کریں کہ نئی صدی میں ہم اپنی نسلوں کو عہدبیعت کا حق ادا کرنے والا بنائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور نے فرمایا کہ جلسے میں شامل ہونے والا ہر احمدی یہ عہد کرے کہ ہم نے اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے۔ عہدبیعت کو نبھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حاضری
حضور انور نے فرمایا کہ قادیان کے جلسے میں ساڑھے چودہ ہزار کی حاضری ہے اور ۳۷؍ ممالک کی نمائندگی ہورہی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام شاملین کو جلسے سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۱بج کر ۴۹ منٹ پر اجتماعی دعا کروائی۔ دعا کے بعد قادیان دارالامان سے مختلف گروپس کی صورت میں مرد و خواتین نے اردو اور عربی زبان میں ترانے پیش کیے۔
بعد ازاں حضور انور نے برطانیہ میں اسلام آباد نیز بعض دیگر مقامات کی حاضری بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام آباد میں۱۴۰۶؍حاضری ہے جبکہ مسجد فضل لندن میں چار صد افراد اور مسجد بیت الفتوح میں ۱۲ صد افراد جلسہ سالانہ قادیان کے اختتامی اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
اس کے بعد حضور انور ۱۲ بج کر ۱۰ منٹ پر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کا تحفہ عنایت فرما کر ایوان مسرور سے نکلے اور مسجد مبارک کے داخلی دروازے پر کچھ دیر رونق افروز رہنے کے بعد احاطہ خاص کے اندر سے ہوتے ہوئے مزار حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے سامنے لگائی گئی لجنہ مارکی کے سامنے تشریف لے گئے جہاں خواتین اور بچیوں نے ہاتھ ہلاتے ہوئے اور پُرجوش نعروں کے ساتھ اپنے پیارے امام کا استقبال کیا۔ بعد ازاں حضورِ انور مردانہ مارکی کے سامنے سے ہوتے ہوئے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے راستے اپنے دفتر میں تشریف لے گئے۔
٭…٭…٭