مومن کا فرض ہے کہ نئے سال میں گزشتہ سال سے زیادہ قربانیاں کرے
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۰۲؍جنوری۱۹۴۲ء)
۱۹۴۲ء کے آغاز میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی للہ عنہ نے سال کے پہلے خطبہ جمعہ میں افراد جماعت کو گذشتہ سال کے مقابلہ میں اس سال نیکیوں میں زیادہ بڑھنے کی طرف توجہ دلائی۔چنانچہ حضورؓ نے سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر۵ وَلَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی کی نہایت لطیف تشریح و تفسیر بیان کی اور اس آیت کی رو سے مومنین کی تعریف بیان فرمائی۔ سال نو کی مناسبت سے اس خطبہ جمعہ کے بعض حصے اس دعا کے ساتھ ہدیہ قارئین ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیا سال ہر لحاظ سے مبارک کرے اور حضورؓ کی ان نصائح پر عمل کرنے والا بنائے۔(ادارہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
…ہر سال جو مومن کے لئے آتا ہے۔ وہ اس کے لئے نئی برکات لاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی(الضحیٰ:5)جس کے معنے یہ ہیں کہ تیری ہر اگلی گھڑی پہلی گھڑی سے اچھی ہے۔
مومن اسے کہتے ہیں
جو محمد رسول اللہ ﷺ کا سچا متبع ہو اور آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنے والا ہو اور جو آپؐ کا سچا متبع ہو گا اور آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنے والا ہو گا۔ یہ لازمی بات ہے کہ اس کے درجہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی اس سے ایسا ہی ہو گا جیسا محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ۔ پس
ہر مومن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک
وہی ہونا چاہئے جو قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کے متعلق بیان کیا ہے یعنی وَلَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی۔اس کی بعد میں آنے والی حالت پہلی حالت سے اچھی ہو۔ بعض لوگ دنیا میں ہمیشہ نیا سال آنے پر اس کے بہتر ہونے کی امیدیں دوسروں کو دلاتے ہیں۔ مَیں ہمیشہ اس پر حیران ہؤا کرتا ہوں۔
اخباروں والے
جب بھی نیا سال شروع ہوتا ہے۔ اپنے خریداروں کو دھوکا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پچھلے سال میں بعض کوتاہیاں ہوئیں۔ بعض مشکلات درپیش تھیں۔ مگر اب ایسا نہ ہو گا۔ نئے سال میں کوئی کوتاہی نہ کی جائے گی لیکن اس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ گزشتہ سال تو ہم نے خوب غداری کی۔ ہمارے مضمون ردّی تھے۔ کاغذ ناقص لگایا جاتا رہا اور اس طرح ہم نے گاہکوں کے پیسے کھائے لیکن اپنے گاہکوں سے تحریک کرتے ہیں کہ تم ایک سال کے لئے اَور اپنے آپ کو احمق اور کودن بناؤ۔ وہ بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں کہ نئے سال کے لئے بہت اچھا انتظام کر دیا گیا ہے لیکن وہ
پچھلے سال سے بھی بدتر
ثابت ہوتا ہے۔ اور وہ اٰخِرَةٌ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کے بجائے شَرٌّ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی ثابت ہوتا ہے۔ اس سال وہ پہلے سے بھی زیادہ ناغے کرتے ہیں۔ پہلے سے بھی زیادہ ردّی مضامین چھاپتے ہیں اورپہلے سے بھی زیادہ ناقص کاغذ لگاتے ہیں لیکن جب وہ سال بھی گزر جاتا ہے تو پھر اپیلیں شروع کر دیتےہیں کہ جو ہو چکا سو ہو چکا۔ گزشتہ را صلوٰة۔ جو غلطیاں گزشتہ سال ہوئیں وہ اب نہ ہوں گی۔ اور آپ لوگ اس سال ضرور خریدار بنے رہیں۔ گویا وہ اپنے گاہکوں سے یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگ ایک سال کے لئے اَور بیوقوف بننا پسند کریں۔ یہ اخبار نویس ہمیشہ جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں۔
سوائے دینی اخباروں کے
یا بڑے بڑے دنیوی اخباروں کے جو اس الزام سے بری ہیں۔ نیز یہ ہندوستان کے اخبار نویسوں کی حالت ہے۔ ورنہ یورپ کے اخبار نویس ایسے نہیں ہوتے۔ بے شک اب ہندوستان میں بھی بہت سے اخبار ٹھیک ہو رہے ہیں لیکن ایک کافی حصہ ابھی تک ایسا ہی ہے۔ ان اخبار نویسوں کے علاوہ ایک طبقہ اَور ہے جو یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ گزشتہ سال ان کے لئے اچھا گزرا یا برا گزرا اور
آئندہ سال کیسا ہو گا
وہ ہمیشہ دُبدھا اور شک کی حالت میں رہتے ہیں۔ وہ جانتے نہیں کہ پچھلا سال کیسا گزرا اور آئندہ کیسا گزرے گا۔ مگر دیکھو
مومن کی حالت
کیسے اطمینان کی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے لئے ایک قانون مقرر فرما دیا کہ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىکہ ہر دن پہلے دن سے اور ہر سال پہلے سال سے بہتر ہو گا۔ پس جو شخص آپؐ کی اتباع کرنے والا اور آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنے والا ہو گا۔ یہ قانون اس پر بھی حاوی ہو گا۔ اور اس کے لئے ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے اور ہر آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے اچھا ہو گا۔ دنیا کے لوگ جب کوئی سال گزرتا ہے تو اس پر لعنتیں کرتے ہیں اور نئے سال کے آنے سے گھبراتے ہیں۔ گزشتہ سال پر لعنتیں ڈالتے ہیں کہ وہ کیسی مشکلات اور مصائب کا سال تھا اورنئے سال سے گھبراتے ہیں کہ معلوم نہیں کیسا ہو۔ لیکن مومن پچھلےسال پر بھی خوش ہوتا ہے کہ یہ اس کے رب کی طرف سے تھا اور آئندہ پر بھی مطمئن ہوتا ہے کہ یہ بھی اس کے رب کی طرف سے ہے اوراس کے رب کا وعدہ ہے کہ وہ پچھلے سے اچھا ہو گا۔ مگر
ایک بات یاد رکھنی چاہئے
کہ جہاں اللہ تعالیٰ کایہ وعدہ ہے کہ اگلا سال پچھلے سال سے اچھا ہو گا۔ وہاں مومن کا بھی فرض ہے کہ وہ نئے سال میں پچھلے سے زیادہ قربانیاں کرے کیونکہ اگر یہ سچ ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے سچے متبع ہیں تو یہ بھی سچ ہے کہ ہمارا اگلا سال ضرور پچھلے سے بہتر ہو گا اور اگر یہ سچ ہے کہ ہمارا اگلا سال پچھلے سے بہتر ہوگا تو اس میں شبہ نہیں کہ ہمیں شکربھی پہلے سے زیادہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ شکر ہمیشہ نعمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر نعمت کم ہے تو ماننا پڑے گا کہ اس سال محمد رسول اللہ ﷺ کے سچے متبع نہیں رہے اور اگر رہے ہیں تو نعمت زیادہ ہونی چاہئے اور نعمت زیادہ ہو تو شکر بھی زیادہ لازم ہے اور قربانیاں بھی
گزشتہ سال سے زیادہ کرنی ضروری ہیں۔ہو سکتا ہے کہ کسی سال کسی پر ظاہری مشکلات اور تکالیف
زیادہ ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی سال اس کا بیماری میں گزرا ہو اور اس سے پہلا نہ گزرا ہو۔ کوئی سال مالی مشکلات میں گزرا ہو لیکن اس سے پہلا مالی لحاظ سے اس کے لئے اچھا ہو۔ مگر قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ اگلی حالت پچھلی سے اچھی ہو گی ان ظاہری مشکلات کا اس سے تعلق نہیں۔ یہ اس زندگی کے متعلق وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور ہے۔ اس سے مراد یہ چند سالہ زندگی نہیں بلکہ وہ ہے جو لاکھوں کروڑوں بلکہ اَن گنت سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اگر مومن کے لئے پہلے سال جنت میں ادنیٰ سامان جمع کئے گئے تھے اور اگلے سال اس سے بہتر جمع ہوں تو یہ وَلَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰیہو گا یا نہیں۔
دراصل یہ دونوں زندگیاں مل کر ایک زندگی
بنتی ہے۔ جو لوگ اسی دنیا کی زندگی کو زندگی سمجھ لیتے ہیں وہ بھی ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور جو آخرت کی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھ لیتے ہیں وہ بھی ٹھوکر کھاتے ہیں۔ جو لوگ اس دنیا کو اصل زندگی سمجھ لیتے ہیں وہ اس دنیا کی مشکلات اور ابتلاؤں کو دیکھ کر خیال کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان کےساتھ اچھا نہیں۔ اور جو لوگ اگلی زندگی کو ہی زندگی سمجھتے ہیں وہ اس دنیا میں سچائی کو معلوم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ اس زندگی پر اگلی دنیا کو قیاس نہیں کرتے بلکہ دونوں کو الگ الگ سمجھتے ہیں۔ چاہئے یہ کہ اس زندگی پر اگلی زندگی کا قیاس کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہمَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی(بنی اسرائیل:73)یعنی جو اس زندگی میں اندھا ہو گا وہ اگلی زندگی میں بھی اندھا ہو گا۔ اور اگر اس زندگی میں بینائی حاصل ہو گی تو اگلی میں بھی ہو گی۔ جو لوگ اس زندگی کو لغو اور کھیل سمجھتے ہیں اور اگلی زندگی کو ہی صرف زندگی سمجھتے ہیں وہ بھی محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کے نشانات کو تلاش نہیں کرتے۔ اور ان کا ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ پس جب بھی کوئی ٹھوکر انہیں لگتی ہے وہ اس کی برداشت نہیں کر سکتے اور ارتداد اختیار کرلیتے ہیں۔
دراصل یہ دونوں زندگیاں ایک ہی تصویر کے دو رُخ
ہیں۔ یہ جہان اگلے جہان کی تصویر ہے۔ ایک شخص کی اگر پہلے سال کی تصویر دیکھیں کہ وہ بالکل ٹھیک ہو لیکن اگلے سال کی تصویر دیکھیں تو ناک کٹی ہوئی ہو۔ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جس شخص کی یہ تصویر ہے اس کی ناک کٹ چکی ہے۔ اسی طرح ہر اگلے سال کی تصویر کا حال ہے۔ اگر ان میں کوئی خرابی دیکھیں تو سمجھنا چاہئے کہ اگلے جہان میں بھی حقیقی خرابی پیدا ہو گئی ہے لیکن اگر خرابی صرف تصویری ہو۔ یعنے صرف اس دنیا کی زندگی میں تو وہ یقیناً عارضی روک ہو گی۔ جیسے اگر ناک تو انسان کی درست ہو مگر تصویر کے اندر ناک میں کوئی نقص پیدا ہو جائے۔ تو اس سے صاحبِ تصویر کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ بلکہ فوٹو گرافر معذرت کرے گا اور اس کا بدلہ اگر ممکن ہو تو دوسری طرح دے گا۔ اسی طرح اگر کسی صحیح تصویر کو یہاں فرشتے کسی مصلحت کے ماتحت غلط طور پر پیش کریں تو اگلے جہان میں اس کے بدلہ میں وہ زیادہ نعمتیں جمع کرتے ہیں تاکہ اس غلط تصویر کا ازالہ ہو جائے۔ پس میں اس
نئے سال کے آغاز پر
احمدی احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس سال میں زیادہ اچھا نمونہ دکھائیں۔ اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کسی حد تک بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی ہے۔ قلیل سے قلیل اتباع بھی کی ہے۔ تو یقین رکھیں کہ ان کا اگلا سال اس سے اچھا ہو گا۔ اور اگر ان کا اگلا سال اس سے اچھا ہو گا تو گزشتہ سال کی نسبت اس سال ان کے شکر، گزشتہ سال کی نسبت ان کی قربانیاں گزشتہ سال کی نسبت ان کی حمدیں، ثنائیں اور تسبیحیں بھی زیادہ ہونی چاہئیں۔
(الفضل ۸؍جنوری ۱۹۴۲ءصفحہ۵تا۶)