متفرق مضامین

ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(ہومیوپیتھی علاج بالمثل سے کینسر کے متعلق نمبر۱) (قسط8)

(ڈاکٹر طاہر حمید ججہ)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)

ایسیٹک ایسڈ

Acetic acidum

(سرکہ۔ ایک تیزابی محلول)

٭…ایسیٹک ایسڈ معدے کے کینسر میں مفید دوا سمجھی جاتی ہے۔ پیٹ میں شدید کاٹنے والا درد ہو تا ہے۔ شدید پیاس، قے کا رجحان اور جلن پائی جاتی ہے۔ عموماً سب تیزابوں میں جلن کی علامت ملتی ہے اور جسم میں سوجن ہوتی ہے۔آپریشن کے بعد مریض کی حالت بہت خراب ہو جائے اور وہ سخت نڈھال ہو تو بعض دفعہ ایسیٹک ایسڈ دینے سے اس کی حالت سنبھل جاتی ہے۔ اس ضمن میں سٹرونشیم کارب اور کاربو و یج بھی بہت مفید دوائیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کپڑے کو ایسیٹک ایسڈX۔1 میں بھگو کر معدے کے مقام پر رکھنے سے معدے کے کینسر کی گلٹی گھلنے لگتی ہے۔ کیو نکہ 1X میں گلٹی کو گھولنے اور اس میں پیپ پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اونز (Dr. Owens) کی رائے میں کینسر (Epithelial Cancer) کے لیے اسے اندرونی اور خارجی دونوں طرح استعمال کرنا چاہیے۔ معدے اور سینے میں شدید اور تکلیف دہ جلن جس کے بعد جلد ٹھنڈی اور ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آئے، یہ اس کی نمایاں علامت ہے۔ (صفحہ7)

الیومن (پھٹکری)

Alumen

(Common Potash Alum)

٭…پھٹکری کو اگر براہ راست انسانی خون میں داخل کیا جائے تو خون کے سرخ اور سفید ذرات کو تو پھٹکیوں کی صورت میں منجمد کر دیتی ہے مگر الیکٹرولائٹ کا وہ مرکب جس میں بارہ نمک خاص توازن سے گھلے ہوئے ہوتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں کرتی۔ پھٹکری کو ایسے مٹی ملے پانی کو صاف کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا تا ہے جس میں مٹی کے ذرات کو لائیڈل شکل میں معلق ہوں۔ سندھ کے ان علاقوں میں جہاں زیر زمین پانی سخت کھاری ہے پینے کے لیے نہر کا پانی ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس میں معلق مٹی اور ریت کے ذرات کو پھٹکیاں بنا کر نیچے بٹھا کر پانی کو نتھارنے کے لیے بکثرت پھٹکری استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ پھٹکری کا کچھ نہ کچھ حصہ نتھرے ہوئے پانی میں باقی رہ جا تا ہے اس لیے ایسے علاقوں میں پھٹکری کے زہر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا زیادہ پایا جانا تعجب انگیز نہیں۔ پھٹکری کےزہر کے بداثرات کے نتیجہ میں عموماً گہرے السر بنتے ہیں اور اگر پھوڑے بنیں تو ان پھوڑوں کے رفتہ رفتہ بگڑ کر کینسر بننے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح گلے اور زبان میں خصوصیت کے ساتھ یہ زہر حملہ کرتا ہے اور وہاں بھی السر یا کینسر پیدا کر دیتا ہے نیز اس کے نتیجہ میں گلینڈ ز سوج کر سخت ہونے لگتے ہیں۔ ٹانسلز سوج کر رفتہ رفتہ بڑے اور سخت ہو جاتے ہیں۔ عورتوں میں رحم اور سینے کے غدود اسی طرح موٹی موٹی سخت گٹھلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔(صفحہ45-46)

امونیم کارب

Ammonium carb

(Carbonate of Ammonia)

٭…امونیم کارب غدودوں اور سلی امراض میں بھی بہت مفید ہے۔ بعض اوقات گردن کے غدود سوج کر سخت ہو جاتے ہیں اور گلٹیاں بن جاتی ہیں۔ دائمی سوزش امونیم کارب کی خاص علامت ہے۔ اس لیے یہ کینسر کی گلٹیوں میں بھی مفید ہے۔ اگر جلدی بیماریاں علاج سے دبا دی جائیں اور وہ غدودوں میں پناہ لے لیں اور لمبے عرصہ تک ان کی طرف توجہ نہ دی جائے تو اس کے نتیجہ میں غدودوں میں کینسر پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ امونیم کا رب بھی گٹھلیوں کے کینسر میں کام آنے والی دوا ہے۔ اس میں گلینڈز اس وقت پھولتے ہیں جب بیماریاں بیرونی سطحوں سے اندر کی طرف منتقل ہو کر غدودوں کی جھلیوں میں گھر بنا لیں۔(صفحہ59-60)

انتھراسینم

Anthracinum

٭…جسم کے اندرونی حصہ میں پائے جانے والے زخم جن سے خون رستا ہو اور ایسے تمام السرجن کے کینسر بننے کا خدشہ ہو ان میں اینتھرا سینم مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔(صفحہ61)

ارجنٹم میٹیلیکم

Argentum metallicum

(Metallic Silver)

٭… ارجنٹم میٹیلیکم کا سب سے زیادہ اثر کرکری ہڈیوں پر ہو تا ہے یعنی وہ ہڈیاں جن میں لچک پائی جاتی ہے اور وہ بآسانی مڑ جاتی ہیں۔ یہ ہڈیاں موٹی اور سخت ہونے لگتی ہیں، ناک کی ہڈی موٹی ہو جانے کے باعث سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ اس طرح کان کی ہڈیوں میں چھوٹی چھوٹی گانٹھیں سی پڑ جاتی ہیں اور وہ سوج کر موٹی ہونے لگتی ہیں۔ یہی علامتیں بڑھ کر ان ہڈیوں کے کینسر میں بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔(صفحہ71)

٭…ارجنٹم میٹیلیکم جلد کے کینسر اور اند رونی جھلیوں کے کینسر میں بہت مفید ہے۔ رحم کے منہ کے کینسر کو عموماً ہر قسم کے معالج ناقابل علاج مرض تصور کرتے ہیں لیکن ارجنٹم میٹیلیکم اس میں بہت کامیابی سے استعمال ہوتی ہے اور مکمل شفا کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ اگر پوری شفا نہ بھی ہو تو لمبے عرصہ تک مریض کو سکون مل جاتا ہے ٹیرنٹولاہسپانیہ (.Tarentula Hisp) ہیلونیس (Helonias) اور کاربو انیمیلس(Carbo Animalis) بھی رحم کے منہ کے کینسر میں بہت مفید ہیں۔ ارجنٹم میٹیلیکم میں جگہ جگہ السر پائے جاتے ہیں لیکن کرکری ہڈیوں کے السر میں یہ بالخصوص زیادہ اثر دکھاتی ہے۔ وریدوں کے خلیوں سے بھی اس کا تعلق ہے۔ اس میں ایک عجیب اور غیر معمولی علامت پائی جاتی ہے جو عام طور پر دوسری دواؤں میں نہیں ملتی وہ یہ کہ عورتوں کے اندرونی اعضا میں یہ بائیں طرف اور مردوں کے اندرونی اعضا میں دائیں طرف اثر دکھاتی ہے۔ عموماً دائیں بائیں یا اوپر نیچے کے دھڑ کا فرق کرنے والی دوائیں تو بہت ہیں لیکن عورتوں اور مردوں کی تکالیف میں دائیں اور بائیں کا فرق کرنا اس دوا کا خاصہ ہے۔ اس میں عورتوں کی ovary یعنی انڈا بنانے والی تھیلی بیمار ہو کر پھول جاتی ہے اور مختلف قسم کے مادے جم جم کر اسے سخت اور موٹا کر دیتے ہیں۔ رحم بھی پھیل جاتا ہے اور اس میں لچک نہیں رہتی۔ ایک دفعہ پھیل جائےتو دوبارہ اپنی اصل حالت کی طرف نہیں لوٹتا۔ ہر بچے کی پیدائش کے بعد یہ تکلیف بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ رحم نیچے گر جاتا ہے۔ ارجنٹم میٹیلیکم ایسی مریض خواتین کی بہترین دوست ثابت ہوتی ہے اور شفا کا موجب بن جاتی ہے۔ رحم میں سختی اور رحم کے منہ پر اینٹھن اور اکڑاؤ کی علامت ظاہر ہو، نیز ایسا لیکوریا ہو جس میں غیر معمولی بدبو اور تعفن پایا جائے تو یہ باتیں نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ عام لیکوریا نہیں ہے بلکہ کسی گہری مرض کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے۔ اس وقت ارجنٹم میٹیلیکم استعمال کی جائے تو بیماری کی شروع میں ہی روک تھام ہوجاتی ہے۔(صفحہ72-73)

آرسینک البم

Arsenicum album

(Arsenious Acid)

٭…آرسینک کا مریض مسلسل کروٹیں بدلتا ہے۔ تھوڑا تھوڑا پیشاب بار بار آتا ہے۔ اگر گلے اور مثانے کی تکلیفوں میں آرسینک کی طرح بے چینی پائی جائے تو ہو سکتا ہے یہ بیماری کینسر ہو۔ اسے آرسینک پوری طرح شفا نہ دے تو اس کا استعمال پھر بھی جاری رکھنا چاہیے کیونکہ یہ مرض میں کمی ضرور پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ متعلقہ کینسر کی بالمثل دوا فوری تلاش کرنی چاہیے۔ اگر کینسر یا کسی اور بیماری کا مریض اپنے انجام کے قریب پہنچ چکا ہو اور اسے انتہائی تکلیف اور بے چینی ہو تو ایسی صورت میں اونچی طاقت یعنی ایک لاکھ میں آرسینک دینے سے مریض کو فوری سکون ملتا ہے لیکن اس عرصے میں اگر کوئی اور مؤثر دوا جس کا براہ راست اس کینسر سے تعلق ہو معلوم نہ ہو سکے تو آرسینک کے بعد مریض آرام تو پا تا ہے مگر اس کا بچنا محال ہو تا ہے۔ پس اگر وقت آ چکا ہے تو وہ تکلیف کی بجائےآسانی سے جان دے گا۔ خدا تعالیٰ نے بے چینی اور تکلیف کا احساس بھی جسم کے دفاعی نظام کو متحرک کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ یہ اپنی ذات میں بیماری بھی ہے اور شفا کا محرک بھی۔ اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں تو جسم کی توجہ مقابلہ کے لیے بیدار ہی نہیں ہوتی۔ میں نے ایک مریضہ کو آرسینک ایک لاکھ اس حالت میں دی کہ ڈاکٹر بالکل مایوس ہو چکے تھے اور درد کم کرنے والی دوائیں بھی بند کر دی تھیں کیونکہ ان سے بے چینی میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد وہ جتنی دیر بھی زندہ رہیں بہت اطمینان اور سکون سے وقت کاٹا۔ گویا آرسینک موت کا موجب نہیں بنتی۔ البتہ اگر موت آگئی ہو تو آخری لمحوں کو آسان کر دیتی ہے۔(صفحہ94-95)

٭…اگر پر اسٹیٹ گلینڈ ز گر دے اور مثانے کی بیماریوں میں آرسینک کی علامات موجود ہوں لیکن آرسینک اکیلی کافی نہ ہو تو فاسفورس اس کی مددگار دوا ثابت ہوتی ہے۔ دونوں کو یکے بعد دیگرے دینا بھی میرے تجربے کے مطابق بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ یہی نسخہ کینسر میں بھی بہت افاقہ کا موجب بنتا ہے۔ یہ نسخہ ایک ایسے مریض پر بھی استعمال کیا گیا جس کے متعلق ڈاکٹروں کا فیصلہ تھا کہ ایک ہفتے سے زیادہ زندہ نہیں رہے گا۔ لیکن اسے ان دواؤں سے نمایاں فائدہ ہوا اور خداتعالیٰ کے فضل سے بعد ازاں وہ ایک سال کی مدت تک بغیر تکلیف کے زندہ رہا۔(صفحہ97)

آرسینک آئیوڈائیڈ

(آرسینکم آئیوڈیٹم )

Arsenicum iodatum

(Iodide of Arsenic)

٭…یہ لیوپس (Lupus) اور جلد کے کینسر میں بھی بہت مؤثر دوا ہے۔ اس طرح رحم اور خصیة الرحم یعنی اووری (Ovary) جس میں افزائش نسل کے لیے انڈے بنتے ہیں اس کے کینسر کو اگر ٹھیک نہ بھی کر سکے تو فوری طور پر بڑھنے سے روکتی ہے۔ ڈاکٹر کینٹ کے نزدیک تو ہر کینسر کی بڑھوتی کی رفتار فوری طور پر روکنے کے لیے آرسینک آئیوڈائیڈ بہت مفید ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ ایسی صورت میں آرسینک آئیوڈائیڈ کے ساتھ سچی بوٹی کو استعمال کروانا زیادہ مفید ثابت ہو تا ہے۔(صفحہ102)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button