خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 23؍دسمبر2022ء
’’خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لئے قائم کیا ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
دنیا کے مختلف ممالک میں جو آج جلسوں کا انعقاد ہے اور ہزاروں احمدیوں کی شمولیت ہے وہ بھی انہی نشانوں میں سے ایک نشان ہے
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو آج مسیح موعود ؑکو قبول کر رہے ہیں اور مخالفتوں کا سامنا کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے بن رہے ہیں
ہمارا سلسلہ تو یہ ہے کہ انسان نفسانیت کو ترک کر کے توحیدِ خالص پر قدم مارے
جماعت کو قائم کرنے کا مقصد اصل توحید کو قائم کرنا اور محبت الٰہی پیدا کرنا ہے
تم یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم میں وفا داری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے اور خداتعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے
توحید کے قیام کے ساتھ، اللہ تعالیٰ سے محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حبیب کے ساتھ عشق کا تعلق بھی ضروری ہے
ہمارا فرض ہے اور تبھی ہم حقِ بیعت ادا کر سکتے ہیں جب ہم اپنے اور غیر میں ایک واضح فرق پیدا کر کے دکھائیں اور محبت الٰہی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی مثالیں قائم کریں
جلسے کے ان دنوں میں قادیان میں بھی اور ہر ملک میں جہاں جہاں جلسے ہو رہے ہیں ہر شامل ہونے والا خاص دعاؤں میں اپنا وقت گزارے اوریہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقِ بیعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے
ایامِ جلسہ کی مناسبت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاداتِ عالیہ کی روشنی میں آپؑ کی بعثت اور جماعت احمدیہ کے قیام کے مقاصد کا ایمان افروز بیان
محترم فضل احمد ڈوگر صاحب کی نمازِ جنازہ حاضر اور محترم ملک منصور احمد صاحب عمر (مبلغ سلسلہ ربوہ) اور محترم عیسیٰ جَوف صاحب (معلم سلسلہ گیمبیا) کی نمازِ جنازہ غائب۔ مرحومین کا ذکرِ خیر
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 23؍دسمبر2022ءبمطابق 23؍فتح 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج سے قادیان کا جلسہ بھی شروع ہوا ہے اوراسی طرح بعض افریقن ممالک میں بھی جلسہ سالانہ ہو رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہر ملک کے جلسے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اتوار کو جلسہ کے آخری دن جو قادیان کے جلسہ سے خطاب ہو گا اس میں باقی افریقن ممالک بھی شامل ہوں گے۔ سات، آٹھ ممالک ہیں۔ اور کوشش ہو گی کہ ان کو ایم ٹی اے کے ذریعہ یہاں سے براہ راست ملا بھی دیا جائے۔ بہرحال اب جبکہ ان ممالک میں لوگ ایک جگہ جمع ہو کر خطبہ بھی سن رہے ہوں گے اورتوجہ سے سننے کا ایک خاص ماحول بنا ہوا ہے تو اس لحاظ سے
مَیں نے مناسب سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے الفاظ میں وہ باتیں پیش کروں جن میں آپؑ کا اپنی بعثت کے مقصد اور جماعت کے مقصد کے بارے میں بیان ہے اور مختلف نصائح آپ نے فرمائی ہیں۔
بہت سے نومبائع اور نئی نسل کے احمدی بھی ان جلسوں میں شامل ہوں گے جن تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ باتیں نہیں پہنچی ہوں گی تو ان کو بھی یہ جاننا ضروری ہے تا کہ اپنے ایمان و یقین اور اخلاص و وفا میں ان دنوں میں خاص طور پر کوشش کریں اور ترقی کریں اور اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے آپؑ کی بعثت کے مقصد اور اپنی ذمہ داریوں کا ادراک حاصل کریں۔
قیام سلسلہ احمدیہ کی غرض کیا تھی اور کیوں اس زمانہ میں اس کا قیام ضروری تھا؟
اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پُر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا۔ مَیں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک درد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس زمانہ سے بڑھ کر اسلام پر گذرا ہے جس میں اس قدر سبّ و شتم اور توہین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی ہواور قرآنِ شریف کی ہتک ہوتی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بیقرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفینِ اسلام کے منہ بند کر کے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو اس توہین کے وقت اس صلوٰة کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی صورت میں کیا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ 13-14 ایڈیشن 1984ء)
پس یہ ہماری ذمہ داری ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا، اس سلسلہ میں شامل ہوئے کہ جہاں اپنی حالتوں کو درست کریں وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھی بھیجیں اور
ان دنوں میں خاص طور پر درود کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔
جب ہم زیادہ سے زیادہ درود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجیں گے تو اس مقصد کو پورے کرنے والے ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کو قائم کرنے کا آپؑ نے بیان فرمایا ہے۔
پھر
اپنی بعثت کی غرض
کو بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدر لوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کوایک جگہ جمع کیا جائے تو ان کی تعداد اس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے۔‘‘
دنیا کے مختلف ممالک میں جو آج جلسوں کا انعقاد ہے اور ہزاروں احمدیوں کی شمولیت ہے وہ بھی انہی نشانوں میں سے ایک نشان ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں: ’’اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں۔ چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ14 ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا ہے۔ شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے۔ شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خداتعالیٰ نے اِس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اُس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔‘‘پس یہ بات ہر احمدی کو اپنی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں: ’’مبارک وہ جو اس کو شناخت کرتا ہے۔ اب تھوڑا زمانہ ہے ابھی ثواب ملے گا۔ لیکن عنقریب وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی سچائی کو آفتاب سے بھی زیادہ روشن کر دکھائے گا۔ وہ وقت ہو گا کہ ایمان ثواب کا موجب نہ ہوگا اور توبہ کا دروازہ بند ہونے کے مصداق ہو گا۔ اِس وقت میرے قبول کرنے والے کو بظاہر ایک عظیم الشان جنگ اپنے نفس سے کرنی پڑتی ہے۔ وہ دیکھے گا کہ بعض اوقات اس کو برادری سے الگ ہونا پڑے گا۔ اس کے دنیاوی کاروبار میں روک ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کو گالیاں سننی پڑیں گی۔لعنتیں سنے گا مگر ان ساری باتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ملے گا۔‘‘
فرمایا: ’’لیکن جب دوسرا وقت آیا‘‘ یعنی جب وہ وقت آئے گا ’’اور اس زور کے ساتھ دنیا کا رجوع ہوا جیسے ایک بلند ٹیلہ سے پانی نیچے گرتا ہے۔‘‘ یعنی جب ترقی کا زمانہ آئے گا ’’اور کوئی انکار کرنے والا ہی نظر نہ آیا اس وقت اقرار کس پایۂ کا ہو گا؟‘‘ اس وقت مانا تو کیا مانا۔’’اس وقت ماننا شجاعت کا کام نہیں۔ ثواب ہمیشہ دکھ ہی کے زمانہ میں ہوتا ہے۔‘‘
فرمایا کہ ’’حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کر کے اگر مکہ کی نمبرداری چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کو ایک دُنیا کی بادشاہی دی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کمبل پہن لیا اور ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم‘‘ یعنی ہم نے کشتی پانی میں ڈال دی ہے اب جو ہونا ہے ہو، اس ’’کا مصداق ہو کر آپؐ کو قبول کیا تو کیا خدا تعالیٰ نے اُن کے اجر کا کوئی حصہ باقی رکھ لیا؟ ہرگز نہیں۔ جو خدا تعالیٰ کے لئے ذرا بھی حرکت کرتا ہے وہ نہیں مرتا جب تک اُس کا اجر نہ پالے۔ حرکت شرط ہے۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف معمولی رفتار سے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔
ایمان یہ ہے کہ کچھ مخفی ہو تو مان لے۔ جو ہلال کو دیکھ لیتا ہے تیز نظر کہلاتا ہے۔‘‘ یعنی پہلے دن کے چاند کو جو دیکھتا ہے وہ تیز نظر کہلاتا ہے ’’لیکن چودھویں کے چاند کو دیکھ کر شور مچانے والا‘‘ کہے کہ میں نے چاند دیکھ لیا وہ تو ’’دیوانہ کہلائے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 25-26 ایڈیشن 1984ء)
پس
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو آج مسیح موعود ؑکو قبول کر رہے ہیں اور مخالفتوں کا سامنا کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے بن رہے ہیں۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ
صرف مان لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ ایک پاک تبدیلی پیدا ہو۔
توحید خالص پر قدم مارنے والا انسان بنے تب پھر اللہ تعالیٰ کے فضل بڑھتے جاتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’جو شخص محض اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس کی راہ کی تلاش میں کوشش کرتا ہے اور اس سے اس امر کی گرہ کشائی کے لیے دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون (وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا۔ (العنکبوت: 70) یعنی جو لوگ ہم میں سے ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم اپنی راہیں ان کو دکھا دیتے ہیں) کے موافق خود ہاتھ پکڑ کر راہ دکھا دیتا ہے اور اسے اطمینانِ قلب عطا کرتا ہے اور اگر خود دل ظلمت کدہ اور زبان دعا سے بوجھل ہو اور اعتقاد شرک و بدعت سے ملوث ہو تو وہ دعا ہی کیا ہے اور وہ طلب ہی کیا ہے جس پر نتائجِ حسنہ مترتب نہ ہوں۔ جب تک انسان پاک دل اورصدق و خلوص سے تمام ناجائز رستوں اور امید کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کرکے خدا تعالیٰ ہی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس وقت تک وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اورتائید اُسے ملے لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ ہی کے دروازہ پر گرتا اور اسی سے دعا کرتا ہے تو اس کی یہ حالت جاذبِ نصرت اور رحمت ہوتی ہے۔
خدا تعالیٰ آسمان سے انسان کے دل کے کونوں میں جھانکتا ہے اور اگر کسی کونے میں بھی کسی قسم کی ظلمت یا شرک و بد عت کا کوئی حصہ ہوتا ہے تو اُس کی دعاؤں اور عبادتوں کو اس کے منہ پر اُلٹا مارتا ہے۔ اور اگر دیکھتا ہے کہ اس کا دل ہر قسم کی نفسانی اغراض اور ظلمت سے پاک صاف ہے تو اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھولتا ہے اور اسے اپنے سایۂ میں لے کر اس کی پرورش کا خود ذمہ لیتا ہے۔‘‘
فرمایا کہ ’’اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور اس پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ آتے ہیں اور وہ صاحبِ اغراض ہوتے ہیں۔ اگر اغراض پورے ہو گئے تو خیر ورنہ کدھر کا دین اور کدھر کا ایمان۔‘‘ بعض لوگ بیعت ہی کسی مقصد کے لیے کرتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت دوسری جگہ اس طرح ہوئی ہے۔ فرمایا کہ ’’اغراضِ نفسانی شرک ہوتے ہیں۔ وہ قلب پر حجاب لاتے ہیں۔ اگر انسان نے بیعت بھی کی ہوئی ہو تو پھر بھی اس کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوتے ہیں۔
ہمارا سلسلہ تو یہ ہے کہ انسان نفسانیت کو ترک کر کے توحیدِ خالص پر قدم مارے۔
سچی طلب حق کی ہو ورنہ جب وہ اصل مطلوب میں فرق آتا دیکھے گا تو اسیوقت الگ ہو جاوے گا۔ کیا صحابہ کرامؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی واسطے قبول کیا تھا کہ مال و دولت میں ترقی ہو۔‘‘ نہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’…صحابہؓ کی زندگی میں نظر کی جاوے تو ان میں ایک بھی ایسا واقعہ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ہماری بیعت تو بیعتِ توبہ ہی ہے لیکن ان لوگوں کی بیعت تو سر کٹانے کی بیعت تھی۔‘‘ صحابہ کی۔ ابھی میں نے واقعات بیان کیے ہیں۔ گذشتہ کئی خطبات میں صحابہ کا ایک لمبا سلسلہ چلایا تھاکہ کس طرح وہ اپنا سر کٹاتے تھے۔ ’’ایک طرف بیعت کرتے تھے اور دوسری طرف اپنے سارے مال و متاع، عزت و آبرو اور جان و مال سے دستکش ہو جاتے تھے۔ گویا کسی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور اس طرح پر اُن کی کُل امیدیں دنیا سے منقطع ہو جاتی تھیں۔ ہر قسم کی عزت و عظمت اور جاہ و حشمت کے حصول کے ارادے ختم ہو جاتے تھے۔ کس کو یہ خیال تھا کہ ہم بادشاہ بنیں گے یا کسی ملک کے فاتح ہوں گے۔ یہ باتیں ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں بلکہ وہ تو ہر قسم کی امیدوں سے الگ ہو جاتے تھے اور ہر وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دکھ اور مصیبت کو لذّت کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جان تک دینے کو آمادہ رہتے تھے۔ ان کی اپنی تو یہی حالت تھی کہ وہ اس دنیا سے بالکل الگ اور منقطع تھے لیکن یہ الگ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی عنایت کی اور ان کو نوازا اور اُن کو جنہوں نے اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا ہزار چند کر دیا۔‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ396تا 398مع حاشیہ۔ ایڈیشن 1984ء)
پھر مزید ہدایت فرماتے ہوئے کہ
جماعت کو قائم کرنے کا مقصد اصل توحید کو قائم کرنا اور محبت الٰہی پیدا کرنا ہے
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس، غرض ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضاء کومقدم کر لیا جاوے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا(البقرۃ: 201) یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔ اب یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہا کرو بلکہ اس لئے یہ سکھایا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھوکہ نہ لگے اور خدا کو باپ کر کے پکارا نہ جائے اور اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی محبت ہوئی تو اس اعتراض کے رفع کرنے کے لئے اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًارکھ دیا۔ اگر اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا نہ ہوتا تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا۔ مگر اب اس نے اس کو حل کر دیا۔‘‘
(ملفوظات جلد3صفحہ188 ایڈیشن 1984ء)
پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی محبت جو ایک مومن کے دل میں ہونی چاہیے کہ تمام دنیاوی رشتوں سے زیادہ خدا کی محبت ہو۔
ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا یہ محبت ہم اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا کیا اس کے لیے ہمارے دل میں کوئی خواہش اور تڑپ ہے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس محبت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اور اس کا معیار بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اصل توحید کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو اور یہ محبت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔ نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے۔‘‘ چینی یا شکر کا نام لیتا ہے۔ ’’تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے۔‘‘ میٹھا تو نہیں ہو جاتا وہ۔’’یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصیبت اور وقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے۔ نہیں۔ میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے اس لئے
ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو۔‘‘
یعنی خدا تعالیٰ ہر چیز پر مقدم ہو۔ اس کے احکامات ہر چیز پر مقدم ہوں۔ اس کا بھیجا ہوا دین ہر چیز پر مقدم ہو اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہو۔
فرمایا ’’اور یہی اسلام ہے، یہی وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اِس وقت اِس چشمہ کے نزدیک نہیں آتا جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے جاری کیا ہے وہ یقیناً بے نصیب رہتا ہے۔ اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالبِ صادق کو چاہئے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمۂ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھدے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے غیریت کا چولہ اتار کر آستانۂ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کر لے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا۔‘‘ کچھ بھی ہو جائے اللہ تعالیٰ کو نہیں چھوڑنا۔’’اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشّان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔
اسلام کا منشا یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔
پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ
ولی پرست نہ بنو۔ بلکہ ولی بنو
اور پیر پرست نہ بنو۔ بلکہ پیر بنو
تم اُن راہوں سے آؤ بیشک وہ تنگ راہیں ہیں۔‘‘ یعنی اپنا مقام وہ بناؤ۔ یہ نہیں کہ پیری مریدی شروع کر دو بلکہ اپنے آپ کو اس سطح پر لے کر جاؤ جہاں انسان ولی کہلائے۔ جہاں لوگ کہیں کہ ہاں یہ وہ شخص ہے جو نیک کام کرتا ہے، اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ فرمایا کہ ’’تم اُن راہوں سے آؤ۔ بےشک وہ تنگ راہیں ہیں لیکن ان سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ اگر بہت بڑی گٹھری سر پر ہو تو مشکل ہے۔‘‘ یعنی اگر دنیاوی خواہشات کی اور دنیاوی ترجیحات کی گٹھری سر پہ اٹھائی ہوئی ہے اور دنیا غالب ہے، دین پیچھے ہے تو پھر یہاں سے گزرنا بہت مشکل ہے۔ ’’اگر گزرنا چاہتے ہو تو اس گٹھری کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھری ہے، پھینک دو۔ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو پھینک دے۔
تم یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم میں وفا داری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے اور خداتعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے
ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفا داری کو چھوڑ کر غدّاری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھا سکتا اور نہ کوئی اسے فریب دے سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔‘‘
(ملفوظات جلد3صفحہ188تا 190 ایڈیشن 1984ء)
پھر
توحید کے قیام کے ساتھ، اللہ تعالیٰ سے محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حبیب کے ساتھ عشق کا تعلق بھی ضروری ہے
جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی توحید کے راستے دکھائے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور آپؐ کی عزت و عظمت کو قائم کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اسی لئے قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور عزت کو دوبارہ قائم کریں۔‘‘ غیروں کی مثال دیتے ہوئے جو پیر پرستی میں ڈوبے ہوئے ہیں، قبروں کے پوجنے والے ہیں اور پھر یہ دعویٰ ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق میں فنا ہیں اور ہمیں کافر کہنے والے ہیں اور اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ احمدی نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ
’’ایک شخص جو کسی کا عاشق کہلاتا ہے۔ اگر اس جیسے ہزاروں اَور بھی ہوں تو اس کے عشق و محبت کی خصوصیت کیا رہے۔‘‘
یعنی ایک شخص کسی کا عاشق کہلاتا ہے لیکن ساتھ ہی بہت سارے اَور معشوق بھی بنائے ہوئے ہیں تو پھر جس سے عشق کر رہا ہے اس کی خصوصیت کیا رہی؟ ’’تو پھر اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق میں فنا ہیں۔‘‘ یہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں فنا ہیں ’’جیساکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو یہ کیا بات ہے کہ ہزاروں خانقا ہوں اور مزاروں کی پرستش کرتے ہیں۔‘‘ بہت ساری خانقاہیں ہیں، مزار ہیں جن پہ یہ جاتے ہیں، چڑھاوے چڑھاتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں بلکہ سجدے بھی کر لیتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’مدینہ طیبہ تو جاتے ہیں مگر اجمیر اور دوسری خانقا ہوں پر ننگے سر اور ننگے پاؤں جاتے ہیں۔ پاک پٹن کی کھڑکی میں سے گذر جانا ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ کسی نے کوئی جھنڈا کھڑا کر رکھا ہے۔ کسی نے کوئی اَور صورت اختیار کر رکھی ہے۔ ان لوگوں کے عرسوں اور میلوں کو دیکھ کر ایک سچے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے کہ یہ انہوں نے کیا بنا رکھاہے۔‘‘ برصغیر، ہندوستان پاکستان میں یہ چیزیں عام نظر آتی ہیں۔ ’’اگرخدا تعالیٰ کو اسلام کی غیرت نہ ہوتی اور اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ(اٰل عمران: 20) خدا کا کلام نہ ہوتا اور اُس نے نہ فرمایا ہوتا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر:10) تو بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدۂ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپؐ کی نبوت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھا دے۔ چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامور اور مَہدی بنا کر بھیجا۔‘‘(ملفوظات جلد3صفحہ92 ایڈیشن 1984ء)حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں مجھے مامور اور مہدی بنا کر بھیجا۔ پس
ہمارا فرض ہے اور تبھی ہم حقِ بیعت ادا کر سکتے ہیں جب ہم اپنے اور غیر میں ایک واضح فرق پیدا کر کے دکھائیں اور محبت الٰہی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی مثالیں قائم کریں۔
اپنی زبانوں کو تسبیح، تحمید اور درود سے تر رکھنے کی کوشش کریں۔
صحابہ کا نمونہ اپنانے اور ان جیسا اخلاص و وفا پیدا کرنے کی طرف توجہ
دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صدہا نشان اس نے ظاہر کئے ہیں اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہؓ کی جماعت ہو اور پھر خیر القُرون کا زمانہ آ جاوے۔ جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ میں داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اتار دیں۔‘‘ احمدی ہونے کے لیے جھوٹے مشغلے جو ہیں ختم ہو جانے چاہئیں۔ ’’اور اپنی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں۔ فَیْج اَعْوَجْ‘‘ یعنی ٹیڑھا زمانہ’’…کے دشمن ہوں۔ اسلام پر تین زمانے گزرے ہیں۔ ایک قرونِ ثلاثہ، اس کے بعد فَیْج اَعْوَجْ کا زمانہ جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیاکہ لَیْسُوْا مِنِّیْ وَ لَسْتُ مِنْھُمْ یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں اور تیسرا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ فَیْج اَعْوَجْ کا ذکر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھی فرماتے تو یہی قرآن شریف ہمارے ہاتھ میں ہے اور اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعۃ:4) صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جو صحابہؓ کے مشرب کے خلاف ہے۔‘‘ یعنی ان کے عمل اس سے مختلف ہیں۔ ’’اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس ہزار سال کے درمیان اسلام بہت ہی مشکلات اور مصائب کا نشانہ رہا ہے۔‘‘ دین بگڑتا گیا ہے۔ ’’معدودے چند کے سوا سب نے اسلام کو چھوڑ دیا اور بہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے ہیں۔‘‘
فرماتے ہیں کہ ’’ہم کو اس بات کا اعتراف ہے کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں گذرا کہ اسلام کی برکات کا نمونہ موجود نہ ہو مگر وہ ابدال اور اولیاء اللہ جو اس درمیانی زمانہ میں گذرے ان کی تعداد اس قدر قلیل تھی کہ ان کروڑوں انسانوں کے مقابلہ میں جو صراطِ مستقیم سے بھٹک کر اسلام سے دُور جا پڑے تھے کچھ بھی چیز نہ تھے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کی آنکھ سے اس زمانہ کو دیکھا اور اس کا نام فَیْج اَعْوَجْ رکھ دیا۔ مگر اب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک اور گروہِ کثیر کو پیدا کرے جو صحابہؓ کا گروہ کہلائے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ میں تدریجی ترقی ہوا کرتی ہے اس لئے ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور کَزَرْعٍ ‘‘یعنی ’’(کھیتی کی طرح) ہو گی۔‘‘ جس طرح کھیتی آہستہ آہستہ بڑھتی ہے اس طرح بڑھے گی ’’اور وہ مقاصد اور مطالب اس بیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جاتا ہے۔ وہ مراتب اور مقاصدِ عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے ابھی بہت دُور ہیں۔ وہ حاصل نہیں ہو سکتے ہیں جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے۔
توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو۔ تبتل الیٰ اللہ ایک خاص رنگ کا ہو۔ ذکرِ الٰہی میں خاص رنگ ہو۔ حقوقِ اخوان میں‘‘ یعنی اپنے بھائیوں کے حق ادا کرنے میں ایک ’’خاص رنگ ہو۔‘‘(ملفوظات جلد3صفحہ94-95 ایڈیشن 1984ء)پس یہ ہیں ہمارے مقصد جن کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے اور تبھی جماعتی ترقیات بھی ہم دیکھیں گے۔
پھر ہمیں
قرآن کریم کو خاص توجہ اور سمجھ کر پڑھنے کی طرف توجہ
دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو ان کی تعلیموں کو جو قصہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دیدیا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پا سکتا جبتک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق:14-15)‘‘ یعنی یقیناً وہ ایک فیصلہ کن کلام ہے اور ہرگز کوئی بیہودہ کلام نہیں ہے۔ ’’وہ میزان، مہیمن، نور اور شفاء اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اسے قصہ سمجھتے ہیں انہوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا بلکہ اس کی بےحُرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لئے کہ ہم قرآن شریف کو جیساکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے، دکھانا چاہتے ہیں۔ اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے اس لئے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ
خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لئے قائم کیا ہے۔‘‘
یعنی حقائق اظہار کے لیے ظاہر کرنے کے لیے قائم کیا ہے اور جس کی سمجھ قرآن کریم سے ہی ہمیں مل سکتی ہے۔ اس کا ادراک اور فہم ہمیں قرآن کریم سے مل سکتا ہے۔ ’’کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ155 ایڈیشن 1984ء)پس اس کے مطالب اور معانی اور تفسیر کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہیے۔
پھر
نیک اعمال کی طرف مزید توجہ دلاتے ہوئے اور اس کی، نیک عمل کی تعریف کیا ہے
آپؑ فرماتے ہیں:’’قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح بھی رکھا ہے۔ عملِ صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو۔ یاد رکھو کہ انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں۔ وہ کیا ہیں۔‘‘ چور کون سے ہیں؟ ’’ریا کاری (کہ جب انسان دکھاوے کے لئے ایک عمل کرتا ہے) عُجب (کہ وہ عمل کر کے اپنے نفس میں خوش ہوتا ہے)‘‘ کہ میں نے فلاں بڑا نیک کام کر لیا ہے۔ ’’اور قسم قسم کی بدکاریاں اور گناہ جو اس سے صادر ہوتے ہیں۔‘‘ یہ چور ہیں سب۔ ’’ان سے اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔ عملِ صالح وہ ہے جس میں ظُلم، عُجب، ریا، تکبر اور حقوقِ انسانی کے تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو۔ جیسے آخرت میں انسان عملِ صالح سے بچتا ہے ویسے ہی دنیا میں بھی بچتا ہے۔
اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عملِ صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔
سمجھ لو کہ جب تک تم میں عملِ صالح نہ ہو صرف ماننا فائدہ نہیں کرتا۔ ایک طبیب نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو اس سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو کچھ اُس میں لکھا ہے وہ لے کر اسے پیوے۔ اگر وہ ان دواؤں کو استعمال نہ کرے اور نسخہ لے کر رکھ چھوڑے تو اسے کیا فائدہ ہو گا۔‘‘ پس
ہمارا کام یہ ہے کہ آپؑ کی نصائح پر عمل کریں۔ یہ ضروری چیز ہے۔ ورنہ بیعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
فرماتے ہیں کہ ’’اب اس وقت تم نے توبہ کی ہے۔ اب آئندہ خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس توبہ سے اپنے آپ کو تم نے کتنا صاف کیا۔ اب زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ تقویٰ کے ذریعہ سے فرق کرنا چاہتا ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے۔ انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔
بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ اُن کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے۔‘‘ پتہ نہیں کس وقت انسان کیا بات کر جائے جو گناہ میں شمار ہو۔ اس لیے استغفار کرتے رہو ’’کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔‘‘ آپؑ نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام کی دعا پڑھو۔ دعا کیا ہے کہ ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف:24)یہ دعا اوّل ہی قبول ہو چکی ہے۔ غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گذارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو۔ کوئی بلا بغیر اذن کے نہیں آتی۔ جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی۔ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔‘‘(ملفوظات جلد4صفحہ274تا276 ایڈیشن 1984ء)فرمایا کہ یہ بھی دعا پڑھو۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو کہ
عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے۔ جس قدر انسان روح کی صفائی کرتا ہے اسی قدر عقل میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور فرشتہ سامنے کھڑا ہو کر اس کی مدد کرتا ہے۔
مگر فاسقانہ زندگی والے کے دماغ میں روشنی نہیں آ سکتی۔
تقویٰ اختیار کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہو۔ صادق کے ساتھ رہو کہ تقویٰ کی حقیقت تم پر کھلے اور تمہیں توفیق ملے۔ یہی ہمارامنشاء ہے اور اسی کو ہم دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد4صفحہ448 ایڈیشن 1984ء)
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت کو یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ وہ اس امر کو مدنظر رکھیں جو میں بیان کرتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ اگر کوئی خیال آتا ہے تو یہی آتا ہے کہ دنیا میں تو رشتے ناطے ہوتے ہیں بعض ان میں سے خوبصورتی کے لحاظ سے ہوتے ہیں، بعض خاندان یا دولت کے لحاظ سے اور بعض طاقت کے لحاظ سے لیکن جنابِ الٰہی کو ان امور کی پروا نہیں۔ اس نے تو صاف طور پر فرمادیا کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات:14)یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے۔ اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہوسکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اس کے نزدیک متقی ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔
خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد3صفحہ238-239 ایڈیشن 1984ء)
پس ہر وقت توبہ اوراستغفار اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی اور شیطان سے بچنے کی ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
فرماتے ہیں: ’’اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو۔ یہ مت سمجھو کہ تم خد اتعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہوجاؤ گے۔ یاتمہارے بہت سے دشمن پیدا ہوجائیں گے۔ نہیں! خدا کا دامن پکڑنے والا ہرگز محتاج نہیں ہوتا۔ اس پر کبھی برے دن نہیں آسکتے۔ خدا جس کا دوست اور مددگار ہو اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہو جاوے تو کچھ پرواہ نہیں۔ مومن اگر مشکلات میں بھی پڑے تو وہ ہر گز تکلیف میں نہیں ہوتا بلکہ وہ دن ا س کے لئے بہشت کے دن ہوتے ہیں۔ خداکے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ خدا خودان کا محافظ اور ناصر ہو جاتا ہے۔ یہ خد اجو ایسا خدا ہے کہ وہ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (البقرۃ:21)ہے۔ وہ عالم الغیب ہے۔ وہ حی وقیوم ہے۔ اس خدا کا دامن پکڑنے سے کوئی تکلیف پا سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ خدا تعالیٰ اپنے حقیقی بندے کو ایسے وقتو ں میں بچا لیتا ہے کہ دنیا حیرا ن رہ جاتی ہے۔ آگ میں پڑ کر حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کا زندہ نکلنا کیا دنیا کے لیے حیرت انگیز امر نہ تھا۔ کیا ایک خطرنا ک طو فا ن میں حضرت نوحؑ اور آپ کے رفقاء کا سلا مت بچ رہنا کو ئی چھو ٹی سی بات تھی۔ اس قسم کی بے شمار نظیریں موجود ہیں اور خود اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے دستِ قدرت کے کر شمے دکھائے ہیں دیکھو! مجھ پر خون اور اقدامِ قتل کا مقدمہ بنایا گیا۔ ایک بڑا بھاری ڈاکٹر جو پادری ہے وہ اس میں مدعی ہوا اور آریہ اور بعض مسلما ن اس کے معاون ہوئے لیکن آخر وہی ہوا جو خدا نے پہلے سے فر مایا تھا۔ ابراء۔‘‘(ملفوظات جلد3صفحہ263-264 ایڈیشن 1984ء) یعنی مجھے بے قصور ٹھہرایا گیا۔اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو باعزت بری کر دیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصائح اور خواہشات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقت میں ہم اپنی زندگیوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے والے بن جائیں۔
جلسے کے ان دنوں میں قادیان میں بھی اور ہر ملک میں جہاں جہاں جلسے ہو رہے ہیں ہر شامل ہونے والا خاص دعاؤں میں اپنا وقت گزارے اور یہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقِ بیعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسی طرح دنیا کا ہر احمدی اس بات پر غور کرے کہ کیا ہم وہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں بنانا چاہتے ہیں یا اپنی جماعت سے آپ توقع رکھتے ہیں۔ اگر نہیں تو ہمیں ہر وقت اس کے لیے کوشش اور دعا کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس وقت میں
کچھ مرحومین کا ذکر
کروں گا۔ جنازے ہیں۔ ایک جنازہ حاضر ہے۔ جنازہ آ گیا ہے ناں؟ یہ حاضر جنازہ
فضل احمد ڈوگر صاحب کا ہے
جو جامعہ احمدیہ یوکے کے کارکن تھے۔ چودھری اللہ دتہ ڈوگر صاحب کے بیٹے تھے۔ اکیس دسمبر کو 75سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم موصی تھے۔پسماندگان میں ان کی اہلیہ ہیں۔ عظمیٰ فضل صاحبہ اور چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ 92ء میں یہاں یوکے آ گئے تھے۔ اس کے بعدتو اپنے کام کرتے رہے۔ پھر 1999ء میں انہوں نے وقفِ زندگی کی اور حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو اپنے آپ کو پیش کیا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ازراہِ شفقت ان کا وقف قبول فرما لیا اور کافی لمبا عرصہ ان کو حضرت خلیفة المسیح الرابع کی ذاتی خدمت کی توفیق ملی۔ اس کے بعد پھر مَیں نے جامعہ یوکے میں ان کا تقرر کیا۔ یہ کچھ مختلف ڈیوٹیاں دیتے رہے۔ پھر ان کو لائبریری کا انچارج بنا دیا گیا اور اس حیثیت سے وفات تک یہ خدمت کی توفیق پاتے رہے۔
جامعہ احمدیہ یوکے کی لائبریری کی تیاری میں بہت اہم کردار انہوں نے ادا کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت کے شائع شدہ تمام ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیشنز کو سکین کیا اور ان کو وہاں رکھا۔ کاپیاں بنا کے رکھیں۔ روحانی خزائن کے originalایڈیشن کو بھی سکین کیا۔ ان کی بھی کاپیاں بنائیں۔ ان کے بچے بیان کرتے ہیں کہ ان کی بڑی خواہش یہی تھی کہ ان کی اولاد خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہے اور اطاعت گزار رہے۔ کہتے تھے کہ جماعت کی خدمت سے انسان کبھی ریٹائرڈ نہیں ہو سکتا۔ وقف تو آخری سانس تک نبھانے کا نام ہے اور مجھے دعا کے لیے کہتے تھے کہ دعا کرو میں آخری وقت تک خدمت کرتا رہوںاور اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری فرمائی اور ہسپتال جانے سے دو روز قبل تک یہ خدمت کر رہے تھے۔ لائبریری گئے اور کام کر کے آئے۔
حافظ مشہود صاحب جامعہ کے استاد ہیں یہ لکھتے ہیں کہ فضل ڈوگر صاحب کی شخصیت کے بارے میں اگر کہا جائے کہ وہ خلافت کے سچے عاشق، وفا دار اور جاںنثار تھے تو اس میں کسی قسم کا کوئی مبالغہ نہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ فضل ڈوگر صاحب حقیقی واقفِ زندگی تھے جنہیں ہم نے ہر وقت جامعہ احمدیہ کی لائبریری کو اپنے بچوں کی طرح نکھارتے اور سنوارتے ہوئے دیکھا ہے۔ پرانے مسودات لا لا کر انہیں سکین کرتے اور ان کی دیدہ زیب جلد کروا کر لائبریری کی زینت بناتے۔ بلا شبہ یہ ان کی انتھک محنت ہی تھی کہ جامعہ احمدیہ کی لائبریری میں اس وقت پچیس ہزار سے زائد کتب موجود ہیں جبکہ وسائل انتہائی محدود ہیں۔
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بھی ایک خطبہ میں جو میرے والد حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی وفات کے وقت دیا تھا اس میں ان کا ذکر کیا تھا اور ان کا شکریہ ادا کیا تھا اور ان کے کاموں کی تعریف کی تھی۔
جلسہ کی ڈیوٹیاں یہ ہمیشہ دیتے رہے۔ میرے ساتھ بھی ربوہ میں جلسہ کی ڈیوٹیاں دیتے رہے اور ہمیشہ ان کو میں نے بڑی محنت سے اور رات دن ایک کر کے کام کرتے دیکھا ہے۔ کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔
ان کے داماد شاہد اقبال ہیں سوئٹزر لینڈ کے صدر خدام الاحمدیہ ہیں یا رہے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ جب بھی بات ہوتی ہمیشہ مجھے یہ کہتے کہ نماز پڑھی کہ نہیں۔ نمازوں کی تلقین کیا کرتے تھے اور اس طرف خاص توجہ دلاتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی جماعت سے اور خلافت سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔
دوسرا جنازہ
جو ہے، غائب ہے۔ وہ
ملک منصور احمد عمر صاحب کا ہے جو ربوہ میں مربی سلسلہ تھے۔
گذشتہ دنوں اسّی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ 1970ء میں انہوں نے جامعہ پاس کیا اس کے بعد آپ نے عربی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ 71ء سے 73ء تک آپ نے نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے جرمن زبان کا ڈپلومہ لیا۔پہلے پاکستان میں مختلف جگہوں پہ ان کی تقرری ہوئی۔ پھر جنوری 74ء میں ان کو مبلغ کے طور پر جرمنی بھجوایا گیا۔ وہاں یہ تقریباً ڈیڑھ سال رہے۔ واپس آ کے پھر پاکستان میں مختلف جگہوں پر ان کی تقرری ہوئی۔ پھر اکتوبر 83ء میں ان کو دوبارہ جرمنی بھجوایا گیا جہاں 86ء تک یہ بطور امیر اور مشنری انچارج خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ اس دوران یہ اسائلم پر آنے والوں کو زبان بھی سکھاتے تھے اور ان کی مدد بھی کرتے رہے۔ شعبہ رشتہ ناطہ میں بھی رہے۔ جرمن زبان جامعہ میں پڑھاتے رہے۔ تقریباً چھیالیس سال تک انہوں نے واقفِ زندگی کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ان کی ایک بیٹی فائزہ رئیس، انیس رئیس صاحب مشنری انچارج جاپان کی اہلیہ ہیں اور ایک بیٹا صباح الظفر ملک مربی سلسلہ ہیں۔ باقی اولاد بھی ہے ان کی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
تیسرا ذکر
مکرم عیسیٰ جَوف صاحب معلم سلسلہ گیمبیا
کاہے۔ یہ بھی جنازہ غائب ہے۔ گذشتہ دنوں دسمبر میں ان کی اکسٹھ سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
وہاں کے نائب امیر مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ بہت ہی کامیاب مبلغ تھے۔ جامعہ سے فارغ التحصیل بھی نہیں تھے لیکن جماعت کے شیدائی تھے۔ ایک سپاہی کی طرح ہمیشہ کام کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج کے ادنیٰ سپاہی ہیں اور جماعت جو بھی ان کو حکم دے وہ بجا لانے کے لیے تیار ہیں۔ جلسہ اور دوسرے جماعتی پروگراموں میں وہ ہمیشہ اپنے افراد جماعت کے ساتھ رہتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے اور ان کی تربیت کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستانی احمدیوں کی قربانیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتےہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔ خلافت سے خاص محبت کا تعلق تھا۔ دعاؤں کے لیے خطوط لکھا کرتے تھے اور جب جوابات ملتے تھے تو بڑی محبت اور پیار سے ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ خلافت سے محبت انہوں نے اپنے بچوں میں بھی پیدا کی ہے اور بچوں کو بھی یہ کہتے کہ خلیفہ وقت کو خط لکھا کرو۔
مربی سلسلہ سید سعید صاحب ہیں۔ یہ بھی گیمبیا میں رہے ہیں۔ سیرالیون میں ہیں آج کل۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سینیگال میں پیدا تو ہوئے تھے اور اس کے بعد یہ پڑھ کے ملازمت کے سلسلہ میں گیمبیا آگئے اور ناصر احمدیہ سیکنڈری سکول میں فرنچ ٹیچر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے احمدیت قبول کی۔ پھر اخلاص و وفا میں قدم آگے بڑھاتے چلے گئے۔ 1997ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے زیرِارشاد تمام سینٹرل سٹاف نے گیمبیا چھوڑ دیا تو انہیں ناصر احمدیہ سیکنڈری سکول کا پرنسپل بنا دیا گیا۔ اس حیثیت میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ اس کے بعد ان کو ایریا مشنری بنا دیا گیا اور وفات تک وہ اسی پہ قائم رہے۔
عیسیٰ جوف صاحب کے ذریعہ کئی پیاسی روحیں احمدیت کی آغوش میں آئیں۔ ان کا دینی علم بھی بہت تھا۔ خود پڑھ کے انہوں نے علم حاصل کیا۔ غیر احمدیوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ اس لیے اکثر علاقے کے چیفس، امام ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اگر کوئی علاقے میں احمدیت کی مخالفت یا شرارت کرنا چاہتا تو بعض دفعہ یہ شریف الطبع لوگ مقابلے پہ آ جاتے، ڈٹ جاتے اور مخالفین کو منہ کی کھانی پڑتی۔
پھر یہ لکھتے ہیں کہ ان کی ایک خوبی ان کا صاحبِ علم ہونا تھا۔ ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا جیساکہ میں نے کہا اور جماعتی لٹریچر پر عبور حاصل تھا۔ جلسہ سالانہ کے دوران کئی دفعہ انہیں تقاریر کے موقعے بھی نصیب ہوئے۔ اسی طرح جماعتی رسائل میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ عاجزی اور انکساری ان کا خاص وصف تھا۔آپ صائب الرائے بھی تھے اور ہمیشہ اہم فیصلوں میں ان کو شامل کیا جاتا تھا اور ان کی اکثر رائے درست پائی جاتی تھی۔ تہجد گزار تھے۔ دعا گو تھے۔ کثرت سے سچی خوابیں آیا کرتی تھیں اور جب بھی کوئی ان کو دعا کے لیےکہتا تو اسے مشورہ دیتےکہ پہلے خلیفہ وقت کو دعا کا خط لکھو اور پھر خود بھی دعا کرتے۔
پھر گیمبیا کے مبلغ مسعود صاحب ہیں وہ کہتے ہیں: تبلیغ کا ان کو بہت شوق تھا۔ کئی کئی گھنٹوں کا سفر کر کے دُور دراز گاؤں میں جایا کرتے تھے۔ نہایت نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ ہنس مکھ تھے۔ خوشی ہو یا غمی، بیماری ہو یا پریشانی، ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔ ہر ایک سے مسکراتے چہرے سے ملتے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ ایسے تپاک اور گرمجوشی سے ملتے کہ وہ سمجھتا کہ بس مجھ سے ہی ان کو پیا ر ہے۔ بہت رحم دل اور نرم اور شفیق تھے۔ کبھی کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے اور نہ کسی کے معاملے میں دخل دیتے۔ اپنے افسران کی اطاعت بے انتہا کرتے۔ ماتحتوں کا خیال رکھتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے ہیں جب کبھی بھی ان سے پتہ کرایا، رابطہ کرنے کی کوشش کی تو پتہ لگتا تھا کہ فارغ دنوں میں یہ تبلیغ کے لیے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ وٹس ایپ سٹیٹس پر قرآنی آیات، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء کی تبلیغی اور تربیتی پوسٹس اور خلفاء کی تصاویر ہر روز باقاعدگی سے لگاتے اور احمدی اور غیر احمدی لوگوں کو بھیجتے تھے۔ تبلیغ کا بے انتہا شوق تھا۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اوررحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جیساکہ میں نے کہا ابھی نماز جمعہ کے بعد ان کے جنازے ادا ہوں گے ان شاء اللہ۔