احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
کابل سے ہجرت اور دہلی پنجاب میں ورود
(گذشتہ سے پیوستہ )سردار کے جرنیل نے کہا ظاہر میں تو یہ شخص خوب ہے، ملک کے صوبہ سردار محمد عمر نے کہا کہ بخدا اس شخص کا باطن بھی خوب ہے تو نہیں دیکھتا کہ ولایت کا دم بھرتا ہے اسی وقت حکم دیا کہ اسی وقت ان کا تمام اسباب اور کتابیں ان کے گھر میں پہنچا دو اور اس ملک کے قاضیوں اور عالموں کو مباحثہ کے واسطے طلب کیا۔ سب علماء جمع ہوئے ان مولویوں کے سرگروہ ابن مموت مقری تھے اس نے صوبہ کے سامنے گفتگو شروع کی۔ آ پ نے اپنے چھوٹے لڑکے کو اس وقت اس کی عمر بیس سال کی تھی پیش کیا۔ مجلس کے تمام لوگ حیران تھے کہ یہ چھوٹا سا لڑکا ان اعلام کا کیونکر مقابلہ کرسکےگا مگر چونکہ اللہ تعالیٰ حق والوں کے ساتھ ہے وہ لڑکا ایسا غالب آیا کہ صوبہ اور مجلس کے اعیان آفرین آفرین کہنے لگے اور باہر اندر شوروغل پڑ گیا کہ ایک چھوٹے سے لڑکے نے تمام عالموں اور قاضیوں کو ساکت اور ملزم کر دیا۔ اسی وقت ملک کے صوبہ نے امیر افضل خان اور اعظم خان کے نام خط لکھا کہ حسب الحکم آپ کے میں نے اس شخص کو گرفتار کیا اور اس نواح کے علماء اس کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے حاضر ہوئے لیکن ان سے کچھ نہ بنا بلکہ ملزم اور ساکت ہو کر چلے گئے یہ شخص صالح اور فقیر ہے اور دنیا کے اسباب سے بالکل عاری ہے جو کچھ حکم ہو ارقام فرماویں انہوں نے جواب میں لکھا کہ تمام احتیاط کے ساتھ بلادرنگ شہر کابل میں ان کو ہمارے پاس پہنچا دو۔ ملا مشکی اور ملا نصراللہ وغیرہ امیر افضل خان اور اعظم خان کے پاس گئے اور بولے کہ امیر دوست محمد خان کے عہد میں ہم اس کا کفر ثابت کرچکے ہیں اب دوبارہ تحقیق کی حاجت نہیں ہے۔ سب نے متفق ہو کر قتل کا فتویٰ لکھا مگر ملا مشکی کہ وہ ان میں قدرے انصاف رکھتا تھا اس فتویٰ میں ان کا شریک نہ ہوا۔ بہت گفتگو کے بعد قتل کے فتویٰ کو چھوڑا گیا اور یہ فتویٰ دیا کہ درے مارے جاویں اور سر اور ڈاڑھی مونڈی جاوے اور منہ کالے کئے جاویں اور گدھے پر سوار کرکے مشہور کیا جاوے اور جب انہوں نے یہ فتویٰ لکھا تو اس وقت سے لے کر اجراء حکم تک آپ اور آپ کے تینوں بیٹے بحکم امیرنظر بند رہے۔ امیر محمد افضل خان نے برے عالموں اور محمد اعظم خان کی رعایت کے واسطے مجبوراً ان کی مرضی کے مطابق حکم کر دیا۔ آپ کو سمیت تینوں بیٹوں کے تمام شہر میں مشہور کیا، خاص آپ کو سو دروں سے زیادہ لگائے ہوںگے تین آدمی نوبت بنوبت آپ کو مارتے تھے جب ایک تھک جاتا تو دوسرا اس کے ہاتھ سے درہ پکڑ لیتا، سب لوگوں کو یہی یقین تھا کہ آج آپ فوت ہو جاویں گے کیونکہ آپ معمر اور ضعیف تھے اسی اثنا میں ایک ظالم بڑا زبردست آیا اور بڑے غصہ سے اس نے محتسب کے ہاتھ سے درہ چھین لیا اور بولا تو آہستہ آہستہ مارتا ہے اور زور زور سے مارنا شروع کیا جب اس نے کئی بار درہ مارا تو دوسرے لوگ بولے کہ اے ظالم تو نے ان کو مار ڈالا اور درہ اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
مولوی عبدالاحد خانپوری نے ایک دن عرض کی کہ میرے حق دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ایمان میں استقامت دیوے۔ فرمایا کہ میں اس شخص کے حق میں بھی دعا کرتا ہوں جو کابل میں مجھ کو نہایت سختی سے مارتا تھا کہ یا اللہ اس کو معاف کر اور اس کو بہشت میں داخل کر کیونکہ وہ جاہل تھا جانتا نہ تھا۔ تمہارے واسطے کیوں دعا نہ کروں بلکہ میرے دل سے بے اختیار تمام مسلمانوں کے لیے دعا نکلتی ہے جو آدمؑ سے اس دم تک پیدا ہوئے ہیں اور اس وقت کے کافروں کے واسطے بھی ہدایت کی دعائیں کرتا ہوں جو زندہ ہیں۔ کئی دفعہ آپ کی زبان مبارک سے میں نے سنا ہے کہ فرماتے تھے جن لوگوں سے میں نے قسم قسم کی تکلیفیں اور گوناگوں ضرر اٹھائے ہیں۔ میں نے سب کو معاف کر دیا، قیامت میں اللہ تعالیٰ میرے لئے کسی کو نہ پکڑے جب وہ ظالم اس زدوکوب اور تشہیر سے فارغ ہوئے اور آپ کو سمیت بیٹوں کے قید خانہ میں لےگئے…اس واقعہ عظیمہ کے بعد آپ کو یہ الہام ہوا۔وجزاھم بما صبروا جنۃً وحریرًا۔ آپ کے دوستوں میں سے ایک شخص آپ کے پاس قید خانہ میں آ کر اس واقعہ پررونے لگا فرمایا تو کیوں روتا ہے، عزت اور ڈاڑھی کیا چیز ہے جو مولیٰ کی راہ و رضا میں چلی گئی شکر کرو کہ دین ہاتھ سے نہیں گیا۔ رونا تو مخالفین کو چاہیے کہ دین سے وہ ہاتھ دھو بیٹھے۔ افسدوا علیّ دُنیای وافْسدتُ علیھم دینَھُمْ۔ یعنی انہوں نے میری دنیا کو خراب کر دیا اور میں نے ان کے دین کو خراب کر دیا۔ دوسال اپنے بیٹوں کے ساتھ قید رہے ان کی طرف سے ایک حبہ بھی آپ کے خرچ کے لیے مقرر نہ تھا بس قید خانہ میں ڈال دیےگئے اور پھر خبر نہ لی۔ امیر افضل خان بعارضہ وبا مر گیا اس کے بعد امیر اعظم خان تخت پر بیٹھا اس نے خان ملا خان عبدالرحمٰن نام کے بہکانے سے عین گرمی کے موسم میں پیادہ پا آپ کو بغیر زاد پشاور کی طرف نکال دیا اور سخت دل سپاہیوں کو آپ کے ساتھ مقرر کیا کہ بہت جلد آپ کو پشاور میں پہنچا دیں۔ اوپر سے گرمی کی آگ برستی تھی اور نیچے سے زمین کی تپش کے ساتھ پاؤں بھوجنے تھے اور سنگدل سپاہیوں کی وجہ سے جو آپ کے پیچھے تھے آرام کی نوبت نہ ملتی تھی اس سفر میں آپ کے دو خادم آپ کے ساتھ تھے۔ ایک ملا سفر نام اور ایک ملامراد نام جب آپ چل نہ سکتے تھے تو ملا سفر اللہ تعالیٰ اس کو دارین میں عزیز کرے آپ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتا۔ الغرض نہایت تکلیف کے ساتھ پشاور میں پہنچے اسی سبب سے ملا سفر راحلہ عبداللہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس اثنا میں آپ کو کئی بار یہ الہام ہوا۔ فقُطِعَ دابر القوم الذین ظلموا والحمد للّٰہ رب العالمین۔ اور اسی طرح یہ القا ہوا۔ انّا من المجرمین منتقمون۔ ایک ماہ پورا نہ گذرا ہوگا کہ اس کی سلطنت نہ رہی اور ہزیمت کھا کر نکل گیا اور کوہ بکوہ سرگردان و حیران پھرا کیا اور اس کے اہل و عیال جو عمر بھر کبھی گھر سے باہر نہیں نکلے تھے اس کے پیچھے ان کو بھی نکال دیا گیا۔ کریمہ فلما اٰسفونا انتقمنا منھم۔کے مضمون کے مطابق امیر دوست محمد خان کے خاندان کو اللہ عز و جل نے اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ ایسا پراگندہ اور منتشر کیا کہ گویا۔ کریمہ فجعلنٰھم احادیثَ و مزقنٰھم کل ممزقٍ کے مصداق یہی ہیں کہ ملک پشاور اور پنجاب اور ہندوستان میں نصاریٰ کے ہاتھ میں محبوس و مقید ہیں اور بعض ان میں سے جنگلوں اور پہاڑوں میں پریشان و سرگردان ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو، ہمارے مالک کا فرمان منْ عادٰی لی ولیًا فقد بارزنی بالحربِ۔ بالکل سچا ہے ومن اصدق من اللّٰہ قیلًا یعنے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کس کی بات سچی ہے ان مصیبتوں اور تکلیفوں کی مدت پندرہ سال کامل تھی جب پشاور پہونچے تو تھوڑی مدت یہاں توقف فرمایا اور اس جگہ سے بعض دوستوں کے استدعا سے ملک پنجاب کے شہر امرتسر میں پہنچے اور کتاب وسنت کے رواج دینے میں ایسی کوشش فرمائی کہ توحید اور اتباع سنت اور عقائدکی بہت کتابیں اور رسالے عام لوگوں کے نفع کے واسطے فارسی اور اردو زبان میں ترجمہ کراکر چھپوا دئیے اور للہ تقسیم کر دئیے۔
یفعل اللّٰہ مایشاء و یحکم ما یرید اپنی اخیر عمر میں سورہ کریمہ اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللّٰہ افواجًا فسبح بحمد ربک واستغفر انہ کان توّابًا کے موافق تمام مشاغل کو ترک کردیا اور کریمہ انی نذرت للرحمٰن صومًا فلن اکلّم الیوم انسیًا کے مضمون کے مطابق ضروری بات کے سوا کسی سے کلام نہ کرتے اور اپنے رب کی طرف متوجہ رہتے ایک دن ایک آدمی مستفیدین میں سے آپ کے پاس ایک امر کی شکایت لے گیا آپ نے فرمایا میں اس دنیا میں نہیں ہوں فقط میرا ظاہر بدن دنیا میں آپ کا مشاہدہ کرتا ہے ورنہ میں آخرت میں ہوں اور واقع میں بات اسی طرح تھی کہ صرف آپ کے دیکھنے سے خدا یاد آتا تھا اور آپ کی صحبت میں بیٹھنے سےتمام خطرے اور فکر ذرات کی طرح اُڑ جاتے اگر گوئی شخص اتفاقاً آپ سے دنیوی امر پوچھتا تو جواب میں فرماتے
بسودائے جاناں زجاں مشتغل
بذکر حبیب از جہان مشتغل
روپیہ آپ ٹھیکریوں کی طرح سمجھتے تھے صدہا روپے آپ کے پاس آتے اور جس مجلس میں وہ روپے آپ کو ملتےاسی مجلس میں مصارف میں بانٹ دیتے یتیم اور مسکین آپ پر اس قدر دلیر ہوگئے تھے کہ جس وقت آپ کے پاس حاضر ہوتے جس قدر روپیہ آتا آپ کے ہاتھوں اور دامن سے کھینچ لیتے اور آپ مسکراتے رہتےاور کچھ برا بھلا نہ کہتے جو لوگ پیچھے رہ جاتے ان کو کچھ نہ ملتا آپ کے کِیسے اور رومال اور دامن تلاش کرتے کہ شاید کچھ ہاتھ آجاوے آپ اپنے سب کپڑے تبسم کرتے کرتے ان کو دکھا دیتے اور فرماتے کوئی چیز نہ رہی انشاء اللہ تعالیٰ جس وقت کہ اور روپیہ آتا ہے تم کو دیا جاوےگا بخدا میں نے یہ معاملہ کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تسبیح اور تحمید اور دعاؤں کے سوا آپ کا کوئی دوسرا شغل نہ تھا۔یہاں تک کہ آپ ماہ ربیع الاول ۱۲۹۸ھ (بمطابق ۱۸۸۱ء)میں آدھی رات اللہ تعالیٰ کو جاملے اور زوال کے بعد ظہر کی نماز سے پہلے دفن کئے گئے آپ کے جنازے پر اس قدر اژدہام تھا کہ بسبب لوگوں کے کثرت کے بازار بند ہوگئے موافق و مخالف بے اختیار آپ کے جنازہ کے نیچے دوڑتے اور جنازہ اٹھانے کی نوبت شہر کے رئیسوں کو نہ ملتی تھی تادوسروں کو کیا پہنچتا اس دن امام احمد بن حنبل کے قول کی سچائی معلوم ہوئی الفرق بیننا و بین اھل البدع یوم الجنائز۔
آپؒ کامزارمبارک شہرامرتسرکے متصل دروازہ سلطان ونڈ کے باہرعبدالصمد کاشمیری کے تالاب کے کنارے پرہے۔
(باقی آئندہ)