خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے مورخہ۲۹؍ جولائی ۲۰۲۲ء
سوال نمبر۱:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خط بہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے کی مہمات کا ذکر ہو رہا تھا۔ جنگوں کا بقایا ذکر آج کروں گا جو حضرت خالد بن ولید ؓ کی سرکردگی میں لڑی گئی تھیں۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ حیرہ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:ربیع الاول بارہ ہجری کے اوائل میں حضرت خالد ؓنے امغیشیا سے حِیرَہ کی طرف کوچ کیا۔ حِیرَہ عیسائی عربوں کا قدیم مرکز تھا اور اس وقت حِیرَہ کا حاکم ایک ایرانی تھا۔ حِیرَہ کے حاکم کو اندازہ تھا کہ اب خالدؓ کی فوجوں کا رخ اس کی طرف ہو گا اس لیے اس نے حضرت خالدؓ سے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں…حضرت خالد ؓنے اپنے تمام سرداروں کو جمع کیا اور خورنق کے مقام پر پہنچ گئے۔ خورنق حِیرَہ کے قریب ایک قلعہ تھا مگر جب حاکم کو معلوم ہو گیا کہ اردشیر مر گیا ہے اور خود اس کا بیٹا بھی جنگ میں مارا جا چکا ہے تو وہ بغیر لڑے دریائے فرات عبور کر کے بھاگ گیا لیکن حاکم کے بھاگ جانے کے باوجود اہل حِیرَہ نے ہمت نہیں ہاری اور وہ قلعہ بند ہو گئے۔ یہاں چار قلعے تھے اور چاروں قلعوں میں محصور ہو کر لڑائی کی تیاری کرنے لگے…حضرت خالد ؓنے اپنے امرا ءکے نام یہ فرمان جاری کیا کہ وہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ان کے اسلام کو مان لیں اور اگر وہ انکار کریں تو انہیں ایک دن کی مہلت دیں اور انہیں حکم دیا کہ دشمن کو موقع نہ دیں بلکہ ان سے قتال کریں اور مسلمانوں کو دشمن سے قتال کرنے سے نہ روکیں۔ دشمن نے مقابلہ آرائی کو اختیار کیا اور مسلمانوں پر پتھر برسانے شروع کر دیے۔ مسلمانوں نے ان پر تیروں کی بارش کی اور ان پر ٹوٹ پڑے اور محلات اور قلعوں کو فتح کر لیا… پھر حضرت خالدؓ نے ان محل والوں سے الگ الگ ملاقات کی اور ان کے اس فعل پر ملامت کی۔اور ملامت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر افسوس! تم نے اپنے آپ کو کیا سمجھ کر ہم سے مقابلہ کیا! اگر تم عرب ہو تو کس وجہ سے تم اپنے ہی ہم قوم لوگوں کا مقابلہ کرنے پر آمادہ ہو گئے اور اگر تم عجمی ہو تو کیا تمہارا خیال ہے کہ تم ایک ایسی قوم کے مقابلے میں جیت جاؤ گے جو عدل و انصاف میں نظیر نہیں رکھتی! سرداروں نے جزیہ دینے کا اقرار کر لیا۔ خالدؓ کو امید تھی کہ ہم قوم ہونے کی وجہ سے یہ عراقی عرب ضرور اسلام قبول کر لیں گے لیکن انہیں بے حد تعجب ہوا جب انہوں نے بدستور عیسائی رہنے پر اصرار کیا۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اہل حیرہ سے جزیہ وصول کرنے کےمعاہدہ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت خالد ؓنے اہلِ حِیرَہ اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ لکھا جو یہ تھا۔بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ وہ معاہدہ ہے جو خالد بن ولید نے عدی بن عدی، عمرو بن عدی، عمرو بن عبدالمسیح، ایاس بن قَبیصہ اورحِیری بن اکّال سے کیا ہے۔ یہ اہل حِیرَہ کے سردار ہیں اور حِیرَہ والے اس معاہدے پر راضی ہیں اور انہوں نے اس کا انہیں حکم دیا ان سے ایک لاکھ نوے ہزار درہم پر معاہدہ کیا ہےجو ہر سال ان سے ان کی حفاظت کے عوض وصول کیا جائے گا۔یعنی مقامی لوگوں کی حفاظت کے لیے یہ جزیہ لگایا کہ جو دنیاوی مال و متاع ان کے قبضہ میں ہے خواہ وہ راہب ہوں یا پادری لیکن جن کے پاس کچھ نہیں، دنیا سے الگ ہیں، اس کو چھوڑ چکے ہیں، یہ معاہدہ ان کی حفاظت کی شرط پر ہے۔ اور اگر وہ ان کی حفاظت کا انتظام نہ کر سکیں تو ان پر کوئی جزیہ نہیں یہاں تک کہ وہ یعنی حاکم ان کی حفاظت کا انتظام کرے۔ اگر انہوں نے اپنے کسی فعل یا قول کے ذریعہ سے غداری کی تو یہ معاہدہ فسخ ہو جائے گا۔ یہ معاہدہ ربیع الاول بارہ ہجری میں لکھا گیا۔یہ تحریر اہلِ حِیرَہ کے حوالے کر دی گئی…جب حِیرَہ فتح ہو گیا تو حضرت خالد ؓنے نماز فتح پڑھی جس میں آٹھ رکعات ایک سلام سے ادا کیں۔ یعنی اکٹھی آٹھ رکعات پڑھیں۔ اس سے فارغ ہو کر آئے تو کہا جنگ موتہ میں جب میں نے لڑائی کی تھی تو اس وقت میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹی تھیں۔ میں نے کبھی کسی قوم سے جنگ نہیں کی جیسی اس قوم سے جنگ کی ہے جو اہل فارس میں سے ہیں اور میں نے اہل فارس میں سے کسی سے جنگ نہیں کی جیسی اہل اُلَیس سے کی۔پھر لکھا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت خالد ؓکی خدمت میں تحائف بھی بھیجے تھے لیکن حضرت خالدؓ نے فتح کی خوشخبری کے ساتھ وہ تحائف بھی حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیے۔ حضرت ابوبکرؓنے بھی عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کا سبق دیتے ہوئے ان سب تحائف کو جزیہ میں شمار کر کے قبول کر لیا اور حضرت خالد ؓکو لکھا کہ یہ تحائف اگر جزیہ میں شامل ہیں تو خیر، ورنہ تم ان کو جزیہ میں شامل کر کے بقیہ رقم وصول کرو۔ یعنی تحفہ کے طور پر یہ چیزیں وصول نہیں کیں بلکہ جزیہ کے طور پر کیں۔ مسلمانوں نے حِیرَہ کے مقامی باشندوں کے ساتھ بڑی کشادہ دلی کا معاملہ کیا۔ یہ سلوک دیکھ کر گردو نواح کے زمینداروں اور رئیسوں نے بھی جزیہ دینا قبول کر کے مسلمانوں کی ماتحتی اختیار کر لی۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےجنگ حیرہ کے بعد حضرت خالدبن ولیدؓ کے حیرہ میں قیام اورفارسی بادشاہ وامراءکوخطوط لکھنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت خالدؓ ایک سال تک حِیرَہ میں مقیم رہے اور شام کی طرف روانگی سے قبل اس کے بالائی اور زیریں علاقوں میں دورے کرتے رہے اور اہل فارس بادشاہ بناتے رہے اور معزول کرتے رہے۔یعنی اس کے مقابلے میں اہل فارس نے کیا کیا وہاں صرف بادشاہ بنتے رہے اور معزول ہوتے رہے۔ جب عراق کی فضا سازگار ہو گئی اور حِیرَہ و دجلہ کے درمیان عرب علاقوں سے فارسی حکومت کے ختم ہو جانے سے پیچھے سے خطرہ باقی نہ رہا تو حضرت خالدؓ نے براہ راست ایران پر حملہ آور ہونے کا عزم کر لیا اور اس دوران میں اردشیر کسریٰ کے مر جانے سے ایرانی حکومت خلفشار کا شکار ہوئی۔ ان کے درمیان اس کے جانشین کے انتخاب کے سلسلہ میں سخت اختلاف رونما ہوا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت خالد ؓنے ان کے بادشاہوں اور امراءو خاص لوگوں کو خط لکھے۔ ان بادشاہوں کو تحریر کرتے ہوئے فرمایا: خالد بن ولید کی جانب سے بادشاہان فارس کے نام۔ اَمَّا بَعْدُ! اللہ ہی کے لیے تمام حمد ہے جس نے تمہارے نظام کو توڑ دیا۔ تمہاری چال ناکام کر دی۔تمہارے اندر اختلاف برپا کر دیا۔ تمہاری قوت کمزور کر دی۔ تمہارے مال چھین لیے۔ تمہارے غلبہ و عزت کو خاک میں ملا دیا۔ لہٰذا جب تمہیں میرا یہ خط ملے اسلام قبول کرو، محفوظ و مامون رہو گے یا پھر معاہدہ کر کے جزیہ دینے پر راضی ہو جاؤ۔ اگر اسلام قبول نہیں کرنا تو صلح کا معاہدہ کر لو اور جزیہ دینے پر راضی ہو جاؤ اور اگر ایسا کرو گے تو ہم تمہیں اور تمہارا علاقہ چھوڑ کر دوسری طرف چلے جائیں گے۔ ورنہ اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں ایسی فوج لے کر تمہارے پاس آؤں گا جو موت سے ایسی ہی محبت کرتی ہے جس طرح تم زندگی سے محبت رکھتے ہو اور آخرت میں اتنی ہی رغبت رکھتے ہیں جتنی رغبت تمہیں دنیا سے ہے۔اور ایرانی عُمال و امراءکو خط تحریر کرتے ہوئے فرمایا۔ خالد بن ولید کی طرف سے فارس کے امراء کے نام۔ یہ خط خالد بن ولید کی طرف سے ایرانی عُمال و امراء کے نام ہے تم لوگ اسلام قبول کر لو سلامت رہو گے یا جزیہ ادا کرو ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے ورنہ یاد رکھو کہ میں نے ایسی قوم کے ساتھ تم پر چڑھائی کی ہے جو موت کی اتنی ہی فریفتہ ہے جتنا تم شراب نوشی کے۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جنگ انبار/ذات العیون کی بابت کیابیان فرمایااورحضرت خالدبن ولیدؓ کی نسبت کیا وضاحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: بارہ ہجری میں ہوئی۔ ایرانی فوج حِیرَہ کے بالکل قریب انبار اور عین التمر میں خیمہ زن ہو چکی تھی۔ انبار بھی بغداد کے قریب ایک شہر ہے۔ انبار کی وجہ تسمیہ میں لکھا ہے کہ عربی زبان میں انبار غلہ و سامان رکھنے کی کوٹھڑی کو کہتے ہیں اور اس شہر کو انبار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہاں کھانے پینے کی چیزیں بکثرت موجود تھیں… حضرت خالدؓ نے حِیرَہ پر حضرت قعقاع بن عمرو تمیمیؓ کو اپنا نائب مقرر کر کے خود حضرت عیاض بن غنم کی امداد کے لیے روانہ ہوئے۔حضرت عیاض بن غنم کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شمال سے عراق کی فتح کے لیے روانہ کیا تھا اور انہیں حضرت خالد بن ولید ؓسے جا ملنے کا حکم دیا تھا۔ اہلِ انبار قلعہ بند ہو گئے اور ان لوگوں نے قلعہ کے ارد گرد خندق کھودی ہوئی تھی جس کو پانی سے بھر دیا گیا تھا اور یہ خندق قلعہ کی دیوار کے بہت قریب تھی۔ کوئی بھی مسلمان اگر اس کے قریب بھی ہوتا تو قلعہ کی دیواروں میں متعین مخالف سپاہی زبردست تیر اندازی سے مسلمانوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتے۔ وہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ حضرت خالدؓ اپنے لشکر کے اگلے حصہ کو لے کر وہاں پہنچے۔ انہوں نے خندق کے اطراف ایک چکر لگایا، قلعہ کے دفاعی انتظامات کا جائزہ لیا اور اپنی خداداد فراست سے ایک منصوبہ بنایا۔ حضرت خالدؓ اپنے تیر اندازوں کے پاس گئے اور ایک ہزار تیر انداز منتخب کیے جو بہت اچھے نشانہ باز تھے اور ان کو ہدایت کی اور کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ اصولِ جنگ سے بالکل ناآشنا ہیں۔ تم لوگ صرف ان کی آنکھوں کو اپنے تیروں کا نشانہ بناؤ اور اس کے سوا کہیں اَور نہ مارو۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایک ساتھ تیر چلائے اور اس کے بعد کئی دفعہ ایسا ہی کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس روز تقریباً ایک ہزار آنکھیں پھوٹ گئیں۔ اسی لیے یہ جنگ ذات العیون کے نام سے بھی مشہور ہے یعنی آنکھوں والی جنگ۔ حضرت خالد بن ولید ؓاپنی فوج کے کچھ کمزور اور نڈھال اونٹ لے کر خندق کے تنگ ترین مقام پر آئے۔ پھر اونٹوں کو ذبح کر کے اس خندق میں ڈال دیا جس سے وہ بھر گئی اور ان جانوروں سے ایک پل بن گیا۔ اب مسلمان اور مشرکین خندق میں ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ یہ دیکھ کر دشمن پسپا ہو کر قلعہ بند ہو گیا۔ چنانچہ حاکم انبار شیرزاد نے پھر حضرت خالد بن ولیدؓسے صلح کے لیے مراسلت کی اور درخواست کی کہ مجھ کو سواروں کے ایک دستے کے ساتھ جن کے ساتھ سامان وغیرہ کچھ نہ ہو یہاں سے نکلنے اور اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کی اجازت دی جائے۔ حضرت خالد بن ولید ؓنے اس کو منظور کر لیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جو مؤرخ اور سیرت نگار حضرت خالدؓپر یہ الزام لگاتے ہیں کہ حضرت خالدؓ وحشت و بربریت کا بازار گرم رکھتے تھے اور قتل و غارت گری کیے جاتے تھے ان کے لیے قابل غور ہے کہ سخت ترین جنگ کرنے اور بار بار صلح کی پیشکش کو بھی قبول نہ کرنے کے باوجود اس پر، دشمن پہ غلبہ پا لیا اور اس نے جب یہاں سے جانے کی اجازت مانگی تو پھر تین دن کا سامانِ رسد ساتھ لے کر جانے کی اجازت بھی دے دی اور کسی قسم کا تعرض نہیں کیا۔پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ ظلم کیا کرتے تھے۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ عین التمر کی بابت کیابیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا:جنگ عین التمر بارہ ہجری میں لڑی گئی۔جب حضرت خالدؓ انبار کی فتح سے فارغ ہوئے اور وہ مکمل طور پر آپؓ کے قبضہ میں آ گیا تو آپؓ نے اس کے قریبی علاقہ عین التمر کا قصد کیا۔ایرانیوں کی طرف سے وہاں کا حاکم مہران بن بہرام تھا۔ وہ عجمیوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ ایرانی فوج کے علاوہ عرب کے مختلف بدوی قبائل بھی وہاں موجود تھے جن کا سردار عقہ بن ابی عقہ تھا۔ جب ان لوگوں نے حضرت خالد ؓکے متعلق سنا تو عقہ نے مہران سے کہا عرب عربوں سے جنگ کرنا خوب جانتے ہیں۔ پس ہمیں اور خالد کو چھوڑ دو۔ اس کو یہ زعم تھا کہ ہمیں پتا ہے ہم ان سے کس طرح جنگ کریں گے۔ مہران نے کہا تم نے ٹھیک کہا ہے کہ عربوں سے لڑنے میں تم ایسے ہی ماہر ہو جیسے ہم عجمیوں سے لڑنے میں ماہر ہیں۔ اس طرح اس نے عقہ کو دھوکا دیا اور اس کے ذریعہ اپنا بچاؤ کیا اور اس نے کہا: تم ان سے لڑو اگر تمہیں ہماری ضرورت ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ جب عقہ حضرت خالدؓ کے مقابلے کے لیے چلا گیا تو عجمیوں نے عقہ کے متعلق انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے مہران سے کہا: تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا کہ تم اس سے یہ بات کرو۔اس نے کہا تم مجھے چھوڑ دو۔ میں نے وہی چاہا جو تمہارے لیے بہتر اور مسلمانوں کے لیے برا ہے۔ یقینا ًتمہارے پاس وہ بندہ آ رہا ہے جس نے تمہارے بادشاہوں تک کو قتل کر دیا ہے، حضرت خالد بن ولید ؓکے بارے میں کہا، بڑے زبردست سپہ سالار ہیں اور تمہاری شوکت و سطوت کو روند کر رکھ دیا ہے۔ پس میں نے تو عقہ کو ان کے مقابلے میں بطور ڈھال استعمال کیا ہے۔اگر ان کو خالد کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی تو یہ فتح تمہاری ہو گی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو تم مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں جاؤ گے مگر اس حال میں کہ وہ کمزور پڑچکے ہوں گے۔ پھر ہم ان سے جنگ کریں گے تو ہم طاقتور اور وہ کمزور ہوں گے۔ یہ بات سن کر انہوں نے مہران کی رائے کی برتری کا اعتراف کر لیا۔ مہران وہیں عین التمر میں مقیم رہا اور عقہ نے حضرت خالدؓ کے مقابلے کے لیے راستے میں پڑاؤ ڈال لیا۔عقہ ابھی اپنے لشکر کی صفیں ہی درست کر رہا تھا کہ حضرت خالدؓ نے بذاتِ خود اس پر حملہ کر دیا اور اسے قید کر لیا اور اس کا لشکر بغیر لڑائی کے ہی شکست کھا کر بھاگ گیا اور ان میں سے اکثر کو قید کر لیا گیا۔
سوال نمبر۷ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جنگ دومۃ الجندل کی بابت کیابیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا:یہ بھی بارہ ہجری کی ہے۔ حضرت عیاض بن غنم جنہیں حضرت ابوبکرؓ نے دومہ کی طرف بھیجا تھا انہیں طویل مدت تک دشمن کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اس لیے وہ حضرت خالد ؓسے نہ مل سکے۔ جب حضرت خالدؓ نے ولید بن عقبہ کو عین التمر کی فتح کی خبر دے کر حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ کو عیاض کے بارے میں پریشانی ہوئی۔ چنانچہ آپؓ نے ولید بن عقبہ کو عیاض کی مدد کے لیے بھیج دیا۔جب ولید بن عقبہ حضرت عیاضؓ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت عیاضؓ نے دشمن کو گھیر رکھا ہے اور دشمن نے انہیں گھیر رکھا ہے اور ان کا راستہ بھی روک رکھا ہے۔ ولید بن عقبہ نے حضرت عیاضؓ سے کہا کہ بعض اوقات فوج کی کثرت تعداد کے مقابلے میں ایک عقل کی بات زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ آپ حضرت خالد بن ولید ؓکے پاس قاصد بھیجیے اور ان سے مدد طلب کیجئے۔ حضرت عیاضؓ کے لیے ولید کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ انہیں دومۃالجندل پہنچے ہوئے سال بھر ہو چکا تھا اور ابھی تک فتح کی کوئی شکل نہ نظر آتی تھی۔ حضرت عیاضؓ نے ایسا ہی کیا۔ جب ان کا قاصد مدد طلب کرنے کے لیے حضرت خالد ؓکے پاس پہنچا تو اس وقت عین التمر فتح ہو چکا تھا۔ انہوں نے حضرت عیاضؓ کے نام ایک مختصر خط دے کر قاصد کو فوراً واپس کر دیا کہ ان کی پریشانی کچھ کم ہو جائے۔ خط میں لکھا تھا کہ تھوڑا ٹھہریں۔ سواریاں آپ کے پاس پہنچ رہی ہیں جن پر شیر سوار ہوں گے اور تلواریں چمک رہی ہوں گی اور لشکر فوج در فوج پہنچ رہے ہوں گے۔جب حضرت خالدؓ عین التمر کی فتح سے فارغ ہوئے تو اس میں عویم بن کاہل اسلمی کو نگران مقرر کیا اور خود اپنی فوج کو جو عین التمر میں تھی لے کر دومۃ الجندل کی طرف روانہ ہوئے۔اہل دومہ کو حضرت خالد ؓکے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے حلیف قبائل سے مدد طلب کی۔ یہ قبائل اپنے ساتھ کئی اَور قبائل کو ملا کر دومۃ الجندل پہنچے اور ان کی تعداد اس وقت سے کئی گنا زیادہ تھی جب ایک سال قبل حضرت عیاضؓ ان کی سرکوبی کے لیے پہنچے تھے۔ دومۃ الجندل کی فوج دو بڑے حصوںمیں منقسم تھی۔فوج کے دو سردار تھے۔ ایک اُکیدر بن عبدالملک اور دوسرا جودی بن ربیعہ۔ جب ان کو حضرت خالد ؓکی آمد کی اطلاع ملی تو ان میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ اکیدر نے کہا کہ میں خالد کو خوب جانتا ہوں اس سے بڑھ کر کوئی شخص اقبال مند نہیں ہے اور نہ اس سے زیادہ کوئی جنگ میں تیز ہے۔ جو قوم خالد سے مقابلہ کرتی ہے خواہ وہ تعداد میں کم ہو یا زیادہ ضرور شکست پاتی ہے۔ تم لوگ میرے مشورے پہ عمل کرو اور ان لوگوں سے صلح کر لو مگر انہوں نے اس کا انکار کر دیا اس پر اکیدر نے کہا میں خالد کے ساتھ لڑنے میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔ تم جانواور تمہارا کام جانے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیا۔ اس کی اطلاع حضرت خالدؓ کو ہو گئی۔ انہوں نے اس کا راستہ روکنے کے لیے عاصم بن عمرو کو بھیجا۔ عاصم نے اکیدر کو جا پکڑا۔ اس نے کہا تم مجھے اپنے امیر خالد کے پاس لے چلو۔ جب وہ حضرت خالد ؓکے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اکیدر کو قتل کروا دیا اور اس کے تمام سامان پر قبضہ کر لیا۔
سوال نمبر۸: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے آخرپر جلسہ سالانہ یوکے کی بابت کیابیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا:اگلے جمعہ ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسہ کو بابرکت فرمائے۔ شامل ہونے والے جو آ رہے ہیں وہ بھی، ان کا سفر بھی خیریت سے ہو۔خیریت سے آئیں شامل ہونے کے لیے۔ جو ڈیوٹی دینے والے ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فرائض صحیح طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور کیونکہ دو سال بلکہ تین سال کے وقفہ کے بعد بڑا جلسہ ہو رہا ہے، پچھلے سال ہوا تھا لیکن چھوٹے پیمانے پر،تو مکمل طور پر بڑا جلسہ اب ہو رہا ہے اس لیے بعض دقتیں بھی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ جو بھی انتظامی دقتیں ہیں یا جو بھی دقتیں کسی بھی صورت میں پیدا ہو سکتی ہیں ان کو دور فرمائے۔