خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍جنوری ۲۰۲۳ء
اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری صحابہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
٭…حضرت عبد اللہ بن جحشؓ،حضرت صالح شقرانؓ،حضرت مالک بن دُخشمؓ،حضرت عکاشہؓ،حضرت خارجہ بن زیدؓ،
حضرت خالد بکیرؓاورحضرت عمار بن یاسرؓ کی سیرت کے بعض پہلوؤں کا دلنشین تذکرہ
٭…مہدی آباد برکینا فاسو میں ۹؍احمدیوں کی افسوس ناک شہادت
٭… شہداء کی بلندیٔ درجات نیز برکینا فاسو کے حالات کے لیے احباب جماعت کو دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍جنوری ۲۰۲۳ء بمطابق ۱۳؍صلح ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۱۳؍جنوری ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
جیسا کہ مَیں نے گذشتہ خطبے میں بتایا تھا کہ بعض صحابہ کےذکرکاکچھ حصّہ رہ گیا ہےوہ بیان کروں گا۔ آج اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن جحشؓ کے متعلق پہلے بیان ہوگا۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ بنو اسد سےتھا۔ آپؓ کا قددرمیانہ اورسر کےبال بہت گھنے تھے۔ایک مہم کےموقعے پر آپؓ کو امیرمقرر کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے صحابہ سےفرمایا کہ مَیں تم پر ایسے شخص کو امیرمقررکررہا ہوں جو تم سے بہتر تو نہیں لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہے۔ایک روایت کےمطابق اسلام میں سب سےپہلے جھنڈےکی ابتدا حضرت عبداللہ بن جحش نے کی اور سب سے پہلا مالِ غنیمت بھی آپؓ نے تقسیم کیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ عبداللہ بن جحشؓ کی سربراہی میں جانے والی ایک مہم کاذکرفرماتے ہیں۔اس مہم میں مسلمانوں نے شھر حرام میں بامرِ مجبوری قتال کیا تھا۔جب اس بات کی خبرآنحضرتﷺ کو ملی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ مَیں نے تمہیں شھرِحرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی ہوئی۔اس پر عبداللہ بن جحشؓ اور ان کے ساتھی سخت پشیمان ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی تلوار احد کے دن ٹوٹ گئی تھی۔ رسول اللہﷺنے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی جو اُن کےہاتھ میں تلوار کی طرح ہوگئی۔ ایک موقعےپر حضرت امام شعبی نے بنو اسد کی چھ خوبیاں گنوائیں جس میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر اس بات کا ذکر فرمایا کہ اسلام میں سب سے پہلا علَم بنی اسد میں سے ایک شخص عبداللہ بن جحش کو دیاگیا ۔نیزبنو اسد کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں سب سے پہلا مالِ غنیمت بھی عبداللہ بن جحش نے تقسیم کیا۔ عبداللہ بن جحش احدکے دن شہید ہوئے تو حضرت زینب بنت خزیمہ آپؓ کے نکاح میں تھیں، ان کی شہادت کے بعد حضورﷺ نے حضرت زینب سے شادی کرلی۔
اگلا ذکر حضرت صالح شقران ؓکا ہے۔ بعض کے نزدیک حضرت شقرانؓ اور ام ایمنؓ حضورﷺ کو اپنے والد کی طرف سے ورثےمیں ملے تھے۔ غزوہ بدرکےبعدآپؐ نے انہیں آزاد فرمادیا تھا۔حضورﷺ کے وصال کےبعد جن اشخاص کو آپؐ کو غسل دینے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں حضرت صالح شقرانؓ بھی شامل تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے حضرت شقران ؓکے صاحبزادےکو حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی طرف روانہ کیا اور لکھا کہ مَیں تمہاری طرف ایک صالح آدمی کو بھیج رہا ہوں۔ رسول اللہﷺ کے ہاں اس کے والد کا جو مقام ہے، اس کے مطابق اس سے سُلوک کرنا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں آپؓ کی وفات ہوئی۔حضرت صالح شقرانؓ سےمروی ہے کہ مَیں نے آپؐ کو ایک گدھے پر سوار نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔
اگلا ذکر حضرت مالک بن دُخشم کا ہے۔ آپؓ کا نام مالک بن دخیشن یا ابنِ دخشن بھی بیان ہوا ہے۔ سہیل بن عمرو کو قیدی بنانے کے موقعے پر حضرت مالک نے جو اشعار کہے تھے ان میں یہ ذکر ملتا ہے کہ مَیں نے سہیل کو قیدی بنایااور اس کے بدلے میں کسی قوم کے دوسرے فرد کو قیدی بنانا نہیں چاہتا۔غزوہ احد کے دن مالک بن دُخشم حضرت خارجہ کے پاس سے گذرے انہیں ۱۳؍زخم آئے تھے۔ مالک نے ان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہےکہ محمدﷺ کو قتل کردیا گیا ہے۔اس پر حضرت خارجہ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے بھی تو اللہ بہرحال زندہ ہے اور وہ نہیں مرے گا۔محمدﷺ نےاسلام کا پیغام پہنچادیا ہے اس لیے تم بھی اپنے دین کے لیے قتال کرو۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کے بعد حضرت مالک سعد بن ربیع کےپاس سے گذرے انہیں ۱۲؍مہلک زخم آئے تھے۔ حضرت مالک نے ان سے بھی یہی بات کہی تو سعد بن ربیع نے بھی فرمایا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ نے اپنے رب کاپیغام پہنچادیا ہے، پس اسلام کی خاطر لڑو۔
لوگوں میں سے بعض نے آنحضرتﷺ سے حضرت مالک کی نسبت یہ عرض کیا کہ مالک منافقین کی پناہ گاہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟ لوگوں نے کہا کہ پڑھتا ہے لیکن وہ ایسی نماز ہے جس میں کوئی خیرنہیں۔ اس پر حضورﷺ نےدو بار فرمایا کہ مجھے نماز پڑھنے والوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔
ایک روایت کے مطابق حضورﷺ نے حضرت مالک بن دُخشمؓ کےساتھ عاصم بن عدی کو مسجد ضرار کو منہدم کرنےکےلیے بھجوایا تھا۔ آپؓ کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ ان کی نسل آگے نہیں چلی۔
پھر حضرت عکاشہؓ کاذکر ہے۔ ان کی حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں ۱۲؍ہجری میں شہادت ہوئی۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ایک شخص جنتی تھا مگر پھربھی زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتا تھا اور وہ عکاشہ تھے۔غزوہ بدر کے فوراً بعد ۲؍ہجری میں رسول اللہﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش کو ایک مہم پر روانہ فرمایا اس سریہ میں عکاشہؓ بھی عبداللہ کے ساتھ تھے۔ غزوہ احد کے موقع پر حضورﷺ مسلسل تیراندازی فرماتے رہے،جس کی وجہ سے کمان کا ایک حصّہ ٹوٹ گیا۔ حضرت عکاشہؓ نے کمان باندھنے کےلیے ڈورآپؐ سے لی مگر وہ ڈور چھوٹی پڑ گئی۔ آپؓ نے عرض کیا کہ ڈور چھوٹی پڑ گئی ہے تو آپؐ نے فرمایااس کو کھینچو، حضرت عکاشہ کہتے ہیں کہ مَیں نے ڈور کو کھینچا اور خدا کی قسم وہ اتنی لمبی ہو گئی کہ مَیں نے کمان کے سرے پر اسے دو تین بَل بھی دیے۔
ایک مہم کے موقع پر حضورﷺنے مدینے میں خطرےکا اعلان کیا تو گھڑ سوارآپؐ کے پاس جمع ہونےلگے۔ ان سواروں میں حضرت عکاشہؓ بھی شامل تھے۔
اگلا ذکر ہےحضرت خارجہ بن زیؓدکا۔ آپ کی کنیت ابوزید تھی۔بعض دیگر صحابہ کے ساتھ انہوں نے یہود سے توریت میں مذکور بعض باتوں کے بارے میں سوال کیا تو یہود نے بتانے سےانکار کردیا۔ جس پر قرآنی وحی بھی نازل ہوئی۔
اگلا ذکر زیاد بن لبیدؓ کا ہے۔ان کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کی نسل مدینہ اور بغداد میں مقیم تھی۔ حضرت زیاد کو حضورﷺ نے ایک قوم کی طرف انہیں دین سکھانے کےلیےبھی بھجوایا تھا۔ آپؓ 41ہجری میں حضرت معاویہ کے دورِ حکومت میں فوت ہوئے۔
پھر حضرت خالد بن بُکیرؓ کا ذکر ہے۔یہ قبیلہ بنو سعد سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں بھی حضورﷺ نے دین کی تعلیم دینے اور قرآن پڑھانے کےلیے ایک قوم کی طرف دیگر پانچ اصحاب کے ہم راہ روانہ فرمایا۔ اُن لوگوں نے جو دین سیکھنےکےلیےانہیں ساتھ لےکرگئے تھے بعد میں دھوکے سے شہید کردیا تھا۔
پھر حضرت عمّار بن یاسرؓ کا ذکر ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں کہ ایک دفعہ حضرت رسول اللہﷺ ایک غلام عمارکے پاس سے گزرے اور حال دریافت فرمایا۔ عمار نے بتایا کہ دشمن مجھے مارتے رہے اور جب تک آپؐ کے خلاف کلمات نہ کہلوالیے مجھے نہ چھوڑا۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم دل میں کیا محسوس کرتے ہو۔ عمارؓ نے بتایا کہ دل میں تو غیرمتزلزل ایمان ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اگر دل ایمان پر مطمئن تھا تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوری کو معاف کردے گا۔
حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ہونے والی شورش جب بڑھی اور صحابہ کو بھی خطوط آنے لگے تو صحابہ نے حضرت عثمانؓ کو گورنروں کے متعلق ان باتوں سے آگاہ کیا۔ مشورے کےبعد بعض اصحاب کو تحقیق کےلیے بھجوایا گیا۔ باقی سب نے تو مثبت رپورٹ بھجوائی تاہم عمّارؓ کی طرف سے کوئی جواب نہ آیااور اس میں اس قدر دیر ہوئی کہ یہ خیال کیا گیا کہ وہ مارے گئے ہیں۔مگر اصل بات یہ تھی کہ وہ اپنی سادگی اور سیاست سے ناواقفیت کےباعث مفسدوں کے پھندے میں پھنس گئے تھے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ عمار بن یاسر کا ان مفسدوں کے دھوکے میں آجاناایک خاص وجہ سے تھا اور وہ وجہ یہ تھی کہ جیسے ہی آپؓ مصر پہنچے تو ان مفسدوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لےلیا اور اپنی تیز زبانی سے والی مصر کے خلاف شکایات لگانی شروع کردیں اور عمار بن یاسرؓ نے اپنی سادگی میں ان شکایات کو درست تسلیم کرلیا تھا۔
جنگِ صفین کے موقع پر حضرت عماربن یاسرؓ پریہ حقیقت ظاہر ہوگئی تھی کہ ان فتنہ پرداز لوگوں نےکس طرح چالاکی سے فساد برپا کرکے حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا ہے۔ جنگِ صفین میں آپؓ نہایت بہادری سے شریک رہے اور شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور نے فرمایا کہ ایک افسوس ناک خبرہےکہ بررکینا فاسو میں پرسوں ہمارے ۹؍احمدی نہایت ظالمانہ طریقےسے شہید کردیے گئے۔انا للہ واناالیہ راجعون۔ اس کی تفصیلات بعض آگئی ہیں بعض ابھی آرہی ہیں۔ ان کا ذکران شاءاللہ مَیں اگلے خطبے میں کروں گا۔
حضورانور نے شہداءکےبلندیٔ درجات کے لیے دعا کی اور احبابِ جماعت کو دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایاکہ وہاں کے حالات ابھی بھی خراب ہیں، دہشت گرد دھمکی دےکر گئے ہیں۔ ان کےلیے دعا بھی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر شر سے انہیں محفوظ رکھے۔ آمین۔
واقعہ شہادت کی رپورٹ درج ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں:
https://www.alfazl.com/2023/01/13/61629/
٭…٭…٭