بنیادی مسائل کے جوابات (قسط47)
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)
٭…کیا زمین کی تنگی یا وبا کی وجہ سے مُردوں کو جلایا جا سکتا ہے؟
٭… بیوہ کی عدت کے بارے میں راہنمائی؟
٭… کیا بیوہ/ مطلقہ کے نکاح کےلیے ولی کی اجازت ضروری ہے؟
٭…کسی شخص کے نبوت اور مجددیت کا دعویٰ کرنے کے بارے میں کیا موقف ہونا چاہیے؟
سوال: جاپان سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ جاپان میں زمین کم ہونے اورلوگوں کے مذہب سے دورہو جانے نیز ماضی میں کسی وقت لاشوں کو زمین میں دفن کرنے پر وبا پھیلنے کی وجہ سےیہاں کے لوگوں میں لاش کو زمین میں دفنانے کی بجائے جلانے کے طریق کو پسند کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں لوگوں کو کس طرح سمجھایا جا سکتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 29؍اکتوبر 2021ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردہ کا احترام انسانی فطرت میں رکھا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اپنے مردوں کو دفن کر تے ہیں وہ بھی ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے مردہ کی بے حرمتی ہو۔ اور جو لوگ اسے جلاتے یا جانوروں کو کھلا دیتے ہیں وہ بھی ایسا اسی لیےکرتے ہیں کہ ان کے مردے گلتے سڑتے نہ رہیں۔ اور ان کے نزدیک مردہ کو جلانا یا جانوروں کو کھلا دینا اصل میں مردہ کے احترام کا تقاضا ہی ہے۔ پس مردہ کا احترام صرف مذہب کے ماننے والے ہی نہیں کرتے بلکہ غیر مذہب کے لوگ بھی اپنے فطرتی تقاضا کے تحت ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔
اسلام جو فطرت کے عین مطابق مذہب ہے، اس نے ہمیں یہی سکھایا کہ مردہ کوزمین میں دفن کیا جائے چنانچہ قرآن کریم میں آدم کے دو بیٹوں کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے کوّے کو بھیج کر آدم کے بیٹے کو سکھایا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کی لاش کو کس طرح زمین میں دفن کرے۔
اسلامی تعلیم کے مطابق مردہ کو زمین میں دفن کر کے جو اس کی قبر بنائی جاتی ہے، اس میں کسی قسم کا شرک پیش نظر نہیں ہوتا یا اہل قبر کی عبادت یا پوجا کرنا مقصود نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ یہ صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ انسان کی میت کو بھی مناسب طور پر عزت اور احترام دیا جا سکے۔ اور تا اس کے لواحقین حسب توفیق اس قبر پر آکر اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر سکیں۔
باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لاشوں کو دفنانے سے کسی وبا کے پھیلنے کا اندیشہ ہوتاہے تو یہ بھی ایک غلط مفروضہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی مٹی میں ایسی خاصیت رکھی ہے کہ انسانی جسم آہستہ آہستہ ختم ہو کر اسی مٹی کا حصہ بن جاتا ہے۔
چنانچہ جب اگلی نسل آتی ہے اور وقت کے ساتھ اس نئی نسل میں سے بہت سارے لوگ اپنے آباؤاجداد کو بھول جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ بہت سی قبروں کے نام و نشان زمین سے مٹ جاتے ہیں تو ان کی جگہ نئی قبریں تیار ہو جاتی ہیں۔ دنیا کے بہت سے قبرستان ایسے ہیں جن میں سینکڑوں سالوں سے مردے دفن کیے جا رہے ہیں اور بہت سی پرانی قبروں کی جگہ نئی قبریں بن چکی ہیں۔ مدینہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں بھی یہی طریق رائج ہے۔ پس مردوں کو زمین میں دفنانے کے طریق کے خلاف زمین کے کم ہونے کی دلیل کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔
مردوں کو دفن کرنے، جلانے یا جانوروں کو کھلا دینے کے بارے میں مختلف مذاہب اور معاشروں میں رائج طریق کار کے مختلف پہلوؤں کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی تصانیف تفسیر کبیر اور سیر روحانی میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ 180،179۔ سیر روحانی نمبر 3، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 317 تا 322)
سوال: دارالافتاء ربوہ کی طرف سے جاری ہونے والے فتاویٰ ملاحظہ فرمانے کے بعد ان میں سے بعض فتاویٰ دربارہ بیوہ کی عدت کے دوران اس کے بیٹے کی شادی، بیوہ/ مطلقہ کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت اور فتاویٰ میں دیےجانے والے حوالہ جات کے طریق کی بابت حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 29؍اکتوبر 2021ء میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: نظامت دارالافتاء کی طرف سے جاری کردہ فتاویٰ میں آپ نے ایک شخص کو اس کی والدہ کی عدت وفات کے دوران اس شخص کی شادی کے بارے میں یہ فتویٰ دیا ہے۔’’ سوگ اور بیٹے کی شادی کی خوشی کی تقریب میں شرکت دو متضاد چیزیں ہیں۔آپ کی شادی کی تقریب کی صورت میں آپ کی والدہ اپنی عدت وفات سوگ کی حالت میں نہیں گزار سکتیں۔ لہٰذا آپ کو اپنی شادی کا پروگرام والدہ کی عدت کے اختتام پر رکھنا چاہیے۔‘‘ (فتویٰ زیر نمبر11.09.2021/13)
میرے نزدیک آپ کا یہ فتویٰ درست نہیں۔ احادیث میں تو صرف بیوہ کے لیے چار ماہ دس دن عدت گزارنے کا حکم ہے۔ لیکن آپ اپنے اس فتویٰ کے ذریعہ تو باقی لوگ کو بھی پابند کر رہے ہیں کہ وہ بھی بیوہ کے ساتھ سوگ میں شامل ہوں اور اپنے ضروری کاموں کو عدت کے اختتام تک مؤخر کر دیں۔
میری بیٹی کی شادی بھی اُس وقت ہوئی تھی جب میری والدہ عدت میں تھیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی وفات کے بعد اُمی نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں راہنمائی کے لیے لکھا تو حضور ؒنے شادی مقررہ تاریخ پر ہی کرنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ عدت میں گھر سے باہر جانا منع ہے، گھر میں رہ کر سادگی کے ساتھ شادی کی تقریب میں شامل ہونا منع نہیں۔ اسی لیے ہم نے خواتین کا انتظام گھر کے برآمدہ اور صحن میں کیا تھا اور اُمی حضورؒ کی ہدایت کے مطابق سادگی کے ساتھ گھر میں اس تقریب میں شامل بھی ہوئی تھیں۔
پس اگر وہ لوگ اس شادی کے پروگرام کو اپنے طور پر ملتوی کر دیں تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن آپ کا انہیں شادی سے منع کرنے کا فتویٰ دینا درست نہیں۔
۲۔ اسی طرح بیوہ/ مطلقہ کے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے کے بارے میں ایک استفتاء پر آپ نے میرے خطبہ جمعہ مؤرخہ 24؍دسمبر 2004ء کے حوالہ سے جو فتویٰ دیا ہے اس سے اگر آپ یہ استنباط کرنا چاہتے ہیں کہ بیوہ اور مطلقہ کو اپنے نکاح کے لیے ولی کی اجازت کی بالکل ضرورت نہیں تو یہ درست استنباط نہیں ہے۔ کیونکہ کنواری یا بیوہ/مطلقہ دونوں کو اپنے نکاح کے لیے ولی کی اجازت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور دونوں کے نکاح کے موقع پر ان کا ولی ہی ایجاب و قبول کرتا ہے۔
آنحضور ﷺ کے ارشادات اور خلفائے راشدین کے تعامل سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عورت خواہ وہ کنواری ہو یا بیوہ/ مطلقہ اس کے نکاح کے لیے ولی کی رضامندی بھی ضروری ہے۔اسی موقف کی تائید حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاءکے ارشادات سے ہوتی ہے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں۔’’ اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اُس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہوخود بخود اپنانکاح کسی سے کرلے۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 289)مرقاۃ الیقین فی حیا ت نور الدین میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ کے بارے میں اپنا ایک ذاتی واقعہ بیان فرمایا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ آپ نے بعض علماء(میاں نذیر حسین دہلوی اور شیخ محمد حسین بٹالوی) کے فتویٰ کو قبول کر کے لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ کی حدیث میں کلام خیال کرتے ہوئے ایک بیوہ سے اس کے ولی کی رضامندی کے بغیر شادی کا ارادہ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو مرتبہ خواب میں آنحضور ﷺ کی کچھ متغیر حالت دکھا کر آپ کو اس خواب کی یہ تفہیم سمجھائی کہ ان مفتیوں کے فتووں کی طرف توجہ نہ کرو۔حضور ؓ فرماتے ہیں۔’’ تب میں نے اسی وقت دل میں کہا کہ اگر سارا جہان بھی اس کو ضعیف کہے گا تب بھی میں اس حدیث کو صحیح سمجھوں گا۔‘‘ (مرقات الیقین فی حیات نور الدین صفحہ 158 تا 160)حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک عورت نکاح کرانے کے لیے آئی تو آپ نے اس کے لڑکے کو جس کی عمر غالباً دس یا گیارہ سال تھی ولی بنایا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ولی مرد ہی ہوتے ہیں۔ اس عورت کا چونکہ اور کوئی مرد ولی نہیں تھا۔ اس لئے رسول کریم ﷺ نے اس لڑکے سے دریافت کرنا ضروری سمجھا۔‘‘( روزنامہ الفضل قادیان دارالامان نمبر 143، جلد26، مورخہ25؍جون 1938ء صفحہ 4)البتہ جیسا کہ میں نے اپنے اس خطبہ میں بھی ذکر کیا ہے بیوہ/ مطلقہ عورت، کنواری لڑکی کی نسبت اپنے بارے میں فیصلہ کرنے میں اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔اس کا مطلب یہی ہے کہ بیوہ/ مطلقہ عورت اگر کسی جگہ شادی کرنا چاہے تو ولی کو اس میں بلا وجہ روک نہیں بننا چاہیے بلکہ اس کی مرضی کا احترام کرتے ہوئے اس کا اس جگہ نکاح کر دینا چاہیے۔
۳۔ ایک فتویٰ زیر نمبر 27.09.2021/20 کے صفحہ 3 پر آپ نے الفضل16؍اگست 1948ء کا ایک حوالہ فقہ احمدیہ عبادات کے حوالہ سے دیا ہے۔ ایک تو یہ حوالہ غلط ہے۔ دوسرا اگر اصل ماخذ میسر ہو تو حوالہ اُس اصل ماخذ سے ہی دینا چاہیے۔
میں نے یہ حوالہ یہاں تلاش کروایا ہے۔ آپ کے فتویٰ میں درج یہ اقتباس حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 06؍اگست 1948ء کا ہے۔ جو خطبہ روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ 08؍مارچ 1961ء کے صفحہ نمبر 2 تا 4 پر شائع ہوا تھا۔
فقہ احمدیہ میں اس قسم کی بہت سی غلطیاں ہیں، جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ تدوین فقہ کمیٹی کو اس طرف توجہ دلائیں کہ اس کی نظر ثانی کا کام جلد مکمل کریں۔
سوال: بلاد عرب میں کسی شخص کے نبوت اور مجددیت کا دعویٰ کرنے پر اس فعل کے ردّ میں ایک عرب احمدی کی طرف سے لکھے جانے والے مضمون اور اس مضمون پر ربوہ سے بعض علماء کی طرف سے موصول ہونے والے موقف کے بارے میں انچارج صاحب عربک ڈیسک یوکے نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے راہنمائی چاہی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 06؍نومبر 2021ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضورانور نے فرمایا:
جواب: دنیا کی ہدایت اور اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نبی یا مصلح کا مبعوث ہونا اس کی ایک ایسی نعمت ہے، جس کا دنیا میں کوئی بدل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نےدنیا کی ہدایت کے لیے جب بھی کسی نبی یا مصلح کی ضرورت محسوس کی تو انسانیت پر رحم کرتے ہوئے اس نے کسی نبی یا مصلح کو ضرور دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے جاری ہے اور کسی انسان کو حق نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس سنت کو معطل قرار دے، کیونکہ قرآن و سنت میں ایسی کوئی نص موجود نہیں۔تاہم آئندہ زمانوں میں اللہ تعالیٰ کی اس سنت کااظہار کس طریق پر ہو گا، یہ خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ البتہ قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺاور انبیائے سابقہ کے صحیفوں میں آنحضور ﷺ کے بعد ہمیں صرف ایک ہی جری اللہ فی حلل الا نبیاء کی بشارت ملتی ہے۔
پھر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے بھی اپنے بعد امت محمدیہ میں دو دفعہ خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی بشارت دی ہے۔ پہلی مرتبہ کے قیام کے بعد آپ نےاس نعمت کے اٹھائے جانے کا ذکر فرمایا ہے لیکن دوسری مرتبہ اس نعمت کے قیام کی خوشخبری دینے کے بعد آپ نے خاموشی اختیار فرمائی،جس سے اس نعمت کے قیامت تک جاری رہنے کا استدلال ہوتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 285، مسند النعمان بن بشیرؓ)
آنحضور ﷺ کے غلام صادق اوراس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی بشارتوں کے تحت جہاں ایک طرف خود کو خاتم الخلفاء قرار دیا اوراپنے بعد کسی اور مسیح کے آنے کا انکار فرمایا وہاں دوسری طرف آپ نے اپنے بعد ہزاروں مثیل مسیح کی آمد کے امکان کا بھی ارشادفرمایا۔
چنانچہ قرآن کریم کی مختلف آیات، احادیث نبویہ ﷺ اور دیگر مذاہب کی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئےآپ نے انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہونے اوراس کے پانچویں ہزار سال میں آنحضور ﷺ کے مبعوث ہونے کا ذکر کرنے کےبعد فرمایا:’’اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں۔ اس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں۔‘‘ (لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 186)آپؑ نے مزید فرمایا:’’ چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح۔ مگر وہ جو اس کے لیے بطور ِظل کے ہو۔کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدّد صدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 208)
حضور علیہ السلام مجدد الف آخر بھی ہیں۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کی بشارتوں کے تحت آپؑ کے ذریعہ جاری ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ میں آنے والے آپ کے خلفاءآپ کی پیروی اور اتباع کی برکت سے اپنے اپنے وقت کے مجدد بھی ہوں گے، اس لیے آپ کی پیروی اور اتباع سے باہر اب کسی مجدد کا آنا بھی محال ہے۔ حضور علیہ السلام اپنے بعدآنے والے مثیل مسیح کے آنے کے امکان کا اظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہمارے بعد کوئی اور بھی مسیح کا مثیل بن کر آوے کیونکہ نبیوں کے مثیل ہمیشہ دنیا میں ہوتے رہتے ہیں بلکہ خدائے تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذُریّت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی وہ آسمان سے اُترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کردے گا اور وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا اور اُن کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 180،179) اس بارے میں آپؑ نے مزید فرمایا:’’میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہو گیا ہے بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار بھی مثیل مسیح آجائیں ہاں اس زمانہ کے لیے میں مثیل مسیح ہوں اور دُوسرے کی انتظار بے سُود ہے اور یہ بھی ظاہر رہے کہ یہ کچھ میرا ہی خیال نہیں کہ مثیل مسیح بہت ہو سکتے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کا بھی یہی منشاء پایا جاتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 197)ایک اور جگہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’اس عاجز کی طرف سے بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مسیحیت کا میرے وجود پر ہی خاتمہ ہے اورآئندہ کوئی مسیح نہیں آئے گا بلکہ میں تو مانتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ ایک کیا دس ہزا ر سےبھی زیادہ مسیح آسکتا ہے۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 251)فرمایا:’’عیسیٰ ؑابن مریم نے ایک سو بیس برس عمر پائی اور پھر فوت ہو کر اپنے خدا کو جا ملا اور دوسرے عالم میں پہنچ کر یحییٰ ؑ کا ہم نشین ہوا کیونکہ اس کے واقعہ اور یحییٰ نبی کے واقعہ کو باہم مشابہت تھی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ نیک انسان تھا اورنبی تھا مگر اسے خدا کہنا کفر ہے۔ لاکھوں انسان دنیا میں ایسے گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ خدا کسی کے برگزیدہ کرنے میں کبھی نہیں تھکا اور نہ تھکے گا۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 29)
پس یہ اس سلسلہ کا وہ آخری ہزار سال ہے جس میں خداتعالیٰ نےآنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاتم الخلفاء کے طور پر مبعوث فرمایا۔ آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے یہی مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چونکہ یہ آخری ہزار سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت احمدیہ حقہ اسلامیہ کا دور ہے۔ اس لیے اگر کسی وقت دنیا کی اصلاح کے لیے کسی مصلح کی ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے متبعین میں سے کسی ایسے شخص کو دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑا کرے گا جو وقت کا خلیفہ ہو گا لیکن خلیفہ سے بڑھ کرآپ کا مثیل اور مصلح ہونے کا مقام بھی اسے عطا ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جانے والی بشارتوں کےعین مطابق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس مقام پر فائز فرمایا تھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس موعود خلافت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’پھر صرف خلافت کا سوال نہیں بلکہ ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے۔ الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے۔ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں۔ یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیابلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ خلیفہ اوّل کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا۔ پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔ میں مأمور نہیں مگر میری آواز خداتعالیٰ کی آواز ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خداتعالیٰ کے حضور سُرخرو ہو جائے۔جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز روز نہیں آتے۔ ‘‘( رپورٹ مجلس مشاورت 1936ء، خطابات شوریٰ جلد دوم صفحہ 18)