حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ(الشعراء:81) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’سچے مومن کا یہ طریق ہوتا ہے کہ جب اس کے کام کا اچھا نتیجہ نکل آتا ہے تو وہ کہتا ہے الحمداللہ خدا تعالیٰ نے مجھے کامیاب کردیا ۔ او راگر خراب نتیجہ نکلتا ہے تو وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے۔ اور کہتا ہے میں اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ناکام رہا ہوں ۔ ورنہ خدا تعالیٰ نے تو میرے لئے برکت اور حمت کے ہی سامان کئے تھے ۔اور خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت اسی کو ملتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح پورا عیب اپنی طرف اور خوبی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے۔ میرے اس بندہ نے چونکہ عیب اپنی طرف اور خوبی میری طرف منسوب کی ہے۔ اس لئے اب میرا فرض ہے کہ میں اسے پوری طرح کامیاب کروں تاکہ تمام خوبیاں میری طرف ہی منسوب ہوں۔ لیکن جب وہ ایسا نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کو تمام خرابیوںکا ذمہ وار قرار دیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ۱۶۹تا۱۷۰)