کیا ہر نبی جہاں وفات پاتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے؟
حدیث’’مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ‘‘کا درست مطلب
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر لگائے جانے والے اعتراضات میں سے ایک اعتراض آپ کی وفات اور تدفین پر کیاگیا ہے کہ آپ کی وفات لاہور میں ہوئی اور تدفین قادیان میں حالانکہ حدیث میں آیا ہے کہ ’’مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ‘‘ یعنی نبی جہاں وفات پاتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے۔
اس حدیث کی تفصیل کو دیکھا جائے تو صحاح ستہ میں یہ حدیث الفاظ کے تغیر کے ساتھ دو جگہوں پر ملتی ہے سنن ابن ماجہ میں اور سنن الترمذی میں۔
چنانچہ لکھا ہے:حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَھْضَمِيُّ، أَنْبَأَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ لَمَّا أَرَادُوْا أَنْ يَحْفِرُوْا، لِرَسُولِ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم …لَقَدِ اخْتَلَفَ الْمُسْلِمُوْنَ فِي الْمَكَانِ الَّذِي يُحْفَرُ لَهُ ….. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم يَقُول’’مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ ‘‘(سنن ابن ماجہ كتاب الجنائز باب نمبر (65)باب ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صلى اللّٰه عليه وسلم )یعنی جب آنحضرت ﷺ کی قبر کی کھدائی کرنے کا ارادہ کیا تو مسلمانوں نے آپس میں اختلاف کیا کہ کہاں قبر کھودی جائے! بالآخر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی جہاں وفات پاتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے۔
یہی روایت بالفاظ دیگر جامع الترمذی میں یوں بیان ہوئی ہے:حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم اخْتَلَفُوْا فِي دَفْنِهِ فَقَالَ أَبُوْ بَكْرٍ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم شَيْئًا مَا نَسِيْتُهُ قَالَ ’’مَا قَبَضَ اللّٰهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيْهِ ادْفِنُوْهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ .قَالَ أَبُوْ عِيْسَى هَذَا حَدِيْثٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيُّ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ۔وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيْثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ فَرَوَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيْقِ عَنِ النَّبِيِّ صلى اللّٰه عليْه وسلم أَيْضًا (جامع الترمذي كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب نمبر 33)
اگر روایت کے لحاظ سے ان دونوں حدیثوں کا جائزہ لیا جائے تو اِن دونوں روایتوں میں ضعف پایا جاتا ہے۔ جامع الترمذی کی روایت کے آخر میں تو خود اس روایت کے ایک راوی عبدالرحمٰن بن أبی بکر کے بارے میں’’حافظہ کے لحاظ سے ضعیف‘‘ ہونا مذکور ہے۔ اگر اسماء الرجال کی کتب دیکھی جائیں تو وہاں اس راوی کا احوال کھل کر سامنے آ جاتا ہے مثلاً علامہ ابن عدی اپنی کتاب ’’الکامل فی الضعفاء‘‘ میں اس راوی کے ذکر میں ضعیف الحدیث، منکر الحدیث اور متروک الحدیث ہونا بیان کرتے ہیں۔(الکامل فی الضعفاء لابن عدی ذکر عبدالرحمٰن بن ابی بکر الملیکی القرشی)
پہلی روایت یعنی سنن ابن ماجہ والی روایت میں حسین بن عبداللہ راوی ضعیف ہے، امام الذہبیؒ اپنی کتاب میزان الاعتدال میں اس راوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قال ابنُ معینٍ: ضعیف۔ و قال أحمد: لہٗ أشیاء منکرۃ۔ و قال البخاری: قال علیّ ترکتُ حدیثہٗ۔ و قال أبو زُرْعَۃَ و غیرہٗ: لیس بقوی۔ وقال النّسائیّ: متروک۔‘‘(میزال الاعتدال فی نقد الرّجال مؤلفۃ امام الذھبی۔ حرف الحاء ذکر الحسین بن عبداللّٰہ بن عبیداللّٰہ) یعنی ابن معین نے کہا ہے کہ ضعیف ہے۔ احمدؒ کہتے ہیں کہ اس میں ناپسندیدہ باتیں پائی جاتی ہیں۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ علی کہتے تھے کہ میں اس کی حدیث کو چھوڑ دیتا ہوں۔ ابو زرعۃ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ قوی نہیں ہے یعنی کمزور راوی ہے۔ امام النسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک ہے۔
امام ابن حجر العسقلانیؒ نے تہذیب التہذیب میں اور امام ابن عدی نے الکامل فی ضعفاء الرّجال میں اس راوی کے متعلق یہی احوال لکھا ہے۔
اگر روایتی پہلو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی درایتی لحاظ سے حدیث کا ظاہری مطلب دیگر روایات میں مذکور واقعات کے خلاف ہےاسی وجہ سے بعض شارحین نے اس روایت کو محل نظر قرار دیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سب انبیاء کے حالات محفوظ نہیں ہیں اور جو حالات محفوظ ہیں اُن میں انبیاء کی وفات اور تدفین کی تفاصیل مذکور نہیں ہیں، گنتی کے چند انبیاء ہیں جن کی وفات کا کچھ احوال اسلامی کتب میں محفوظ ہوا ہے۔ ایسے انبیاء میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام شامل ہیں جن کے متعلق یہ معلومات ملتی ہیں۔چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ذکر میں مشہور مفسر علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:’’وذكر السدي أن يعقوب عليه السلام لما حضره الموت، أوصى إلى يوسف بأن يدفن عند إِبراهيم وإِسحاق، فلما مات صبره، وأرسله إلى الشام، فدفن عندهما عليھم السلام‘‘(تفسير القرآن الكريم/ ابن كثير المتوفّی 774ھ۔ سورت یوسف زیر آیت رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ الخ)یعنی جب حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا تو آپؑ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو وصیت کی کہ آپؑ کو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ کے قرب میں دفنایا جائے چنانچہ جب آپؑ کی وفات ہوئی تو حضرت یوسفؑ نے آپؑ کی میت کو حنوط کر کے شام بھیج دیا اور آپؑ کی تدفین اُن دونوں (حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ) کے قرب میں ہوئی۔
پانچویں صدی ہجری کے مشہور مفسر علامہ ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب الماوردی (المتوفّی 450ھ) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:وقال ابن عباس مات يعقوب بأرض مصر وحمل إلى أرض كنعان فدفن هناك۔ ودفن يوسف بأرض مصر ولم يزل بھا حتى استخرج موسىٰ عظامه وحملھا فدفنھا إلى جنب يعقوب عليھم السلام۔(تفسير النكت والعيون/ الماوردي المتوفّٰی 450 ہجریـ. سورۃ یوسف آیت رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ لْمُلْكِ الخ)یعنی حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت یعقوبؑ مصر میں فوت ہوئے اور آپ کا جسد مبارک ارض کنعان کی طرف لے جایا گیا جہاں آپ کی تدفین ہوئی۔ اور حضرت یوسفؑ کی وفات بھی مصر میں ہوئی اور آپ وہیں مدفون رہے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (اپنے زمانے میں) آپ کی ہڈیاں نکالیں اورا نہیں لے جاکر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا۔
سوال یہ ہے کہ جب ہر نبی جہاں وفات پاتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے تو پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس سنت انبیاء کے خلاف وصیت کیوں کی اور اس پر مستزاد یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی آپ کی اس وصیت پر کوئی تردّد ظاہر نہیں کیابلکہ آپؑ کے جسد مبارک کو حنوط کر اکے بڑی حفاظت اور محنت کے ساتھ مصر سے بیت مقدس پہنچایا اور وہاں تدفین کی۔
پھر خود حضرت یوسف علیہ السلام کی تدفین بھی اس جگہ نہیں ہوئی جہاں کہ آپ کی وفات ہوئی تھی چنانچہ لکھا ہے:’’…..فلما مات يوسف أرادوا أن يحملوه إلى الأرض المقدسة فلم يتركهم أهل مصر۔ واختلفوا في دفنه وأراد أهل كل محلة أن يدفن في مقابرهم وكاد أن يقع بينهم قتال حتى اصطلحوا واتفقوا على أن يدفن عند قسمة مياههم في أعلا مصر لكي يصيب بركته أهل مصر. وكان هناك إلى زمن موسىٰ عليه السلام فرفعه موسى وحمله إلى الأرض المقدسة ووضعه عند آبائه۔ وقد كان يوسف أوصى إلى بني إسرائيل أن يحملوا عظامه من أرض مصر إذا خرجوا من مصر۔ (تفسير بحر العلوم لعلامہ أبی اللیث السمرقندي (المتوفّی375 ہجری)۔ سورت یوسف زیر آیت رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ الخ)یعنی جب حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات ہوئی تو کچھ لوگوں نے آپؑ کا جسد خاکی ارض مقدسہ لے جانے کا ارادہ کیا لیکن اہل مصر نے اُن کو ایسا کرنے نہ دیا اور ہر ایک نے خواہش کی کہ آپؑ کو ان کے محلے میں دفنایا جائے۔ تدفین میں اختلاف کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ قریب تھا کہ لڑائی ہوجاتی یہاں تک کہ اُنہوں نے صلح صفائی کر کے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ آپؑ کے جسد اطہر کو مصر کے بالائی علاقے میں جہاں سے دریائے نیل دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے وہاں دفنایا جائے تاکہ جب دریائے نیل کا پانی وہاں سے گزر کر نیچے آئے تو آپؑ کی برکت سب اہل مصر کو پہنچے۔ اور آپؑ وہیں مدفون رہے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانے میں مصر سے خروج کرتے وقت آپ کی ہڈیاں وہاں سے نکالیں اور ارض مقدسہ میں آپؑ کے آباء و اجداد کے پہلو میں جاکر دفن کیا۔ خود حضرت یوسفؑ نے بھی اپنی ہڈیوں کی منتقلی کی وصیت بنی اسرائیل کو کی تھی۔
اکثر کتب تفاسیر نے حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات اور تدفین کا یہی حال لکھا ہے۔ حدیث میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بڑھیا کی نشاندہی پر حضرت یوسفؑ کی ہڈیاں قبر سے نکال کر مصر سے بیت مقدس منتقل کیں۔ (مسند أبی یعلی الموصلی۔ حدیث ابو موسیٰ الاشعریؓ۔ حدیث نمبر 7218)
حضرت آدمؑ کی قبر کی منتقلی کا ذکر بھی روایات میں ملتا ہے چنانچہ لکھا ہے: ويقال: إن نوحًا عليه السلام، لما كان زمن الطوفان، حمله هو وحواء في تابوت، فدفنھما ببيت المقدس۔ حكى ذٰلك ابن جرير۔ (البداية والنھاية – الجزء الأول۔ المؤلف: ابن كثير۔ ذکر وفاة آدم ووصيته إلى ابنه شيث) یعنی حضرت نوحؑ نے اپنے زمانے میں آنے والے طوفان کے وقت حضرت آدم اور حضرت حوا کو تابوت میں ڈال کر بیت مقدس میں دفنایا۔
بہر کیف حضرت یوسف علیہ السلام بھی عظیم الشان نبی تھے لیکن آپ کی تدفین آپ کی جائے وفات سے دور کر کے ہوئی اور پھر وہاں سے بھی عرصہ بعد آپؑ کی ہڈیاں نکال کر بیت المقدس پہنچائی گئیں۔
صرف یہ نہیں کہ گذشتہ انبیاء کے متعلق یہ باتیں مذکور ہوئی ہیں بلکہ غیر احمدیوں کے عقیدےکے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ابھی دوبارہ دنیا میں آنا ہےاور جب وہ آئیں گے تو ان کی تدفین وہاں نہیں ہوگی جہاں وہ وفات پائیں گے چنانچہ روایات میں آیا ہے:’’ وَ قَد جاء أنَّ عیسیٰ علیہ السلام بعد لبثہٖ فی الأَرْض، یحجّ و یَعُودُ فَیَموتُ بَین مکّۃ و المدینۃ، فیُحْمَل إلى المدینۃ فَیُدْفَنُ فی الحجرۃ الشریفۃ إلى جنب عمر فیبقی ھذان الصحابیان الکریمان مصحوبین، بَیْنَ ھذَین النبیین العظیمین علیھما الصلوٰۃ و السلام۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفضائل و الشمائل باب فضائل سید المرسلین ﷺ الفصل الثالث) یعنی یہ بھی آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آئیں گے تو زمین میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد حج کریں گے اور جب حج کر کے لوٹیں گے تو مکہ اور مدینہ کے درمیان وفات پا جائیں گے چنانچہ آپؑ کے جسد اطہر کو مدینہ لایا جائے گا جہاں (آنحضرت ﷺ کی قبر والے) حجرہ شریفہ میں حضرت عمر بن الخطابؓ کے پہلو میں دفن کیے جائیں گے۔
پس کتب اسلامی میں محفوظ یہ روایات ایک قاری کو زیر بحث روایت کے متعلق سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اسی لیے علامہ ابن حجر العسقلانیؒ نے بھی اس روایت کو محل نظر قرار دیا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یہ دعا مانگنے پر کہ اے اللہ مجھے بیت المقدس کے قریب کر کے وفات دینا، کے ضمن میں لکھتے ہیں:’’و قیل إِنّما طلب موسیٰ الدنو لأنّ النبی یُدفن حیث یموت و لا یُنقل، و فیہ نظر لأنّ موسیٰ قد نقل یوسف علیھما السلام معہ لما خرج مِن مصر ….‘‘ (فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الجنائز (68)باب مَنْ أَحَبَّ الدَّفْنَ فِي الأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ أَوْ نَحْوِهَا) ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے (بیت المقدس کے) قرب میں وفات کی دعا اس لیے کی کیونکہ نبی جہاں وفات پاتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے اور اُسے کہیں اور منتقل نہیں کیا جاتا۔ یہ بات محل نظر ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مصر سے نکلتے وقت حضرت یوسف علیہ السلام (کی میت) کو منتقل کیا تھا۔
مندرجہ بالا روایات کی موجودگی میں اور پھر علامہ ابن حجر العسقلانیؒ کی اس ہدایت کی روشنی میں غور کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حدیث’’مَا قُبِضَ نَبِيٌّ إِلَّا دُفِنَ حَيْثُ يُقْبَضُ‘‘ کا مضمون خود آنحضرت ﷺ کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ سب انبیاء سے، لہٰذا تمام انبیاء پر اس حدیث کا اطلاق کرنا درست نہیں۔ دراصل آنحضور ﷺ نے اپنے متعلق یہ ہدایت فرمائی تھی کہ میری تدفین وہیں ہوگی جہاں میری وفات ہوگی، اس بیان کی تصدیق دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے۔
چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت نبی کریم ﷺ کی وفات کا وقت قریب تھا تو سب آپؐ کے گرد جمع ہوئے اور آپؐ سے غسل، تکفین و تدفین اور جنازہ کے متعلق سوال کیے جس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ’’…. اِذَا غسلتُمُونی، و کفّنْتُمُونی فَضَعُونِی علیٰ سَریْرِی فِی بَیتی ھٰذا علیٰ شَفیر قبری ….. ثُم ادْخُلُوْا علَیَّ فَوْجًا بَعْد فَوْجٍ فَصَلُّوْا عَلَیَّ …..‘‘ (الرّوض الأُنف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام باب وفاۃ رسول اللّٰہ ﷺ ذکر کیفیۃ الصلوٰۃ علی جنازتہٖ علیہ السلام۔ مؤلفہ ابو القاسم عبدالرحمٰن بن عبداللّٰہ الخثعمی۔ و المواھب اللدنیۃللعلامہ القسطلانیؒ، المقصد العشر الفصل الأوّل فی اتمامہ تعالیٰ نعمتہٗ علیہ بوفاتہ و نقلتہ الیٰ حظیرۃ قدسہ لدیہ ﷺ) یعنی میری وفات کے بعد جب تم لوگ مجھے غسل اور کفن دے دینا تو پھر مجھے میرے اسی گھر میں، میری قبر کی طرف میرے بستر پر رکھ دینا … اس کے بعد پھر تم لوگ گروہ در گروہ آکر میری نماز جنازہ پڑھنا۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت ابو بکر صدیقؓ سے حضور ﷺ کی تدفین کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’حیثُ قَبض اللّٰہُ رُوْحَہٗ، فإنّہٗ لَم یُقبض رُوحہٗ إلّا فی مَکان طیّب‘‘(الخصائص الکبریٰ للعلامہ جلال الدین السیوطیؒ باب اختصاصہٖ ﷺ بتاخیر دفنہ ایاما و بدفنہٖ فی بیتہٖ حیث قُبض…) یعنی جہاں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح جہاںقبض کی ہے کیونکہ جہاں آپؐ کی روح قبض ہوئی ہے وہ ایک طیب اور پاک مکان ہے۔
الخصائص الکبریٰ میں اسی جگہ ساتھ ہی یہ درج ہے کہ جب حضور ﷺ کے مقام تدفین میں اختلاف ہوا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’ إنّ احبّ البُقاعِ إلی اللّٰہِ مکانٌ قُبِض فیْہِ نَبِیُّہٗ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو زمین پر سب سے زیادہ پسندیدہ وہ مکان ہے جہاں کہ اُس کے نبی کی روح قبض کی گئی۔ ان روایات میں کہیں بھی وجہ تدفین گذشتہ انبیاء کی سنت نہیں بیان ہوئی بلکہ خاص طور پر حضور ﷺ کی جائے وفات کو وجہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس پاک مکان میں آپؐ کی روح قبض کی ہے وہی آپ کا مدفن ہوگا۔ پس زیر بحث روایت میں بھی آنحضرت ﷺ نے صرف اپنی تدفین کے متعلق اظہار فرمایا ہے نہ کہ تمام انبیاء کے متعلق۔
آنحضرت ﷺ کا یہ اسلوبِ بیان ہمیں بعض دیگر روایات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے مثلًا صحیح بخاری میں ’’لَا نُورَثُ ما ترکنا صدقَۃٌ‘‘کے الفاظ والی روایت متعدد بار بیان ہوئی ہے یعنی ہمارا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا، جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ عام طور پر اس روایت کو سب انبیاء پر چسپاں کیا جاتا ہے حالانکہ بخاری میں اس روایت کے ساتھ ہی آگے حضرت عمر فاروقؓ کی وضاحت موجود ہے کہ ’’یُرِیْدُ رَسولُ اللّٰہ ﷺ نَفْسہٗ‘‘ یعنی مکمل جملہ یوں ہے: ’’لا نُورَثُ ما ترکنا صدقَۃٌ۔ یُرِیْدُ رَسولُ اللّٰہ ﷺ نَفْسہٗ‘‘ (بخاری کتاب الفرائض باب نمبر 3 باب قول النبی ﷺ ’’لا نُورَثُ ما ترکنا صدقَۃٌ‘‘) جس کا ترجمہ کرتے ہوئے مشہور اہل حدیث عالم حافظ عبدالستار حماد صاحب لکھتے ہیں:’’ہماری وراثت تقسیم نہیں ہوتی، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب اللہ کی راہ میں صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ اس سے رسول اللہ ﷺ کی خود اپنی ذات ہی مراد تھی‘‘(صحیح البخاری مترجم از شیخ عبدالستار حماد فاضل مدینہ یونیورسٹی۔ انہی عالم کی کتاب ہدایۃ القاری شرح بخاری، ناشر مکتبہ دار السلام میں بھی یہی ترجمہ درج ہے۔)بالکل درست ترجمہ ہے، ویسے بھی عربی عبارت واضح ہے، علامہ ابن حجر العسقلانیؒ نے اسی حدیث کی شرح میں لکھا ہے: ’’ذالک من خصائصہِ الّتی أکرم بِھا‘‘ ترجمہ: یہ(ورثہ کے صدقہ ہونے والی) بات صرف نبی کریمﷺ کی خصوصیات میں سے ہےجن سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مشرّف کیا۔ یعنی رسول اللہ ﷺ سے خاص اس بات کا اطلاق دوسرے انبیاء پر نہیں کیا جا سکتا۔
اسی اسلوب بیان کی ایک اور مثال آنحضرت ﷺ کی وفات کے ایام کی دیگر روایات میں بھی ملتی ہے: عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَا يَمُوتُ نَبِيٌّ حَتَّى يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى اللّٰه عليه وسلم يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ يَقُولُ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ الآيَةَ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ.(بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ) یعنی حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں سنتی آئی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا جاتا ہے۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مرض الموت میں آیت کریمہ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ(یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے)پڑھتے سنا تو مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کو بھی اختیار دے دیا گیا ہے۔
اس روایت کے مطابق ہر نبی کو وفات سے پہلے دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا جاتا ہے لیکن دیگر روایات سے جن میں خود صحیح بخاری کی روایات بھی شامل ہیں، یہ ثابت ہوتا ہے کہ دیگر انبیاء کو یہ اختیار نہیں دیا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق صحیح بخاری کی ایک روایت ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى اللّٰه عنه قَالَ أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسىٰ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ، فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لاَ يُرِيدُ الْمَوْت… (بخاری کتاب احادیث الأنبیاءباب وَفَاةِ مُوسَى، وَذِكْرُهُ بَعْدُ) یعنی جب موت کے فرشتہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف بھیجا گیا تو حضرت موسیٰؑ نے انہیں ایک مکّا دے مارا ۔چنانچہ وہ فرشتہ اپنے رب کے پاس آیا اور عرض کی کہ اے اللہ! آپ نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیج دیا جو موت نہیں چاہتا۔
پس اس حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زندگی اور موت کا اختیار نہیں دیا گیا تھا، اگر دیا گیا ہوتا تو زندگی اختیار کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کو فرشتہ بھیجنے کی ضرورت نہ تھی اور اگر موت اختیار کی ہوتی تو پھر ملک الموت کو مار کر بھگا نے کی ضرورت نہیں تھی۔ حضرت ادریسؑ کے متعلق بھی آتا ہےکہ وہ ملک الموت سے پوچھ رہےتھے: ’’ كم بقي من أجلي لكي أزداد من العمل ‘‘( تفسير تفسير القرآن العظيم/ ابن كثير۔ زیر تفسیر سورۃ مریم: 56 وَذْكُرْ فِي لْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقاً نَّبِيَّاً) یعنی میری اجل آنے میں کتنا وقت باقی ہےتاکہ میں اپنے اعمال میں اضافہ کر سکوں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی موت کے فرشتہ سے کہا تھا کہ ’’إذا أمرتَ بـي فأعلمني فقال: أمرتُ بِكَ وقد بقي من عمرك ساعة۔‘‘ ( تفسير روح المعاني/ علامہ الالوسي (المتوفّی 1270 هجری) سورۃ سبا آیت نمبر 14 فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ لْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلاَّ دَابَّةُ الأَرْضِ ….) (یعنی جب آپ کو میری روح قبض کرنے کا حکم ہو تو مجھے بتانا !فرشتہ نے فوراً کہا کہ مجھے حکم مل گیا ہے اور آپ کی عمر میں سے صرف ایک گھڑی باقی ہے۔) چنانچہ حضرت سلیمانؑ کو جنّوں سے کام لینے میں سونٹے کا سہارا لینے کا تکلّف کرنا پڑا۔ اگر یہی آپؑ کو اختیار ملا ہوتا کہ دنیا میں رہنا ہے یا واپس آنا ہے تو آپؑ اللہ تعالیٰ سے کچھ وقت اور مانگ لیتے کہ میں جنّوں سے کام ختم کراکے پھر آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں لیکن آپؑ کو اتنی بھی مہلت نہیں ملی۔
پس دنیا میں رہنے یا اللہ تعالیٰ کے پاس واپس جانے میں اختیار والی بات بھی صرف اور صرف آنحضور ﷺ سے ہی تعلق رکھتی ہے گوکہ اسلوب بیان عمومی رنگ رکھتا ہے اور بظاہر سب نبیوں کے متعلق لگتا ہے۔ حضرت نبی کریمﷺ کے اس اسلوب بیان کی اور مثالیں بھی روایات میں ملتی ہیں لیکن اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو پہلے ہی آپ کے مقبرے کی جگہ دکھلا دی تھی جیسا کہ آپؑ اپنی کتاب ’’الوصیت‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’اور مجھے ایک جگہ دکھلا دی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی۔ ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے تب ایک مقام پر اُس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے۔ پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اُس کی تمام مٹی چاندی کی تھی۔ تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے۔ اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اُس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا …‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 316)
اسی کشف اور اطلاع کی بنا پر آپؑ نے قادیان میں ایک قبرستان ’’بہشتی مقبرہ‘‘قائم فرمایا اور اس قبرستان کے قیام پر ہی سب کو معلوم تھا کہ یہی جگہ آپؑ کی آخری آرام گاہ ہے۔ قرآنی فرمان وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ (لقمان:35) کے مطابق کوئی بھی جان یہ تو نہیں جان سکتی کہ اُس کی آخری سانس کہاں آنی ہے لیکن اپنی خواہش کے مطابق وہ اپنی تدفین کے متعلق وصیت کر سکتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو مجھے فلاں جگہ دفنایا جائے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کہیں بھی ہوتی رسالہ الوصیت کی روشنی میں یہ بہرحال طے تھا کہ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوگی۔
امام ابن حجر العسقلانیؒ نے کسی فضیلت والے حصہ زمین میں دفن کرنے کی نیت سے میت کو لے جانے کو مستحب اور غرض راجح قرار دیا ہے (فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الجنائز باب مَنْ أَحَبَّ الدَّفْنَ فِي الأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ أَوْ نَحْوِهَا)پس وہ بستی جو مسیح محمدیؐ کی جائے قیام رہی لازماً فضیلت مآب ہے اور پھر وہ قبرستان بھی جس کی فضیلت الہام الٰہی ’’اُنْزِلَ فِیْھَا کُلُّ رَحْمَۃٍ‘‘ اور ’’اس قبرستان کے لیے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں۔‘‘ جیسے الفاظ سے ظاہر ہے، ایسی سر زمین میں میت کو بغرض تدفین لانا غرض راجح ہے۔ غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسد اطہر کا قادیان بہشتی مقبرہ میں لاکر دفنایا جانا غرض راجح بھی ہے اور آپ کی وصیت کے مطابق بھی اور یہ بھی عین سنت انبیاء ہے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی تدفین کے متعلق وصیت کی تھی کہ مجھے میرے باپ دادا کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ پس یہ اعتراض صرف آپؑ پر نہیں بلکہ ان گذشتہ انبیاء پر بھی جاتا ہے، اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:’’ان کے جو حملے ہیں اُن میں سب نبی ہیں حصہ دار‘‘