الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
مکرم محمد اسحاق انور صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۳؍دسمبر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد اسحاق انور صاحب کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد اسلم ناصر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت میاں فضل کریم صاحب گوجرانوالہ شہر کے رہنے والے تھے جنہوں نے بیس سال کی عمر میں ۱۹۰۵ء میں قادیان جاکر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپؓ کی وفات ۱۱؍ستمبر ۱۹۳۹ءکو گوجرانوالہ میں ہوئی۔ آپؓ کے چار بیٹے تھے: مکرم ماسٹر عبدالسلام صاحب، مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب درویش قادیان، مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب واقف زندگی اور مکرم محمد اسحاق انور صاحب واقف زندگی۔
مکرم محمد اسحاق انور صاحب مارچ ۱۹۳۱ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور وہیں سے میٹرک کیا۔ پھر اپنی زندگی وقف کردی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو اکاؤنٹس کا کام دیا، کچھ عرصہ دفتر امانت تحریک جدید میں کام کیا۔ پھر ۱۹۵۴ء میں تحریک جدید کی زمینوں پر نورنگرفارم محمد آباد اسٹیٹ سندھ میں بطور اکاؤنٹنٹ بھجوائے گئے۔ آپ کی شادی مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت حکیم مولوی نظام الدین صاحب مربی جموں و کشمیر سے فروری ۱۹۵۲ء میں ہوئی۔ وہ بیان کیا کرتی تھیں کہ جب مَیں بیاہ کر ربوہ آئی تو بس اڈّہ سے میرے خاوند مجھے سیدھے مسجد مبارک لے گئے۔ لوگ نماز عشاء پڑھ کر گھروں کو جاچکے تھے اور مسجد خالی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آؤ ہم دو نفل پڑھ لیں اور پھر گھر جائیں۔ آپ کا سلوک مجھ سے بہت اچھا رہا۔ گھر میں مالی تنگی تھی مگر آپ کے حسن سلوک اور محبت کی وجہ سے وہ ایام صبروشکر سے گزر گئے۔
محترم اسحاق انور صاحب کو ۱۹۶۳ء تک سندھ میں خدمت کا موقع ملا جہاں ضروریات زندگی کی شدید قلّت تھی بلکہ صاف پانی کا حصول بھی نہایت مشکل تھا۔ ایک بار آپ گھوڑے پر سوار کہیں جارہے تھے کہ گھوڑے نے آپ کو گرادیا جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے۔ خاص طور پر سر پر جو چوٹ لگی اُس سے دماغ کو شدید نقصان پہنچا۔ علاج سے خاص کامیابی نہ ہوئی تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو علاج کے لیے ربوہ بلوالیا اور پھر ربوہ اور لاہور میں کافی دیر تک علاج جاری رہا۔ آخر اسی تکلیف میں لمبا عرصہ مبتلا رہ کر ۱۱؍نومبر ۱۹۷۱ء کو آپ ربوہ میں وفات پاگئے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو چھ بیٹوں سے نوازا جن میں سے ایک کم سنی میں وفات پاگیا۔ ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد امجد صاحب آسٹریلیا میں بطور ناظم قضابورڈ خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب باقاعدہ تہجدگزار تھے۔ آپ کو خلافت سے عشق تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری میں نہایت خشوع و خضوع سے ساری ساری رات دعا میں گزار دیتے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے کہ حضورؓ کی بیماری آپ کو لگادے اور حضورؓ کو شفا عطا ہو۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے بھی قریبی تعلق تھا۔ معذور ہونے کے بعد جب بھی حضورؒ کی زیارت کی خواہش پیدا ہوتی تو نماز کے وقت اپنے بیٹے کے ہمراہ سائیکل پر مسجد مبارک چلے جاتے۔ حضورؒ آپ کو دیکھتے تو مصافحے کا شرف عطا فرماتے اور کافی دیر تک دلجوئی فرماتے۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ سے بھی پیار کا تعلق تھا۔ حضورؒ آپ کو اپنا چھوٹا بھائی کہا کرتے اور کئی بار ملنے گھر بھی تشریف لائے۔ آپ بھی حضورؒ کے گھر جایا کرتے اور حضورؒ کو اپنا روحانی باپ ہی سمجھتے۔
آپ میں امانت و دیانت کا وصف بہت نمایاں تھا۔ سندھ سے واپس آکر وکالت مال اوّل میں متعیّن تھے تو ایک بار مَیں آپ کے دفتر گیا اور اپنے فاؤنٹین پین میں سیاہی بھرلی۔ آپ نے دیکھ لیا اور کہا کہ سیاہی واپس دوات میں ڈالو، یہ سیاہی میرے پاس جماعت کی امانت ہے۔ اسی طرح ایک بار مَیں نے ایک کاغذ دفتر سے اٹھالیا جو ایک طرف سے استعمال ہوچکا تھا۔ آپ نے وہ کاغذ بھی میرے ہاتھ سے لے لیا۔ اُن دنوں سٹیشنری کی بچت کے لیے دفاتر میں استعمال شدہ لفافے بھی دوبارہ استعمال میں لائے جاتے تھے۔
خاکسار کے والدین میں قناعت اور خودداری بہت تھی۔ مالی حالت بہت خراب تھی لیکن آپ نے بچوں کو صدقہ لینے سے منع کیا ہوا تھا۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ خاکسار نے پہاڑی پر پتھر کُوٹ کر سخت مشقّت برداشت کی، اسٹیشن پر جاکر مسافروں کا سامان اٹھایا، محنت مزدوری کی اور چارپائیاں بُن کر گزارا کیا مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔
آپ بہت شفیق تھے۔ کبھی ہمیں نہیں ڈانٹا۔ کبھی ہم نے والدین کو باہم ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہی دیکھا۔ دونوں کو نماز باجماعت کا پابند، خلافت سے محبت کرنے والا اور بہت دعاگو پایا۔ یہی خوبیاں انہوں نے اپنی اولاد میں پیدا کرنے کی بھی ہمیشہ کوشش کی۔
………٭………٭………٭………
نہر پانامہ
بحرالکاہل میٹھے پانی کا سمندر ہے جبکہ بحراوقیانوس کڑوے پانی کا۔ ان سمندروں کو نہر پانامہ کے ذریعے ملادیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ نہر قرآن کریم کی اس عظیم الشان پیشگوئی پر مہرصداقت ثبت کررہی ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سورۃالفرقان آیت ۵۴ میں فرماتا ہے: اور وہی ہے جو دو سمندروں کو ملادے گا۔ یہ بہت میٹھا اور یہ بہت سخت کھارا اور کڑوا ہے۔ اور اُس نے ان دونوں کے درمیان (سردست) ایک روک اور جدائی ڈال رکھی جو پاٹی نہیں جاسکتی۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۲؍اکتوبر۲۰۱۳ء میں مکرم آر۔ایس۔بھٹی صاحب کے قلم سے نہر پانامہ کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
امریکہ کی دریافت کے بعد سے نہر پانامہ کا خواب اپنی تعبیر کی تلاش میں تھا۔ لیکن فرانسیسی ماہرین کی سطح سمندر کے برابر نہر بنانے کی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں۔ فرانسیسی ماہر Ferdinand de Lesseps کی طرف سے کی جانے والی کوشش بھی ناکام ہوچکی تھی جسے دس سال میں ۱۶۴کلومیٹر لمبی نہر سویز مکمل کرنے کا تجربہ تھا۔ وجہ یہ تھی کہ پانامہ ایک پہاڑی علاقہ تھا جہاں لینڈسلائیڈنگ ہوتی رہتی تھی۔ چنانچہ ۱۸۵۵ء سے ۱۸۷۷ء تک سروے کرنے کے بعد جب ۱۸۸۱ء میں نہر کے منصوبے پر عملی کام کا آغاز ہوا تو لینڈسلائیڈنگ اور موسمی اثرات نے ۱۸۸۹ء تک لاکھوں ڈالر اور بائیس ہزار زندگیاں نگل لیں جو ملیریا اور زردبخار کی نذر ہوگئیں۔ ان میں زیادہ تر وہ ایفروکریبین مزدور تھے جو ویسٹ انڈیز سے لائے گئے تھے۔ چنانچہ کمپنی بینک کرپٹ ہوکر ناکام ہوگئی۔
امریکہ کے لیے نہرپانامہ کی تعمیر کی اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ نیویارک سے سان فرانسسکو کا فاصلہ قریباً آٹھ ہزار میل کم ہوجاتا۔ ۱۸۹۸ء میں امریکہ اور سپین کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا ہوئی تو امریکی بحریہ نے سان فرانسسکو سے کریبین تک کا سفر ۶۷؍دنوں میں طے کیا۔ چنانچہ امریکی راہنماؤں کے ذہن میں یہ بات واضح تھی کہ اس نہر کی تعمیر تجارت کے علاوہ فوجی اغراض کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ چنانچہ صدر روزویلٹ نے ۱۹۰۱ء میں اقتدار سنبھالتے ہی نہر کی تعمیر کے لیے ریاست کولمبیا کے ساتھ ۹۹ سالہ لیز پر متعلّقہ علاقہ خریدنے کا قابل تجدید معاہدہ کرنا چاہا۔ امریکی سینیٹ نے تو اس کی منظوری دے دی لیکن کولمبیا کی سینیٹ نے انکار کردیا کیونکہ معاہدے میں مدّت مقرر نہیں کی گئی تھی۔ اس پر امریکہ نے اپنے مُہرے تبدیل کرتے ہوئے پانامہ میں موجود کولمبیا کے باغیوں کو حمایت کی یقین دہانی کروائی اور ۲؍نومبر ۱۹۰۳ء کو کولمبیا کا پانامہ پر حملہ روکنے کے لیے سمندری راستہ بند کردیا۔ چنانچہ اگلے ہی روز پانامہ نے آزادی کا اعلان کردیا اور امریکہ نے فوری طور پر نئی ریاست کو تسلیم کرلیا۔ ۶؍نومبر کو امریکہ میں مقرر ہونے والے پانامہ کے سفیر فلپ بوناؤ نے امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط بھی کردیے۔ اگرچہ بوناؤ پانامہ کے سفیر تھے لیکن وہ فرانسیسی شہری تھے اور ایسا معاہدہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ بہرحال امریکہ نے فرانسیسی ٹیم کی متروکہ مشینری اور کھدائی چالیس ملین ڈالر کے عوض خریدلی اور مملکت پانامہ کو دس ملین ڈالر سالانہ دینے کا معاہدہ بھی کیا۔
امریکی ماہرین نے نہر کے منصوبے میں یہ تبدیلی کی کہ اسے سطح سمندر کے مطابق بنانے کی بجائے ایک ایسی نہر بنایا جس کے ساتھ ڈیم اور لاکس کے دو سیٹ بنائے جانے تھے تاکہ جہازوں کو ریزروائر کی سطح تک بلند کریں اور پھر دوسرے سمندر کی سطح تک نیچے لے جائیں۔ دو مصنوعی جھیلیں اور چار ڈیم بھی تعمیر کیے گئے۔ نہرکے مختلف حصوں میں جہاز کو ساڑھے چھبیس میٹر تک اوپر اٹھایا جاتا ہے اور پھر سطح سمندر تک نیچے لایا جاتا ہے۔ نہر کی لمبائی ۷۷کلومیٹر ہے۔
نہر کی کھدائی کا کام ۱۹۱۴ء میں مکمل ہوا اور ۱۵؍اگست کو افتتاحی تقریب ہوئی جو عالمی جنگ کی وجہ سے مقامی تقریب بن کر رہ گئی تھی۔ بعدازاں نہر میں وسعت کا کام جاری رہا۔
نہر کی تعمیر کے دوران فرانسیسی منصوبے پر ۲۸۷ملین ڈالر اور امریکی منصوبے پر ۳۵۲ملین ڈالر (کُل ۶۳۹ملین ڈالر) اخراجات ہوئے۔ فرانسیسی منصوبے کے دوران قریباً بائیس ہزار اور امریکی منصوبے کے دوران ۵۶۰۰؍افراد نے جان کی بازی ہاری لیکن دنیا ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔
پانامہ نہر کی تعمیر کو ایک سو سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ یہاں ۷۵؍ہزار لوگ ملازم ہیں۔ اس نہر کی سالانہ آمدنی ۲۰۰۶ء میں ۱.۴؍ملین ڈالر تھی۔ ۲۰۰۷ء میں اس نہر سے ۱۴۷۲۱ جہاز گزرے تھے۔ اس نہر کو دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے اپنے بحری بیڑوں کے لیے بھی استعمال کیا اور اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کا یہ الہام بھی پورا ہوا کہ ’’کشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کُشتیاں۔‘‘
امریکہ نے پانامہ سے یہ علاقہ معاہدے کے تحت خریدا تھا لیکن آمدنی سے پانامہ کو بہت کم حصہ ملتا تھا۔ چنانچہ پانامہ میں امریکہ کے خلاف ۱۹۶۰ء میں پُرتشدّد مظاہرے شروع ہوئے جن کے نتیجےمیں ۱۹۷۷ء میں نیا معاہدہ طے پایا جس کے مطابق ۱۹۷۹ء تک نہر کا ساٹھ فیصد حصہ اور ۱۹۷۹ء کی آخری رات باقی علاقہ بھی پانامہ حکومت کو واپس کردیا گیا جبکہ دونوں ممالک مشترکہ طور پر نہر کے دفاع کے ذمہ دار ہیں۔ نہر کو ’’نیوٹرل انٹرنیشنل واٹروے‘‘کی حیثیت حاصل ہے چنانچہ جنگ کے دوران بھی یہ راستہ محفوظ متصوّر ہوگا۔
………٭………٭………٭………