شمالی مقدونیہ میں جماعت احمدیہ کے تیسرے مرکز کا قیام
محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے حقیقی اسلام کا پیغام دُنیا کے ہر ملک و قوم تک پہنچ رہا ہے اور تشنہ روحیں اس چشمہ سے سیراب ہورہی ہیں۔ جنوب مشرقی یورپ کا ملک شمالی مقدونیہ بھی اُن خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں احمدیت کا پودا ایک عرصہ سے لگ چکا ہے اور آہستہ آہستہ نشو و نما پارہاہے۔
شمالی مقدونیہ بلقان کا ایک landlocked ملک ہے جو چاروں اطراف سے دوسرے ممالک سے گھرا ہوا ہے۔ یہ ملک ۸؍ستمبر ۱۹۹۱ء کو یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد وجود میں آیا۔ ملک کی سرکاری زبانیں مقدونین اور البانین ہیں۔ مقدونین کا تعلق جنوبی سلاوی زبانوں سے ہے جو سلاوک زبانوں کی تین شاخوں میں سے ایک ہے اور بلغارین سے مماثلت رکھتی ہے۔ تازہ مردم شماری کے مطابق، ملک کی آبادی 1.8 ملین ہے، جن میں سے 58.44% سلاوک مقدونین ہیں، جب کہ دوسرا بڑا گروپ 24.3% البانین پر مشتمل ہے۔ ملک کا دارالحکومت Skopje ہے جب کہ دیگر اہم بڑے شہر علی الترتیب Bitola، Kumanovo، Prilep اور Tetovo ہیں۔
جماعت کا قیام اور ترقی
شمالی مقدونیہ کے سب سے پہلے احمدی مکرم Bajazit Izinov بایازِت اِزینووکے ہیں جنہیں 1984ء میں جرمنی کے شہر Aachen میں بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ اگلے کچھ سالوں میں اُن کے رشتہ داروں میں سے بھی کئی افراد نے بیعت کرلی جن میں سے بعض بعد میں جماعت جرمنی کی طرف سے شمالی مقدونیہ میں بھیجے گئے، تبلیغی وفود کا حصہ رہے اور اس طرح یہاں Berovo اور Pehchevoمیں بھی کافی تعداد میں روما قوم سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا۔
ایک اَور قابل ذکر نام مکرم رمضان میمیتی صاحب کا ہے، جنہیں۱۹۹۳ء میں جرمنی کے شہر Augsburg میں قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔ رمضان صاحب کو شمالی مقدونیہ کے پہلے البانین احمدی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ موصوف ۱۹۹۸ء میں واپس اپنے وطن تشریف لے آئے۔ اُن کا گاؤں Opaja شہر Kumanovo کے قریب ہی ہے۔ اسی سال مکرم محمد زکریا خان صاحب بھی چند دِن کے لیے تبلیغی سفر پر یہاں تشریف لے آئے اور ایک مقامی ٹی وی چینل پر اُنہیں جماعت کا پیغام مؤثر انداز میں پیش کرنے کی توفیق ملی۔ جس کے بعد جماعت کی سخت مخالفت ہوئی اور ہر مسجد میں جماعت کے خلاف جھوٹے اعتراضات اور پروپیگنڈا کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مکرم رمضان میمیتی صاحب کو پولیس نے تین دِن کے لیے حراست میں لے لیا اور بعد میں ۲۷ دن تک روزانہ پولیس کے پاس حاضری دینی پڑی۔ اِس طرح موصوف کو راہِ مولیٰ میں اسیری کا شرف حاصل ہوا۔
اپریل ۱۹۹۵ء سے مختلف مبلّغین، واقفینِ عارضی اور جرمنی میں مقیم مقدونین احمدیوں کے وقتاً فوقتاً یہاں تبلیغی وفود کی صورت میں آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس کے نتیجہ میں مختلف قوموں سے لوگ آہستہ آہستہ جماعت میں شامل ہوتے رہے اور نظام جماعت کا مضبوط حصہ بنتے رہے۔ سال ۲۰۰۹ء میں مکرم وسیم احمد سروعہ صاحب مربی سلسلہ بوسنیا کو شمالی مقدونیہ کی زائد ذمہ داری دی گئی۔ اور پھر سال ۲۰۱۳ء میں اُن کا تقرر بطور مرکزی مبلغ و صدر جماعت مقدونیہ ہوگیا، اور وہ آج بھی اسی خدمت پر مامور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبے عرصہ سے کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں Berovo اور Pehchevo کے شہروں میں بہت سے روما اور تُرک نژاد مسلمانوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ اُن کی تربیتی ضروریات کے پیش نظر یہاں مراکز کا قیام عمل میں آیا اور ۲۰۲۰ء میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے Pehchevoمیں باقاعدہ مشن ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
Kumanovo میں جماعتی مرکز کا قیام
Kumanovo میں رمضان میمیتی صاحب کی فیملی ۱۹۹۸ء میں واپس آچکی تھی اور اُنہیں باقاعدگی سے جلسہ سالانہ جرمنی، البانیہ و کوسووا میں شامل ہونے کی سعادت بھی ملتی رہی۔ اِن سالوں کے دوران اُن کے بعض رشتہ داروں نے بھی بیعت کرلی، نیز البانین کے علاوہ روما قوم سے بھی بہت سے افراد نے اس شہر میں احمدیت قبول کی اور اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ یہاں باقاعدہ ایک مرکز ہونا چاہیے جہاں افرادِ جماعت نمازوں کے لیے اکٹھے ہوسکیں اور تبلیغی و تربیتی مساعی میں تیزی پیدا کی جاسکے۔ اس غرض کے لیے جب منظم طور پر کوشش کی گئی تو اللہ کے فضل سے بہت جلد ایک مکان کرایہ پر مل گیا۔ مالک مکان کو جب جماعت کا تعارف کروایا گیا اور مساعی وغیرہ بتائی گئی تووہ بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور بعد میں اپنے دوسرے مسلمان رشتہ داروں کی مخالفت کے باوجود اپنے معاہدہ پر قائم رہا۔ ماہِ نومبر میں چابی مل جانے کے بعد ایک کمرے کو نماز کے لیے مخصوص کیا گیا جہاں قالین کا انتظام کیا گیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ کمرے کا رُخ بھی بالکل قبلہ کی جانب ہے۔ احباب جماعت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے ایک بڑا کمرہ مخصوص کیا گیا ہے جہاں ایم ٹی اے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اسی کمرے کے دوسرے جانب باورچی خانہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک کمرہ بیڈروم کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔
مورخہ ۱۱؍دسمبر ۲۰۲۲ء کو اس سلسلہ میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا تاکہ باقاعدہ اس نئے مرکز کا افتتاح کیا جاسکے۔ چنانچہ محترم وسیم احمد سروعہ صاحب، مبلغ سلسلہ و صدر جماعت مقدونیہ کی صدارت میں نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد تقریب کا آغاز ہوا۔ خاکسار نے قرآنِ کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیات ۱۲۸تا ۱۳۰ کی تلاوت کی اور اُن کا ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں مکرم مربی صاحب نےاُنہی آیات قرآنیہ کی روشنی میں بتایا کہ جس طرح حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ نے باقاعدہ دُعاؤں سے خانہ کعبہ کی بنیادیں استوار کی تھیں، آج ہم بھی اُنہی دُعاؤں کے ساتھ اس مرکز کا باقاعدہ آغاز کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعہ اپنی رحمت کا اظہار کرتا ہے اور لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ ہم احمدی خوش نصیب ہیں کہ ہمیں حضرت امام مہدیؑ کو قبول کرنے کی توفیق ملی، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور رسول کریمﷺ کے اعلیٰ مقام کے اظہار کے لیے نبی بناکر مبعوث فرمایا ہے۔ اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اسلام کی تمام تعلیمات کی مکمل پابندی کریں نیز حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی آمد کی خبر اپنے عزیز و اقرباء اور اپنی اپنی قوم کے لوگوں تک پہنچائیں۔ مربی صاحب نے بتایا کہ علیحدہ مرکز بنانے کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے احمدی مسلمان ہونے کے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام احمدیت کے عقائد و تعلیمات پر خالص طریق سے عمل پیرا ہوسکیں۔ لہٰذا اب ہمارا فرض ہے کہ جہاں اس مرکز کو آباد کریں اور نماز باجماعت کا اہتمام کریں، وہیں اپنے ہمسایوں کے حقوق کا بھی خیال رکھیں، اور اُن کے سامنے بہترین نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریں۔ بعد ازاں اجتماعی دُعا ہوئی اور سب افرادِ جماعت نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ آخر میں سب نے مل کر کھانا تناول کیا اور اس طرح یہ بابرکت تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
اس تقریب میں کل ۲۰؍افراد شامل تھے جو شہر Kumanovoکے علاوہ Berovo, Pehchevo اور دارالحکومت Skopje سے تشریف لائے ہوئےتھے۔ تقریب میں ۳؍زیرِ تبلیغ البانین دوست بھی شامل تھے۔ قارئین الفضل کی خدمت میں دُعا کی عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مرکز کو شہر Kumanovo اور گردو نواح میں اسلام احمدیت کی ترقی کی بنیاد بنادے اور افرادِ جماعت کو اخلاص اور تقویٰ میں بڑھائے۔ اللہ تعالیٰ نیک روحوں کو بکثرت اس پیغام کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(رپورٹ: شاہد احمد بٹ۔ مربی سلسلہ البانین ڈیسک، جرمنی)