اگر تم پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہوجائے گی (قسط دوم)
خطاب حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جلسہ سالانہ۱۹۴۴ء
اعمال کی اصلاح
ایمان اور یقین کی پختگی کے بعد عملی اصلاح کی تفاصیل کا میدان نہایت وسیع ہے۔ دراصل انسان کو اپنی زندگی میں جس جس میدان میں قدم رکھنا پڑتا اور جس جس ماحول کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ ان سب میں اسے کوئی نہ کوئی اعمال بھی بجا لانے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر میدان میں ہم ان کی دیکھ بھال اور اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ کوئی قدم صحیح ایمان اور صحیح عقائد کے خلاف نہ اٹھ جائے۔ یا باالفاظ دیگر کوئی قدم خدا کی منشا ءکے خلاف نہ اٹھ جائے۔ اور سچا مومن اور سچا متقی وہی ہے۔ جو اپنا ہر قدم اٹھاتے ہوئے اس بات کو سوچنے کا عادی ہو کہ کیا میرا یہ قدم میرے آقا و مالک کے منشاءکے خلاف تو نہیں۔
تربیت اولاد
اب میں چند ایسی باتیں بیان کرتی ہوں جن میں طبقہ نسواں میں زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے میں تربیت اولاد کے سوال کو لیتی ہوں کیونکہ یہ مسئلہ قومی زندگی کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر اولاد کی تربیت صحیح طریق پر ہو تو قوم کی عملی اصلاح دائمی بنیادوں پر قائم ہو جاتی ہے۔ اور نہ صرف قوم کا حال سدھر جاتا ہے۔ بلکہ مستقبل بھی روشن ہو جاتا ہے اس لئے اسلام نے تربیت اولاد کے مسئلہ پر بہت زور دیا ہے۔
خدا کا حکم
چنانچہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہےقُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَاَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا (التحریم : 7)یعنی اے مسلمانو! تم صرف اپنے آپ کو ہی خراب اعمال سے جو جہنم کی طرف لے جانے والے ہوں نہ بچاؤ بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی بچاؤ۔ تاکہ تمہاری آئندہ نسلیں بھی نیک اعمال بجا لانے والی ہوں اور صحیح قومی زندگی کی داغ بیل قائم ہوجائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
اس اصول کی تشریح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ اٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ جن والدین کو خدا کوئی لڑکی عطا کرے تو پھر وہ اس کی اچھی طرح سے تربیت کریں تو ایسے والدین خدا کے حضور دوہرے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اس ارشاد میں یہی حکمت مخفی ہے کہ لڑکیوں کی اچھی تربیت کرنے والا نہ صرف ان لڑکیوں کو نجات اور فلاح کے راستے پر ڈالتا ہے بلکہ آئندہ نسلوں کی اصلاح کی بنیاد بھی قائم کرتا ہے۔
حکم پردہ میں حکمت
اسلام نے جو پردہ کا حکم دیا ہے۔ اور عورتوں کو گھروں سے باہر بے حجابانہ پھرنے سے منع قرار دیا ہے۔ اس میں منجملہ اور حکمتوں کے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ تا عورتوں کو حتی الوسع اسی ماحول کے اندر رکھا جائے جس میں ان کا اصل کام مقرر ہے۔ اور وہ اپنی اولاد کی تربیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ توجہ دے سکیں۔ یہ ایک بہت نازک اور اہم ذمہ داری ہے جو عورت پہ ڈالی گئی ہے۔ اور اگر وہ اسے دیانتداری کے ساتھ صحیح طریق پر اسلام کی تعلیم کے مطابق پوری کرے۔ تو یقیناً وہ گھر میں بیٹھے ہوئے ہی مردوں کے جہاد اور دوسری دینی خدمات کا ثواب حاصل کر سکتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ کئی بہنیں اپنی اس نازک ذمہ داری کی طرف پوری توجہ نہیں دیتیں اور ثواب اور قومی خدمت کا ایک اہم موقع ضائع کر دیتی ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ بہنیں آئندہ کے لئے اپنے دلوں میں یہ پختہ عہد کر لیں گی کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں گی اور انہیں بچپن ہی کی عمر میں اس طرح اسلام اور احمدیت کے قالب میں ڈھال دیں گی کہ بڑے ہوکر وہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا بہترین نمونہ ثابت ہوں۔
بڑوں کی اصلاح کے متعلق کچھ
اب میں مختصر طور پر بڑوں کی عملی اصلاح کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ اور اس گروہ میں مَیںخود بھی شامل ہوں۔ اس لئے سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے، ہم اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ محض اسلام اوراحمدیت کو زبانی طور پر سچا مان لینا کوئی چیز نہیں۔ جب تک کہ ہم اس کی تعلیم پر عمل پیرا نہ ہو ں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ مان لینے سے ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے اور ہم اپنے اعمال کے متعلق خدا کے سامنے اور بھی زیادہ جواب دہ ہو جاتے ہیں۔ پس ہمارا اسلام اور احمدیت پر ایمان لانے کا دعویٰ تبھی سچا سمجھا جاسکتا ہے۔ کہ ہم اس کی تعلیم پر عمل کریں اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں گذاریں مگر ہم میں سے کتنی ہیں جو سچ مچ اسلام اور احمدیت کی تعلیم کا نمونہ ہیں ؟ بے شک خدا نے ہمیں احمدیت کی توفیق عطا کر کے ہماری زندگیوں میں بھاری انقلاب پیدا کر دیا ہے مگر ابھی ہمارے اندر بہت سی خامیاں بھی ہیں۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان خامیوں کو دور کر کے دنیا پر ثابت کر دیں کہ احمدیت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو کامل انسان بنانے کی قابلیت رکھتی ہے۔
میں اپنی بہنوں کے سامنے چند باتیں پیش کرتی ہوں جن میں ہمیں اپنی عملی زندگی میں زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے۔
دینی تعلیم سے واقفیت کی ضرورت
(الف) سب سے اہم اور ضروری چیز یہ ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے واقف ہوں۔ صرف اسلام اور احمدیت کا نام کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ مذہب کا وجود منترجنترکے طور پر نہیں ہوتا کہ صرف نام لے دینے سے ساری مرادیں پوری ہو جائیں۔ بلکہ مذہب کی تعلیم عمل کے لئے ہوتی ہے اور عمل کے واسطے علم ضروری ہے پس پہلی بات یہ ہے کہ بہنیں اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے واقفیت پیدا کریں حق یہ ہے کہ اسلام جیسے مذہب اور قرآن جیسی کتاب اور احمدیت جیسا طریق رکھتے ہوئے ان کی تعلیم سے نا واقف رہنا انتہائی محرومی ہی نہیں بلکہ انتہا درجہ کی بے وفائی بھی ہےلہٰذاسب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے واقفیت پیدا کریں۔ اور اس کے لئے قرآن شریف کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا حدیث کا مطالعہ کرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی کتب اور دیگر کتب سلسلہ کا مطالعہ پھر اس کے ساتھ اخبارات کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ بعض بہنیں یہ خیال کریں گی کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں ہیں ہم کس طرح ان کتب کا مطالعہ کر سکتی ہیں۔ لیکن اول تو ہمت والے انسان کے لئے بڑی عمر میں بھی پڑھنا لکھنا لکھنا سیکھ لینا کوئی مشکل امر نہیں۔ دوسرے علم کے واسطے خود پڑھنا جاننا ضروری بھی نہیں۔ انسان دوسروں سے سن کر بھی علم سیکھ لیتا ہے ہمارے آقا و سردار بھی بظاہر اُمی تھے مگر آج تک دنیا نے علم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نذیر پیدا نہیں کیا اور نہ آئندہ پیدا ہوگا۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ بَا رِ کْ وَسَلِّمْ
(جاری ہے)