اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
ایک احمدی کے گھر تحریر شدہ کلمہ مٹادیا گیا
گنڈا سنگھ والا، ضلع فیصل آباد 10؍ستمبر 2021ء: ملک رفیق احمد نے اپنے گھر کے مرکزی دروازے پر کلمہ اور ایک عربی جملہ لکھا تھا۔ پولیس 10؍ستمبر 2021ء کو ان کے گھر پہنچی۔ اس وقت ان کا بیٹا باسل احمد گھر پر تھا۔ پولیس نے اسے بتایا کہ کسی نے ان کے گیٹ کی تصویر لے کر ایس پی پولیس کو بھیج دی ہے۔ انہوں نے اس سے کہا کہ اسلامی الفاظ کو مٹا دو ورنہ نتائج کو بھگتنا پڑے گا۔
احمدیوں پر دکان اور مکان خالی کرنے کا دباؤ
جوہرآباد، ضلع خوشاب؛ اکتوبر 2021ء: دو احمدی بھائی عاطف اعجاز اور کاشف اعجاز یہاں علی موبائلز کے نام سے ایک دکان چلا رہے تھے۔ 14؍اکتوبر 2021ء کو ان کی دکان کا مالک ان کے پاس آیا۔ انہوں نے بھائیوں سے کہا کہ وہ دکان خالی کردیں کیونکہ مسلم لیگ (ق) کے مقامی صدر ملک الیاس نے ان کی دکان کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔ جس میں اُس نے موقف اختیار کیا کہ قادیانیوں کی دکان ان کی مسجد کے محراب کے سامنے واقع ہے۔ انہوں نے لکھا کہ مسلمان اس کی طرف نماز اور سجدہ کرتے ہیں۔ مالک نے بھائیوں سے یہ بھی کہا کہ اگر وہ جمعرات تک دکان خالی کر دیں تو وہ دکان کی حفاظتی رقم واپس کر دے گا ورنہ نہیں کرے گا۔ انہیں اپنا واحد کاروبار بند کرنا پڑا۔ کچھ سال پہلے، انہیں اس سے ملحق ایک اور دکان خالی کرنی پڑی تھی۔ اس کو کرایہ دینے کے لیے انہیں زیادہ کرایہ اور ایڈوانس ادا کرنا پڑا تھالیکن اب اسے بھی خالی کرنا پڑا۔
اسی طرح امجد حیات بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ جوہرآباد میں کرائے کے مکان میں مقیم تھے۔ مالک مکان نے انہیں اکتوبر تک گھر خالی کرنے کو کہا۔ انہوں نے شبیر کالونی میں ایک مکان کرائے پر دیکھا لیکن وہاں بھی مالک مکان نے ان کے عقیدے کی وجہ سے رہائش دینے سے انکار کر دیا۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں احمدیوں کو ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور کے بھاٹی گیٹ میں احمدیوں کو خوفناک دھمکیوں کا سامنا
9 ؍ستمبر 2021ء: ڈاکٹر پرویز ظریف ایک سرکاری ملازم ہیں۔ وہ گھر میں ایک پرائیویٹ کلینک بھی چلاتےہیں۔ 9؍ستمبر کو کام کے لیے روانہ ہوتے ہوئے انہیں اپنے گھر کے باہر دو خطوط ملے۔ خطوط 8-10 صفحات پر مشتمل تھے اور ان میں دھمکیاں دی گئی تھیں۔ خطوط بھیجنے والوں کا دعویٰ تھا کہ وہ قطری طالبان ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر پرویز اور ان کے خاندان کو احمدی ہونے کی وجہ سے قتل کرنے کی دھمکی دی اور لکھا کہ وہ ان کے گھر کو بم سے اڑا سکتے ہیں یا انہیں قتل کر سکتے ہیں۔ ان کے کلینک کا عملہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ مزید یہ کہا گیا کہ اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کو دس تولہ سونا دینا ہوگا اور شریف جیولرز، رنگ محل سے دس سونے کے بلاکس حاصل کرنے ہوںگے۔ ان کو جمعہ کو وہاں جانا ہوگا اور وہیں ان سے رابطہ کر لیا جائے گا اور وہ اپنے طریقے سے وصول کریں گے۔ اس کے بعد گھر خالی کرنے کا اور علاقہ چھوڑ دینے کا کہا گیا۔ ڈاکٹر پرویز نے پولیس کو اطلاع دی، اپنا کلینک بند کر دیا اور عارضی طور پر دوسری جگہ منتقل ہو گئے۔
ڈاکٹر وسیم احمد کی لودھراں پوسٹنگ پر اَپ ڈیٹ
اکتوبر 2021ء: ڈاکٹر وسیم احمدکا تذکرہ کچھ عرصے سے ہماری اخبار میں ہوتا رہا ہے۔ ان کی تقرری کے معاملے کو (جوکہ دراصل کوئی معاملہ ہے ہی نہیں) مذہبی لابی نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہماری حالیہ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر وسیم احمد نے معروف کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (جو اَب یونیورسٹی بن چکی ہے) سے گریجوایشن کی اور 25 سال قبل سرکاری ملازمت اختیار کی۔ ان کا سروس ریکارڈ بہترین ہے۔ تبادلے کے احکامات پرڈاکٹر احمد نے 20؍اگست 2021ء کو چکوال رپورٹ کیا۔ وہاں مذہبی متعصبوں نے ان کی تقرری کی مخالفت کی اور مقامی پریس نے بھی ان کے خلاف تحریک میں شامل ہو کر ان کی فوری طور پر دوسری جگہ منتقلی کا مطالبہ کیا۔ محکمے کے اعلیٰ افسران نے تنازعہ سے بچنے کے لیے انہیں ضلع لودھراں کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کہروڑ پکا منتقل کر دیا۔ یہاں بھی مجلس تحفظ ختم نبوت (MTKN) کے کارکنان نے ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ سے ملاقات کی اور ڈاکٹر احمد کے تبادلے کا مطالبہ کیا۔ مقامی بار ایسوسی ایشن کے ہنگامہ آرائی کرنے والوں نے بھی ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ بصورت دیگر انہوں نے راست اقدام کی دھمکی دی۔ اسی طرح کہروڑ پکا کے تاجروں نے ڈپٹی کمشنر لودھراں کو درخواست بھیج کر ڈاکٹر احمد کے تبادلے کا مطالبہ کیا۔ بصورت دیگر احتجاج کرنے اور شٹر ڈاؤن کرنے کی دھمکی دی۔ ڈاکٹر احمد نے بڑی دلیری کے ساتھ اس معاملے کا مقابلہ کیا۔
کے پی کے میں احمدی ہونے کاکیا مطلب ہے
ٹوپی، ضلع صوابی؛ اکتوبر 2021ء: احمدی مخالف عناصر یہاں بہت سرگرم ہیں۔ 26؍اکتوبر کو انہوں نے ایک احمدی عمر احمد کی رہائش گاہ کے سامنے ختم نبوت کانفرنس کا اعلان کیا۔ کانفرنس سے پہلے کارکنان عمر احمد کے پاس آئے اور ان سے مسلمان ہونے کو کہا، جس پر انہوں نے کلمہ پڑھا اور وہ چلے گئے، لیکن بعد میں انہیں ان کے موبائل فون پر ٹیکسٹ میسجز آنے لگ گئے کہ ’’مرزا غلام احمد کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘کانفرنس کی وجہ سے خدشہ تھا کہ اس موقع پر مخالفین پرتشدد ہو سکتے ہیں اس لیے پولیس کو اطلاع کر دی گئی۔ تین احمدی خاندانوں نے نظروں میں آنے سے بچنے کے لیے عارضی طور پر دوسری جگہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ باقی احمدیوں نے بھی حفاظتی تدابیر اختیار کیں۔ یہ کانفرنس 26؍اکتوبر کو منعقد ہوئی۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانی حقوق اور مختلف آزادیاں جو شہریوں کو حاصل ہیں (یا نہیں حاصل) اس کا اختیار بھی اب حکومت کے بجائے ملا ؤں کے پاس جا چکا ہے۔
ایک منصفانہ سوال
اسلام آباد؛ اکتوبر 2021ء: اس ماہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اپنے مطالبات کے حق میں ملک اور بالخصوص پنجاب میں احتجاج کیا اور ریلیاں نکالیں۔ اپنے ایجی ٹیشن کی حمایت کرنے کے لیے انہوں نے ناموس رسا لت کا استعمال کیا۔ مہم جب شدت اختیار کر گئی تو پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں آٹھ پولیس اہلکار ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، جن میں سے کچھ کی حالت تشویشناک تھی۔ ٹی ایل پی کے ملا ؤں نے وفاقی دارالحکومت کی طرف مارچ کرنے کا ارادہ کیا تو وفاقی حکومت کو بجا طور پر اس پر بہت تشویش ہوئی اور پہلے سے ہونے والی خونریزی کے پیش نظر، رینجرز کو بلا کر پنجاب میں دو ماہ کے لیے تعینات کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے ریاست اور عمومی طور پر امن و امان کو درپیش خطرات کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لیا اور ان کے احتجاج کی مذمت کی۔ انہوں نے 27 ؍اکتوبر 2021ء کو اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کی خاطر اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف ایک پریس کانفرنس کی۔ اس میں اپنے مذہبی ہونے کا ثبوت دینے کے علاوہ دوسرے امور کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ
٭…ہم ناموس رسالت اور ختم نبوت کے جنگجو (سپاہی) بھی ہیں۔
٭…میں قال کا جنگجو ہوں یعنی قال رسول اللہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔ میں اپنی دس جانیںبھی ناموس رسالت پر قربان کرتا ہوں۔ اگر کوئی پورے پاکستان میں یہ ثابت کر سکتا ہے کہ ختم نبوت کے معاملے میں کسی نے مجھ سے زیادہ وقت جیل میں گزارا ہے تو میں جو بھی سزا (مجھے دی جائے) بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر محترم وزیر ناموس رسالت اور ختم نبوت سے وابستگی کی حمایت میں قانون شکنی کی سزا بھگتنے پر اتنا فخر کرتے ہیں تو اب وہ اسی وجہ سے ٹی ایل پی کی طرف سے بھڑکائی گئی تحریک پر اعتراض کیوں کر رہے ہیں؟ احمدی کارکن کو اپنے عقیدے کےباعث مختلف جگہوں پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
فرض شناس اہلکار کے خلاف بے بنیاد احتجاج
اکتوبر 2021ء: جیسا کہ سابقہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ شوکت حیات مجوکہ کو اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی میں مذہبی اور سیاسی گروہوں کی جانب سے شدید مخالفت اور ایذارسانی کا سامنا ہے۔ یہ اسی خبر کا فالو اپ ہے۔ قبل ازیں مسٹر مجوکہ کا تبادلہ ضلع اٹک کے علاقے فتح جنگ، جنڈ سے چکوال، پھر نور پور تھل، پھر میانوالی اور اس کے بعد راولپنڈی سے تحصیل میونسپل آفیسر (ٹی ایم او) کیا گیا۔ پنجاب حکومت نے اس فرض شناس اہلکار کے خلاف بے بنیاد احتجاج قبول کرنا زیادہ قابل قبول سمجھا اور یہاں تعیناتی کے احکامات بھی منسوخ کر دیے۔ وہ بطور چیف آفیسر تحصیل کونسل خوشاب تعینات تھے۔ انہوں نے 25؍ ستمبر کو چارج سنبھال کر کام شروع کیا۔ تاہم چارج سنبھالتے ہی ان کے مخالفین نے احتجاج شروع کر دیا اور ان کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ 29؍ستمبر 2021ء کو مخالفین کے احتجاج کے بعد ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ان کا چارج دوبارہ واپس لے لیا گیا۔ اب وہ پنجاب لوکل گورنمنٹ بورڈ لاہور میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہیں۔
روزانہ کی کمائی بھی راولپنڈی میں ایک مشکل امر
اکتوبر 2021ء: احمدی تاجروں، سرکاری ملازمین اور نجی ملازمین کو آج کل دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور کچھ کو نوکری چھوڑنی پڑی ہے۔ محمد وقاص فرنیچر کا کاروبار کرتے ہیں۔ ٹریڈ یونین نے انہیں اپنی دکان خالی کرنے پر مجبور کیا کیونکہ وہ ایک احمدی ہیں۔ میاں فیضان احمد کو ان کے عقیدے کی بنا پر نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ نصیر الدین امینی کا ایک کاروبار ہے جس کا نام امینی گارمنٹس ہے۔ مخالفین ان کے کاروباری مقام پر جمع ہو کر نعرے لگاتے ہیں۔
راجن پور میں ابتر صورتحال
راجن پور (پنجاب) ; اکتوبر 2021ء: جولائی 2020ء میں پانچ احمدیوں کے خلاف احمدیوں کے زیر انتظام سکول کے تناظر میں ایک من گھڑت پولیس مقدمہ درج کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوئی۔ تین ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔ بریت کے نتیجے میں مخالفین ناراض ہیں اور احمدیوں کی زندگی مشکل بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وہ تمام شہر کو احمدیوں سے پاک کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس میں ملاؤں نے کچھ وکلاء، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے دیگر لوگوں کو ساتھ لیا ہے۔ انہوں نے احمدیوں کے خلاف مشترکہ قرارداد منظور کی اور انہیں ہراساں کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور احمدیوں کے کاروبار اور رہائشیوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ راجن پور میں احمدیوں کے لیے حالات کشیدہ اور مشکلات کا شکار ہیں۔
احمدی کی مشترکہ قبرستان میں تدفین سے انکار
نواں کوٹ، ضلع شیخوپورہ۔ 6؍ اکتوبر 2021ء: یہاں کچھ عرصے سے احمدیوں کی مخالفت عروج پر ہے۔ مخالفین نے مشترکہ قبرستان میں احمدیوں کی تدفین میں رکاوٹ ڈالی۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت نے احمدیوں کو علیحدہ قبرستان الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا جس پر عمل جاری تھا۔ 6؍ اکتوبر کو یہاں ایک احمدی کا انتقال ہوا۔ مشترکہ قبرستان میں جنازے کے انتظامات کیے گئے، لیکن مخالفین نے رکاوٹ ڈالی اور ہنگامہ کیا۔ اس کی اطلاع انتظامیہ کو دی گئی۔ پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار موقع پر پہنچے اور احمدیوں کو قبرستان کے لیے الاٹ کی گئی زمین کے کاغذات حوالے کیے اور زمین کی نشاندہی بھی کی۔ تدفین نئے الاٹ شدہ پلاٹ میں عمل میں آئی۔
ایک مولوی کی نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کی کوششیں
جبوکی ڈھلوان، ضلع گوجرانوالہ؛ 24؍ ستمبر 2021ء: قاری طاہر بلوچ نے احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کی تاکہ جماعت کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کی جا سکے۔ اپنی تقریر میں ملا نے احمدیوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا اور عوام کو ان کی (مبینہ) توہین کی وجہ سے قتل کرنے پر اکسایا۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک واقعہ کا حوالہ دیا جس کے مطابق انہوں نے اپنے چچا کو قتل کر دیا تھا۔
ضلع فیصل آباد میں کشیدگی
فیصل آباد چک 109 آر بی روڈہ، ؛ 7؍ ستمبر 2021ء: مخالفین نے 7؍ستمبر کو یہاں ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ 5؍ستمبر کو انہوں نے اعلان کیا کہ کانفرنس کے علاوہ احمدیوں کے خلاف ایک جلوس بھی نکالا جانا تھا۔ احمدیوں نے انتظامیہ کو اطلاع دی۔ پولیس نے کانفرنس کے منتظمین سے رابطہ کیا اور کانفرنس کی اجازت نہیں دی۔ اگلی صبح مسجد سے اعلان ہوا کہ احمدیوں نے کانفرنس کو روک دیا ہے۔ کچھ دیہاتیوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا اور انہوں نے احمدیہ مسجد کے مینار کو گرانے اور احمدیوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ تاہم کچھ رہائشیوں نے احمدیوں کی حمایت کی اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ احمدی ابھی بھی اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔
مشرقی کراچی میں احمدی مخالف سرگرمیاں
کورنگی، کراچی؛ اکتوبر 2021ء: اس محلے میں چند احمدی گھرانے آباد ہیں۔ ایک مقامی مولوی نے اپنے جمعہ کے خطبہ میں احمدیوں کی توہین کی اور مقامی لوگوں کو مشتعل کیا۔ اس کے بعد مقامی لوگ ایک احمدی خلیل احمد کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے لیکن قادیانی ہے۔ انہوں نے اس سے کچھ سوالات کیے۔ انہوں نے ان کا جواب دیا جس پر اکثر لوگ لاجواب نظر آئے۔ خلیل احمد کے بھائی شکیل احمد دوسری گلی میں رہتے ہیں۔ مخالفین ان کے گھر کے قریب جمع ہو گئے اور سازش کی کہ علاقے کے دو قادیانیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے شکیل احمد کے گھر کے باہر احمدیہ مخالف پوسٹر لگا دیے۔ ان امور کی وجہ سے یہاں احمدی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)