حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا عجز و انکسار
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قبل از خلافت 23؍ مارچ 1988ء یوم مسیح موعودؑ کی تاریخی تقریر برموقع سیمینار بعنوان ’’ذکرِ حبیب‘‘ زیر اہتمام مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ
’’کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار‘‘
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ۔
(سورۃ لقمان:19،18)
خاکسار کو آج اس بابرکت اور پاکیزہ محفل میں ’’کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھا ؤ انکسار‘‘ کے موضو ع پر کچھ کہنے کا ارشاد ہوا ہے ۔
بعثت انبیاء کا ایک بہت بڑا مقصد انسانیت کو تکبر جیسے فضول اور بے ہودہ جذبہ سے پاک کر کے ایک ایسی سادہ اور انکسار سے بھر پور فضا قائم کرنا ہوتا ہے جس میں نفس کی ملونی اور خودی کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور خالصتاً لِوَجْہِ اللّٰہِ انسان اپنی یہ عارضی زندگی گزارتا ہے اور اس کے لیے شب وروز انبیا ء اپنے قو ل وفعل سے اس طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں ۔اس زمانہ کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کو خداتعالیٰ نے حضرت رسول اللہﷺکے روحانی فرزند ہو نے کے ناطے زما نہ کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا ہمیشہ اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کر تے رہے کہ انکساری کی ہی ہمیشہ جیت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خا طر اگر تم انکساری اختیا ر کر و تو اللہ تعا لیٰ ایسے ایسے انعاما ت سے نوازتا ہے کہ انسانی ذہن کے تصور کی پہنچ بھی وہا ں تک نہیں ہو سکتی ۔اس کی ایک مثا ل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ حضو ر علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’مولوی ابو السعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجزکے ہم مکتب بھی تھے جب نئے نئے مولوی ہو کر بٹالہ میں آئے اور بٹالیو ں کو ان کے خیا لات گراں گزرے تو تب ایک شخص نےمو لوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس نا چیز کو بہت مجبور کیا ۔
چنانچہ اس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اسی شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیااور مولوی صاحب کو مع انکے والد صا حب کے مسجد میں پایا۔پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کر لیا کہ انکی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو ۔اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا ۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسی ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھو نڈیں گے ۔پھر بعد اس کے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے چونکہ خالصاً خدا اور اسکے رسول کے لئے انکسار اور تذلل اختیار کیا گیا تھا اس لئے اس محسن مطلق نے نہ چاہا کہ اس کو بغیر اجر کے چھوڑے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1حاشیہ در حاشیہ صفحہ621تا622)
مخالفین نے مولوی محمد حسین بٹالوی سے یہ مناظرہ نہ کرنے پر بہت شور مچایا اور آپ کے بارہ میں بہت تضحیک آمیز فقرات کہے لیکن آپ نے اس کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہ کی اور محض خدا کی خاطر اس مقابلہ سے اٹھ کر آ گئے اور کسی قسم کی جھوٹی انا اور غیرت کا اظہار نہ کیا۔
حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’انبیاء میں بہت سے ہنر ہوتے ہیں ان میں سے ایک ہنر سلب خودی کا ہوتا ہے ان میں خودی نہیں رہتی وہ اپنے نفس پر ایک موت وارد کر لیتے ہیں ۔کبریائی خدا کے واسطے ہے جو لوگ تکبر نہیں کرتے اور انکساری سے کام لیتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات جلد 9صفحہ281،ایڈیشن 1985ء)
یہ آپ نے پہلے واقعہ سے دیکھ ہی لیا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسا سلوک حضور ؑسے فرمایا اس انکساری کا رستہ اختیار کرنے پر ۔ آپ نے اپنی جماعت کو بھی نصائح کرتے ہوئے تکبر،نخوت،خود پسندی وغیرہ سے بچنے کے لیے بار بار نصائح فرمائیں۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’یہ امور ہیں جو تزکیہ نفس سے متعلق ہیں ۔کہتے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لئے لڑتے تھے آخر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے نیچے گرا لیا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے ۔اس نے جھٹ حضرت علی کے منہ پر تھوک دیا ۔آپ فورا ًاسکی چھاتی پر سے اتر آئے اور اسے چھوڑ دیا۔اس لئے کہ ابتک تو میں محض خدا کے لئے تیرے ساتھ لڑتاتھا لیکن اب جبکہ تونے میرے منہ پر تھوک دیا ہے تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہو جاتا ہےپس میں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لئے تجھے قتل کروں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا۔ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لئے کسی کو دکھ دیتےاور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تواس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی کیا بات ہوگی؟‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ440)
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’تواضع اور مسکنت عمدہ شے ہے ۔جو شخص باوجود محتاج ہونے کے تکبر کرتا ہے وہ کبھی مراد کو پا نہیں سکتا۔ اس کو چاہیے کہ عاجزی اختیار کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد نہم صفحہ287)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ہر فعل اپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے نمونہ پر چلتے ہوئے خدا کی خاطر ہوتا تھا اور یہی آپ اپنی جماعت سے توقع کرتے تھے کہ جماعت کا ہر فرداپنا ہر عمل خدا کی خاطر انجام دےاور نفس کی ملونی کو بالکل ختم کر دے ۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اصل بات یہ ہے کہ سچا رعب اور حقیقی عظمت ان لوگو ںکو عطا کی جاتی ہے جو اول خدا کے واسطے اپنے اوپر ایک موت وارد کر لیتے ہیں اور اپنی عظمت اور جلال کو خاکساری سے انکساری سے تواضع سے تبدیل کر دیتے ہیں تب چونکہ انہوں نے خدا کے لئے اپنا سب کچھ خرچ کیا ہوتا ہے خدا خود ان کو اٹھاتا ہے اور قدرت نمائی سے ان کو نوازتا ہے ۔‘‘
(ملفوظات جلد 10صفحہ159تا160)
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’متکبر خدا تعالیٰ کے تخت پر بیٹھنا چاہتا ہے پس اس قبیح خصلت سے ہمیشہ پناہ مانگوخدا تعالیٰ کے تمام وعدے بھی خواہ تمہارے ساتھ ہوںمگر تم جب بھی فروتنی کرو کیونکہ فروتنی کرنے والا ہی خدا کا محبوب ہوتا ہے ۔دیکھو ہمارے نبی کریم ﷺ کی کامیابیاں اگرچہ ایسی تھیں کہ تمام انبیاء سابقین میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر آپ کو خدا تعالیٰ نے جیسی جیسی کامیابیاں عطا کیں آپ اتنی ہی فروتنی اختیار کرتے گئے۔‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ 548،ایڈیشن1988ء)
حضور ؑ دشمنوں کی بد زبانیوں اور گندہ دہا نیوں کے مقابلے میں ہمیشہ صبر کا مظاہر ہ کرتے رہے اور اپنی جماعت کو بھی ہمیشہ نرمی اور صبر کے مظاہرہ کی تلقین فرماتے رہے ۔
حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں بڑی تاکید سے اپنی جماعت کو جہا ں کہیں وہ ہیں منع کرتا ہوں کہ وہ کسی قسم کا مباحثہ،مقابلہ اور مجادلہ نہ کریں۔اگر کہیں کسی کوکو ئی درشت اور نا ملائم بات سننے کا اتفاق ہو تو اعراض کرے۔میں بڑے وثوق اور سچے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری تائید میں آسمان پر خاص تیا ری ہو رہی ہے ہماری طرف سے ہر پہلو کے لحاظ سے لوگو ں پر حجت پوری ہو چکی ہے اس لیے اب خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے اس کارروائی کے کرنے کا ارادہ فرمایا ہے جو وہ اپنی سنت قدیم کے موافق اتمام حجت کے بعد کیا کرتا ہے ۔مجھے خوف ہے کہ اگر ہماری جماعت کے لوگ بد زبانیوں اور فضول بحثوں سے باز نہ آئیں گے تو ایسا نہ ہو کہ آسمانی کارروائی میں کوئی تاخیر اور روک پیدا ہو جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ ہمیشہ اس کا عتاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اس کے فضل اور عطایات بے شمار ہوں اور جنہیں وہ اپنے نشانات دکھا چکا ہوتا ہے۔ وہ ان لوگوں کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتا کہ انہیں عتاب یا خطاب یا ملامت کرے جن کے خلاف اس کا آخری فیصلہ نافذ ہونا ہوتا ہے۔چنانچہ ایک طرف آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے
فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ (الاحقاف:36)۔
اور فرماتا ہے
وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ(القلم :49)
اور
فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ(الانعام:36)
یہ حجت آمیز عتاب اس بات پر ہے کہ آنحضرت ﷺ بہت جلدی فیصلہ کفار کے حق میں چاہتے تھےمگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ سے بڑے توقف اور حلم کے ساتھ کام کرتا ہے لیکن آخر کار آنحضرت ﷺ کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ ان کا نام و نشان مٹا دیا۔اسی طرح پر ممکن ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ طرح طرح کی گالیاں افتراء پردازیاں اور بد زبانیاں خدا تعالیٰ کے سچے سلسلے کی نسبت سن کر اضطراب اور استعجال میں پڑیں مگر انہیں خدا تعالیٰ کی اس سنت کو جو نبی کریمﷺ کے ساتھ برتی گئی ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔اس لیے میں پھر اور بار بار با تاکید حکم کرتا ہوں کہ جنگ و جدال کے مجمعوں، تحریکوں اور تقریبوں سے کنارہ کشی کرو۔اس لیے کہ جو کام تم کرنا چاہتے ہو یعنی دشمنوں پر حجت پوری کرنا وہ اب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔
تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفاراور عبادت الٰہی اور تزکیہ و تصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ۔اس طرح اپنے تئیں مستحق بناؤخداتعالیٰ کی ان عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے ۔اگرچہ خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے اور پیشگوئیاں ہیں جن کی نسبت یقین ہے کہ وہ پوری ہوںگی مگر تم خواہ مخواہ ان پر مغرور نہ ہو جاؤ۔ہر قسم کے حسد، کینہ،بغض،غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق و فجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یاد رکھو کہ انجام کار ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے ۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 212،211، ایڈیشن 1988ء)
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں اور چاہیے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی نا پاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو۔ اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو،صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرواور جذبات نفس کو دبائے رکھواور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ میں اور مہذبانہ طریق سے کرو۔اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوےسلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ۔اگر تم ستائے جاؤاور گالیاں دئیے جاؤ اور تمہارے حق میں برے برے لفظ کہیں جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاحت کا سفاحت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیساکہ وہ ہیں۔خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنا دے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو۔سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلدی نکالوجو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بد نفسی کا نمونہ ہے۔جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پر ہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے۔کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے۔اور یقینا ًوہ بد بختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔سو تم ہوشیار ہو جاؤاور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راست باز بن جاؤ۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 48،47)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو دشمنوں کے مقابلہ میں نرمی اور حلم اختیار کرنے کی اس قدر تاکید فرمائی ہے کہ ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے یہاں تک فرماتے ہیں کہ
’’اگر کوئی ہماری جماعت میں سے مخالفوں کی گالیوں اور سخت گوئی پر صبر نہ کر سکے تو اس کا اختیار ہے کہ عدالت کے رو سے چارہ جوئی کرے مگر یہ مناسب نہیں کہ سختی کے مقابل سختی کر کے کسی مفسدہ کو پیدا کرے۔یہ نصیحت ہے جو ہم نے اپنی جماعت کو کر دی اور ہم ایسے شخص سے بیزار ہیں اور اس کو اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں جو اس پر عمل نہ کر سکے۔‘‘
(کتاب البریّہ ،روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 17)
جو تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو دی اس کا خوداتنا اعلیٰ اور مثالی نمونہ آپ نے پیش فرمایاکہ انسان اسے دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ آپؑ نے ایسے ایسے دشمنوں کو معاف فرمایا اور ایسے ایسے مواقع پر صبر اور برداشت سے کام لیا کہ جب عام انسان تو درکناربڑے بڑے حوصلہ مندبھی دل چھوڑ دیتے ہیں اور انتقام پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔اس بارہ میں چند واقعات پیش ہیں۔
ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ڈاکٹر مارٹن کلارک کے ’اقدام قتل‘ والے مقدمہ میں آپ کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوئے اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کے وکیل مولوی فضل الدین صاحب نے جو کہ ایک غیر احمدی بزرگ تھے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت کو کمزور کرنے کے لیے ان کے خاندان اور حسب و نسب کے متعلق بعض طعن آمیز سوالات کرنا چاہے مگر حضرت مسیح موعودؑ نے انہیں یہ کہہ کر سختی سے روک دیا کہ میں آپ کو ایسے سوالات کی ہرگز اجازت نہیں دیتااور یہ الفاظ فرماتے ہوئے آپ نے جلدی سے مولوی فضل الدین صاحب کے منہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا کہیں ان کی زبان سےکوئی نا مناسب لفظ نہ نکل جائے۔ اور اس طرح اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی۔ مولوی فضل الدین صاحب اس واقعہ کا حیرت سے ذکر کیا کرتے تھے کہ مرزا صاحب بھی عجیب اخلاق کے انسان ہیں کہ ایک شخص ان کی عزت بلکہ جان پر حملہ کرتا ہے اور اس کے جواب میں جب اس کی شہادت کو کمزور کرنے کے لیےاس پر بعض سوالات کیے جاتے ہیں تو آپ فوراً روک دیتے ہیں کہ میں ایسے سوالات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
اسی طرح بعض عیسائی مشنریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےخلاف اقدام قتل کا سراسرجھوٹا مقدمہ دائر کر دیا اور ان پادریوں میں ڈاکٹر مارٹن کلارک پیش پیش تھے ۔مگر خدا نے عدالت پر آپ کی صداقت کھول دی اور آپ اس مقدمہ میں باعزت بری ہو گئے۔جب عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو کیپٹن ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے آپ سے مخاطب ہو کر پوچھاکیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر اس جھوٹی کارروائی کی وجہ سے مقدمہ چلائیں اور آپ کو اس کا قانونی حق بھی ہے لیکن آپ نے بلا توقف فرمایا کہ میں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا میرا مقدمہ آسمان پر ہے۔
ایک دفعہ حضور علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب جو کہ اپنی بے دینی اور دنیا داری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت ترین مخالف تھے نے محض حضور کی ایذا رسانی کے لیے حضور کے گھر کے قریب والی مسجد مبارک کے رستہ میں دیوار کھینچ دی اور مسجد میں آنے جانے والے نمازیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملاقاتیوں کا رستہ بند کر دیاجس کی وجہ سے حضور کو اور قادیان کی قلیل سی جماعت احمدیہ کو سخت مصیبت کا سامنا ہوا اور وہ گویا قید کے بغیر ہی قید ہو کر رہ گئے۔ لاچار اس مصیبت کو دور کرنے کے لیے وکلاء کے مشورہ سے قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی۔ اور ایک لمبے عرصہ تک یہ تکلیف دہ مقدمہ چلتا رہا۔بالآخر خدائی بشارت کے تحت آپ کو اس مقدمہ میں فتح ہوئی اور یہ دیوار گرائی گئی۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل نے حضور کی اطلاع کے بغیر مرزا صاحبان کے خلاف خرچہ کی ڈگری حاصل کر کے قرقی کا حکم جاری کرا لیا۔اس پر مرزا صاحبان نے جن کے پاس اس وقت قرقی کی بے باکی کے لیےرقم کا پورا روپیہ نہ تھا آپ کو بڑی لجاجت کا خط لکھا اور آپ کو یہاں تک کہلا بھیجا کہ بھائی ہو کر قرقی کے ذریعہ ہمیں کیوں ذلیل کراتے ہو۔جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان حالات کا علم ہواتو آپ اپنے وکیل پر سخت ناراض ہوئے کہ میری اجازت کے بغیر خرچہ کی ڈگری کیوں کرائی گئی؟ اسے فوری واپس لو اور دوسری طرف مرزا صاحبان کو جواب بھجوایا کہ آپ بالکل فکر نہ کریں کوئی قرقی نہ ہو گی۔ یہ کارروائی میرے علم کے بغیر ہوئی ۔ذرا سوچیں اور غور کریں کہ دشمن اور وہ بھی ایسا کہ جس نے پریشان اور منتشر کرنے کے لیے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا اور جب ناکام ہوتا ہے اور حضور کے علم میں لائے بغیر اس پر خرچہ کا بوجھ ڈالا جاتا ہے تو گلہ کرتا ہے اور آپ مظلوم ہوتے بھی دشمنوں سے معذرت کرتے ہیں ۔آج دنیا میں ایسی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت میں انکسار اس درجہ کا تھا کہ آپ کی طبیعت میں رچ بس گیا تھا اور روزمرہ کے معمولات میں بھی اس کا اظہار ہوتا تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی روایت بڑی پیاری ہے آپ فرماتے ہیں
’’ہمارے نانا جان حضرت سید میر ناصر نواب صاحب مرحوم کا ایک قریبی عزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں آکر کچھ عرصہ رہا تھا۔ایک دن سردی کی وجہ سے ہمارے نانا جان صاحب مرحوم نے اپنا ایک مستعمل کوٹ ایک خادمہ کے ہاتھ اسے بھجوایا تا کہ یہ عزیز سردی سے محفوظ رہے۔مگر کوٹ کے مستعمل ہونے کی وجہ سے اس عزیز نے یہ کوٹ حقارت کے ساتھ واپس کر دیا کہ میں استعمال شدہ کپڑا نہیں پہنتا۔ اتفاق سے جب یہ خادمہ اس کوٹ کو لیکر میر صاحب کی طرف جا رہی تھی تو حضرت مسیح موعودؑ نے دیکھ لیا اور پوچھا یہ کیسا کوٹ ہےاور کہاں لے جاتی ہو؟ اس نے کہا میر صاحب نے کوٹ اپنے فلاں عزیز کو بھیجا تھا مگر اس نے مستعمل ہونے کی وجہ سے برا مانا اور واپس کر دیا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا واپس نہ لے جاؤاس سے میر صاحب کی دل شکنی ہو گی ۔تم یہ کوٹ ہمیں دے جاؤ ہم پہنیں گے اور میر صاحب سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اوّل حصہ دوم صفحہ 305روایت نمبر 333)
یہ ایک انتہائی شفقت اور انتہائی دل داری کا مقام تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مستعمل کوٹ اپنےلیے رکھ لیا کہ حضرت نانا جان کی دل شکنی نہ ہو اور ساتھ ہی یہ انتہائی سادگی اور بے نفسی کا بھی اظہار تھا کہ دین کا بادشاہ ہو کر اترے ہوئے کوٹ کے استعمال میں تأمل نہیں کیا۔ان تمام واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے حقیقت میں اس سے بڑھ کر عاجزی اور انکساری کی مثالیں قائم کی ہیں جس کی وہ اپنی جماعت سے توقع کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ خالق ارض و سما نے بھی اظہار خوشنودی فرماتے ہوئے ان الفاظ میں سند قبولیت بخشی ’’تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں‘‘۔ آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہی اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں آپؑ فرماتے ہیں:
’’اب میں ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ میری تعلیم تمہارے لئے مفید ہو اور تمہارے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرے کہ زمین کے ستارے تم بن جاؤاور زمین اس نور سے روشن ہوجو تمہارے رب سے تمہیں ملے۔آمین ثم آمین‘‘
(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 19صفحہ85)
(ماہنامہ خالد جولائی ، اگست1988ء صفحہ 38تا44)
(مرسلہ:ثاقب کامران۔ نائب وکیل ایم ٹی اے سٹوڈیو تحریک جدید ربوہ)
٭…٭…٭