’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ (قسط اوّل)
پُر معارف الہام کے معانی اور پیغام مسیح موعودؑ زمین کے کناروں تک پہنچنے کے معجزانہ نظارے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجموعہ الہامات ’’تذکرہ‘‘سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورؑ کو نصرت ربانی اور عالمی غلبہ کی کثرت سے بشارات دی ہیں اور اتنے رنگوں میں ان کو دہرایا ہے کہ کسی قسم کا شک باقی نہیں رہتا۔ ان الہامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔حضور کا یہ الہام بہت ہی معنی خیز اور معارف سے پُر ہے اور اس کی صداقت وقت گزرنے کے ساتھ روشن تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
آپ کا یہ الہام 1898ء میں پہلی دفعہ شائع ہوا۔(الحکم 27 مارچ 1898ء )یعنی آج سے 125 سال پہلے۔ اور یہ اکیلا الہام ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس الہام سے ملتے جلتے الہام اور قریب ترین الفاظ جو دوسرے الہامات میں ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ
٭…میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا۔ (ازالہ اوہام۔تذکرہ صفحہ 149۔ازقادیان 2008ء)
٭…خدا…تیری دعوت کودنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ (اشتہار 20؍ فروری 1886ء۔تذکرہ صفحہ 112)
٭…خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے۔ (مکتوبات۔ تذکرہ صفحہ 282)
٭…وہ تیرے سلسلہ کو اور تیری جماعت کو زمین پر پھیلائے گا اور انہیں برکت دے گا اور بڑھائے گا اور ان کی عزت زمین پر قائم کرے گا۔ (تحفۃ الندوہ،روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 97)
٭…عربی میں ہے کہ وعدنی انی سینصرنی حتی یبلغ امری مشارق الارض ومغاربھا۔( لجۃ النور۔تذکرہ صفحہ 260)اللہ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری مدد کرے گا یہاں تک کہ میرا معاملہ زمین کے ہر مشرق او رہر مغرب میں پہنچ جائے گا
٭…انگلش میں ہے
I shall give you a large party in Islam
(براہین احمدیہ۔تذکرہ صفحہ 80)
یہ بہت پر معارف اور معنی خیز الہام ہیں جن میں زمین کے کناروں اور دنیا کے کناروں اور آفاق کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔قرآن کریم نے اسی طرح اسلام کے غلبہ کو رسول کریم ﷺ کی صداقت کے طور پر پیش کیا ہے اور یہی کناروں کا محاورہ استعمال کیا ہے یعنی اطراف۔فرمایا: اَفَلَا یَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ اَفَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ (الانبیا:45) کیامخالفین دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں تو کیا پھر بھی وہ غالب آ سکتے ہیں۔اسی طرح آفاق کا لفظ بھی استعمال کیا ہے:سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَفِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ(حم السجدہ:54)یعنی ہم انہیں ضرور آفاق میں بھی اور ان کے نفوس کے اندر بھی نشان دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر کھل جائے گا کہ وہ حق ہے۔ پس قرآنی اسلوب کی روشنی میں اس الہام کے متعدد پہلو ہیں جن سے اس الہام کے منجانب اللہ ہونے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
الہام کے مختلف حصےاور مطالب
اس الہام کی معنویت یہ بھی ہے کہ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ اس الہام کے جس حصہ پر زور دے کر پڑھیں گے تو اس کے نئے مطالب سامنے آئیں گے مثلا ًآپ لفظ مَیں پر زور دے کر پڑھیں تو اس کا مطلب یہ بنے گا۔
1۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایسے وسائل اور حالات پیدا کر دے گا جن کے ذریعہ مسیح موعود کا پیغام زمین کے کنارو ں تک پہنچ سکے گا ۔چنانچہ آپ غور کیجیے حضرت مسیح موعودؑ کی پیدائش سے پہلے سائنسی ترقی کا ایک ایسا تیز رفتار دور شروع ہوا جس نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا ہے۔پچھلے 150 برس میں جتنی ترقی ہوئی ہے اتنی پچھلے ایک ہزار سال میں نہیں ہوئی تھی۔
2۔ اللہ مسیح موعود اور اس کی جماعت کو یہ وسائل استعمال کرنے کی توفیق دے گا۔چنانچہ یہ بھی حیرت انگیز بات ہے کہ باوجود افراد اور مالی تنگی کے اللہ نے جماعت کو یہ سائنسی سہولتیں بہت جلد مہیا فرما دیں چند مثالیں دیکھیں 1895ء میں قادیان جیسے گمنام گاؤں میں پریس قائم ہو گیا۔ حضور کی زندگی میں قادیان سے کئی اخبارات اور رسالے شائع ہو رہے تھے الحکم۔البدر،ریویو آف ریلیجنز اردو اور انگریزی،تشحیذ الاذہان۔خلافت اولیٰ میں کئی زبانوں میں نئے اخبار اور لٹریچر کا آغازہوا۔1899ء میں حضور کی پہلی تصویر لی گئی جب سارے علما٫ تصویر کو حرام کہہ رہے تھے مسیح موعوؑد کی تصویر یورپ اور امریکہ میں شائع ہو رہی تھی اور لوگ سچے مسیح کو پہچان رہے تھے۔1901ء میں فونو گراف قادیان میں آیا حضرت مسیح موعودؑ کی نظم، حضرت مولوی نور الدین صاحب ؓ کی تفسیر ریکارڈ کر کے آریوں کو سنائی گئی۔1928ء میں غیر متوقع حالات میں ریل قادیان پہنچ گئی۔1936ء میں جلسہ سالانہ پر لاؤڈ سپیکر استعمال کیا گیا اور 1938ء میں مسجد اقصی قادیان میں پہلی دفعہ لاؤڈ سپیکر پر حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ دیا اور عالمی درس قرآن و حدیث کی پیشگوئی کی جو ایم ٹی اے کے ذریعہ خطبات اور درسوں کے حوالہ سے پوری ہو رہی ہےفرمایا’’اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہوگا۔ ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی علمی دقتیں بھی ہمارے راستے میں حائل ہیں۔لیکن اگر یہ تمام دقتیں دور ہوجائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانے میں ہی یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں گی تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جارہا ہو اور جاوا کے لوگ اور امریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریلیا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے ہی عالیشان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کرکے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہو جاتے ہیں ‘‘(روزنامہ الفضل قادیان 13؍جنوری 1938ء)1937ء کے جلسہ سالانہ مستورات پر حضرت مصلح موعود ؓ کی تمام تقاریر بذریعہ لاؤڈ سپیکر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں۔
19؍فروری 1940ء کو حضرت مصلح موعود ؓ کی اپنے عقائد کے بارے میں تقریر ممبئی ریڈیو اسٹیشن سے پڑھ کر سنائی گئی۔25؍مئی 1941ءکو حضرت مصلح موعود ؓنے لاہور ریڈیو اسٹیشن سے ’’عراق کے حالات پر تبصرہ ‘‘کے موضوع پر تقریر فرمائی جسے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنز نے بھی نشر کیا۔7؍فروری 1952ء کو حضرت ام المومنین ؓ کی آواز ریکارڈ کی گئی۔یہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے ساتھ ایک مختصر سے پیغام کی صورت میں تھی جس کی تحریری شکل الفضل 4؍جون 1952ء میں موجود ہے۔ (مضامین بشیر جلد 3 صفحہ 86)
8؍جون 1955ء کوحضرت مصلح موعودؓ کے سفر یورپ کے دوران سوئٹزر لینڈ میں حضور کا سوس ٹیلی ویژن پر انٹرویو نشر کیا گیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفہ وقت کا ٹی وی پر انٹرویو نشر ہوا۔1973ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے احمدیہ ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کی خواہش ظاہر فرمائی۔دسمبر 1980ء کوجلسہ سالانہ پر آنے والے غیر ملکی وفود کے لیے غیر زبانوں میں تراجم کا انتظام کیاگیا۔یکم جنوری 1985ء: ناروے کے سٹیٹ ریڈیو اسٹیشن سے جماعت احمدیہ کا مستقل پروگرام نشر ہونا شروع ہوا۔24؍مارچ 1989ء احمدیت کی دوسری صدی کا پہلا خطبہ جمعہ ( فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ )ماریشس اور جرمنی میں بذریعہ ٹیلیفون براہ راست سناگیا۔
18؍جنوری 1991ء : حضور کا خطبہ انگلستان سمیت 6 ممالک میں سنایا گیایعنی جاپان، جرمنی، ماریشس، امریکہ اور ڈنمارک۔اور پھر 1992ءسے احمدیہ ٹیلی ویژن کی مستقل نشریات شروع ہو گئیں۔ایم ٹی اے کی یہ نعمت بھی کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے بلکہ اس بارے میں بھی انجیل اور قرآن،رسول کریم ﷺ اور بزرگان امت کی پیشگوئیاں موجود ہیں۔
انجیلی پیش خبریاں
انجیل میں بھی آخری زمانہ میں وحدت اقوام اور آسمانی پیغام کی عالمی اشاعت کا تذکرہ موجود ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی بعثت ثانی کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔’’بادشاہی کی یہ انجیل تمام دنیا میں سنائی جائے گی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو تب انجام ہوگا‘‘۔(انجیل متی باب 24 آیت 14)اسی تسلسل میں چند آیات کے بعد اپنے غلبہ کے ذرائع اور کیفیت بھی بیان کرتے ہیں۔’’جیسے بجلی مشرق سے چمک کر مغرب تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کی آمد ہوگی۔‘‘(متی باب 24 آیت 27)پھر فرمایا:’’وہ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسما ن کے بادلوں پر آتا دیکھیں گے۔ تب وہ نرسنگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ آسمان کے افق سے لے کر افق تک چاروں طرف سے اس کے برگزیدوں کو جمع کریں گے‘‘۔(متی باب 24 آیت 31,30) ان آیات میں برقی نظام کے خدمت اسلام پر مامور ہونے اور ہوائی لہروں کےذریعہ افق تا افق مسیح موعود کے پیغام کے پہنچنے کی خبر ہے جو چاروں طرف سے سعید روحوں کو جمع کردے گا۔
پیار کی اِک داستاں ہے ایم ٹی اے
اِک تمنا کی حسیں تعبیر ہے
آج مثلِ خانداں ہے ایم ٹی اے
حضرت یوحنا ؑ کے مکاشفہ میں فرشتوں کے ذریعہ اور آسمانی صداؤں کے ذریعہ اس ابدی انجیل یعنی قرآن کریم کی عالمگیر تبلیغ کا ذکر ہے۔ حضرت یوحنا اپنے کشف کی تفاصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اور میں نے ایک فرشتے کو ابدی انجیل لئے ہوئے دیکھا جو آسمان کے بیچوں بیچ اڑ رہا تھاتاکہ زمین کے باشندوں اور ہر قوم اور قبیلے اور زبان اور امت کو خوشخبری سنائے اور اس نے بڑی آوازسے کہا کہ خدا سے ڈرو اور اس کی تمجید کرو کیونکہ اس کی عدالت کی گھڑی آپہنچی ہے اور اسی کو سجدہ کرو جس نے آسمان و زمین کو اور سمندر اور پانی کے چشموں کو پیدا کیا ہے۔ (مکاشفہ یوحنا باب 14: آیت 7,6)آسمان کے بیچ اڑنا اور ہر قوم ہر قبیلے اور زبان تک اس پیغام کو پہنچانا انہی موجودہ ذرائع مواصلات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔
قرآن سے استنباط
حضرت امام جعفر صادق ؒسورت ’’ ق‘‘ کی آیات 42، 43 سےاستدلال کرتے ہیں :
وَاسۡتَمِعۡ یَوۡمَ یُنَادِ الۡمُنَادِ مِنۡ مَّکَانٍ قَرِیۡبٍ۔یَّوۡمَ یَسۡمَعُوۡنَ الصَّیۡحَۃَ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡخُرُوۡجِ یعنی سن رکھو کہ ایک دن ایک پکارنے والا قریب کی جگہ سے پکارے گا جس دن سب لوگ ایک پوری ہوکر رہنے والی گرجدار آوازسنیں گے۔ یہ خروج کا دن ہوگا۔
اس آیت کے متعلق تفسیر صافی کا بیان ملاحظہ ہو جہاں علامہ قمی حضرت امام جعفر صادق ؒکے حوالہ سے ایک حیرت انگیز استنباط کرتے ہیں:یعنی علامہ قمی نے کہا کہ ایک منادی امام قائم اور اس کے باپ علیہما السلام کے نام کی ندا دے گا اس طرزپر کہ اس کی آواز ہر آدمی تک برابر انداز میں پہنچے گی۔ قمی نے کہا ہے کہ صیحہ سے مراد یہ ہے کہ قائم کی صیحہ یعنی انذاری آواز آسمان سے آئے گی۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا کہ یہ رجعت یعنی امام مہدی کا زمانہ ہوگا۔(تفسیر صافی زیر آیت مذکورہ صفحہ۔506 از ملامحسن فیض کاشانی، از انتشارات کتاب فروشی محمودی)مراد یہ ہے کہ امام مہدی کی طرف سے ایک منادی امام مہدی اور اس کے عظیم روحانی باپ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کرندا بلند کرے گا اور اس کی آواز دور اور نزدیک کے تمام لوگوں کو یکساں طریق سے پہنچے گی اور آواز آسمان سے اُترے گی۔
آواز کا آسمان سے اترنا اور یکساں سب لوگوں کو پہنچنا عالمی مواصلاتی نظام کی طرف بلیغ اشارہ ہے ورنہ عام آواز تو قرب و بعد کا فرق رکھتی ہے۔یہ حیرت انگیز پیشگوئی پوری تفصیلات کے ساتھ ایم ٹی اے پرچسپاں ہوتی ہے۔ جہاں امام مہدی کا خلیفہ امام مہدی اور اس کے کامل آقا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے نام کی آسمان سے منادی کر رہا ہے۔
’’پھر سورۃ الشعرا٫ کی آیت نمبر 5 کے حوالہ سے فرماتے ہیں ایک منادی آسمان سے آواز دے گا جسے ایک نوجوان لڑکی پردے میں رہتے ہوئے بھی سنے گی اور اہل مشرق و مغرب بھی سنیں گے۔(بحار الانوار: جلد 52 صفحہ 285 از ملا محمد باقر مجلسی، داراحیاء التراث العربی بیروت)
رسول اللہﷺ کی پیشگوئیاں
حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’امام مہدی کے ظہور کے وقت یُنَادِیْ مُنَادٍ مِّنَ السَّمَاءِ ایک منادی آسمان سے آواز بلند کرے گا کہ اے لوگو! جابروں کا دور تم سے ختم کردیا گیا ہے اور امت محمدیہ کا بہترین فرد اب تمہارا نگران ہے۔ اس لیے مکہ پہنچو۔ یہ سن کر مصر کی سعید روحیں اور شام کے ابدال اور عراق کے بزرگ اس کی طرف نکل پڑیں گے۔ یہ لوگ راتوں کے راہب اور دنوں کے شیر ہوں گے۔‘‘یہ حدیث کئی ایمان افروز امور کا مجموعہ ہے۔
(1) اس کا جملہ یُنَادِیْ مُنَادٍ مِّنَ السَّمَاءِ مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت نے اسے سچا ثابت کردکھایا ہے۔
(2) مدۃالجبارین سے وہ زمانہ مراد ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث خلافت میں مَلِکًا عَاضًّااور مَلِکًا جَبْرِیَّۃًکے طورپر بیان فرمایا ہے۔ یعنی جبری اور ظالمانہ حکومتیں۔ یعنی ان کے بعد اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور شروع ہوگا۔
(3)اس حدیث میں ابدال شام کا ذکر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً اس کی خبر دی گئی ہے:یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ عِبَادُ اللّٰہِ مِنَ الْعَرَبِ(تذکرہ -صفحہ 126 – الشرکۃالاسلامیہ ربوہ 1969ء)تیرے لیے شام کے ابدال اور عرب کے بندگان خدا دعائیں کرتے ہیں اوریہ واقعاتی لحاظ سے پورا ہو رہا ہے جیسا کہ آگے تفصیلی ذکر آئے گا۔
(4) اما م مہدی کی فتوحات دعاؤں کے ذریعہ ہونی ہیں اس لیے اس کے ساتھیوں کو رھبان باللیل کہنا پوری طرح ان کا نقشہ بیان کرتا ہے۔ اور دجال کے سامنے شیروں کی طرح ڈٹ جانے کو لیوث بالنہار کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ روایت قرآن و احادیث صحیحہ کی کسوٹی پر اور عمل کے میدان میں اپنی سچائی ثابت کرتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: جب قائم آل محمد یعنی امام مہدی آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اہل مشرق و مغرب کو جمع کردے گا۔(ینابیع المودہ جلد 3 صفحہ 90۔ از شیخ سلیمان بن ابراہیم طبع دوم مکتبہ عرفان بیروت)یہ بھی خاص الٰہی تقدیر معلوم ہوتی ہے کہ اجتماع اقوام کی یہ موجودہ عالمی شکل دور آخرین میں جماعت احمدیہ کے چوتھے امام کے زمانہ میں ظاہر ہونا شروع ہوئی جس کی پیشگوئی اولین دور کے چوتھے خلیفہ نے کی تھی۔حضرت امام جعفر صادق (وفات 148ھ) نے اپنی پیشگوئیوں میں کئی تفاصیل بیان فرمائی ہیں:لکھا ہے حضرت امام جعفر نے فرمایا ایک منادی امام قائم کے نام سے منادی کرے گا۔ اور ہر قوم اپنی اپنی زبان میں اسے سنے گی۔ پکارے گا جسے ہر قوم اپنی اپنی زبان میں سنے گی۔مزید فرماتے ہیں مومن جو امام قائم کے زمانہ میں مشرق میں ہوگا اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مغرب میں ہوگا اور اسی طرح جو مغرب میں ہوگا وہ اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مشرق میں ہوگا۔ (بحارالانوار جلد52 صفحہ 391)امام رضا علی بن موسیٰ سے پوچھا گیا کہ تم میں سے امام قائم کون ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میرا چوتھا بیٹا۔ لونڈیوں کی سردار کا بیٹا جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ زمین کو ہر جور سے مطہر کر دے گا اور ہر ظلم سے پاک کر دے گا۔یہ وہی ہے جس کے لیے زمین سمیٹ دی جائے گی اور یہی وہ ہے جو آسمان سے بطور ایک منادی صدا دے گا جس کو اللہ تعالیٰ تمام اہل ارض کو سنادے گا…(فرائد السمطین جلد2 صفحہ 337 ابراہیم بن محمد الجوینی الخراسانی تحقیق شیخ محمد باقر المحمودی نیز بحارالانوار جلد52صفحہ 321)اس پیشگوئی میں بڑی لطافت کے ساتھ اس وجود کی خبر دی گئی ہے جس نے منادی بننا ہے۔چوتھے بیٹے سے مراد امام مہدی کا چوتھا جانشین ہے۔ وہ لونڈیوں کی سردار کا بیٹا ہوگا یعنی اس کی والدہ کی خواتین کے لیے (لجنہ اماء اللہ کے لیے) غیرمعمولی خدمات ہوں گی۔یُطَھِّرَاللّٰہُ بِہٖ۔ اس کے نام کی طرف بھی لطیف اشارہ ہے۔ طاہر جو روحانی انفاس سے دنیا کی پاکیزگی کے لیے یہ کام شروع کرے گا اور جس کی آواز کل عالم سنے گا۔
پس مسیح موعود کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچنا خدا تعالیٰ کی تقدیر کا ایک اٹل فیصلہ تھا جس نے درجہ بدرجہ اپنے کمال کو پہنچنا تھا اور ہر قوم نے اس چشمہ سے سیراب ہونا تھا۔آج اقوام متحدہ میں ہونے والی تقاریر اور خطبہ حج کا ترجمہ معدودے چند زبانوں میں ہوتا ہے جب کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے خطبات اور خطابات کا ترجمہ دنیا کے ہر خطہ میں یعنی 213 ملکوں میں پائی جانے والی جماعت کی ہر زبان میں live یا بعد میں فوری طور پر ہوتا ہے۔تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں تجھے ایسے لوگ بھی دوں گا جو تیری مدد کریں گے کیونکہ کسی تبلیغ کو پہنچانا کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں فرمایا یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَاءِ۔چنانچہ اللہ نے حضور کو اپنے فضل سے قابل اور فاضل اور فدائیوں کی جماعت عطا کی جن کے سرخیل حضرت مولا نا نور الدینؓ تھےپھر حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹیؓ،حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ وغیرہ جو قرآن کا درس دیتے تھے جسمانی علاج کے ذریعہ حضور کی شہرت پہنچاتے تھے اخبار اور رسائل نکالتے تھے اور حضور کی صداقت کے دلائل پھیلاتےتھے حضرت مفتی محمد صادقؓ آپ کے مترجم اور پرائیویٹ سیکرٹری تھےڈاکٹر ڈوئی سے مسیح موعود کا تعارف آپ نے کرایا اس کے نام خطوط اور اشتہارات کا ترجمہ کیا ان کو امریکہ کے اخبارات میں شائع کرایا جو اب 132 اخبارات میں محفوظ ہے۔پھر اللہ نے آپ کو اولاد دی جو آپ کی معاون تھی اور سب سے بڑھ کر وہ مصلح موعودؓ جس نے آپ کانام زمین کے کناروں تک پہنچا دیا۔خلافت ثانیہ کے آغاز میں زیادہ سے زیادہ ایک مشن ہندوستان سے باہر تھا آپ کے دور میں 46 مشن قائم ہوئے۔ آپ نے جب 1944ءمیں دعویٰ مصلح موعود کے بعد لاہور،لدھیانہ اور ہوشیار پور اور دہلی میں جلسے کیے تو حضرت مصلح موعودؓ کی تقاریر کے دوران 34 ممالک کے مبلغین اور نمائندگان نے تقاریر کر کے اپنے ممالک میں احمدیت کی اشاعت کی گواہی دی۔اس الہام میں تیری تبلیغ پر زور دیں تو یہ مطلب بنے گا کہ مسیح موعوؑد کے نام پر بھی کئی لوگ ان کے کلام کی تشریح کریں گے مگر خدا وہی کلام اور نظریات دنیا تک پہنچائے گا جو حقیقت میں مسیح موعوؑد کے سچے نظریات ہوں گے اور جن کی وارث اس کی خلافت ہو گی
دنیا کے کناروں سے کیا مراد ہے
1.زمین تو عرف عام میں گول ہے، اور گول چیز کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس الہام میں دنیا کے کناروں سے مراد ہر جگہ ہو سکتی ہے یعنی زمین کے چپے چپے پر تیری تبلیغ پہنچے گی۔
2.وہ معروف مقامات جنہیں دنیا کا کنارہ کہا جاتا ہے جہاں آبادیاں ختم ہو جاتی ہیں اور سمندر کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔
3.ناروے کے شہر شون کے شمال میں ایک مقام End of the world کہلاتا ہے۔قطب شمالی کے قریب واقع ملک فن لینڈ کو دنیا کا آخری سراکہا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ، روس، اور کینیڈاکے شمالی علاقوں کو بھی آخری کنارہ کہا جاتا ہے۔ نیز قطب جنوبی اور بر اعظم انٹارکٹیکا کو بھی دنیا کا آخری کنارہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں صرف چند سائنس دان رہتے ہیں جو سائنسی تحقیقات کرتے ہیں۔
24.4؍جون 1993ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قطب شمالی کے قریب ترین علاقہ نارتھ کیپ پہنچے۔ جو کرہ ارض کا بلند ترین مقام ہے۔ حضور نے قافلہ کے ساتھ تاریخ میں پہلی دفعہ مغرب و عشاء اور پھر اگلے دن ساری نمازیں باجماعت یہاں ادا کیں۔ 25؍ جون کو حضور نے اس جگہ جمعہ پڑھایا۔ اور باقی نمازیں ادا کیں۔ اس طرح وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ دجال کے زمانہ میں غیر معمولی لمبے دن ہوں گے اور وقت کا اندازہ کر کے نمازیں ادا کرنا۔
5.فجی جہاں سے ڈیٹ لائن گزرتی ہے اور دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، اسے بھی کنارہ کہا جاتا ہے۔اس ڈیٹ لائن سے جماعت احمدیہ کی مسجد 4 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔
6.کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلے سورج جاپان میں طلوع ہوتا ہے۔
7.بحر الکاہل میں موجود ریاست ساموانے دسمبر 2021ء میں اپنے معیاری وقت کو تبدیل کر دیا ہے اور اس طرح یہ ریاست دنیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا دیکھتی ہے۔
احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا
جب سلطنت برطانیہ دنیا پر حکومت کرتی تھی تو یہ دعویٰ بھی کرتی تھی کہ برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا پھر وہ سمٹ گئی اور آج صرف جماعت احمدیہ یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا۔آپ دنیا کے نقشے پر شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک نظر دوڑائیں تو جتنے ممالک اور خطے ساحل سمندر پر موجود ہیں وہ سب زمین کے کنارے کہلا سکتے ہیں۔ان کی بھاری اکثریت میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چند جزائر ایسے ہوں جو ابھی اس نور سے منور نہیں ہوئے، کوئی بعید نہیں کہ چند سالوں میں وہاں بھی حضور کا پیغام پہنچ جائے۔اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی تعداد 192 ہے مگر آج جماعت احمدیہ 213 ملکوں میں ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا بلکہ طلوع بھی سب سے پہلے احمدیوں پر ہوتا ہے
سب سے پہلے سورج کہاں طلوع ہوتا ہے
یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے کہ دنیا میں سورج سب سے پہلے کہاں طلوع ہوتا ہے جاپان بھی ہے نیوزی لینڈ بھی ہے روس بھی ہے اور کریباتی جزائر بھی۔ ماہرین کے مطابق بحراوقیانوس میں واقع کریباتی یا کریباس جزائر میں سورج نیوزی لینڈ سے بھی پہلے طلوع ہوتا ہے۔31؍جنوری سے 15؍مئی اور پھر 27؍ستمبر سے 13؍نومبر( مجموعی طور پر 153 دن )دنیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے مسلمانوں میں یہاں احمدیوں کی مسجد ہے(الفضل آن لائن 23 مارچ 2022ء) روس کے مختلف علاقوں میں 16؍مئی سے 26؍ ستمبر (134 دن) سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے۔ نیوزی لینڈ میں 14؍ نومبر سے 30؍ جنوری تک سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے روس کے انتہائی مشرق میں واقع جزیرہ نما کامچاٹکا میں بعض مہینوں میں سورج سب سے پہلے طلوع ہوتا ہے ان سب ملکوں میں جماعت موجود ہے۔(باقی آئندہ)