اسمِ اعظم، اللہ تعا لیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا قبولیت دعا سے تعلق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک اعتراض کا جواب (قسط اوّل)
’’ اللہ ‘‘ خدائے بزرگ و برتر اور باری تعالیٰ کا اسم ذاتی ہے۔ اس کے معنی ہیں وہ ذات جو عبادت کے لائق ہے۔سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے کہ جو اصطلاح قراۤنی ربانی کے رو سے ذات مستجمع جمیع صفات کاملہ اور منزہ عن جمیع رذائل اور معبود برحق اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض پر بولا جاتا ہے۔‘‘( تفسیر حضرت مسیح موعود ؑجلداوّل صفحہ29)
حضور علیہ السلا م مزید فرماتے ہیں : ’’پس واضح ہو کہ اللہ کا لفظ اسم جامد ہے۔ اور اس کے معنے سوائے خدائے خبیر و علیم کے اور کوئی نہیں جانتا۔‘‘ ( تفسیر حضرت مسیح موعودؑجلداوّل صفحہ55)
’’اللہ جو خدائے تعالیٰ کاایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مستجمع ہے … کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے۔ اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں۔ ‘‘(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 98، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑجلداوّل صفحہ64)
’’قراۤن کی اصطلاح کی رو سے اللہ اس ذات کا نام ہے جس کی تمام خوبیاں حسن و احسان کے کمال کے نقطہ پر پہنچی ہو ئی ہو ں اور کو ئی منقصت اس کی ذات میں نہ ہو۔ قراۤن شریف میں تمام صفات کا مو صوف صرف اللہ کے اسم کو ہی ٹھہرایا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اللہ کا اسم تب متحقق ہو تا ہے کہ جب تمام صفات کاملہ اس میں پائی جائیں۔ ‘‘(ایام الصلح، صفحہ 19، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑجلداوّل صفحہ64)
’’اللہ جس کا ترجمہ وہ معبود، یعنی وہ ذات جو غیر مدرک اور فوق العقول اور وراء الورا اور دقیق در دقیق ہے جس کی طرف ہر ایک چیز عابدانہ رنگ میں یعنی عشقی فنا کی حالت میں جو نظری فنا ہے یا حقیقی فنا کی حالت میں جو موت ہے رجوع کر رہی ہے۔ ‘‘(تحفہ گولڑویہ، صفحہ 103، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑجلداوّل صفحہ64)
’’اللہ کا نام خدا تعا لیٰ کے لئے اسم اعظم ہے۔‘‘(تحفہ گولڑویہ صفحہ107،بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑجلداوّل صفحہ64)
’’اللہ جامع جمیع شیون کا ہے اور اسم اعظم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اۤپ کی جماعت کے ساتھ اسم اعظم کی معیت مع تمام صفات کے پائی جاتی ہے۔ ‘‘ (الحکم 17؍ جنوری 1903ءصفحہ 7، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑجلداوّل صفحہ64)
’’ تمام محامد اس ذات معبود برحق مستجمع جمیع صفات کاملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے۔ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ قراۤن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود بر حق اور مستجمع جمیع صفات کاملہ اور تمام رذائل سے منزہ اور واحد لا شریک اور مبدءجمیع فیوض ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قراۤن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء و صفات کا موصوف ٹھہرایا ہے۔ اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا۔ پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے۔ اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پر مشتمل ہے۔‘‘( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ435-436، حاشیہ نمبر 11)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓتفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جو ازلی ابدی اور الحی ّالقیوم ہےاور مالک اور خالق اور رب سب مخلوق کا ہے اور اسم ذاتی ہے نہ کہ اسم صفاتی۔ عربی زبان کے سوا کسی اَور زبان میں اس مالک و خالق کل کا کوئی ذاتی نام نہیں پایا جاتا۔ صرف عربی میں اللہ ایک ذاتی نام ہے جو صرف ایک ہی ہستی کے لیے بولا جاتا ہے۔اور بطور نام کے بولا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ بھی اسم جامد ہے مشتق نہیں،نہ یہ اَور کسی لفظ سے بنا ہے اور نہ اس سے کوئی اَور لفظ بنا ہے۔‘‘ ( تفسیر کبیر جلد اول صفحہ11)
اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ اسمائے باری تعالیٰ میں یہ نام سب سے بڑا ہے۔ نیز کہا گیا ہے کہ عوام کو چاہیےکہ وہ اس نام کو اپنی زبان پر جاری کریں اور خشیت اور تعظیم کے طور پر اس نام کے ساتھ ذکر کریں۔ خواص کو چاہیےکہ وہ اس نام کے معنی میں غور و فکر کریں اور یہ جانیں کہ اس نام کا اطلاق صرف اسی ذات پر ہو سکتا ہے جو صفات الوہیت کی جامع ہے۔ اور خواص الخواص کو چاہیے کہ وہ اپنا دل اللہ میں مستغرق رکھیں اور اس ذات کے علاوہ اَور کسی بھی طرف التفات نہ کریں اور صرف اسی سے ڈریں کیونکہ وہی حق اور ثابت ہے اس کے علاوہ ہر چیز فانی اور باطل ہے۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب اسماء اللہ تعالیٰ، زیر حدیث : 2179،جلد دوم، صفحہ 484 شائع کردہ دار الاشاعت کراچی،مارچ 2002ء ) امام ابن کثیرؒ نے بھی اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لیےکہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہو تا ہے۔ جیسے کہ قراۤن پاک میں ہے : ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ۔ اللہ ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعا لیٰ کے کسی اَور کا نہیں۔(تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ الفاتحہ فصل بسم اللہ کی فضیلت، جلد اوّل )
اسم اعظم سے کیا مراد ہے؟
کتب احادیث میں متعدد جگہ اسم اعظم کا ذکر اۤیا ہے اور اسم اعظم کے ذریعہ اور وسیلہ سے دعا کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ اسم اعظم سے مراد اللہ تعا لیٰ کا ایسا نام ہے کہ جس کے ذریعہ دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعا لیٰ کے حضور اس دعا کی قبولیت کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں ابوجعفر طبری، ابو الحسن اشعری، ابو حاتم، ابن حبان، اور قاضی ابو بکر باقلانی وغیرھم کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جن روایات میں لفظ اسم اعظم وارد ہوا ہے ان میں ’’ اعظم ‘‘ اسم تفضیل کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اعظم بمعنی عظیم ہے کیونکہ کسی نام کو اسم اعظم کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی دوسرا نام اسم اعظم نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے سب نام اعظم ہیں۔اور یہ معنی لینے سے اعظم بمعنی عظیم ہو جاتا ہے۔
ان حضرات کا یہ بھی فرمانا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے بعض اسماء کی تفضیل بعض اسماء پر درست نہیں ہے۔ اور جن روایات میں لفظ’’ اعظم ‘‘ وارد ہوا ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ اس اسم کے ذریعہ دعا کرنے والے کو ثواب بہت زیادہ ملے گا۔ ( حصن حصین اردو از امام شمس الدین محمد بن محمد الجزریؒ المتوفی833 ہجری، صفحہ 105 حاشیہ، شائع کردہ خزینہ علم وادب لاہور)
اللہ کا اسم اعظم کون سا ہے؟
جیساکہ گذشتہ سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ ’’ اللہ ‘‘ ہی اسم اعظم ہے۔ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ؐ کو جب کوئی ایسی بات پیش اۤتی جو غم اور دکھ میں مبتلا کرنے والی ہو تی اور بے چینی ہو تی تو اۤپؐ یہ کلمات ادافرماتے: اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَآ اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا؛ اللہ، اللہ میرا رب ہے اس کے ساتھ میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ حضرت اسماء ؓ کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؐنے یہ کلمات مجھے سکھائے تھے کہ بے چینی کے وقت کہہ لیا کرو ں۔ ( ابن جریر، ابن ابی شیبہ و کنز العمال، بحوالہ حصن حصین اردو از امام شمس الدین محمد بن محمد الجزریؒ المتوفی833 ہجری، صفحہ 266 شائع کردہ خزینہ علم وادب لاہور) حدیث کی شرح میں یہ درج ہے کہ زیادہ صحیح بات تو یہی ہے کہ اسم اعظم اللہ تعالیٰ کے اسماء میں پوشیدہ ہے تعین کے ساتھ اس کا کسی کو علم نہیں جیساکہ لیلۃ القدر ہے۔ لیکن جمہور علماء کہتے ہیں کہ اسم اعظم لفظ اللہ ہی ہے۔ اور قطب ربانی حضرت سید عبد القادر جیلانی ؒ کے قول کے مطابق اس شرط کے ساتھ کہ جب زبان سے اللہ ادا ہو تو دل میں اللہ کے علاوہ اَور کچھ نہ ہو۔ یعنی اس اسم پاک کی تا ثیر اُسی وقت ہو گی جب کہ اللہ کو پکارتے وقت دل ما سوی اللہ سے بالکل خالی ہو۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ المصابیح،جلد دوم، صفحہ510،شائع کردہ دار الاشاعت کراچی،مارچ 2002ء ) بعض علماء کے نزدیک ’’ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ‘‘ اسم اعظم ہے، کچھ لوگوں نے ’’ ھُوَ‘‘ کو اسم اعظم قرار دیا ہے۔ بعض حضرات نے ’’اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ‘‘ کو اسم اعظم قراردیا۔ بعض نے ’’ اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘(النمل: 27)کو اسم اعظم کہا ہے۔ امام زین العابدین ؒ کے بارےمیں منقول ہے کہ انہو ں نے بارگاہ رب العزت میں عرض کی کہ مجھے اسم اعظم بتایئے، تو انہیں خواب میں دکھایا گیا کہ’’لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ اسم اعظم ہے۔ حضرت اما م جعفرؒ کا قول ہے کہ جو شخص اسماء الٰہی میں سے کسی بھی اسم کے ساتھ اللہ کو اس طرح بطریق حضور و استغرا ق یاد کرے کہ اس وقت اس کے باطن میں اس اسم کے علاوہ اور کچھ نہ ہو تو وہی اسم اعظم ہے۔ اور اس کے ذریعہ مانگی جانے والی دعا قبول ہو تی ہے۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ المصابیح،جلددوم صفحہ512، شائع کردہ دار الاشاعت کراچی،مارچ 2002ء ) ’’لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘ ا سم اعظم اس لیے ہے کہ اس کلمہ میں غیر اللہ کی الوہیت کی نفی ہے اور یہ کلمہ ذات الٰہی میں تمام صفات ثبوتیہ و سلبیہ کے حصر پر دلالت کرتا ہے اس لیے اسے اسم اعظم قرار دیا گیا ہے۔
اسمائے الٰہیہ اور اسمائےحسنیٰ کی تعداد
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے اپنے کلام مجید میں اپنی 178 صفات یا اسمائےحسنیٰ کا ذکر فرمایا ہے جیسے فرمایا : اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ لَہُ الْاَسْمَاۤءُ الْحُسْنٰی(طہ:9، الحشر:25)احادیث میں اللہ تعا لیٰ کے ننانوے اسماء کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ تعا لیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انہیں یاد رکھے گا جنت میں داخل ہو گا۔( صحیح بخاری و صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، کتاب اسماء اللہ تعا لیٰ ) اس مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ اس حدیث میں جو کہا گیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے نناوے نام ہیں تو اس سے حصر اور تحدید(معین تعداد اور حد بندی )مراد نہیں ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے بس اتنے ہی نام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے نام ہیں۔ بلکہ یہاں ننانوے کا عدد ذکر کرنے سے مراد اور مقصود یہ ہے کہ حدیث میں اسمائے باری تعالیٰ کی جو خاصیت بیان کی گئی ہے کہ جو شخص انہیں یاد کرے وہ جنت میں داخل ہو گا، وہ انہی ننانوے نامو ں کے ساتھ مخصوص ہے۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ المصابیح،جلد دوم، صفحہ482، شائع کردہ دار الاشاعت کراچی،مارچ 2002ء ) امام ابن کثیر ؒنے اپنی تفسیر میں امام رازی ؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں۔ ایک ہزار تو قراۤن کریم اور حدیث شریف میں ہیں، اور ایک ہزار تورات میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں ہیں۔(تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ الفاتحہ فصل بسم اللہ کی فضیلت، جلد اوّل )علامہ زرقانی ؒنے شیخ ابن عربی ؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار اسماء ہیں۔(مجمع البحار، جلداول صفحہ300، شرح موطا از امام زرقانی ؒ جلد4صفحہ248)
تفسیر روح البیان میں ہے کہ بعض روایات سے منقول ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے تین ہزار اسماء ہیں۔ ایک ہزار کو سوائے ملائکہ کے کوئی نہیں جانتا۔ اور ایک ہزار سوائے انبیاء ؑکے کسی کو معلوم نہیں۔ اور تین سو تورات میں ہیں جن کو اللہ تعا لیٰ نے اپنے علم میں رکھا ہے۔ پس ان تین ہزار اسماء کا معنی ان تین اسماء؛ اللہ، رحمٰن اور رحیم میں ہے۔ جس نے ان تینو ں کو جانا یا ان کو پڑھا تو گویا اس نے اللہ تعا لیٰ کو اس کے تمام اسماء کے ساتھ یاد کیا۔( تفسیر روح البیان از حضرت علامہ محمد اسمٰعیل حقی البروسویؒ المتوفی 1127 ہجری بمطابق 1652 – 1725ء، تفسیر سورۃ الفاتحہ، فضائل بسم اللہ۔ مفسر گیارہویں صدی ہجری کے مشہور عالم و فاضل اور عارف کامل تھے۔ ) نویں صدی ہجری کے امام حافظ محمد بن عبدالرحمٰن السخاوی ؒ اپنی تصنیف’’ اَلْقَوْلُ الْبَدِیْعُ فِی الصَّلوٰۃِ عَلَی الْحَبِیْبِ الشَّفِیْعِ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’وَقَدْ نَقَلَ ابْنُ الْعَرَبِی فِی ’’شَرْحِ التِّرْمِذِی ‘‘ لَہ، عَنْ بَعْضِ الصُّوْفِیَّۃِ: اَنَّ لِلّٰہِ اَلْفَ اِسْمٌ وَلِرَسُوْلِہِ اَلْفَ اِسْمٌ۔( اَلْقَوْلُ الْبَدِیْعِ فِیْ الصَّلٰوۃِ عَلَی الْحَبِیْبِ الشَّفِیْعِ لامام الحافظ المورخ محمد بن عبد الرحمان السخاوی المتوفی 902 ہجری صفحہ: 174، شائع کردہ موسسۃ الریان مدینہ منورہ 2002ء )یعنی ابن عربی نے اپنی ’’شرح ترمذی ‘‘ میں بعض صوفیاء کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے ہزار نام ہیں اور اللہ تعا لیٰ کے رسول ؐ کے بھی ہزار نام ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ’’ دیباچہ تفسیر القراۤن ‘‘ میں درج صفات الٰہیہ کی فہرست میں اللہ تعا لیٰ کے 104 اسماء کا ذکر فرمایا ہے۔ ( دیباچہ تفسیر القراۤن صفحہ 308-309نظارت اشاعت)
دَارُ الْمَعْرِفَۃِ مَطْبَعہ الثُّرَیَّا دِمَشْقَ، شام سے شائع ہونے والے قراۤن کریم مصحف التجویدکے اۤخر میں ڈاکٹر مروان عطیہ کی مرتب کردہ ’’فہرست مواضیع القراۤن الکریم ‘‘شامل کی گئی ہے۔ اس فہرست میں صفحہ 2تا 6پر قراۤن کریم میں مذکور اللہ تعا لیٰ کی 178 صفات یا اسمائے حسنیٰ درج کی گئی ہیں۔ یہ قراۤن کریم،ملک شام یعنی الجمہوریۃ العربیۃ السوریۃ کی وزارت اوقاف اور اِدَارَۃُ الْاِفْتَاءِ الْعَامِ وَالتَّدْرِیْسِ الدِّیْنِیْ کی منظوری سے 1424 ہجری بمطابق 2002ء میں شائع ہوا تھا۔
اسمائے الٰہیہ کی مختلف اقسام
اسمائے الٰہیہ کی بحث میںمفسرین قراۤن اور شارحین حدیث نے اسمائے الٰہیہ کی مختلف اقسام بھی بیان کی ہیں اور بنیادی طور پر اللہ کی صفات کو دو طرح سے تقسیم کیا ہے یعنی صفات اثباتیہ یا ثبوتیہ اور صفات سلبیہ، مثلاً فقہ حنفی کے مشہور امام، عظیم الشان محدّث، شارح مشکوٰۃ المصابیح اور اہل سنت کے مشہور امام علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاریؒ المعروف ملا علی قاری ؒ(متوفی1014 ہجری،1606ء) نے اسمائے الٰہیہ کو پانچ اقسام میں تقسیم فرمایا ہے۔ امام موصوف مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ(اوّل) اللہ کا وہ نام کہ جس کا ذات باری تعا لیٰ پر اطلاق کیا جاتا ہے یا تو یہ نام ذات کے اعتبار سے ہو گا جیسے اللہ۔(دوم) یا یہ نام باعتبار صفت ِ سلبیہ کے ہو گا جیسے قدوس، اس کا معنی ایسی پاکیزہ ذات جس سے جملہ عیوب مسلوب ہو ں۔ (سوم) یا وہ نام حقیقت ثبوتیہ کے اعتبار سے ہو گا جیسے علیم اور قادر۔ علم اور قدرت یہ دونوں ایسی حقیقتیں ہیں جو ذات باری تعا لیٰ کے لیے ثابت ہیں۔ (چہارم) یا وہ نام اضافت کے اعتبار سے ہو گا جیسے حمید اور ملیک۔(پنجم) یا وہ نام اللہ تعا لیٰ کے افعال میں سے کسی فعل کے اعتبار سے ہو گا جیسے رازق اور خالق۔(مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح [اردو ترجمہ] از علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاری ؒ، متوفی 1014 ہجری، کتابُ اَسماءِ اللہ تعا لیٰ، جلد5 صفحہ 246، مکتبہ رحمانیہ )
سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسمائے الٰہیہ کی قسمو ں پر اپنی تصانیف اور ملفوظات میں متعدد مقامات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔بنیادی طور پر حضور علیہ السلام نے اسمائے الٰہیہ کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں یعنی ؛ تشبیہی صفات اور تنزیہی صفات۔ ان کی وضاحت کرتے ہو ئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں ۔ ایک صفت تشبیہی دوسری صفت تنزیہی۔ اور چونکہ خدا کے کلا م میں دونو ں صفات کا بیان ضروری تھا یعنی ایک تشبیہی صفت اور دوسری تنزیہی صفت اس لئے خدا نے تشبیہی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہاتھ اۤنکھ محبت غضب وغیرہ صفات قراۤن شریف میں بیان فرمائے۔ اور پھر جب کہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ: لَیْسَ کَمِثْلِہٖ کہہ دیا اور بعض جگہ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ کہہ دیا۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 277)حضور علیہ السلام ایک اَور مقام پر تحریر فرماتے ہیں: ’’ غرض چونکہ خدا نے انسان کو پیدا کر کے اپنی ان تشبیہی صفات کو اس پر ظاہر کیا جن صفات کے ساتھ انسان بظاہر شراکت رکھتا ہے۔جیسے خالق ہوناکیونکہ انسان بھی اپنی حد تک بعض چیزوں کا خالق یعنی موجد ہے۔ ایسا ہی انسان کو کریم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حد تک کرم کی صفت بھی اپنے اندر رکھتا ہے اور اسی طرح انسان کو رحیم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی حد تک قوت رحم بھی اپنے اندر رکھتا ہے اور قوت غضب بھی اس میں ہے اور ایسا ہی اۤنکھ کان وغیرہ سب انسان میں موجود ہیں۔ پس ان تشبیہی صفات سے کسی کے دل میں شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ گو یا انسان ان صفات میں خدا سے مشابہ ہے اور خدا انسان سے مشابہ ہے اس لئے خدا نے ان صفات کے مقابل پر قراۤن شریف میں اپنی تنزیہی صفات کا بھی ذکر کر دیایعنی ایسی صفات کا ذکر کیا جن سے ثابت ہو تا ہے کہ خدا کو اپنی ذات اور صفات میں کچھ بھی شراکت انسان کے ساتھ نہیں اور نہ انسان کو اس کے ساتھ کچھ مشارکت ہے۔ نہ اس کا خلق یعنی پیدا کرنا انسان کی خلقکی طرح ہے نہ اس کا رحم انسان کے رحم کی طرح ہےنہ اس کا غضب انسان کے غضب کی طرح ہے۔ نہ اس کی محبت انسان کی محبت کی طرح ہے۔ نہ وہ انسان کی طرح کسی مکان کا محتاج ہے۔ اور یہ ذکر یعنی خدا کا اپنی صفات میں انسان سے بالکل علیحدہ ہو نا قراۤن شریف کی کئی اۤیات میں تصریح کے ساتھ کیا گیا ہےجیسا کہ ایک یہ اۤیت ہے لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ءٌ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(الشوریٰ:۱۲) یعنی کوئی چیز اپنی ذات اور صفات میں خدا کی شریک نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔( چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 272-273)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ’’دیباچہ تفسیر القراۤن ‘‘ میں صفات الٰہیہ کی بحث کرتے ہوئے اللہ تعا لیٰ کی صفات کی تین اقسام یوں بیان فرمائیں:’’یہ صفات مو ٹے طور پر تین حصو ں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں۔اوّل وہ صفات جو صرف اللہ تعا لیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، مخلوق کا ان کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔مثلاً الْحَیُّ زندہ رہنے والا ہے۔ اَلْقَادِرُ قدرت اور اختیار رکھنے والا ہے۔ اَلْمَاجِدُ بزرگی رکھنے والا وغیرہ وغیرہ۔ دوسری قسم کی صفات وہ ہیں جو مخلوق کی پیدائش کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے سلوک اور اس کے نسبتی تعلق پر دلالت کرتی ہیں مثلاً اَلخَالِقُ، اَلْمَالِکُ وغیرہ وغیرہ۔ تیسری قسم کی صفات وہ ہیں جو بالارادہ ہستیوں کے اچھے اور برے اعمال کے متعلق خدا تعا لیٰ کی طرف سے ظاہر ہو تی ہیں مثلاً رَحِیْمٌ ہے، مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے عَفُوّ ہےرَؤُوْفٌ ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘(دیباچہ تفسیر القراۤن، صفحہ309)
کیا رسول اللہ ؐکو اللہ تعا لیٰ کے
سب اسمائے حسنیٰ بتا دیےگئے تھے؟
جیسا کہ گذشتہ سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے بے شمار نام ہیں لیکن ان کا صحیح علم تو صر ف اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے جو علیم و خبیر ہے۔جس نے قراۤن کریم میں انسانو ں کو یہ بتا دیا ہے کہ وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا۔(بنی اسرائیل: 86)اور تمہیں علم میں سے کم ہی حصہ دیا گیا ہے۔اس تعلق میں حضرت عبداللہ بن سعدکی ایک روایت میں نبی کریمؐ کی ایک دعا کا ذکر ملتا ہے جس میں نبی کریم ؐنے اللہ تعا لیٰ سے ان الفاظ کے ساتھ التجا فرمائی کہ أَسْأَلُكَ بِکُلِّ اِسْمٍ ھُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ اَوْاَنْزَلْتَہُ فِیْ کِتَابِکَ اَوِسْتَأثَرْتَ بِہِ فِیْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ۔اے اللہ میں تجھ سے تیرے ان تمام ناموں کے ذریعہ سے سوال کرتا ہو ں جو تو نے اپنی ذات کے لیے اختیار فرمائے اور یا انہیں اپنی کتاب میں نازل فرمایا اور یا تیری ان پسندیدہ صفات کا واسطہ دیتا ہو ں جو تجھے بہت پسند ہیں جو تیرے غیب کے پو شیدہ خزانوں میں ہیں۔ (رواہ رزین، بحوالہ خزینۃ الدعا، مناجات رسول از(-)صفحہ76)
اسی طرح ایک دعا جو نبی کریم ؐنے حضرت ابو بکر ؓ کو سکھائی تھی اس میں بھی یہ الفاظ ملتے ہیں کہ أَسْأَلُكَ بِکُلِّ اِسْمٍ ھُوَ لَکَ۔اَنْزَلْتَہُ فِیْ کِتَابِکَ۔ اَوِسْتَأثَرْتَ بِہِ فِیْ غَیْبِکَ۔ اے اللہ میں تجھ سے تیرے ان تمام نامو ں کے ذریعہ سے سوال کرتا ہو ں جو تو نے اپنی ذات کے لیے اختیار فرمائے اور یا ان نامو ں سے جو تو نے اپنی کتاب میں نازل فرمائے اور یا تیری ان پسندیدہ صفات کا واسطہ دیتا ہو ں جو تیرے غیب میں ہیں۔(رواہ رزین، بحوالہ خزینۃ الدعا، مناجات رسول صفحہ94) حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ؐکو سنا۔ اۤپؐ دعا کرتے ہوئے فرما رہے تھے :اَللّٰہُمَّ بِاسْمِکَ الطَّاہِرِ الطَّیِّبِ الْمُبَارَکِ الْاَحَبِّ اِلَیْکَ الَّذِیْ اِذَا دُعِیْتَ بِہِ اَجَبْتَ وَاِذَا سُئِلْتَ بِہِ اَعْطَیْتَ، وَاِذَا سْتُرْحِمْتَ بِہِ رَحِمْتَ وَ اِذَا اسْتُفْرِجْتَ بِہٖ فَرَّجْتَ۔اے اللہ!تجھے اس پاک اور طیب برکت والے اور سب سے پیارے نام کا واسطہ کہ جس کا نام لے کر تجھے پکارا جائے تو تُو دعا قبول کرتا ہے اور جب اس نام کے ساتھ تجھ سے مانگا جائے تو تُو عطا کرتا ہے۔ اور جب اس نام کے ساتھ تجھ سے رحمت طلب کی جاتی ہے تو تُو رحم فرماتا ہے اور اس نام کے واسطہ سے تجھ سے مشکل کشائی کا تقاضا کیا جاتا ہے تو تُو مشکل دُور فرماتا ہے۔ ( سنن ابن ماجہ، بحوالہ خزینۃ الدعا، مناجات رسول صفحہ 122) ان تینوں روایات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے بعض ایسے نام بھی ہیں جو پردۂ غیب میں ہیں اور اللہ تعا لیٰ نے انہیں نہ صرف عام انسانو ں پربلکہ نبیوں پر بھی ظاہر نہیں فرمایا۔
اسمائے حسنیٰ کا دعا کے ساتھ تعلق
ان اسمائے حسنیٰ کا دعا کے ساتھ جو تعلق ہے اس کو قراۤن کریم میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاۤءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا اور اللہ کی بہت سی اچھی صفات ہیں پس تم ان کے ذریعہ سے اُس سے دعائیں کیا کرو۔(الاعراف:181)اسی طرح سورت بنی اسرائیل کی اۤیت 111 میں فرمایا: اَیًّامَّا تَدْعُوْ ا فَلَہُ الْاَسْمَاۤءُ الْحُسْنٰی۔ ان اۤیات قراۤنی میں قبولیت دعا کا گر بتایا گیا ہے کہ دعا کے وقت اللہ تعا لیٰ کے خاص نا مو ں کے ساتھ اس سے دعا مانگی جائے۔ احادیث میںمذکور ہے کہ نبی کریم ؐ نے اللہ تعا لیٰ کے بعض خاص نامو ں کے ساتھ دعا مانگنے کو پسند فرمایا اور یہ بھی بتایا کہ ان ناموں کے ساتھ دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعا لیٰ جلد قبول فرماتا ہے۔ اۤئندہ سطور میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں انہی اسمائے اعظم کا تذکرہ کیا جائے گا۔
اسم اعظم اور اللہ تعا لیٰ کےاسمائےحسنیٰ
جن کے ذریعہ دعا قبول ہو تی ہے
(1) اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْد لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُُ۔
خادم رسول ؐحضر ت انس ؓبیان فرماتے تھے کہ میں نبی کریم ؐکے ساتھ مسجد میں بیٹھا تھا اور ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے یہ دعا مانگی: اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْد لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ؛ (جامع ترمذی و سنن ابو داؤد بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب اسماء اللہ تعالیٰ، حدیث نمبر2181۔ الادب المفرد لامام بخاریؒ کتاب الدعاحدیث نمبر102) یا الٰہی میں تجھ سے اپنا مطلب اس وسیلہ کے ساتھ مانگتا ہو ں کہ تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو بہت مہربان، بہت دینے والا، اۤسمانو ں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اے بزرگی و جلال اور عزت کے مالک، اے زندہ اور سب کو قائم رکھنے والے میں تجھ سے سوال کرتا ہو ں۔(یہ سن کر) نبی کریمؐ نے فرمایا: اس شخص نے اللہ تعا لیٰ سے اس کے ایسے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی ہے کہ جب اللہ تعا لیٰ سے اس کے ذریعہ سے دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعا لیٰ اسے قبول کرتا ہے۔اور جب اللہ تعا لیٰ سے اس کے ذریعہ سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ سوال پورا کرتا ہے۔
(2) اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنْتَ اللّٰهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔
حضرت بریدہ ؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐنے ایک شخص کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا : اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنْتَ اللّٰهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔ اے میرے اللہ میں تجھ سے اپنا مطلوب و مقصود اس وسیلہ کے ساتھ مانگتا ہو ں کہ تو اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ایسا یکتا اور بے نیاز ہے کہ نہ تو اس نے کسی کو جنا اور نہ اسے کسی نے جنا اور اس کا کو ئی ہمسر نہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ اس شخص نے اللہ تعا لیٰ سے اس کے ایسے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعہ سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ سوال پورا کرتا ہے اور جب اس کے ذریعہ سے دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعا لیٰ اسے قبول کرتا ہے۔(جامع ترمذی و سنن ابو داؤد بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب اسماء اللہ تعالیٰ، حدیث:2180)
حضرت بریدہ ؓکی دوسری روایت میں یہ مذکور ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے ان کلمات سے دعا کی تھی: اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِاَنِّیْ اَشْہَدُ اَنْ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْ لَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ کُفُوًا اَحَد۔یہ سن کر رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ سے اس کے ایسے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی ہے کہ جب اللہ تعا لیٰ سے اس کے ذریعہ سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ سوال پورا کرتا ہے اور جب اس کے ذریعہ سے دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعا لیٰ اسے قبول کرتا ہے۔ (رواہ رزین، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب اسماء اللہ تعالیٰ، حدیث:2184)
(3) لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ (الانبیاء: 88) تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں یقیناً ظلم کرنے والو ں میں سے تھا۔
مذکورہ بالا حضرت یونس ؑ کی دعا سے اگلی اۤیت89 میں اللہ تعا لیٰ یہ فرماتا ہے کہ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ ۙ وَنَجَّیۡنٰہُ مِنَ الۡغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُــۨۡجِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔پس ہم نے اس کی دعا کو سنا اور غم سے اسے نجات دی اور ہم اسی طرح مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔
اس مذکورہ بالا اۤیت کے اۤخری حصہ میں اللہ تعا لیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جو طریق حضرت یونس ؑ نے اپنایا اسی طریق کو اپنا کر مومن بھی دعا کریں تو اللہ تعا لیٰ ان کی دعا کو قبول فرماتے ہوئے نجات کے سامان مہیا فرمادے گا۔
اس تعلق میں حضرت سعدؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول کریم ؐنے فرمایا : مچھلی والے (یعنی حضرت یونس ؑ) کی وہ دعا جو انہو ں نے اس وقت مانگی جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے، لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ۔یہ ایسی دعا ہے کہ جو مسلمان شخص اس دعا کے ذریعہ اللہ سے دعا کرتا ہے تو اللہ اس کی دعا کا جواب دیتا یعنی اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے۔ (مسند احمد و جامع ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب اسماء اللہ تعالیٰ، حدیث:2183)
(4) حضرت اسماء بنت یزیدؓ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا : اللہ کا اسم اعظم ( سب سے بڑا نام ) ان دو اۤیتوں میں ہے یعنی : وَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ (البقرہ: 164)اور سورہ اۤل عمران کی یہ ابتدائی اۤیت: الۤمّۤ۔ اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔(اۤل عمران:3)(جامع ترمذی، سنن ابو داؤد، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب اسماء اللہ تعالیٰ، حدیث:2182) خادم رسول ؐحضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐجب نماز پڑھتے اور اپنی نماز سے فارغ ہو جاتے تو اپنا ہاتھ سر پر رکھتے اور یہ دعا پڑھتے: بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُو الرَّحمٰنُ الرَّحِیْمُ اَللّٰہُمَّ اذْھِبْ عَنِّی الْھَمَّ وَالْحُزْنَ۔یعنی اللہ کے نام کے ساتھ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو رحمٰن اور رحیم ہے، اے میرے اللہ ! مجھ سے میرے غم و رنج کو دور کردے۔ (الطبرانی الاوسط بحوالہ حصن حصین اردو از امام شمس الدین محمد بن محمد الجزریؒ المتوفی833 ہجری صفحہ 211 شائع کردہ خزینہ علم وادب لاہور)
(5) امام ابن کثیر ؒنے اپنی تفسیر میں تفسیر ابن ابی حاتم کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓنے رسول اللہ ؐسے ’’ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ‘‘کی نسبت سوال کیا تو اۤپﷺ نے فرمایا : یہ اللہ تعا لیٰ کا نام ہے۔ اللہ تعا لیٰ کے بڑے نامو ں اور اس میں ا س قدر نزدیکی ہے جیسے اۤنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں۔ (تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ الفاتحہ فصل بسم اللہ کی فضیلت، جلد اوّل )
(6) الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ
تفسیر مظہری میں سورت اۤل عمران کی اۤیت 3 اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُکی تفسیر میں مصنف ابن ابی شیبہ، طبرانی اور ابن مَرْدَوَیْہکے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ابو امامہ ؓسے مروی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا : اللہ کا اسم اعظم تین سورتوں البقرہ، اۤل عمران اور طٰہٰ میں ہے۔ حضرت ابو امامہؓ کے شاگرد قاسم نے کہا میں نے تینوں سورتوں میں تلاش کیا تو ’’اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ‘‘کو تینوں سورتوں میں مشترک پایا۔ ایک سورۃ البقرہ کی اۤیت الکرسی، دوسرے اۤل عمران کی اسی اۤیت میں اور تیسرے سورت طٰہٰ کی اۤیت112 وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ۔( تفسیر مظہری از قاضی محمد ثناء اللہ مجددی ؒ پانی پتی، متوفی: 1225 ہجری،زیر تفسیر سورۃ اۤل عمران اۤیت 3۔یہ مفسر ہندوستان کے مشہور ولی اللہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں،متوفی1195 ہجری، کے خلیفہ تھے۔)
خادم رسول ؐحضرت انس بن مالکؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہ ؐکو جب کو ئی مصیبت اور بے چینی ہو تی تو (انہی اسماء کے ساتھ) یہ دعا پڑھتے تھے : یَاحَیُّ یا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔اے زندہ و قائم خدا ! تیری رحمت کا واسطہ دے کر میں تجھ سے مدد کا طالب ہوں۔(مستدرک للحاکم، جامع ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، باب الدعوات فی الاوقات، حدیث:2340، کنز العمال جلد اول صفحہ 299)
(7) یَا ذَا الْجَلاَ لِ وَالْاِکْرَامِ۔
حضرت معاذ بن جبلؓ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ؐ نے ایک شخص کو دعا کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا :’’یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ‘‘تو نبی کریم ؐنے فرمایا تیری پکار سن لی گئی ہے تو مانگ جو مانگنا ہے۔( مشکوٰۃ المصابیح، باب الدعوات فی الاوقات، حدیث:2318)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: اَلِظُّوْا بِیَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ کہ ذوالجلال والاکرام کو لازم پکڑو۔ (مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح [اردو ترجمہ] از علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاری ؒ، متوفی 1014 ہجری، کتاب اسماء اللہ تعالیٰ، جلد5 صفحہ294، مکتبہ رحمانیہ، جِلا ءُ الاَ فْہَام، اردو، از امام قیم ؒ، صفحہ 168، فرید بک اسٹال لاہور، نومبر 2005ء)رسول اللہ ؐکے ایک صحابی ؓنے اسم اعظم معلوم کرنا چا ہا تو انہو ں نے خواب میں دیکھا کہ اۤسمان میں ستاروں سے یہ لکھا ہوا تھا : يا بَدِيعَ السَّمٰوٰاتِ وَالْأَرْضِ، يَا ذَا الْجَلالِ وَالْإِكْرَامِِ۔(جِلا ءُ الاَ فْہَام، اردو، از امام قیم ؒ، صفحہ: 168، فرید بک اسٹال لاہور، نومبر2005ء)
(8) حضرت عائشہؓ بیان فرماتی تھیں کہ ایک دن رسول اللہؐ نے فرمایا : اے عائشہ ! کیا تمہیں علم ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے مجھے اپنا ایک ایسا نام بتا یا ہے کہ جب اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو وہ قبول کر لیتا ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ اۤپ پر قربان ! اۤپ مجھے وہ دعا سکھا دیجئے۔ اۤپؐ نے فرمایا اے عائشہ تمہارے لیے وہ مناسب نہیں ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ پھر میں ایک گوشہ میں چلی گئی اور تھوڑی دیر بیٹھی رہی۔ پھر میں اٹھی اور اۤپؐ کے سر مبارک کو بوسہ دیا اور میں نے کہا : یا رسول اللہ ؐ! مجھے وہ سکھا دیجئے۔ اۤپؐ نے فرمایا اے عائشہ یہ مناسب نہیں کہ میں تمہیں سکھاؤں، تمہارے لیے مناسب نہیں کہ اس کے ذریعہ دنیا کی کسی شئے کا سوال کرو۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں کھڑی ہو گئی او ر میں نے وضو کیا پھر میں نے دو رکعت نماز پڑھی اور میں نے کہا : اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَدْعُوْکَ اللّٰہَ وَاَدْعُوْکَ الرَّحْمٰنَ وَاَدْعُوْکَ الْبَرَّالرَّحِیْمَ وَاَدْعُوْکَ بِاَسْمَاءِکَ الْحُسْنٰی کُلّہَا مَا عَلِمْتُ مِنْہَا وَمَالَمْ اَعْلَمْ اَنْ تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْ۔ یعنی اے میرے اللہ ! بے شک میں تجھ کو اللہ کہہ کر پکار رہی ہوں اور تجھے رحمٰن کہہ کر پکار رہی ہوں اور تجھ کو بھلا اور مہربان کہہ کر پکار رہی ہو ں اور تجھ کو تیرے تمام اچھے نامو ں کے ساتھ پکار رہی ہو ں خواہ مجھے ان کا علم ہے یا نہیں، یہ کہ تو میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔
حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ اس پر رسول اللہ ؐ ہنسے اور فرمایاکہ وہ نام انہی ناموں میں ہے جن نامو ں کے ساتھ تم نے دعا کی ہے۔(مسند احمد و مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح [اردو ترجمہ] از علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاری ؒ، متوفی 1014 ہجری، کتاب اسماءاللہ تعالیٰ، جلد5 صفحہ 300، مکتبہ رحمانیہ )
(9) حضرت سلمہ بن اکوع اسلمی ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ؐکو نہیں سنا کہ کوئی دعا کی ہو جس کا شروع اۤپؐ نے ان کلمات سے نہ کیا ہو : سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَلِیِّ الْاَعْلَی الْوَہَّابِ۔ پاک ہے میرا رب جو بلند شان رکھنے والا، بزرگ و برتربہت عطا کرنے والا ہے۔( مسند احمد، الہیثمی جلد 10صفحہ156، کنز العمال، جلداوّل صفحہ290)
(10) حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے فرمایا جس شخص پر رنج یا غم یا بے چینی یا بادشاہ کا خوف ہو اور وہ ان کلمات کے ساتھ دعا کرے تو اس کی دعا قبول کی جائے گی: أَسْأَلُكَ بِلَا اِلٰہَ اِلَّااَنْتَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔وَ أَسْأَلُكَ بِلَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ۔ أَسْأَلُكَ بِلَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَالْاَرْضِیْنَ السَّبْعِ وَمَا فِیْہِنَّ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔( الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر709صفحہ487 شائع کردہ پروگریسو بکس لاہور، مارچ 2014ء)میں تجھ سے سوال کرتا ہو ں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ساتوں اۤسمانوں کا رب ہے، اورمیں تجھ سے سوال کرتا ہو ں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ساتوں اۤسمانوں کا رب ہے اور عرش کریم کا رب ہے۔اور میں تجھ سے سوال کرتا ہو ں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ساتوں اۤسمانوں کا رب ہے، اور ساتوں زمینو ں کا رب ہے اور جو کچھ ان میں ہے، بے شک تو تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے۔
(11) یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن
ایک روایت میں اۤتا ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: جو شخص یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن کہتا ہے اس کے لیے اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ مقرر ہے۔ پس جو شخص تین بار یہ کلمہ کہتا ہے تو فرشتہ اس سے کہتا ہے کہ ارحم ُالراحمین (خدا ) تیری طرف متوجہ ہے تو جو چاہے طلب کرے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ؐکا ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا جو یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَکہہ رہا تھا تو اۤپؐ نے فرمایا: تُو سوال کر، اللہ نے تیری طرف نظر کرم فرمائی ہے۔( حصن حصین اردو از امام شمس الدین محمد بن محمد الجزریؒ المتوفی833 ہجری، صفحہ112، شائع کردہ خزینہ علم وادب لاہور)
(12)حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعا لیٰ کی طرف سے یہ دعا سکھلائی گئی: رَبِّ کُلُّ شَیْ ءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْ نِیْ وَارْحَمْنِیْ؛ یعنی اے میرے رب! ہر ایک چیز تیری خدمت گزار ہے، اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک اۤفت سے نجات ہو گی۔ ‘‘(سیرت حضرت مسیح موعود ؑمؤلفہ حضرت یعقوب علی عرفانی ؓ، جلد پنجم، صفحہ 637)
(13) حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے جلیل القدر صحابی حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے الہاماً بتایا گیا کہ سورہ یٰسین کی اۤخری تین اۤیات میں اسم اعظم پایا جاتا ہے۔ وہ اۤیات مندجہ ذیل ہیں : اَوَلَیۡسَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَہُمۡ ؕ بَلٰی ٭ وَہُوَ الۡخَلّٰقُ الۡعَلِیۡمُ۔ اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ۔ فَسُبۡحٰنَ الَّذِیۡ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّاِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ۔(یٰس:82-84)(حیات قدسی، حصہ دوم، صفحہ87-88)
(باقی آئندہ)