’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ (قسط دوم۔آخری)
پُر معارف الہام کے معانی اور پیغام مسیح موعودؑ زمین کے کناروں تک پہنچنے کے معجزانہ نظارے
قادیان سے زمین کے کناروں تک
حضرت مسیح موعودؑ کو خداتعالیٰ نے جو خبردی تھی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔یہ الہام مختلف رنگوں میں پورا ہوتا رہا مگر خلافت خامسہ میں اس الہام نے ایک نیا جلوہ دکھایا اور 16؍دسمبر 2005ء کو قادیان کی مسجد اقصیٰ سے معجزانہ طور پر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کی صورت میں مسیح موعوؑد کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچنے لگی اور یہ پیغام جلسہ کے خطابات کے علاوہ 5خطبات جمعہ اور ایک خطبہ عیدالاضحی کی صورت میں گونجتا رہا۔یہ بھی ایک عجیب ایمان افروز واقعہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ قادیان 2005ء میں شرکت کا فیصلہ فرمایا اور یہ ہدایت دی کہ حضور کے تمام خطابات وخطبات ایم ٹی اے کے ذریعہlive نشر ہوں۔ اُس وقت تک قادیان سے براہ راست پروگرام نشر ہونے کا نہ انتظام تھا نہ ہی تصور۔ جماعت کے منتظمین نے نئی دہلی کے قریب واقع شہر نوئیدا میں قائم ایک براڈ کاسٹنگ ٹی وی کمپنی سے معاہدہ کر لیا لیکن یہ نشریات حکومت ہند کی وزارت اطلاعات و نشریات کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔ اس کے لیے جولائی 2005ء میں اجازت نامہ کے حصول کے لیے درخواست دے دی گئی یہ کارروائی کرتے کرتے چھ ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا مگر کوئی امید نظر نہ آتی تھی۔ آخر حضور لندن سے دہلی پہنچ گئے اور 15؍ دسمبر کو حضور انور نے دہلی سے قادیان کے لیے روانہ ہونا تھا اور اجازت نہیں ملی تھی۔ یہ صورت حال جب حضور کے علم میں لائی گئی تو حضور نے 14؍دسمبر کو فرمایا میں اُس وقت تک قادیان نہیں جاؤں گا جب تک پروگرام لائیونشر کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعا کو قبول فرمایا اور ایسے حالات پیدا کر دیے کہ اسی روز شام 5 بجے اجازت نامہ آ گیا اور تمام خطابات پہلی مرتبہ قادیان سے ایم ٹی اے پر براہ راست نشر ہوئے۔ (ہفت روزہ بدر قادیان 19؍ مئی 2022ء صفحہ 22)اس کے 3 ماہ بعد 28؍اپریل 2006ء کو زمین کے کنارے فجی سے حضور کا خطبہ جمعہ زمین کی تمام بلندیوں اور پستیوں میں نشر ہوا جسے فجی کے نیشنل ٹی وی نے بھی Live نشر کیا۔ حضور نے 2؍مئی 2006ء کو جزیرہ تاویونی پر لوائے احمدیت لہرایا جہاں سے Date Line گزرتی ہے۔ پس قادیان سے زمین کے کناروں تک اور زمین کے کناروں سے تمام دنیا تک مسیح موعود کے پیغام کا ابلاغ احمدیت کے مواصلاتی اور فضائی دور کا ایک نیا سنگ میل ہے۔
یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ مختلف قوموں کے نزدیک زمین کے جو بھی کنارے ہیں خواہ وہ فجی ہو یا ماریشس یا آئرلینڈ یا قطب شمالی کے قریب امریکہ اور کینیڈا کے علاقے۔ ان سب جگہوں پر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کا پیغام ہر جگہ پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔اور سب جگہوں سے حضور کے خطبات جمعہ اور دیگر خطابات براہ راست نشر ہوتے ہیں۔احمدیت کے قافلے کا پھلانگتا ہوا سفر جو پہلے زمین پر چھلانگیں مار رہا تھا اب آسمانوں پر اڑنے لگا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘دیکھو کس شان سے پورا فرمایا ہے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی۔ کل پرسوں کی بات ہے ہم ریڈیو کی باتیں کرتے تھے تو اپنےاندر یہ قدرت نہیں پاتے تھے کہ ہم کوئی انٹرنیشنل ریڈیو ہی قائم کرسکیں کجا وہ دن اور کجا وہ تین سال کے عرصے میں یہ احمدیت کے قافلے کا پھلانگتا ہوا سفر جو پہلے زمین پر چھلانگیں مار رہا تھا اب آسمانوں پر اڑنے لگا ہے اور آسمان سے پھر زمین پر اترتا ہے اور پیغام لےکر پھر ا پنے سفر پر رواں دواں ہوتا ہے۔ یہ نظام خدا نے ہمیں عطا فرمایا ہے اور اس الہام کی برکت ہے۔‘‘(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل27؍جون1997ء)
الہام کا پس منظر
یہ الہام کن حالات میں ہوا اور اس کے پورا ہونے کے کتنے امکانات تھے یہ بھی روحانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے اس الہام کے پس منظر کا جائزہ لینے کے لیے ہم اس سے 4سال پہلے یعنی 1894ء سے لے کر 1897ء کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ جس مہدی کی مدتوں سے منتظر تھی اس کی علامات میں سے ایک کسوف و خسوف کا نشان تھا۔ یہ مارچ اپریل 1894ء میں ظاہر ہوا۔ بعض سعید روحوں نے اسے دیکھ کر حضور کو قبول کیا مگر عام طور پر امت مسلمہ نے اس نشان کو رد کر دیا۔ علماء نے طرح طرح کے عذر ایجاد کیے۔ حدیث کو حدیث ماننے سے انکار کر دیا۔ روایت کو جھوٹا قرار دے دیا اور چاند سورج گرہن کے لیے وہ تاریخیں تجویز کیں جو قانون قدرت کو جڑھ سے اکھاڑنے کے لیے کافی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے جواب میں بہت دلائل پیش کیے، کئی کتب لکھیں، متعدد چیلنج دیے مگر ماننے والے بہت کم اور انکار کرنے والے ہزاروںگنا کثرت میں تھے۔
1890ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح کا الہامی اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے عام طور پر مسلمان برہم تھے مگر 1895ء میں حضور نے یہ انکشاف بھی فرما دیا کہ حضرت مسیحؑ کی قبرسری نگر کشمیر میں موجود ہے۔ اس اعلان نے مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا اور وہ دونوں قومیں شعلہ جوالہ بن گئیں۔
1895ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھ مذہب کے بانی حضرت بابا گورو نانک صاحب کو مسلمان ولی اللہ ثابت کر دیا تو سکھ برادری بھی آپ کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک طوفان بد تمیزی برپا ہو گیا۔ چند سعید لوگ حضور کی کتاب ست بچن پڑھ کر احمدی ہو گئے مگر قومی اعتبار سے اس کا رد عمل بہت خوفناک تھا۔ سکھ لیڈر اس کتاب کے جواب کے لیے لیکھرام کے پاس بھی گئے مگر اس نے پہلی شرط یہ لگائی کہ چولہ بابا نانک جس پر کلمہ طیبہ اور دیگر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں اسے جلا دیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا اور سکھ مذہب کی اہم کتاب جنم ساکھی کے نئے ایڈیشن میں یہ لکھ دیا گیا کہ بابا صاحب کا چولہ آسمان پر اڑ گیا ہے اور پھر واپس کبھی بھی نہیں آئے گا۔ ایک سکھ نے خبط قادیانی کے نام سے کتاب لکھی اور حضرت رسول کریم ﷺ اور مسیح موعود علیہ السلام پر سخت حملے کیے۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 602)1896ء میں حضور نے ایک تبلیغی خط والی کابل امیر عبدالرحمان کے نام لکھا جو حضرت مولوی عبدالرحمان صاحب شہید لے کر گئے تھے جس پر امیر نے جواب دیا کہ ایں جا بیا۔ یعنی کابل میں آ کر دعویٰ کرو تو معلوم ہو جائے گا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس کے بعد کابل گئے اور انہوں نے امیر کو خوب بھڑکایا اور واپس آ کر کہا کہ مرزا صاحب کابل جائیں تو زندہ واپس نہیں آ سکیں گے۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 548)اس کے بعد امیر نے حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب کو شہید کر دیا اور 1903ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو بھی مسیح موعود پر ایمان لانے کے جرم میں سنگسار کر دیاگیا۔
1896ء میں ہی حضور نے ہندوستان کے تمام علماء اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا جس کے نتیجہ میں ان کے مریدوں میں نفرت کی لہر اور بھی بلند ہو گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ 1906ء تک ان مخالف علماء کی اکثریت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جو زندہ تھے وہ کسی نہ کسی بلاء میں گرفتار تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 551)پادری عبداللہ آتھم سے حضور کا مباحثہ ( جنگ مقدس)1893ء میں ہوا تھا جس کے آخر پر حضور نے عبداللہ آتھم کی ہلاکت کی پیشگوئی کی مگر وہ دل میں رجوع کر کے خدا کے فوری غضب سے تو بچ گیا مگر اخفائے حق کے جرم کا مرتکب ہوتا رہا اور 27؍جولائی 1896ء کو بالآخر ہاویہ میں جاگرا۔ اس واقعہ نے عیسائی دنیا کو اپنی تپش اور نفرت میں اور بھی بڑھا دیا اور بالآخر اسی موت کے بدلہ کے طور پر اگست 1897ء میں پادری مارٹن کلارک نے حضور کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کر دیا۔
1897ء میں نائب سفیر سلطان ترکی حسین کامی قادیان آئے۔ وہ ترکی کی مزعومہ خلافت عثمانیہ کے لیے انگریزوں کے مد مقابل حضور کی تائید حاصل کرنے کے متمنی تھے۔ مگر حضور کو کشفاً بتایا گیا کہ سلطنت ترکی کی حالت اچھی نہیں اور ان حالتوں کے ساتھ انجام بخیر نہیں ہے۔ اس پر اس نے واپس جا کر حضور کے خلاف اخبار میں ایک غضب آلود مضمون شائع کروایا اور کثرت سے چرچا بھی کیا۔ اس طرح گویا حضور نے مسلمانوں کی طاقتور سلطنت عثمانیہ سے دشمنی بھی مول لے لی۔
حضورؑنے 1893ء میں شاتم رسول لیکھرام کی 6 سال میں ہلاکت کی پیشگوئی کی تھی۔ 6؍مارچ 1897ء کو جب یہ پیشگوئی عظیم شان سے پوری ہوئی تو ہندو اور آریہ آپ کی جان کے دشمن ہو گئے۔ الزام لگایا کہ آپ نے اسے قتل کروایا ہے۔ آپ کے گھر کی تلاشی لی گئی اور تلاشی لینے والے تھانےدار نے کہا کہ مرزا ہمیشہ بچتا رہا ہے اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ آپ کے قتل کی سازشیں کی گئیں اور قاتلوں کے لیے انعام مقرر کیے گئے۔ مولوی بٹالوی صاحب نے لکھا کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ لیکھرام کے قتل میں مرزا صاحب شریک ہیں۔ اس سلسلہ میں گرفتاری کی کوششیں بھی کی گئیں۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 598)1898ء کے شروع میں ایک مولوی ملا محمد بخش جعفر زٹلی نے ایک اشتہار شائع کر کے حضور کی وفات کی جھوٹی خبر مشہور کر دی۔ (تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 9)وسط 1898ء میں حضور پر حکومت پنجاب نے انکم ٹیکس ادا نہ کرنے اور سرکاری خزانہ کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ دائر کیا۔1898ء کے آخر پر مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخبری پر حضور کے خلاف حفظ امن کا مقدمہ دائر ہوا اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب مجھے قتل کرا دیں گے۔
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت مسیح موعودؑ پر براہین احمدیہ کی ابتدائی جلدوں کی اشاعت کے بعد کفر کافتویٰ لگ گیا تھا (عالمی فتنہ تکفیر کے متعلق رسو ل کریم ﷺ کی پیشگوئیاں۔دوست محمد شاہد۔صفحہ16)اس کے بعد 1890ء میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے ہندوستان میں گھوم کر 200 علما٫ سے کفر کے فتاویٰ حاصل کیے اور غلیظ ترین گالیاں دیں۔ (حیات طیبہ صفحہ102 شیخ عبد القادر )
یہ واقعات چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جان مال اور عزت سخت خطرے میں تھی اور مخالفین نے ہر طرف سے گویا محاصرہ کر رکھا تھا۔ ہندوستان کی تمام مذہبی قومیں مسلمان، عیسائی، ہندو، آریہ اور سکھ آپ کو نیست و نابود کرنے کے لیےایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی مقدمات دائر کر کے حکومت کے ذریعہ آپ کو سزا دلوانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ جماعت احمدیہ 1889ء میں قائم ہو چکی تھی مگر اس کی تعداد نہایت کم تھی۔ چند ہزار ہو گی مگر ابھی تک اس کا کوئی باقاعدہ نام بھی نہیں تھا۔ موجودہ نام 1901ء میں رکھا گیا۔ ان حالات میں کسی کا یہ سوچنا کہ وہ دشمن کے شر سے بچ جائے گا، مخالفین ناکام و نامراد ہوں گے، اور وہ زمین کے کناروں تک عزت اور شہرت پائے گااور قبول کیا جائے گا، دنیا کی نظر میں ایک دیوانے کی بڑسے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ کیا یہ ایسے ہی نہیں جیسے اپنی قوم کے ظلم سے تنگ آ کر ہجرت کرنے والےخدا کے ایک عظیم فرستادہ کا اپناتعاقب کرنے والے کو یہ کہنا کہ کسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے۔
پیغام کہاں کہاں پہنچ چکا تھا
یہ بھی ضروری ہے کہ جائزہ لیں کہ حضرت مسیح موعوؑد کی زندگی میں حضور کا پیغام کہاں کہاں پہنچ چکا تھااور جماعت کی کیا صورت حال تھی۔
اس الہام کے وقت ابھی جماعت کا کوئی نام نہیں تھا اور نوزائیدہ شکل میں تھی۔ اس لیے ہندوستان میں احمدی تو موجود تھے مگر کوئی نظام جماعت نہیں تھا۔ احمدی مالی قربانی بھی کرتے تھے مگر چندوں کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ حضور حسب ضرورت تحریک کرتے اور احباب لبیک کہتے۔ کوئی مبلغ،کوئی مربی نہیں تھا۔ کوئی اخبار یا رسالہ نہ تھا۔ الحکم اخبار 1897ء کے آخر پر ہفت روزہ کے طور پرامرتسر سے جاری ہوا اور ریویو آف ریلیجنز اردو اور انگریزی میں 1902ء میں جاری ہوا۔
ہندوستان سے باہر سب سے زیادہ حضور کا ذکر برطانیہ میں ہو تا کیونکہ ہندوستان پر انگریز حکمران تھے اور انڈیا کی ساری خبریں وہاں پہنچتی تھیں۔ یوکے میں جماعت کی تاریخ کا آغاز 1913ء میں سمجھا جاتا ہے جب چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ یہاں آئے تھے جبکہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا پیغام یوکے اور یورپ کے دوسرے ممالک میں آپؑ کے دعویٰ مجددیت کے ساتھ ہی پہنچ گیا تھا۔ جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بغرضِ اتمام حجت ایک خط اور انگریزی اشتہار جس کی آٹھ ہزار کاپیاں چھپواکر ہندوستان اور انگلستان میں موجود مشہور اور معزز پادری صاحبان نیز مختلف سوسائٹیز اور مذاہب کے لیڈران تک جہاں جہاں اس زمانے میں اس پیغام کا پہنچنا ممکن تھا بھجوایا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یوکے میں Charles Bradlaugh کے نام سے ایک سیاستدان جو ایک دہریہ تھا اس کو آپؑ کی دعوت 1885ء میں موصول ہوئی تھی۔ اس کا ذکر برطانیہ کے ایک اخبار Cork Constitution نے اپنے 08؍جون 1885ء کے شمارے میں کیا تھا۔ اسی طرح Theosophical Society کے ایک بانی Henry Steel Olcott کو بھی یہ دعوت 1886ء میں موصول ہوئی تھی۔ جس کا ذکر اس نے اپنے اخبار The Theosophist کے ستمبر 1886ء کے شمارے میں کیا تھا۔
مئی 1897ء میں حضور نے تحفہ قیصریہ کے نام سے ایک تبلیغی خط ملکہ وکٹوریہ انگلستان کو بھجوایا مگر اس پر بھی کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔
حضور نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتے ہی اشتہارات کے ذریعہ عالمگیر نشان نمائی کا اعلان کیا تھا اور دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں اور مذہبی راہنماؤں کو اپنے پیغام سے مطلع کیا۔اگست1888ء میں آپ تحریر فرماتے ہیں:’’یہ دعویٰ بفضلہ تعالیٰ وتوفیقہٖ میدانِ مقابلہ میں کروڑ ہا مخالفوں کے سامنے کیا گیا ہے اور قریب تیس ہزار کے اس دعویٰ کے دکھلانے کے لئے اشتہارات تقسیم کئے گئے۔ اور آٹھ ہزار انگریزی اشتہار اور خطوط انگریزی رجسٹری کرا کر ملک ہند کے تمام پادریوں اور پنڈتوں اور یہودیوں کی طرف بھیجے گئے اور پھر اس پر اکتفا نہ کر کے انگلستان اورجرمن اور فرانس اور یونان اور روس اور روم اور دیگر ممالک یورپ میں بڑے بڑے پادریوں کے نام اور شہزادوں اور وزیروں کے نام روانہ کئے گئے۔ چنانچہ ان میں سے شہزادہ پرنس آف ویلز ولی عہد تخت انگلستان اور ہندوستان، اور گلیڈ سٹون وزیر اعظم اور جرمن کا شہزادہ بسمارک ہے۔ چنانچہ تمام صاحبوں کی رسیدوں سے ایک صندوق بھرا ہوا ہے‘‘۔ (مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 649)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام مشہور لیڈروں تک حضور کا دعویٰ پہنچ گیا تھا لیکن ان میں سے کسی نے قبولیت کی خواہش ظاہر نہیں کی اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ساری قوموں تک بھی حضور کا پیغام پہنچ گیا۔ کیونکہ ان سب قوموں کی زبانوں تک ہی رسائی کے لیے ایک بہت بڑا نظام درکار تھا۔
افغانستان میں حضور کا پیغام پہنچ چکا تھا کینیڈا کے اخبارات نے 1903ء میں پگٹ اور ڈوئی کے سلسلہ میں حضور کے چیلنج کی خبریں شائع کیں۔(الفضل آن لائن 25؍مارچ 2022ء)اور فن لینڈ میں 1903ءمیں پگٹ کے معاملہ میں اور پھر حضور کی وفات پر خبریں چھپیں (الفضل آن لائن5؍جنوری 2021ء)مشرق بعید میں جو سعید روحیں حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں احمدیت سے مشرف ہوئیں ان میں سے چند نام یہ ہیں چین میں حضرت قاری غلام مجتبیٰ و قاری غلام حم صاحبؓ۔ حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحب نے 1899ء میں ہانگ کانگ میں ازالہ اوہام پڑھی اور پھر قادیان آ کر دستی بیعت کی۔(الحکم 21؍دسمبر 1934ءو الفضل انٹر نیشنل 18؍ستمبر 2020ء)۔آسٹریلیا میں حضرت صوفی حسن موسیٰ صاحبؓ نے ستمبر 1903ء میں بیعت کی۔نیوزی لینڈ سے حضرت پروفیسر کلیمنٹ ریگ صاحب ؓنے مئی 1908ء میں حضور کی زیارت کی اور واپس جا کر بیعت کر لی۔
جاپان اور روس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے تبلیغی خطوط کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔
امریکہ کو بھی نئی دنیا کہا جاتا ہے اور ایک لحاظ سے وہ دنیا کا کنارہ بھی ہے۔ امریکہ میں الیگزنڈر وب حضور کی خط و کتابت کے نتیجہ میں مسلمان ہو گئے اور انہی کے ذریعے مسٹر اینڈرسن ٫1904 میں احمدی ہوئے جن کا نام حضور نے احمد تجویز فرمایا۔ 1902ء تا 1907ء ڈاکٹر ڈوئی کے ساتھ خط و کتابت اور چیلنج اخبارات میں شائع ہوتے رہے مشن تو 1920ء میں قائم ہوا۔
روس کے قطب شمالی کے علاقے بھی دنیا کے کنارے کہلاتے ہیں۔ روس کے مفکر اور عظیم ناول نگار ٹالسٹائی کے ساتھ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کی معرفت خط و کتابت ہوتی رہی اور جب اس کو اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ بھیجا گیا تو اس نے اس پر بڑا خوبصورت تبصرہ کیا۔عرب دنیا میں کئی سعید روحیں احمدی ہو چکی تھیں پہلے 2 عرب احمدی صحابی تھے پہلے عرب احمدی حضرت الشیخ محمد بن احمد مکی ؓتھے انہوں نے 10؍ جولائی 1891ء کو دستی بیعت کی آپ خاص مکہ شہر کے رہائشی تھے دوسرے شام کے محمد سعید شامیؓ طرابلسی تھے حضور نے پہلی دفعہ عربی کتاب التبلیغ میں عربوں کو براہ راست مخاطب کیا اور ایک موقع پر عربی اخبار نکالنے کی خواہش بھی ظاہر فرمائی۔(ملفوظات جلد 4صفحہ 166)
پیغام پہنچنے سے متعلق غیر معمولی نظارے
حضرت مسیح موعود ؑکو جب یہ وعدہ دیا گیا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا تو اس میں لازماً اس طرف بھی اشارہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت تمہارے ساتھ ہو گی۔ اور یہ بھی کہ الٰہی سنت کے مطابق پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لیے الٰہی جماعت کی محنت اور کاوش بھی ضروری ہو گی۔ چنانچہ اس کے عین مطابق جماعت احمدیہ جان مال وقت عزت اور اولادوں کی قربانی کر کے اس مقدس پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا رہی ہے۔ اس راہ میں شہادتیں بھی ہو ئیں، بہت دکھ سہے، بیوی بچوں کو چھوڑا، بھوک پیاس برداشت کی، زخم کھائے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر کوئی کمی نہ چھوڑی اور خدا نے اپنے وعدوں کے مطابق قربانیوں کا بہترین پھل اور صلہ عطا کیا مگر اس کا ایک ایمان افروز پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سی ایسی جگہوں پر جماعت کا پیغام اس طرح بھی پہنچا کہ اس کے لیے کوئی خاص محنت اور جدوجہدنہیں کرنی پڑی بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر اور تجلی کے طفیل ان ملکوں میں احمدیت کا آغازہوا مثلاًحضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ کو ایک شخص نے حضرت مسیح موعود ؑکی کتاب آئینہ کمالات اسلام دی جس کے ذریعہ افغانستان میں ان کی عظیم قربانی کی داغ بیل پڑی۔ گھانا میں ابتدائی تبلیغ کے لیےکوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ گھانا میں قصبہ اکرافو کے ایک مسلمان یوسف نیارکو صاحب Yousuf Nyarkoنے 1920ء میں خواب میں دیکھا کہ وہ ایک سفید آدمی کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نےا پنے خواب کا ذکر مسٹر عبدالرحمان پیڈرو(Mr. Abdur Rahman Pedro )صاحب کے ساتھ کیا جو نائیجیریا کے رہنے والے تھے۔ عبدالرحمان صاحب نے انہیں بتایا کہ میں نے ایک مسلم مشن کے متعلق پڑھا ہے جس کا مرکز ہندوستان میں ہے اور ایک برانچ لندن میں بھی ہے۔ یوسف صاحب نے اپنے خواب کی اطلاع جب چیف مہدی آپا کو دی تو انہوں نے مسلمانوں کی ایک میٹنگ منعقد کی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ احمدیت کے مرکز کو ایک خط لکھا جائے کہ ان کے لیے کوئی مبلغ بھجوایا جائے۔پہلے گھانین احمدی چیف مہدی آپا نے کیپ کوسٹ کے ایک شامی مسلمان تاجر سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحبؓ جو اس وقت لندن میں تھے کا پتا لیا اور ان سے خط و کتابت کی اور کچھ رقم جمع کر کے سفید مبلغ منگوانے کے لیے لندن مشن کو بھیج دی۔چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر مارچ 1921ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب ؓ لندن سے گھانا پہنچے۔
گیمبیا کا مشن بھی اسی طرح قائم ہوا۔گیمبیا کی ایک لڑکی اعلیٰ تعلیم کے لیے سیرالیون گئی۔ وہاں اسے کسی دکان پر نماز کی ایک کتاب ملی جس میں عربی زبان کے ساتھ انگریزی ترجمہ بھی تھا۔ اس لڑکی نے اپنے ملک میں کبھی ایسی کتاب نہ دیکھی تھی۔ اس نے وہ کتاب خرید لی اور گیمبیا میں اپنے ایک عزیز کو بھجوادی۔ یہ کتاب صدر انجمن احمدیہ قادیان کی شائع شدہ تھی۔ ایک نوجوان مسٹر بارہ انجائے (Bara Injoy) نے قادیان میں جماعت سے رابطہ کیا اور مزید دینی کتب کے لیے درخواست کی۔ اسے جماعت نے مزید کتب ارسال کیں اور بتایا کہ آپ کے قریبی ملک نائیجیریا میں ہمارا مشن ہے۔ وہاں رابطہ کرکے مزید لٹریچر اور معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ اس زمانہ میں مکرم نسیم سیفی صاحب نائیجیریا کے مشنری انچارج تھے۔ سب سے پہلے نائیجیریا سے ایک معلم مکرم حمزہ سنی الوصاحب گیمبیا تشریف لائے اور تقریباً ایک سال تک بانجول میں تبلیغ کرتے رہے۔ ان کے بعد گھانا سے ایک لوکل معلم مکرم سعید جبریل چند ماہ کے لیے تشریف لائے۔ اس زمانہ میں چونکہ گیمبیا میں باقاعدہ جماعت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے مکرم سعید صاحب اپنے گلے میں ایک بیگ ڈالے رکھتے تھے جس پر احمدیت لکھا ہوا تھا اور گھوم پھر کر لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہتے۔اس طرح پڑھے لکھے نوجوانوں کا مرکز احمدیت قادیان کے ساتھ بذریعہ خط و کتابت اچھا خاصارابطہ قائم ہوگیا اور وہاں سے اخبارات و رسائل بھی باقاعدگی کے ساتھ آنے شروع ہوگئے۔(ارض بلال از منور احمد خورشید مبلغ سلسلہ)حضرت خلیفۃ المسیح الرابع1983ء میں مشرق بعید کے دورہ پر تھے کہ آپ کو ایک خط ملا کہ طوالو میں بھی مشن کھولیں۔اگلے دن مکرم افتخار ایاز صاحب حضور کی خد میں حاضر ہوئے کہ مجھے طوالو اور ایک اور ملک سے ملازمت کی آفر ہوئی ہے مجھے مشورہ دیں حضور نے فرمایا طوالو کے لیے میں سوچ رہاتھا خدا نے تمہیں اسی لیے بھیجا ہے۔(الفضل انٹرنیشنل 17؍اکتوبر 2003ءصفحہ3)
انڈونیشیا کے چارنوجوان 1923ء میں دینی تعلیم کے لیے ہندوستان آئے تو قادیان آ کر حضرت مصلح موعودؓ سے دینی تعلیم کی درخواست کی۔ اسی دوران انہوں نے احمدیت قبول کر لی اور وہاں سے اپنے ملک میں تبلیغ شروع کر دی۔(الفضل آن لائن 22؍دسمبر2022ء)
جاپان میں باقاعدہ مشن 1935ء میں صوفی عبد القدیر نیاز صاحب کے ذریعہ قائم ہوا۔چین میں ہمارے پہلے مبلغ صوفی عبد الغفور صاحب 1935ء میں پہنچے مگر احمدیت کا پیغام 1924ء میں پہنچ چکا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ کئی احمدی تھے مگر ان کا رابطہ مرکز سے نہیں تھا۔ (خطبات محمود جلد 8 صفحہ 312 ) فجی کے پہلے احمدی حاجی محمد رمضان صاحب تھے جو 1959ء میں شامل جماعت ہوئے۔
یہ محض چند مثالیں ہیں اور اس بات کا کافی ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ یہ وعدہ خدا کی طرف سے تھا جو تمام نامساعد حالات میں پورا ہوا۔بیسیوں ایسے واقعات ہیں جہاں صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی مشیت ہی نظر آتی ہے۔الغرض یہ محض ایک الہام نہیں۔ یہ ایک عظیم الشان وعدہ ہے جس کے پورا ہونے کی کہانیاں زمین کے چپے چپے پر بکھری ہوئی ہیں۔ ایک پیشگوئی ہے جو ہر خطۂ ارض پر اپنی چمکار دکھلا رہی ہے۔ ایک تاریخ ہے جو خدائی نصرت و تائید سے بھرپور ہے۔ مسیح موعود کی صداقت کا ایک کھلا کھلا ثبوت ہے جس کی گواہی ایک عالم دے رہا ہے۔ ایک نور سے لکھی ہوئی تحریر ہے جو خاکدان عالم پر نقش کی گئی ہے۔ صلحائے عرب اور ابدال شام بھی اب اس پر درود بھیج رہے ہیں اور عجم کے لوگ بھی اس کے ایک اشارہ پر جانیں قربان کرنے پر تیار ہیں۔دنیا کے 213 ممالک میں اس کا پرچم لہراتا ہے اور ہر جھنڈا اس کا الہام یاد کراتا ہے۔
کہاں قادیان کی معمولی سی بستی اور قادیان کے چند لوگ اور کہاں دنیا کے دور دراز جزائر جو سمندروں سے گھرے ہوئےہیں۔ سرسبز و شاداب علاقے جو فصلوں سے اٹے ہوئے ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی جو پانیوں اور برفوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ وہ صحرا جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ پرانی دنیا ہو یا نئی دنیا ہو۔ گنجان آبادیاں ہوں یا آسٹریلیا اور کینیڈا کی طرح ساحلی اور ریتلےعلاقے۔ سب جگہ قادیان اور اس کے مقدس نبی کا نام گونجتا ہے اور گونجتا رہے گا جب تک کہ انسان اس کرہ ارض پر موجود ہے۔ اور ایک وقت آئے گا کہ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا(الزمر:70) ساری زمین ا پنے رب کے نور سے منور ہو جائے گی۔جیسا کہ کہ مخالف مولوی کا کلپ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے:’’ہم ملائیشیا میں گئے وہاں قادیانی، انڈونیشیا میں گئے وہاں قادیانی اور دنیا کا آخری کوناجنوب میں وہاں کیپ ٹاؤن ساؤتھ افریقہ کا آخری شہر وہاں قادیانی ہمارے والد صاحب گئے ہیں اور یہ ہمارے بھائی جاوید گئے ہیں شمالی آخری کوناناروےوہاں پر قادیانی اور دنیا کےمشرق میں آخری کنارہ آسٹریلیا،جزائر فجی وہاں قادیانی۔دنیا کا مغربی کنارہ گھانا وہاں پر قادیانی‘‘