نجم الھدیٰ
تعارف
اس کتاب کی تاریخ اشاعت 20؍ نومبر1898ء ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کتاب صرف ایک دن میں لکھی، جمعرات کو لکھنی شروع کی اور جمعہ کی صبح مکمل کرلی۔ اصل کتاب بڑی تقطیع پر شائع ہوئی اور چار زبانوں عربی، اردو، فارسی اور انگریزی کے لیے چار کالم رکھے گئے۔ اصل کتاب عربی میں تحریر فرمائی اور اردو ترجمہ بھی خود ہی فرمایا، فارسی ترجمہ دوسرے دوستوں نے کیا۔ انگریزی ترجمہ ابھی نہ ہو سکا تھا کہ آپ نے یہ کتاب شائع فرما دی۔ بعد ازاں خلافت ثانیہ میں اس کا ترجمہ چودھری ابو الہاشم خان صاحب نے کیا جوThe Lead Starکے نام سے شائع ہوا۔
اس کتاب میں آپ نے منکرین پر اتمام حجت اور امّت کے غافل اور لاپرواہ لوگوں سے اظہار ہمدردی فرمائی ہے کیونکہ آپ کی دعوت کو قبول کرنے میں ان کی بھلائی ہے اور ان تحریروں کا بدل ہے جو ان دنوں میں مخالفوں کی طرف سے نکل رہی تھیں اور عمدہ عمدہ ملتِ اسلامی کے نکتے اور دقائق ہیں۔
اس رسالہ میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے مبارکہ احمد اور محمد کی حقیقت نہایت دلکش انداز میں بیان فرمائی ہے اور آپ کے ایسے کمالات اور محاسن کا ذکر فرمایا ہے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب انبیاء سے بالا وبرتر ہونا ظاہر ہوتا ہے۔نیز دجالی فتن اور ان فتن کے ازالہ کے لیے اپنا خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور و مبعوث ہونا بدلائل قاطعہ ثابت فرمایا ہے۔اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر آیت کریمہ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ درج فرمائی ہے۔
مضامین کا خلاصہ
حمد باری تعالیٰ میں خالق کائنات و جمادات کے ذکر کے بعد فرمایا کہ اس کے رسول امی پر درود اور سلام ہو جس کا نام محمد اور احمد ہے۔ حضرت آدم ؑکے سامنے تمام چیزوں کے نام پیش ہوئے تو سب سے اول یہی دو نام پیش ہوئے تھے کیونکہ اس دنیا کی پیدائش میں وہی نام علت غائی ہیں اور خدا تعالیٰ کے علم میں وہی اشرف اور اقدم ہیں۔ بوجہ انہی دو نام کے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام انبیاء سے اول درجہ پر ہیں اور آپ پر تمام نبوت کے علم ختم ہو گئے اور آپ پر کامل اور جامع طور پر وحی نازل کی گئی اور آخری معارف اور وہ سب کچھ جو پہلوں اور پچھلوں کو دیا گیا تھا آپ کو عطا ہوا۔ ان تمام وجوہ سے آپ خاتم الانبیاء ٹھہرے۔ ہر ایک سفید اور سیاہ کی طرف آپ کو بھیجا گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے عطر سے آنجناب کو معطر کیا۔ پس (ان نعماء کے سبب سے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس خدا کی تعریف کرنا واجب ہوگیا۔جو اس کے ہر ایک کام کا آپ متکفل ہوا۔پس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح نے خدائے تعالیٰ کی وہ تعریف کی جو کوئی فکر اس کے بھیدوں تک نہیں پہنچ سکتی اور کوئی آنکھ اس کے نوروں کی حدود کو نہیں پا سکتی۔
اس نے خدا تعالیٰ کی تعریف کو کمال تک پہنچایا۔ یہاں تک کہ اس کے ذکروں میں گم اور فنا ہو گیا۔ اس قدر تعریف کرنے اور خدا تعالیٰ کو صاحب تعریف ٹھہرانے کا سِر یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے متواتر اور پیا پے اس پر اپنے فضل نازل کیے۔ یہاں تک کہ وجہ اللہ نے اس کے دل کو چیر کر اپنا دخل اس میں کیا اور اپنی محبت میں اس کو یگانہ بنا دیا۔ یہ وہ مرتبہ ہے جو بجز اس کے کسی کو رسولوں، نبیوں، ابدالوں اور ولیوں میں سے عطا نہیں ہوا۔ انہوں نے بعض معارف اور علوم اپنے باپوں اور احسان کرنے والوں کی پائی تھیں مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ پایا جنابِ الٰہی سے پایا۔پس دوسروں کے دل حمدِ الہٰی کے لیے ایسے جوش میں نہ آ سکے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل جوش میں آیا کیونکہ ان کے ہر کام کا خدا ہی متولی تھا۔
پس اسی وجہ سے کوئی نبی یا رسول پہلے نبیوں اور رسولوں میں سے احمد کے نام سے موسوم نہیں ہوا۔ پس کامل طور پر بجز آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کوئی مہدی نہیں اور نہ کامل طور پر بجز آنجناب کے کوئی احمد ہے۔ پس ہمارا نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوجہ اپنے اخلاص اور صدق اور توحید کے زمین و آسمان میں تعریف کیا گیا۔ یہی عادت اللہ ہے کہ وہ حامد کو محمود بنا دیتا ہے۔
پس اس نبی پر سلام اور برکتیں اور درود اور تحیت ہوںاور ان کو خوشخبری ہو اور ان کے ہم صحبتوں کو کیونکہ وہ شفاعت کرنے والے اور شفاعت قبول کیے گئے ہیں اور یہ وہ مرتبہ ہے جو بجز درگاہ کے پیاروں کے اور کسی کو نہیں ملتا۔
حمد کی تعریف
تجھے کیا خبر ہے کہ حمد کہتے کس کو ہیں اور کیوں اس کا بلند پایہ ہے۔ اور اس کی عظمت سمجھنے کے لیے تجھے یہ کافی ہےکہ خدا نے قرآن شریف کی تعلیم کو حمد ہی سے شروع کیا تا لوگوں کو حمد کے مقام کی بلندی سمجھاوےجو کسی دل میں سے بجز گدازش اور محویت کے جوش نہیں مار سکتی جب تک نفس امارہ کچلا نہ جائے اور یہ حمد کسی زبان پر جاری نہیں ہو سکتی بجز اس کے کہ پہلے دل میں محبت کی آگ بھڑکے اور پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کہ ایک شخص آتشِ محبت حقیقی میں جل نہ جائے اور جو شخص اس آگ میں اپنے تئیں ڈال دے پس وہی اپنے درد مند دل اور اس سِر سے جو خدا میں محوہے خدا کی تعریف کرے گااور وہی شخص ہے جس کو آسمان میں احمد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہےاور قریب کیا جاتا ہے اور عزت کے گھر اور قصارۃ الدار میں داخل کیا جاتا ہے۔ اور وہ عظمت اور جلال کا گھر ہے جو بطور استعارہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے اس کو اپنی ذات کے لیے بنایا پھر اس گھر کو بطور استعارہ اس کو دے دیتا ہے جو اس کی ذات کا ثنا خوان ہو۔پس یہ شخص زمین و آسمان میں خدا تعالیٰ کے حکم کے ساتھ تعریف کیا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں محمد کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ بہت تعریف کیا گیا اور یہ دونوں اسم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ابتداء دنیا سے وضع کیے گئے ہیں۔
پھر بعد اس کے اس شخص کو بطور مستعار دئے جاتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بطور اظلال وآثار ہو اور رسول مختار کے لب مبارک پر جاری ہوا تھا کہ خدا تعالیٰ آخری زمانہ میں ایک بندے میں یہ دونوں صفتیں جمع کر دے گا جیسا کہ حدیثوں میں وارد ہے۔ پس اے دانشمندو! ان حدیثوں کو پڑھو اور سوچو۔
اب غرض یہ ہے کہ احمدیت اور محمدیت ایک ایسا جامع امر ہے کہ تمام مؤحد اس کی طرف بلائے گئے ہیں۔ پس ہم جو اسلام کا گروہ ہیں ہمیں خوشخبری ہو کہ ہمیں احمدیت اور محمدیت کی صفت والا نبی ملا اور اس کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے احمد اور محمد ہوا تاکہ اس کے دونوں نام امت کے لیے ایک تبلیغ ہوں۔ اور اس مقام کے لیے یہ ایک یاد دہانی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان دونوں ناموں کی پیروی کرے جس کی طرف قرآن شریف میں بلایا گیا ہے جبکہ رسول کی زبان سے کہا گیا کہ آؤ میری پیروی کروتا خدا تم سے پیار کرے۔
پس یہ سن کر کہ یہ انعام ملے گا ہماری روحیں جنبش میں آئیں اور ہمارے دل شوق سے بھر گئے اور ان کی شکلیں یوں ہو گئیں جیسا کہ شراب سے بھرے ہوئے کوزے اور اس رسول کی کیا ہی بلند شان ہے جس کا نام بھی وصیت سے خالی نہیں بلکہ خدا جوئی کے طریقوں کی اس سے تعلیم ملتی ہے اور معرفت کی راہوں کی طرف وہ ہدایت کرتا ہے۔
اس کے بعد واضح ہو کہ یہ ایک رسالہ ہے جس میں بیان اس متاع کا ہے جو بطور تجارتی مال کے میرے رب سے مجھ کو ملی ہے اور بیان اس چشمہ کا ہے جو سراب کی چمک کے زمانہ میں میرے پروردگار کے اذن سے میرے دل میں سے پھوٹا اور میں نے اس کو جمعرات کے دن شروع کر کے جمعہ کی صبح پورا کر دیا۔ میں نے اس رسالہ کو حجت پوری کرنے کے لیے تالیف کیا ہے کیونکہ میری دعوت کے قبول کرنے میں ان کے زن و مرد کی بھلائی ہے اور یہ ان تحریروں کا بدل ہے جو مخالفوں کی طرف سے نکلیں اور میں نے عمدہ عمدہ ملتِ اسلامیہ کے نکتے اور باریک باتیں درج کی ہیں اور یہ رسالہ مخالفوں کے لیے ایک فریاد رس ہے جس کو میں نے جوش محبت سے دو زبانوں میں لکھا ہے اور میرے بعض دوستوں نے فارسی ،انگریزی زبان کو ان پر زیادہ کیا۔ اور یہ سب کچھ میرے خدا کے فضل سے ہے اور اگر وہ اس امت کا صدی کے سر پر تدارک نہ کرتا اور قحط کے دنوں میں اپنی رحمت اور مہربانی سے تلافی نہ فرماتا تو اسلام کے تمام نور ڈوب چکے تھے۔سو اگر تم مومن ہو تو اس محسن آقا کا شکر کرو۔
میرا یہ رسالہ میری قوم سے خاص ہے جنہوں نےمیری دعوت کا انکار کیا اور کہا کہ ایک کذاب کا جھوٹ ہے اور میری ہتک عزت کی مگر میرے غم نے جو کمال تک پہنچا ہوا ہے مجھے اس رسالہ کی تحریک کی۔میں اس رسالہ میں اس بات کی طرف کچھ حاجت نہیں پاتا کہ مذہب اسلام کی حقیقت کے دلائل لکھوں یا کچھ فضائل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کروں۔ کیونکہ اسلام وہ دین بزرگ اور سیدھا ہے جو عجائب نشانوں سے بھرا ہوا ہے۔ اور ہمارا نبی وہ نبی کریم ہے جو ایسی خوشبو سے معطر کیا گیا ہے جو تمام مستعد طبیعتوں تک پہنچنے والی ہے۔ وہ نبی خدا کے نور سے بنایا گیا ہے۔اس نے اس قوم کو ہدایت فرمائی جو خدا کے وصال کی امید نہیں رکھتے تھے اور ان کو ہدایت کی اور مہذب بنایا اور معرفت کے اعلیٰ درجوں تک پہنچایا۔ اور اس سے پہلے وہ شرک کرتے اور ہر ایک ان میں سے اعتقاد رکھتا تھا کہ اس کا ایک بڑا بھارا مددگار بت ہی ہے جس کی وہ پوجا کرتا اور وہی بہت مصیبتوں کے وقت اس کی مدد کرتا ہےاور باوجود ان عقیدوں کے پھر بدکاریاں کرتے تھے اور ان کے ساتھ فخر کرتے تھے اور زنا کرتے اور چوری کرتے اور یتیموں کا مال ناحق کھاتے اور ظلم کرتے اور خون کرتے اور بچوں کو قتل کرتے اور ذرا نہ ڈرتے تھے اور کوئی گناہ نہ تھا جو انہوں نےنہ کیا۔
سو حکمِ الٰہی سے زمین بدلائی گئی اور آواز دینے والے بابرکت کی طرف دل کھینچے گئے اور ہر ایک رشید اپنے قتل گاہ کی طرف صدق اور وفا سے نکل آیا اور انہوں نے مالوں اور جانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کوششیں کیں۔ اور اس کے لیے یوں ذبح کیے گئے جیسا کہ قربانی کا بکرا ذبح کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے خونوں سے گواہی دے دی کہ وہ ایک سچی قوم ہے اور اپنے اعمال سے ثابت کر دیا کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں مخلص ہیں۔ سو اسلام کے قبول کرنے نے ان کو منور کر دیا اور ان کی بدیوں کو نیکی کے ساتھ اور ان کی شرارتوں کو بھلائی کے ساتھ بدل دیااور ان کی شراب شب انگاہی کو رات کی نماز اور رات کے تضرعات کے ساتھ بدل ڈالا۔ اور انہوں نے یقین کامل کے بعد اپنے مالوں اور جانوں کو خداتعالیٰ کی راہوں میں بخوشی خاطر خرچ کیا اور اپنی جانوں کو اس لیے کہ تا یقین کی تلوار کے جوہر کو خوب غور کے ساتھ دیکھیں آزمائش میں ڈالا۔ پس یہی وہ امر ہے جس نے انہیں بہادر کر دیااور پھر ان کے ذکر کو بلند کیا اور ان کا انجام بخیر کیا۔
اور جو شخص اس بات کو غور کی نظر سے دیکھے کہ انہوں نے اپنی چراگاہوں کو کیونکر چھوڑ دیا اور کیونکر وہ ہوا و ہوس کے جنگل کو کاٹ کر اپنے مولیٰ کو جا ملے تو ایسا شخص یقین سے جان لے گا کہ وہ تمام قوت قدسیہ محمدیہ کا اثر تھا۔وہ رسول جس کو خدا نے برگزیدہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ کو سوچ کہ صحابہ زمین کے نیچے سے لئے گئے اور آسمان کی بلندی تک پہنچائے گئے اور درجہ بدرجہ برگزیدگی کے مقام تک منتقل کئے گئے۔
نشانات کا ذکر
خدائے رحیم نے مجھے ان دنوں میں بھیجا، متواتر وحی و الہام سے میری معرفت زیادہ کی،خوارق اور کشف سے مجھے قوی کیا، دقائق قرآن شریف کا علم عطا فرمایا، احادیث کا علم عطا فرمایا،پھر اس قدر تواتر سے خدا کے نشان ظاہر ہوئے کہ میری جان مطمئن ہو گئی۔ علامات صادقہ اور روشن نشانوں اور کتاب اللہ اور احادیث سے میرے پر کھل گیا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اپنے اس رسالہ میں بعض وہ نشان لکھوں جو خدا تعالیٰ نے شبہات دور کرنے کے لیے ظاہر فرمائے ہیں۔
اپنے تئیں مامور اور نبی قرار دینا
فرمایا: اور مامورین کے پہچاننے کا یہ اصول ہے کہ ان کو اس طریق سے پہچانا جائے جس طریق سے انبیاء کی نبوت پہچانی جاتی ہے اور میری تکذیب کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ ہر نبی سے ٹھٹھا اور استہزاء کیا گیا۔
فرمایا: اے لوگو! کیوں خدا تعالیٰ کے نشانوں سے انکار کرتے ہو اور تم نے ان کو بچشم خود دیکھا۔ کیا تم میں کوئی بھی رشید نہیں۔ اور تم نے خدا کے بندہ مامورسے ٹھٹھا کیا اور قریب تھا کہ تم اس کو تلوار سے قتل کر دیتے مگرخدا نے تم پر سلطنت کا رعب ڈالا اور اگر یہ سلطنت نہ ہوتی تو تم خدا کے مرسلوں پر حملہ کرتے۔سو ہم خدا تعالیٰ کی طرف اپنے کام کو سپرد کرتے ہیں اور وہ احکم الحاکمین ہے۔( ۲۰؍نومبر 1898ء)