دنیا کے پہلے نبی
احمد اور گڑىا روزانہ اپنی دادى جان سے کہانى سنتے تھے۔ دادى جان سبق آموز اور حقىقى کہانىاں سناتى تھىں۔ رات کو کھانے کے بعد وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے دودھ پی رہے تھےاور دادی جان ساتھ صوفہ پر بیٹھی سویٹر بُن رہی تھیں۔
دادی جان آج ہمارا اطفال الاحمدیہ کا بیت بازی کا مقابلہ تھا آخر میں مجھے میم سے شعر نہیں آیا۔ احمدنے کہا۔
گڑیا:احمد بھائی اگلی بار خوب محنت کرنا پوزیشن آ جائے گی۔میں بتاتی ہوں میم سے ایک شعر
میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
دادی جان سویٹر بنتے ہوئے ان کی باتیں غور سے سن رہی تھیں۔ انہوں نے گڑیا کو شاباش دی اور کہا کہ چلو آج حضرت آدمؑ کی باتیں کرتے ہیں جن کا ذکر اس شعر میں آیا ہے۔ سب سے پہلے گڑیا ہمیں بتائے کہ اُسے حضرت آدم ؑ کے بارے میں کیا معلوم ہے۔
گڑیا: حضرت آدمؑ دنیا کے پہلے انسان تھے۔ قرآن کریم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلا نبی بنا کر بھیجا اور انہیں اپنا خلیفہ ٹھہرایا۔
دادی جان : احمد بتاؤ خلیفہ کسے کہتے ہیں۔
احمد: دادی جان خلیفہ جانشین یا نمائندہ کو کہتے ہیں۔
دادی جان: شاباش! تو حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے پہلا نبی بنا کر بھیجا اور نبی کا کام لوگوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں سیدھے راستے کی طرف بلانا ہوتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت آدمؑ دنیا کے پہلے انسان تھے۔ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہ انسانوں میں اللہ تعالیٰ کے پہلے نبی تھے۔ اگر ان سے پہلے لوگ نہیں تھے تو وہ کس کی ہدایت کے لیے آئے تھے۔ پھر حضرت آدمؑ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چھ ہزار سال پہلے دنیا میں بھیجے گئے لیکن تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ زمین پر انسان کا وجود اس سے کئی ہزار سال قبل بھی موجود تھا۔ خبروں میں بھی بتاتے ہیں کہ قدیم انسانوں کی باقیات دریافت ہوئی ہیں۔
دادی جان سانس لینے کے لیے رکیں اور پھر کہا کہ حضرت آدمؑ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی تھے، آپ کی زوجہ کا نام حضرت حوّا تھا۔ آپ کے تین بیٹوں کے نام ہمیں ملتے ہیں۔ بھلا کوئی بتا سکتا ہے؟
احمد نے کہا: مجھے ہابیل اور قابیل کے نام معلوم ہیں۔
دادی جان: شاباش اور تیسرے بیٹے کا نام تھا شیث۔ حضرت آدمؑ اور حضرت حوّا پہلے ایک خوبصورت باغ میں رہا کرتے تھے۔ باغ کو عربی میں جنّت بھی کہتے ہیں۔ پھر ایک وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہجرت کر جانے کا حکم دیا۔ اور وہ ایسی جگہ چلے گئے جہاں وہ کھیتی باڑی کیا کرتے اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا کرتے تھے۔اس دور میں انسان بڑی بڑی کالونیز کی صورت میں مِل جُل کر نہیں رہتے تھے بلکہ جنگلوں، غاروں اور ایک دوسرے سے دُور دُور رہتے تھے۔ حضرت آدمؑ نے انہیں منظم اور متمدّن کیا۔ یعنی انہیں اکھٹے اور مل جل کررہنا، ایک دوسرے کےکام آنا،آبادی قائم کرنا سکھایا، تہذیب اور اخلاق سے رہنا سکھایا۔ یہی بات قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے کہ حضرت آدم ؑکو اللہ تعالیٰ نے چار احکام دیے تھے۔ کہ بھوکے نہ رہو، اور جسم کو ڈھانکو، پانی کا انتظام کرو اور گھر بنا کر دھوپ سے بچو۔ تو حضرت آدمؑ نے یہ باتیں لوگوں کو بتا کر انہیں اکٹھا کیا اور تمام لوگوں کو اللہ کے احکامات کی اطاعت کی تلقین کی۔ نیک سیرت لوگ تو ان پر ایمان لےآئے اور شیطان صفت لوگوں نے انکار کر دیا۔
گڑیا : جی دادی جان جیسے بعض اوقات ضدی بچے اپنے امّاں ابّا اور بڑوں کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔
دادی جان: بالکل درست بیٹا۔ ماشاء اللہ آپ دونوں نے دودھ بھی پی لیا ہے اور صبح سکول بھی جانا ہے۔ اگلی بار آپ کو ہابیل اور قابیل کے بارہ میں بتاؤں گی۔ ان شاء اللہ
شب بخیر دادی جان! یہ کہہ کر دونوں اپنے کمرے کی جانب چل دیے۔