اگر تم پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہوجائے گی (قسط سوم۔ آخری)
خطاب حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ جلسہ سالانہ۱۹۴۴ء
نماز کی پابندی
(ب) دینی واقفیت کے بعد جو گویا بطور بنیاد کے ہیں۔ عملی اصلاح کے میدان میں سب سے ضروری چیز نماز کی پابندی ہے۔ مگر نماز رسمی انداز میں نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ دلی شوق اور دلی توجہ کے ساتھ ایسے رنگ میں ہونی چاہیے۔ کہ گویا انسان خدا کو دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی نیکی یہ ہے کہ انسان ایسے رنگ میں عبادت بجا لائے کہ گویا صرف خدا ہی اسے نہیں دیکھ رہا بلکہ وہ خود بھی خدا کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن اگر یہ مقام کسی کو حاصل نہ ہو۔ تو کم از کم اتنا تو ہوکہ انسان یہ یقین رکھے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ اس احساس کے بغیر کوئی عبادت حقیقی عبادت نہیں کہلا سکتی ہے۔ بلکہ محض ایک بے جان جسم ہے۔ جس کے اندر کوئی روح نہیں۔
زکوٰۃ کی ادائیگی
(ج)عورتوں کے واسطے زکوٰۃ کا معاملہ بھی بہت توجہ چاہتا ہے۔ کئی عورتوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ مگر وہ اس کی طرف سے غفلت برتتی ہیں حالانکہ زکوٰۃ انسان کے مال کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ بلکہ زکوٰۃ کے معنی ہی بڑھانے اور پاک کرنے کے ہیں عورتوں کے پاس نقد مال تو کم ہی ہوتا ہے۔ مگر زیور اکثر ہوتا ہے۔ اور ایسے زیور پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ جو کثرت کے ساتھ استعمال میں نہ آتا ہو۔ یا کبھی کبھی غربا ءکو استعمال کرنے کے لئے نہ دیا جاتا ہو۔ بشرطیکہ وہ نصاب کی حد کو پہنچا ہوا ہو۔
دینی اور قومی تنظیم
عورتوں کے واسطے دینی اور قومی تنظیم کا معاملہ بھی نہایت اہم ہے۔ کوئی جماعت تنظیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔بلکہ افسوس ہے کہ مردوں کی تنظیم کے مقابل پر ابھی تک ہماری تنظیم میں کئی خامیاں ہیں۔ احمدی عورتوں کی تنظیم کا بہت عمدہ اور پختہ ذریعہ لجنہ اماء اللہ کا قیام ہے۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک اس معاملہ میں بہت سستی برتی جاتی ہے۔ بہت سی جگہوں پر ابھی تک مقامی لجنہ قائم نہیں ہوئی اور کئی جگہیں ایسی ہیں جہاں لجنہ تو قائم ہے مگر مرکزی لجنہ کے ساتھ ابھی تک ان کا تعلق مضبوط نہیں ہوا۔میں امید کرتی ہوں کہ بہنیں آئندہ ہر جگہ لجنہ قائم کر کے مرکز کے ساتھ اس کے تعلق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں گی۔ تا وہ عملی اصلاحیں جو تنظیم کے ذریعے کی جا سکتی ہیں جلد سے جلد کی جا سکیں۔ یہ ایک خوشی کا مقام ہے کہ بعض لجنات بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ دوسروں کو بھی ان سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
ناشکری اور کفران نعمت سے بچیں
(ھ) عورتوں میں ایک خاص عملی اصلاح جس کا ان کی عام اخلاقی حالت پر بھاری اثر پڑتا ہے۔نا شکری کی عادت سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ بات افسوس کے ساتھ تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ عموماً مردوں کی نسبت عورتوں میں ناشکری کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جنت و دوزخ کا نظارہ دکھایا گیا اس میں مَیں نے دیکھا کہ دوزخ میں عورتیں زیادہ تھیں صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وجہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں ناشکری کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان کا خاوند یا کوئی عزیز ان کے ساتھ ہزار احسان کا سلوک کرے مگر کبھی کسی وقت ذرا سی بات خلاف منشاء ہو جائے۔تو وہ سارے احسانوں کو بھلا کر فورا ًہی نظر بدل لیتی ہیں اور یہاں تک کہہ دیتی ہیں کہ میرے ساتھ تو آپ نے کبھی کوئی نیکی کی ہی نہیں ہے۔یہ وہ کفر ہے جو اُن کے دوزخ میں زیادہ جانے کا موجب ہے۔
بخاری کتاب ایمان
پس میں اپنی بہنوں سے عرض کرتی ہوں کہ وہ ناشکری اور کفران نعمت کی عادت کو چھوڑ کر شکر گزاری اور قدرشناسی کی عادت پیدا کریں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس احسان کی قدر کریں جو آپ ؐنے یہ بات قبل از وقت بتا کر ہم پر فرمایا۔ جس ہاتھ سے انسان سو میٹھی قاشیں کھاتا ہے۔ اس کے ہاتھ سے اگر کبھی اتفاق سے کوئی ایک تلخ قاش بھی کھانی پڑے تو ایک وفادار انسان منہ بناتا ہوا اچھا نہیں لگتا۔ شکرگزاری اور قدردانی بہت اعلیٰ صفات ہیں۔
غیبت مت کرو
(ر) ایک اور قابل اصلاح بات غیبت کی عادت ہے اوریہ عادت بھی ایسی ہے جس میں بدقسمتی سے عورتیں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔ قرآن مجید نے غیبت کی عادت کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔گویا اس کے اندر دو گند جمع ہو جاتے ہیں۔ ایک اپنے بھائی کا گوشت کھانا اور دوسرے مردہ جسم کا گوشت کھانا۔ مردہ اس لئے کہا گیا ہے کہ جو بھائی یا بہن غیر حاضر ہو اور مجلس میں موجود نہ ہو وہ گویا مردہ کے حکم میں ہوتا ہے۔ پس کسی کےپیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنا گویا ایک مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے۔ جو ایک نہایت مکروہ فعل ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم تو سچی بات کہتے ہیں اس لیے یہ غیبت نہیں۔ مگر یہ ایک سخت غلطی ہے۔ غیبت تو ہوتی ہی سچی بات کے متعلق ہے۔ اگر وہ سچی نہ ہو تو پھر تو وہ غیبت نہیں رہتی بلکہ جھوٹ اور بہتان ہو جاتا ہے۔ دراصل پیٹھ پیچھے لوگوں کی عیب جوئی کی عادت ایک نہایت ہی گری ہوئی عادت ہے جس میں کچھ بھی فائدہ نہیں بلکہ سراسر ایک نقصان ہی ہے اور بے شمار فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ جس سے ہر سچے مومن کو بچنا چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زریں نصیحت
عملی زندگی میں اصلاح سے تعلق رکھنے والی باتیں تو بےشمار ہیں مگر مضمون لمبا ہونے کی وجہ سے اس وقت انہی چند باتوں پہ اکتفاء کرتی ہوں اوراپنے اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس زریں نصیحت پر جو آپ نے طبقۂ نسواں کو کشتی نوح کے آخرمیں فرمائی ہے ختم کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور سب بہنوں کو اس نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللھم آمین
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہمارے اس زمانہ میں بعض خاص بدعات میں عورتیں بھی مبتلا ہیں مثلاً تعدّد نکاح کے مسئلہ کو نہایت بری نظر سے دیکھتی ہیں۔گویا اس پر ایمان ہی نہیں رکھتیں ان کو معلوم نہیں کہ خدا کی شریعت ہرایک قسم کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے۔ پس اگر اسلام میں تعدّد نکاح کا مسئلہ نہ ہوتا تو ایسی صورتیں جو مردوں کے لئے نکاح ثانی کے لئے پیش آجاتی ہیں اس شریعت میں ان کا کوئی علاج نہ ہوتا… وہ شریعت کس کام کی جس میں کل مشکلات کا علاج نہ ہو… بے شک وہ مرد سخت ظالم اور قابل مؤاخذہ ہے جو دو جو روئیں کرکے انصاف نہیں کرتا مگر تم خدا کی نافرمانی کر کے موردِ قہر الٰہی مت بنو۔ ہر ایک اپنے کام سے پوچھا جائے گا۔ اگر تم خدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک کیا جاوے گا …تقویٰ اختیار کرو دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ۔ قومی فخر مت کرو۔کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو۔ خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں۔کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔خدا کے فرائض نماز زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو۔اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ سو تم اپنی ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قانتات میں گنی جاؤ۔ اسراف نہ کرو۔ اور خاوندوں کے مالوں کو بیجا طور پر خرچ نہ کرو ۔خیانت نہ کرو۔ چوری نہ کرو۔ گلہ نہ کرو۔ ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے۔‘‘(روحانی خزائن جلد19کشتی نوح صفحہ80-81)
(خطبات مریم جلد اوّل صفحہ 180-172)