قوتِ سامعہ کی اہمیت و ضرورت
اسلام ایک مکمل مذہب ہے اور مکمل ضابطہ حیات کو پیش کرتاہے۔ قرآن مجید ایک زندہ اور کامل کتاب مبین ہے۔ اور یہ دینی، دنیاوی اور اعلیٰ روحانی علوم کا سر چشمہ ہے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کے لیے ہدایت نامہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پیارے رسول، نبیوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (زندہ رسول ) پر نازل کیا گیا ہے اور مکمل شریعت ہے۔ غور اور تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ہرقسم کے علوم کے چشمے پھوٹتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی ہر بھلائی اور خیر اس میں ہے اور ہر قسم کی برائی سے بچنے کے لیے صراط مستقیم کی راہیں استوار ہیں تو ساتھ ہی انسانوں کو شکر کرنے کے سلیقے سکھلائے گئے ہیں اور نا شکری پر اللہ تعالیٰ نے عذاب دینے کا ذکر کیا ہے ہر قسم کے معاملات کے لیے قرآنی دعائیں ہیں نیز یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر انسان دعائیں نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو پھر انسان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی ہر سورت اور آیت کی تر تیب بھی اپنے اندر ایک خاص اہمیت اور برکات کی حامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہر انسانی عضو کی ضرورت اور اہمیت ہے لیکن قوت سامعہ کی ضرورت اور اہمیت زیادہ ہے۔ یہ اس لیے کہ ہم مشاہدہ میں دیکھتے ہیں کہ گونگے اور بہرے انسان بہت دکھ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور وہ کسی بھی میدان میں زیادہ ترقی نہیں کر سکتےکیونکہ کان سے سُن کر ایک بچہ پیدا ہوتے ہی(بلکہ رحم مادر میں بھی بچہ ماں کی آواز سن سکتا ہے۔ در اصل کان کی تکمیل رحم مادہ میں آنکھ سے پہلے ہوتی ہے، جنین کی آنکھ کی پتلی کے آگے ایک پردہ ہوتا ہے جو آٹھویں مہینہ میں تحلیل ہوتا ہے مگر کان کے آگے کوئی پردہ نہیں ہوتا ہے) علم سیکھنے لگ جاتا ہے۔
قوت سامعہ کے زائل ہونے کے نقصانات
دنیا میں جب کسی کی پیدائشی یا بعد میں کسی حادثہ کی وجہ سے قوت سامعہ زائل ہو جاتی ہے تو یہ بہت بڑا نقصان نظر آنے لگتا ہے۔ انسان علم نہیں سیکھ سکتا۔ کسی بھی علم کی بات جب کان سے نہ سن سکے گا اور کوئی معلومات جو دریافت کرنا چاہے گا یا اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہے گا وہ نہیں کر سکتا۔ اس طرح علمی میدان میں ترقی نہیں کر سکے گا۔
ضعف بصارت والے انسان
بصارت کے زائل ہونے والے انسان مقابلۃً سماعت کے زائل ہونے والے انسانوں سے ایک لحاظ سے بہتر ہیں۔ جیسے ایک پیدائشی اندھا بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے کان سے ہر بات اور علم سیکھنے لگ جاتا ہے۔ ایک تندرست بچہ کو دیکھ کر، پڑھ کر اور سمجھ کر علم سیکھنے کا زمانہ چارپانچ سال کے بعد ملتا ہے۔
اسلام کی پر حکمت تعلیم
اسلام نے پیدا ہونے والے بچے کے دائیں کان میں اذان دینےاور بائیں میں اقامت کہنے کا اس لیے حکم دیا کہ بچہ جو بات سنے گا وہ اس کے دماغ میں محفوظ رہے گی۔ کیونکہ علم النفس کی حال کی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ دنیا میں کوئی حرکت ضائع نہیں جاتی اور دماغ میں سے کوئی نقش مٹ نہیں سکتا۔ 1400 سال قبل اسلام کی اس پرحکمت تعلیم کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
آنکھ روشنی کی محتاج اور کان ہوا کا محتاج
یہ چیزبھی ہم سب جانتے ہیں کہ اگر آنکھ کی روشنی بحال ہے تو ہمیں رات کے وقت روشنی کی ضرورت ہے لیکن اندھیرے میں ہمارے کان آواز کو سُن سکتے ہیں گو کان کو سننے کے لیے ہوا کی ضرورت ہے۔ یہ قدرت کا کتنا بڑا انعام ہے کہ ہوا ہر جگہ موجودہے۔
اگر ہوا نہ ہو تو زندگی ختم ہو جاتی ہے
نا بیناشخص کی قوت سامعہ اور لامسہ بڑھی ہوتی ہےاکثر یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی انسان کا کوئی عضو بیکار ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دوسرے اعضاء میں خاص قوت رکھ دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ہی خاص حکمت ہے۔ اگر کوئی شخص نا بینا ہے تو اس کی قوت سامعہ ایک عام تندرست شخص کی نسبت زیادہ ہو جاتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس کی قوتِ لامسہ بھی بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ نا بینا سکول میں مختلف چیزوں کو ٹٹول کر۔ ان کی شکل، سختی،نرمی،گرمی اور ٹھنڈک وغیرہ محسوس کروائی جاتی ہے۔
سمیع پہلے اور بصیر بعد میں رکھنے کی حکمت
قرآن مجید پر غور کریں تو سمیع کو پہلے اور بصیر کو بعد میں رکھا گیا ہے۔ یہ بھی قرآن کریم میں ایک خاص حکمت سے ہے۔یہ نکتہ محترم ڈاکٹر چودھری شاہ نواز صاحب نے اپنے مضمون میں پیش کیا ہے۔ جس کی تفصیل آگے درج کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اور نکات کی تفصیل بھی محترم ڈاکٹر صاحب موصوف کے مضمون میں شامل ہے۔
الغرض میڈیکل سائنس نے اب تک جو معلومات پیش کی ہیں اس کا کچھ ذکرمضمون میں شامل ہے۔ قرآن مجید تو سب علوم کا سرچشمہ ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات بھی درج کی گئی ہیں۔ ان شاءاللہ مزیدجو معلومات آئیں گی وہ قرآن مجید کی معرفت اور حکمت کو بیان کرنے والی ہی ہوں گی۔
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر انسانی پیدائش، کان، آنکھ اور دیگر اعضاکا جوذکر ملتا ہے وہ اس طرح ہے۔
(1)قرآن مجید میں انسانی پیدائش کے مراحل اور مسلسل ترقی پذیر ہونے کا ذکر۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ القیامۃ آیت نمبر 38، 39 اور 40 میں انسانی پیدائش کے مراحل بیان کرنے کے بعد فرمایا وہ مسلسل ترقی پذیر ہیں۔
(2)انسان کو بہترین ارتقائی حالت میں پیدا کرنے کا ذکر
اللہ تعالیٰ سورۃ التین میں فرماتا ہے : لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ۔(سورۃ التین آیت نمبر 5)یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ارتقائی حالت میں پیدا کیا۔
(3) اللہ تعالیٰ سورہ رحمٰن میں فرماتا ہے :خَلَقَ الْاِنْسَانَاس نے انسان کو بنایا پھر فرمایا:عَلَّمَهُ الْبَیَانَ،اور اسے فصاحت و بیان بخشا( سورت رحمٰن آیت5،4)
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علم سیکھنے کی دعا بھی قرآن مجید سے ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی دعا سنتا ہے پھر انہیں علم و عرفان کے ساتھ فصاحت اور بیان کا ملکہ بخشتا ہے۔ (علم سیکھنے کی دعا کا ذکرسورہ طہٰ 115سے ملتا ہے)
(4)سورہ بلد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ۔وَلِسَانًا وَّشَفَتَیۡنِ (سورۃ البلد10،9) ترجمہ : کیا ہم نے اُس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں ؟ اور زبان اور دو ہونٹ ؟واقع میں یہ شکرکامقام ہے کہ آنکھیں، زبان اور ہونٹ بھی اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہیں۔
(5) سورہ مومنون میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:وَہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَالۡاَفۡـِٕدَۃَ(سورۃ المومنون۔آیت79) ترجمہ: اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل پیداکیے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒسورہ مومنون کے نوٹ میں فرماتے ہیں۔’’اس آیت 79میں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ ارتقائی منازل میں سب سے پہلے قوت شنوائی عطا ہوئی تھی اور اس کے بعد بصارت اورپھر دل انسان کو عطا کئے گئے۔جوگہری بصیرت رکھتے ہیں اور ہر قسم کے روحانی مضامین کو سمجھنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔‘‘
(6) سورۃ الدہر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍۖ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَاهُ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا (سورۃ الدہر آیت 3) ترجمہ: یقینا ًہم نے انسان کو ایک مرکب نطفہ سے پیدا کیا جسے ہم طرح طرح کی شکلوں میں ڈھالتے ہیں۔ پھرا سے ہم نے سننے (اور ) دیکھنے والا بنا دیا۔
(7)آج سائنس نے ثابت کیا ہے کہ سب سے پہلے بچہ کے کان کام کرتے ہیں پھر آنکھیں اور سب سے آخر میں دل یعنی قوت فکر یہ کام کرتی ہے یہ ترتیب قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا ایک ثبوت ہے کیونکہ اس آیت میں وہ مضمون بیان کیےگئے ہیں جو اس زمانہ میں مخفی تھے۔
سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورت نحل آیت ۷۹:وَاللّٰہُ اَخۡرَجَکُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ۙ وَّجَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَالۡاَفۡـِٕدَۃَ ۙ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اے لوگو ہم نے تم کو تمہاری ماؤں کےپیٹ سے جبکہ تم کچھ نہ جانتے تھے تم کو آنکھ کان اور دل دے کر دنیا میں بھیجا تا کہ تم علم سیکھولیکن تم نے ہماری اس بخشش سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ نہ آنکھوں سے دیکھا۔ نہ کانوں سے سنا نہ دل سے سوچا۔ اس فقرہ میں کیسارحم اور افسوس بھرا ہوا ہے۔ خدائے قادر اپنے بندوں کی اس غفلت پر جس نے انہیں عذاب کا مستحق بنادیا کیسے محبت سے بھرے ہوئے الفاظ میں افسوس کا اظہار کرتا ہے۔
اس آیت کا تعلق سورۃ کے مضمون سے یہ ہے کہ اس میں الہام الٰہی کی ضرورت کی ایک اور دلیل دی گئی ہے اور وہ اس طرح کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو ہر ایک علم سے خالی ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اسے آنکھ کان اور دل دے کر پیدا کرتا ہے تا وہ علم حاصل کرے اور ان کی مددسے وہ علم سیکھتا ہے۔ پس جو دنیوی علوم انسان سیکھتاہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے مہیا کئے ہوئے ذرائع سے سیکھتا ہے۔ کوئی انسان ایسا نہیں جو کہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کےدئیے ہوئے ان ذرائع کی ضرورت نہیں میں خود ہی اپنے لیےحصول علم کے سامان پیدا کروں گا۔پھر روحانی علم کے سیکھنے کے لیے جو ذرائع اللہ تعالیٰ پیدا کرتاہے ان کے استعمال سے اسے کیوں انکار ہوتاہے۔
تعجب ہے کہ انسان کی سب عظمت ان ذرائع کےاستعمال سے ہوتی ہے جو اسے قدرت عطا فرماتی ہے۔انسان کے جس قدر کمالات ہیںوہ انہیںطاقتوںکی مددسے حاصل کئے جاتےہیں اور ان طاقتوں کے استعمال میںوہ کوئی سبکی محسوس نہیں کرتا۔مگر جب روحانی ذرائع کا سوال پیداہو تو وہ کہتاہے مجھے ان کی کیا ضرورت ہے میں خود اپناکام کرسکتاہوںحالانکہ جس طرح اسے مادی ترقی کے لیے عطاکردہ جوارح کی ضرورت ہے اسی طرح روحانی کمالات کے حصول کے لیے اسے ان سامانوںکی ضروررت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ سے اس کے لیے پیداکرتاہے۔ آیت کے اخیر میں فرماتا ہے کہ ان چیزوں کے دینے کی غرض تو یہ تھی کہ تمہارے اندراللہ تعالیٰ کے فضلوں کی قدر پیدا ہو۔ تم الٹا ان طاقتوں سے مغرور ہو جاتے ہو اور کہتے ہو کہ ہمیں کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔
اس آیت میں کانوں کے بعد آنکھوں اور آنکھوں کے بعد دلوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی ترتیب سے یہ اعضاء انسان کے علم کے بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں۔سب سے پہلے بچہ کے کان کام کرتے ہیں۔ان کے بعد آنکھیں اور سب کے بعد دل یعنی قوت فکر یہ کام کرتی ہے۔ آج سائنس نے ثابت کیا ہے کہ سب سے پہلے بچہ کے کان کام کرنے لگتے ہیں اور اس کے بعد آنکھیں کام شروع کرتی ہیں۔ اور سب سے آخر میں قوت فکر یہ کام کرنا شروع کرتی ہے۔ چنانچہ جانوروں میں بچوں کی آنکھیں بعض دفعہ کئی کئی دن کے بعد کھلتی ہیں۔اس عرصہ میں صرف کان کام کرر ہے ہوتے ہیں۔انسانوں کے بچوں کی آنکھیں بظاہر کھلی ہوتی ہیں لیکن ان کا فعل کانوں کے فعل کے بعد شروع ہوتا ہے اور قوت فکر یہ تو ایک عرصہ کے بعد کام شروع کرتی ہے۔ یہ ترتیب بھی قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا ایک ثبوت ہے کیونکہ اس میں وہ مضمون بیان کئے گئے ہیں جو اس زمانہ میں مخفی تھے۔‘‘( تفسیر کبیر،جلد چہارم،صفحہ209،208،مطبوعہ 2010ء قادیان)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سورہ دہر کے اپنے نوٹ میں فرماتے ہیں: ’’… اس سورت میں انسان کو اس کے آغاز کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک ایسا بھی دور اس پر گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیزنہیں تھا۔ حالانکہ انسان جب سے وجود میں آیا ہے تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ قابل ذکر و ہی تھا۔ پس یہاں انسان کی ابتدائی حالتوں کا ذکر ہے کہ انسان ایسے ابتدائی، ارتقائی دور میں سے بھی گزرا ہے کہ جب وہ ہرگز کسی ذکر کے لائق نہیں تھا۔ یہ وہ دور معلوم ہوتا ہے جب ابھی پرندوں کو بھی قوت ِگویائی عطا نہیں ہوئی تھی اور ایک کامل خاموشی نےزمین کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس سے انسان کو پیدا کیا گیا اور پھر وہ سمیعاًبصیراًبنا دیا گیا۔ سننے والا بھی اور دیکھنے والا بھی۔ پس جس اللہ نےمٹی کو سننے اور دیکھنے کی توفیق بخشی وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اسے دوبارہ پیدا فرمائے اور اس کی سمع اور بصر کا حساب لیا جائے۔ ‘‘( ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ 1106)
انسانی کان کی ایک اہم فضیلت
دینی ہو یا دنیاوی یا خطرات سے محفوظ رہنے کا اعلان ہو۔جب کانوں میں کسی منادی کرنے والے کی آواز پہنچتی ہے تو انسان کا دل و دماغ محرک ہو جاتا ہے۔ اس کا نفع نقصان،اچھا اور برا انسان کا کا نشس مائنڈ بخوبی سمجھ جاتا ہے۔ ایک مسلمان مومن بندے کے لیے قرآن کریم کی خوبصورت دلکش آواز میں تلاوت سُن کر دل اطمینان پاتا ہے۔ خدا کے نیک بندوں کو وحی اور الہام کی آواز بھی کان سے جو الفاظ میں نازل ہوتی ہے سننے کو ملتی ہے۔ اس طرح کان کو یہ بھی فضیلت حاصل ہے۔
غزوہ حنین میں سمعنا و اطعناکا نظاره
غزوہ حنین میں جب گھمسان کی جنگ لڑی جارہی تھی اور سواریوں کے بدک جانےکی وجہ سے صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فاصلہ پر جا پہنچے تھے چند صحابہ آپ کے پاس تھے اور آپ کو شدید خطرہ تھا۔اس وقت ایک صحابی نے اپنی سواری سے اترکر رسول اللہﷺ کی خچر کی باگ پکڑ لی اور عرض کی یارسول اللہ !تھوڑی دیر کے لیے پیچھےہٹ آئیں یہاں تک کہ اسلامی لشکر جمع ہوجائے۔آپؐ نے فرمایا:میری خچرکی باگ چھوڑدواورپھرخچرکو ایڑی لگاتےہوئےآپ نےاس تنگ راستہ پر آگےبڑھناشروع کیاجس کے دائیں بائیں کمین گاہوں میں بیٹھے ہوئے سپاہی تیرانداز ی کررہے تھے اور فرمایا:اناالنبی لاکذب أنا ابن عبد المطلب میں خدا کا نبی ہوں میں جھوٹا نہیں ہوں۔ مگر یہ بھی یادرکھو کہ اس وقت خطرہ کے مقام پر کھڑے ہوئے بھی جو میں دشمن کے حملہ سےمحفوظ ہوںتو اس کے یہ معنی نہیں کہ میرے اندر خدائی کا کوئی مادہ پایا جاتا ہے بلکہ میں انسان ہی ہوں اور عبد المطلب کا پوتا ہوں۔ پھر آپ نے حضرت عباسؓ کو جن کی آواز بہت بلند تھی آگے بلایا اور فرمایا۔ عباسؓ !ابلند آواز سے پکار کر کہو کہ اے وہ صحابہ! جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے و ہ لو گو جو سورہ بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو!خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ حضرت عباسؓ نے نہایت ہی بلند آواز سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام سنایا، تو اس وقت صحابہؓ کی جو حالت ہوئی اس کا انداز ہ صرف انہی کی زبان سے حالات سن کر لگایا جاسکتا ہے۔ صحابہ کہتے ہیں کہ جب عباس کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی۔ اس وقت ہمیں یوں معلوم ہوا کہ ہم اس دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہیں اور اس کے فرشتے ہم کو حساب دینے کے لیے بلا ر ہے ہیں۔
وہ صحابی کہتے ہیں اس دن انصار اس طرح دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جارہے تھے کہ جس طرح اونٹنیاں اور گا ئیں اپنے بچے کے چیخنے کی آواز کوسن کر اس کی طرف دوڑ پڑتی ہیں اور تھوڑی دیر میں صحابہ اور خصوصاً انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور دشمن کو شکست ہوگئی۔ (ماخوذ از کتاب نبیوں کا سر دار۔صفحہ 228-229)یہ کان کی ہی فضیلت تھی کہ خدا کے رسول کی آواز پر لبیک لبیک کہنے کی توفیق ملی۔ اور سمعنا واطعناکا دلکش نظار ہ تاریخ اسلام کی زینت بنا۔ اور آنحضرتﷺ کے بلند حوصلہ اور تو کل علی اللہ کا نمونہ بھی قائم ہوا۔ سبحان الله۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عین پیشگوئیوں کے مطابق امام اور مسیح و مہدی بن کر آئے۔ آپ نے امت مسلمہ اور ساری دنیا کو وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ( الجمعۃ:4) کی خبر دے کر یہ تسلی کروائی۔ آنحضرت ؐاور قرآن کریم کا فیضان جو فیضان نور ہے، یہ جاری ہے بتلایا۔ اس طرح ساری دنیا کو اندھیروں سے اس نورِ محمدی کی طرف اہنمائی فرمائی۔آپؑ نے مختلف مواقع پر اپنی مختلف کتب میں بہت سے پیغام پہنچائے اور خاص کر یہ بات باور کروائی کہ جس کے کان سننے کے ہوں وہ اس اہم بات کو سنے۔ اس کی چند ایک مثالیں پیش ہیں :آپؑ فرماتےہیں :’’اےخدا کے طالب بندو ! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں۔ یقین ہی ہے۔ جو گناہ سے چھڑاتا ہے…‘‘ (کشتی نوح صفحہ 88 )
2پھر فرمایا : ’’کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں۔ کہ تمہارا یہ خدا ہے۔ تالوگ سن لیں۔ اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں۔‘‘(کشتی نوح صفحہ31)
3 اپنے مسیح ہونے کے بارہ آپؑ فرماتے ہیں :’’مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔ جس کسی کے کان سننےکے ہوں سنے۔ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور لوگوں کی نظروں میں عجیب ‘‘(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ10،حاشیہ)
(4) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیار کو بلند کرنے کےبارہ میںفرماتے ہیں: میری جماعت اس وصیت کو غور سے سنے کہ وہ جو اس سلسلہ میں داخل ہو کرمیرے ساتھ تعلق ارادت اور مریدی کا رکھتے ہیں اس سے غرض یہ ہے تا وہ نیک چلنی اور نیک نیتی اور تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ جائیں۔‘‘(مرزا غلام احمد اپنی تحریرات کی رو سےجلداول صفحہ 152)پس ان اہم پیغامات اور ارشادات پر کان سے سُن کر ہی لبیک کہتے ہوئے ہم خدا تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں۔ یہ کان ہی کی نعمت ہے جس سے ایک انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ (الحمدللہ )
انسان کے شکر اور نا شکری کا ذکر
(1) اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس کمزوری کا بھی ذکر کیا:اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوۡدٌ۔ (سورہ العادیات :7) ترجمہ :یقیناً انسان اپنے رب کا نا شکرا ہے۔ انسان کی ان حالتوں کا ذکر کرتے ہوئے سورہ ابراھیم میں انسان کو انبیاءکے ذریعہ سے اعلان کیا تھا کہ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَلَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ۔ (سورہ ابراہیم :8) ترجمہ : جب تمہارے رب نے (انبیاء کے ذریعہ سے) اعلان کیا تھا کہ (اے لوگو!) اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو (یاد رکھو) میرا عذاب یقیناًسخت ہے۔
(2) سورت رحمٰن میں اللہ تعالیٰ بکثرت تکرار سے جن و انس کو مخاطب کر کےفرماتا ہے کہ تم دونوں خدا کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے : حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒسورت رحمٰن کے نوٹ میں فرماتے ہیں :’’ جن و انس کو مخاطب کر کے اس بات کی بکثرت تکرار ہے کہ تم دونوں آخر خدا کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے…‘‘ (از ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ973)
انسان کی پیدائش کی غرض
الله تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ۔(الذاريات:57)ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’پس مومن شخص کا کام ہے کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد اصلی معلوم کرے اور پھراس کے مطابق کام کرے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡلَا دُعَآؤُکُم(الفرقان : 78)خدا کو تمہاری پر و ا ہی کیاہے اگر تم اسکی عبادت نہ کرو اور اس سے دعائیں نہ مانگو یہ آیت بھی اصل میں پہل آیت :وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ(الذاريات:57)ہی کی شرح ہے۔جب خداتعالیٰ کا ارادہ انسانی خلقت سے صرف عبادت ہے تو مومن کی شان نہیں کہ کسی دوسری چیز کو عین مقصود بنائے۔ ‘‘( سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل15تا21 اکتوبر2021ءصفحہ14کالم2) ایک تندرست آدمی اپنی پیدائش کی غرض اچھی طرح پوری کر سکتا ہے لیکن اگر کوئی شخص نابیناہے وہ بھی اپنے کان کے ذریعہ سُن کر جو بات سمجھ نہ آئے پوچھ کر ہرقسم کا علم دینی اور دنیاوی سیکھ لیتا ہے۔ قرآن مجید کو سُن سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے۔اپنی زبان سے دعا مانگ سکتا ہے پھرعمل صالح بجا لا کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور پیار کی نظر حاصل کر سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کواپنی پیدائش کی غرض پورا کرنے کے لیے کان کی زیادہ ضرورت ہے۔
محترم ڈاکٹر چودھری شاہ نواز صاحب نے ’’قوت سامعہ کی اہمیت اورضرورت پر فلسفیانہ نظر ‘‘کا ایک مضمون لکھا جو ریویوآف ریلیجنز جولائی 1926ء میں شائع ہوا ہے۔ ذیل میں اس کا کچھ حصہ پیش ہے۔
قوت سامعہ کی اہمیت اور ضرورت پر فلسفیانہ نظر
’’ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم جو تمام دنیا کے لیے آخری اور مکمل ہدایت نامہ ہےاپنے اندر عجیب معرفت اور حکمت کی باتیںرکھتا ہے۔ چنانچہ اس دعویٰ کی صداقت کے ثبوت ہم کو مادی علوم کی ترقی سے آئے دن ملتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے نہ صرف احکام اور آیات اور الفاظ ہی پر حکمت ہیں۔ بلکہ ان آیات کی ترتیب بھی حکمت پر مبنی ہے۔ بلکہ میں تو یہاں تک سمجھتا ہوں کہ قرآن مجید کے مختلف الفاظ کی ترتیب بھی حکمت سے خالی نہیں۔ مثلاًاللہ تعالیٰ اگر کسی جگہ فرماتا ہے کہ واللّٰہ سمیع علیم تو سمیع کو پہلے اور بصیر کو بعد میں رکھنے میں بھی حکمت ہے۔
اس دعویٰ کے ثبوت میں یہ عاجز اس مضمون میں قرآن کریم کے بعض الفاظ کی ترتیب کی حکمت بتانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ دہرمیں فرماتا ہے۔ اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا۔اس جگہ طبعاًیہ سوال پیدا ہو تا ہے بلکہ بعض ظاہر بینوں کو یہ اعتراض سوجھتا ہے کہ سمع کا ذکر پہلے کیوں کیا۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیامیں انسان کو آنکھ کی زیاد ہ ضرورت ہے۔ اور کان کی اس سے کم اﷲ تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ اور اس کی صنعتوں کا علم بھی آنکھ کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جس کسی سے پوچھیں کہ بھائی آنکھ زیادہ ضروری ہےیا کم، تو یہی کہتا ہے کہ آنکھ زیادہ ضروری ہے۔ گلیوں میں جاؤ۔ تو یہی پکارسنیں گے کہ ’’باباآنکھیں بڑی نعمت ہیں‘‘، مگر کبھی کسی بہرے کو یہ کہتے نہ سنا ہو گا کہ کان بڑی نعمت ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنکھ کا ذکر بدرجہ اولیٰ پہلے ہوناچاہئے تھا۔کیونکہ يہ عضو انسان کے لیے زیادہ ضروری اور مفید ہے۔
یہ اعتراض قلت تدبر کانتیجہ ہے کیونکہ اگر انسان کی پیدائش کی غرض کو سمجھا جائے اورا س پرغور کیا جائے۔ تو صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ انسان کو کان کی مقابلۃً زیادہ ضرورت ہے اس لیے کہ ایک اندھا اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کر سکتا ہے، مگر اس کے برخلاف ایک ایساشخص جو پیدائشی بہرہ ہو اس غرض کو پورا کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔
اب میں مندر جہ بالا امور کا ثبوت اور سمع کو پہلے رکھنے کی حکمت مغربی علوم کی روشنی میں احباب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں :
1۔واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے سمع کاذکر اس لیے پہلے کیاہے کہ رحم مادر میں کان کی تکمیل بمقابل آنکھ کے پہلے ہوتی ہے۔ اور یہ اس لیے ہے کہ جنین نے پیدا ہوکر پہلے اسی عضو سے کام لینا ہوتا ہے۔جنین کی آنکھ کی پتلی کے آگے ایک پردہ ہوتا ہےجو آٹھویں مہینہ جاکر تحلیل ہوتا ہے۔ (مگر کان کے آگےاس قسم کاکوئی پردہ نہیں ہوتا)۔ اس لیے آنکھ رحم مادر میں کام نہیں کرسکتی مگرکان مکمل ہوتے ہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں…
2 پیدا ہونے کے بعد بھی پہلا عضو جو انسان کے کام آتا ہے، وہ کان ہی ہے۔ چنانچہ بچہ پیداہوتے ہی بلند آواز کوسن سکتا ہے۔ اور چونکتا ہے۔ مگر اس کے بر خلاف بچہ پیدائش کے وقت اندھا ہوتا ہے۔ اور صرف روشنی کو اندھیرے سے تمیز کر سکتا ہے مگر چیزوں کی شکلوں ان کے فاصلہ یارنگوں کا احساس اس میں نہیں ہوتا۔ چند ہفتوں کے بعد بچہ آہستہ آواز بھی سن سکتا ہے اوراس میں راگ سے حظ اٹھانے اور آواز کی سمت معلوم کرنے کی قابلیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ (جوقوت سامعہ کا کمال ہے )مگر بچہ میں چیزوں کو دیکھنے کی قابلیت ایک ماہ کے بعد جا کر پیدا ہوتی ہے۔ اور تیسرے مہینے بچہ ماں کا چہرہ پہچان سکتا ہے۔ اور آنکھ اس کی متحرک انگلی کی پیروی کرسکتی ہے۔مگر اس کو چیزوں کے دور یا نز دیک ہونے کا ابھی علم نہیں ہوتا۔ اسی واسطے بچہ دور پڑے ہو ئےلیمپ یا چاند کو پکڑنےکی کوشش کرتا ہے۔ رنگوں کی تمیز بچہ میں ایک سال کے بعد جا کر ہوتی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ کان مقابلۃً جلدی اپنا کام شروع کر سکتے ہیں۔
(3) ایک اوروجہ کان کا ذکرپہلے کر نے کی یہ ہے کہ انسان کے لیے علم کے حصول کی( پیدائش کے بعد بلکہ اس سے قبل رحم میں بھی)سب سے پہلی اور زیادہ وسیع کھڑکی کان ہی ہے۔ انسان کو بیرونی دنیا کا جس قدر علم( کیا بلحاظ سباق اور کیا بلحاظ مقدار کے) کان سے ہوتا ہے اتنا آنکھ سے نہیں ہوتا۔ میں یہ بتا چکا ہوں کہ کان کی تکمیل رحم مادر میں آنکھ سے پہلے ہوتی ہے…
مگر اس کے بر خلاف آنکھ کے آگے پر دہ ہے۔ جو قوت ارادی سے کھلتاہے۔ اس لیے آنکھ اتنا وقت کام نہیں کرسکتی۔ اوراتنےنقوش دماغ پر جمع نہیں کر سکتی جتنے کان کر سکتا ہے۔ یعنی آنکھ کے ذریعہ کسی چیز کا علم اسی وقت ہوگا۔ جب اس کی طرف توجہ کی جائیگی۔اور یہ آنکھ کھولی جائیگی۔ مگرکان بغیر تو جہ اور بغیر ارادہ کے کام میں لگا رہتا ہے۔ یعنی انسان خواہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔ تو بھی اس کے کان کام کرتے رہتے ہیں۔کان میں ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان ہر وقت علوم حاصل کر سکتا ہے حتیٰ کہ سوتے وقت بھی۔ مگر سوتے وقت آنکھ سے علوم حاصل کرنے کی کھڑکی بند ہو جاتی ہے۔ اور پھر لطف یہ کہ نوزائیدہ بچہ اپنا اکثر وقت نیند میں گزارتا ہے۔ (چنانچہ بچہ سوائے دودھ پینے اور رفع حاجت وغیرہ کے ہروقت سویا رہتا ہے گویا ۲۴ گھنٹوں میں ۲۰ گھنٹے سوتا ہے)اس سے کان کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ کیونکہ کا ن سے دن میں ۲۴ گھنٹے علوم سیکھنے کا موقع ہے۔ اور آنکھ سے مشکل سے چار یا پانچ گھنٹے۔ گو اس کے بعدنیند کا وقت کم ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جوان آدمی صرف چھ یاسات گھنٹے سوتا ہے مگر پھر بھی کان کے مقابلہ میں یہ وقت تھوڑا ہے۔کیونکہ وہ پیدائش کے دن سےمرتے دم تک ایک سیکنڈ کے لیے بھی کام نہیں چھوڑتا۔ اگر کہاجائے کہ بچہ سوتے وقت کیسے سُن سکتا ہے۔
کان کا کام صرف یہ ہے کہ ہوا کی لہروں کو دماغ تک پہنچا دے۔ آگے اس کا سننا سمجھنااورمحفوظ رکھنا دماغ کا کام ہے۔ سوتے وقت گوبچہ آواز کوسن نہیں سکتا مگر اس کا نقش قلب غیر عامل پرمحفوظ رہتا ہے، جو مخفی طور سے اس کے آئندہ اخلاق، اطوار اور عادات کو ڈھالتا رہتا ہے۔ چنانچہ بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہنے میں بھی یہی حکمت ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھواخبار فاروق مورخہ13؍مئی1925ء)
(4)پھر کان کو اس لیے بھی فضیلت ہے کہ صرف یہی ایک کھڑ کی ہے جس کے ذریعہ سے پیدا ہونےکے تھوڑی ہی دیر بعد اسلام کی تعلیم کا خلاصہ (اذان) بچے کے دماغ پر نقش کیا جاسکتا ہےجو ایک بیج کا کام دیتا ہے۔ اور اعلیٰ تربیت سے وہی بیج ایک خوش نما درخت بن سکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں آنکھ کے ذریعہ شریعت کا علم بہت دیر کے بعد جاکر ہوتا ہے۔ یعنی پانچ چھ سال کی عمر میں جب بچہ پڑھنا سیکھتا ہے۔
(5)کان کے ذریعہ علم سیکھنے کے لیے تعلیم کی ضرورت نہیں۔مگر آنکھ کے ذریعہ( یعنی پڑھ کر )علم سیکھنے کے لیےتعلیم کی ضرورت ہے۔
چنانچہ95 فیصدی ناخواندہ لوگ شریعت کا علم کان کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔ اور صرف چند ایک تعلیم یافتہ لوگ دوسری کھڑکی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور وہ بھی ہوش سنبھال کر یعنی مکتب میں داخل ہوکر۔ پس اس لحاظ سے بھی کان افضل ہے۔
(6) پھرکان کی اہمیت اور آنکھ پر فضیلت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ قوت گویائی کا تعلق بلکہ سارا دار و مدار قوت سامعہ پر ہے۔ بچے کے دماغ میں پہلے سمع کا مرکز بنتا ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں گویائی کا مرکز تیار ہوتا ہے۔ پس اگر سمع کا مرکز نہ بنے تو گویائی کا مرکز نہیں قائم ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ پیدائشی بہرے، گونگے بھی ہوتے ہیں۔ گویا قوت سامعہ کے نقص سے ایک اور قوت بھی زائل ہوجاتی ہے۔ اور انسان نہ علم سیکھ سکتاہے۔ اورنہ اپنے خیالات کا اظہارزبان سے کر سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ چنداشا روں سے اپنا کام چلائے۔(واضح ہوکہ جولوگ 7یا8سال کی عمر میں جاکر بہرےہوجائیں وہ گونگے نہیں ہوتے۔ یہ صرف پیدائشی بہرے کے متعلق ہے) بلکہ ایسی حالت میں علوم کے حصول میں اس کی آنکھ بھی کام نہیںدے سکتی۔ کیونکہ آنکھ کے ذریعہ جو چیز دیکھی جاتی ہے۔ اس کا نام بھی تو کان سے ہی سیکھا جاتا ہے۔ غرضیکہ پیدائشی بہرہ نہ سن سکتا ہے،نہ بول سکتا ہےاورنہ دیکھی ہوئی چیزوں کی ماہیت سمجھ سکتا ہےاور سوائے اس کے کہ وہ دنیاوی مشاغل کو دیکھ کر خوش ہو۔ ان کےذریعہ کوئی علم حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے برخلاف پیدائشی اندھا گوچیز کو دیکھ نہیں سکتا۔ مگروہ کانوں کے ذریعہ کئی علوم سیکھ سکتا ہے۔
(7)سوتے وقت سب سے پہلی حس جو زائل ہوتی ہے۔ وہ بصارت ہے۔ اور سب سے آخری حس جو اپنا کام چھوڑتی ہے وہ سماعت ہے۔ گو یا کان زیادہ وقت تک کام کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح… جاگتے وقت سب سے پہلے احساس قوت سامعہ کا ہوتا ہے، اور قوت باصرہ کا سب سے اخیر( یوں تو کان نیند میں بھی کام کرتے رہتے ہیں۔ گوحس پیدا نہیں ہوتی۔مگر یہاں زائل ہونے سےمراد کا ن کا ظاہری کام یعنی سننا ہے۔ جہاں تک ان کا تعلق قلب ِعامل سے ہے۔
(8) جس طرح بچپن میں کان آنکھ سے پہلے کام شروع کرتےہیں۔اسی طرح بڑھاپے میں کان زیادہ دیر تک ساتھ دیتے ہیں چنانچہ اکثر آدمی بڑھاپے میں ضعف ِبصارت اور موتیا وغیرہ کی شکایت کرتے ہیں مگر تھوڑے ہیں جن کو ضعف سماعت کا عارضہ ہوتا ہو۔
(9) پھر کان کو اس لیے بھی فضیلت ہے کہ خدا کاکلام یعنی وحی متلوّچونکہ الفاظ میںنازل ہوتی ہے اس لیے کان کے ذریعہ ہی اس کا علم ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم جیسی نعمت غیرمترقبہ بھی ہم کو اسی ذریعہ سے ملی۔
(10) پس معلوم ہوا کہ کانوں کے ذریعہ علوم سیکھنا اور جسمانی زندگی لازم وملزوم ہیں۔ یعنی جب تک سانس ہے اس وقت تک کان کام کرتے رہیں گے مگر آنکھ کی یہ حالت نہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے جسمانی زندگی کے لیے ہوا کو اول نمبر پر رکھا ہے اور اس کے بغیر انسان دومنٹ سے زیادہ نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح اس نے روحانی علوم کے لیے کان کو اول نمبر پر رکھا اور اس رستہ سے علوم سیکھنے کے لیے روشنی کی بجائے ہوا کو وسیلہ مقرر کیا تا انسان کی جسمانی زندگی کا قیام اور روحانی علوم کا سیکھنا ایک ہی لڑی میں منسلک کر کےجسمانی اورروحانی سلسلہ میں مشابہت ظاہر کر دی جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے کان کے لیے ہوا کووسیلہ مقرر کر کے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ جس طرح جسمانی زندگی کے قیام کے لیے انسان کو ہوا کی ہر دم اور مرتے وقت تک ضرورت ہے۔ اسی طرح روحانی زندگی کے قیام کے لیے انسان کو روحانی علوم کی ہر وقت اور مرتے دم تک ضرورت ہے۔ پس ہمیں کانوں سے فائدہ اٹھا نے کی کوشش کرنی چاہیے اور مرتے دم تک روحانی علوم کو سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
پس ثابت ہوا کہ کان انسان کے لیےبمقابلہ آنکھ کے زیادہ ضروری عضو ہے اور بہت بڑی نعمت ہے۔ اورایسی نعمت ہے کہ جس کے بغیر انسان کی پیدائش کی غرض ناقص رہتی ہے اور انسان روحانی علوم کےحصول سے محروم رہتا ہے۔ اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکرکرنا چاہیے کہ اس نے محض اپنے فضل سے صفت رحمانیت کے ماتحت ہم کو کان اور آنکھ اور دیگر اعضا دیے۔ مگر کان کاعطیہ ہمارے خاص شکریہ کا مستحق ہے۔اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت کے ساتھ سورہ دہر میں اپنے اس احسان کو بندے پر ظاہر کرتے ہوئےکان کاذکر پہلے کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کےحقائق و معارف سمجھنےاور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین ‘‘
(ازریویوآف ریلیجنزجولائی1926ءصفحہ21تا27)
معزز قارئین! اخاکسار کا یہ مضمون نا مکمل رہے گا اگر اس میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا اپنی کتاب: Revelation,Rationality,Knowledge and Truthمیں جو قدرتی آلۂ سماعت یعنی کان کے متعلق تفصیل بیان فرماتے ہوئے اُس کے حوالہ سے ہستی باری تعالیٰ کا جو ثبوت پیش فرمایا ہے اُس کا ذکر نہ کیا جائے۔
حضور انور نے قدرت کے اس عظیم شاہکار کا ن کا ذکر کرتے ہوئےبلکہ اس میں آنکھ کو بھی شامل کرتے ہوئے انسان کے کان کے ساتھ ساتھ دیگر جانوروں مثلاً چمگادڑ، الّو اور کٹھ کھوڑا اور ڈالفن مچھلی کی ،آلہ سماعت و بصارت کا ذکر کر کے اُن میں مختلف قسم کے حیرت انگیز نظام کی تفصیل کو بیان کر کے ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت دیتے ہوئے انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیداکردہ ان عظیم اشیاکو اپنی روحانیت کی ترقی کے لیے استعمال کرنا انسان کا اولین فرض ہے۔ باقی جانوروں میں جو یہ چیز یںپیدا کی گئی ہیں وہ ایک قدرتی فطرتی نظام ہے جو اُن میں پایا جاتا ہے اور ان جانوروں کا ان چیزوں کو استعمال کرنا اور اُن سے فائدہ اٹھانا انسان کو ایک تو خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت فراہم کرتا ہے اور دوسرے اُس ہستی کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم کرنا سکھاتا ہے۔ لہٰذا خوا ہ قوت سماعت ہو یا بصارت یا خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ اور بھی کوئی قوت اور صلاحیت، انسان تبھی خدا نما کہلا سکتا ہے جبکہ وہ ان کے استعمالات کو رضائے خداوندی کے تحت جاری رکھے۔
الغرض یہ اللہ تعالیٰ کی ہی ہستی ہے جو نظام کائنات کو تدبیر سے چلارہی ہے۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر اس طرح ہے:قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَمَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَیُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَمَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ۔(یونس : 32) ترجمہ: پوچھ کہ وہ کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق عطا کرتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر اختیار رکھتا ہے اور زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون ہے جو نظام کائنات کو تدبیر سے چلاتا ہے۔ وہ کہیں گے اللہ۔ تو کہہ دے کہ پھر کیا تم تقویٰ اختیار نہیں کروگے ؟
دعا اور شکر ِخداوندی
آخر میں یہ مضمون دعا اور شکرِخداوندی کے ساتھ ختم کرتاہوں۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں احمدی مسلمان بنایا صحت و تندرستی عطاکی اور اپنی بےشمارنعمتوں سے نوازا فالحمد للہ علیٰ ذالک
ہماری ہمیشہ یہ دعا ہے رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ۔(القصص آیت25)
اللہ تعالیٰ کی ذات غنی ہے اور انسان ہی محتاج ہے۔ اس کا ذکر قرآن مجید کی سورت فاطر آیت نمبر 16 میں اس طرح بیان ہوا ہے :یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَاللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ۔ ترجمہ: اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ کسی کا محتاج نہیں، بلکہ سب تعریفوں کا مالک ہے ( یعنی دوسروں کی حاجتیں پوری کرتا ہے)