بہادر بنو کہ مومن بُزدل نہیں ہوتا اوررحیم بنو کہ مومن ظالم نہیں ہوتا (قسط دوم)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۴؍جولائی۱۹۳۶ء)
حضرت سیّد عبداللطیف صاحبؓ شہید
ہم میں سے ایک فرد تھے اور اس زمانہ کے آدمی تھے مگر آپ نے صحابہ کا نمونہ دکھایا۔ آپ کورئویا میں بتایا گیا تھا کہ آپ پکڑے جائیں گے اور کہ آپ کے لیے بڑا ابتلاء مقدر ہے۔ آپ نے شاگردوں کو اس سے آگاہ کردیا تھا اس لئے جب آپ کی گرفتاری کے احکام دربار سے جاری ہوئے تو آپ کو قبل از وقت اپنے درباری دوستوں کے ذریعہ اس کی اطلاع ہوگئی۔ شاگردوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ بہتر ہے جلدی سے انگریزی علاقہ میں چلے جائیں۔ راوی کا بیان ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ آگے نکال کرکہا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس کی راہ میں مجھے سونے کے کنگن یعنی ہتھکڑیاں پہنائی جائیں گی۔ اور میں سمجھتا ہوں ان لوگوں تک پیغامِ صداقت پہنچانے کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہوگاجن تک کسی دوسرے طریق سے یہ پیغام نہیں پہنچایا جاسکتا۔ تو
باوجود قبل از وقت اطلاع مل جانے کے اور باوجود اس کے کہ آپ بھاگ سکتے تھے آپ نہیں بھاگے اور اسے ذلّت نہیں سمجھا بلکہ عزت سمجھا
اور ہتھکڑی کا نام زیور رکھا اور جب خودبادشاہ نے آپ سے سوال کیا کہ آپ اپنے عقائد چھوڑ دیں یا کم از کم اُن کو چھپالیں تا لوگوں کاجوش کم ہو تو آپ نے جواب دیا کہ میں کس چیز کو چھپائوں۔ صداقت کو؟ اگر میں کوئی بُری بات پیش کررہاہوتا تو بادشاہ تو کُجا کسی معمولی آدمی کے کہنے سے بھی چھوڑ دیتا مگر کیا صداقت کوبھی چھپایا جاسکتا ہے؟
آپ نے ان تکالیف کو مصیبت نہیں سمجھا اور یہ خیال نہیں کیا کہ میری قربانی کے عوض اللہ تعالیٰ نے مجھ سے بیوفائی کی ہے انہوںنے اپنی قوم کے متعلق بھی اس فعل کوبیوفائی نہیں سمجھا۔
ایک شخص کا جو اس موقع پرموجود تھا بیان ہے کہ جب آپ پر پتھر پڑ رہے تھے، جسم چور ہورہاتھا، ہڈیاں ٹوٹ رہی تھیں، اُس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اے میرے ربّ! ان کو ہدایت دے کہ یہ نادانی سے ایسا کرتے ہیں۔
مومن ہر چیزمیں رسول کریم ﷺ کا اُسوہ پیش نظر رکھتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ
آپ کے پیش نظر اُس وقت طائف کا واقعہ تھا
جویوں ہے کہ مکہ والوں نے جب آنحضرت ﷺ کی تبلیغ کوسننے سے انکار کردیا تو آپ کو خیال آیا کہ طائف کے لوگوں کوتبلیغ کروں۔ مکہ کے بدباطن مخالفو ں کوجب علم ہؤا تو انہوں نے طائف والوں کے پاس آدمی بھیجا کہ اس شخص کے لیے ہم نے مکہ میں تو کوئی جگہ چھوڑی نہیں ہمیں امید ہے کہ تم لوگ اپنے مذہب کے لیے ہم سے کم غیرت مند ثابت نہ ہوگے۔ طائف والوں نے جواب دیا کہ تم اسے یہاں آنے دو تم سے زیادہ بدسلوکی ہم کریں گے۔ رسول کریم ﷺ جب طائف پہنچے تو ان لوگوں نے دھوکا سے آپ کو ایک جگہ بلایا کہ آپ کی باتیں سنیں گے اور ادھر شہر کے لڑکوں کو جمع کرلیا جن کی جھولیوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے اور ساتھ کُتّے تھے۔ جب آپؐ نے وہاں پہنچ کر بات شروع کی تولڑکوں نے پتھر مارنے شروع کردیئے اور کُتّے بھی چھوڑ دیئے گئے۔ پتھر آپ پر گرتے اور جسمِ اطہر پر زخم لگتے جاتے تھے اور خون بہتا جاتا تھا۔ آپؐ واپس بھاگتے ہوئے کسی جگہ دم لینے کے لیے ٹھہرتے تو جسمِ اطہر سے خون پونچھتے جاتے اور ساتھ فرماتے اے میرے ربّ! یہ لوگ نہیں جانتے میں کون ہوں تو انہیں معاف کر ۔(بخاری کتاب احادیث الانبیاءباب حدیث الفأر)
عربوں میں شرافت کا مادہ تھا اس لئے دشمن بھی بعض اوقات دل میں درد محسوس کرتا تھا۔
رستہ میں ایک عرب سردار کا باغ تھا جب اُس نے آپ کو اس حالت میں آتے دیکھا تو اس کے دل میں درد پیدا ہؤا اور اپنے عیسائی غلام سے کہا انگور توڑ کر لے جائو اوراس شخص کو بُلالائو اور اسے بٹھا کر کھلائو۔ چنانچہ غلام جاکر آپ کو بلا لایا بٹھایا اور انگور کھلائے اور پھر دریافت کیا کہ آپ ﷺ کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے؟ آپ نے اسے ساری بات سنائی اورپھر کہا کہ میں جب طائف سے واپس آرہا تھا تو مجھ پر جبریل نازل ہوئے اورکہا کہ خداتعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تُو کہے تو طائف والوں کا تختہ اُسی طرح اُلٹ دوں جس طرح لوط کی بستی کا اُلٹا گیا تھا مگر میں نے اسے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ تباہ ہوگئے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا۔ آپ کی باتیں سن کرعیسائی غلام کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے جب اس کے آقا نے یہ دیکھا تو اس کی مذہبی غیرت جوش میں آگئی اور اپنے غلام کو واپس بلالیا اور کہنے لگا کہ کیا تُو بھی اس کے پھندے میں آگیا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہی واقعہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی نظر کے سامنے تھا اور آپ نے نہ چاہا کہ آپ کا قدم کسی ایسی جگہ پڑے جہاں آنحضرت ﷺ کا قدم نہ پڑا تھا۔ اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ
مؤمن کو ایک ہی وقت میں بہادر بھی اور رحیم بھی ہونا چاہئے۔
یہ دو جذبات بہت کم اکٹھے مل سکتے ہیں۔مگر وہ بہادری حقیقی نہیں ہوتی جس میں ظلم ہو۔وہ شجاعت شجاعت نہیں بلکہ تہوّر ہوتا ہے۔ حقیقی بہادری مؤمن میں ہی ملتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ رحم کاجذبہ ضروری ہےمؤمن بیک وقت بہادر بھی اور رحیم بھی ہوتاہے۔ اگر وہ ایک طرف اپنی جان کو اخروٹ اوربادام کے چھلکے سے بھی حقیر سمجھتا ہے تو دوسری طرف اس کے اندر اتنا رحم ہوتا ہے کہ وہی لوگ جو اس پر ظلم کرتے ہیں ان سے وہ عفو کا معاملہ کرتا ہے۔
ایک واقعہ میں نے رسول کریم ﷺ پر کفار کے مظالم کا سنایا ہے جو ایک لمبی زنجیر کی کڑی ہے۔
متواتر تیرہ سال تک آپ پریہ مظالم جاری رہے۔
کبھی آپ پر تلواروں سے حملہ کیا جاتا تو کبھی تیروں اور سونٹوں ا ور پتھروں سے، کبھی آپ کے اوپرنجاست پھینکی جاتی اور کبھی گلا گھونٹا جاتا۔ حتّی کہ آخری ایام میں جب آپ کو مکہ چھوڑنا پڑا مسلسل تین سال تک آپ کا اور آپ کے صحابہ کا ایسا شدید بائیکاٹ کیا گیا کہ کسی سے سَودا بھی مسلمان نہ خرید سکتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی روایت ہے کہ اتنی تنگی ہوگئی تھی کہ بعض دفعہ دنوں کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ پاخانے سوکھ گئے اور جب پاخانہ آتے تو بالکل مینگنیوں کی طرح ہوتا کیونکہ
بعض اوقات درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے
(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب مناقب سعد بن ابی وقاص)اور بعض اوقات کھجور کی گٹھلیاں۔ احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی چہیتی بیوی جس نے اسلام کے لئے ہر چیز قربان کردی تھی یعنی حضرت خدیجہؓ ان کی وفات انہی مظالم کے باعث ہوئی۔ ہر شخص خیال کرسکتا ہے کہ جن بی بی کے بیسیوں غلام تھے اور جو لاکھوں روپے کی مالک اورجو مکہ کے مالدار اشخاص میں سے تھیں، جو بیسیوں گھرانوں کو کھانا کھلا کر خود کھاتی تھیں۔ بڑھاپے میں ان کوکئی کئی فاقے کرنے پڑتے اور اگر کچھ کھانے کو ملا بھی تو درختوں کے پتے وغیرہ۔ اُس وقت ان کی صحت پر کیا اثر پڑا ہوگا۔ چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ فوت ہوگئیں۔ آنحضرت ﷺ کے چچا ابوطالب بھی انہی تکالیف کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ ان حالات میں تو ایک عام انسان تو درکنار بہادر سے بہادر اور جری سے جری انسان کے ساتھ بھی اگر ایسی حالت ہوتی تو اس کے دل کا غصہ انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ اگر ایسی ہی وفاداربیوی
انہی حالات میں کسی اور شخص کی ضائع ہوتی تو وہ ان وفاداریوں اور قربانیوں کویاد کرکے اور ان بچوں پر نگاہ ڈال کر جنہیں بےنگر ان چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہوتی
بہادر سے بہادر انسان بھی قَسم کھاتا کہ اس صدمہ کے عوض قریش کی ہر عورت کو بھی قتل کرناپڑا تو میں اس سے دریغ نہ کروں گا
مگررسول کریم ﷺ نے کیا کِیا۔ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک جنگ میں جب رسول کریم ﷺ نے قریش کی ایک عورت کی لاش دیکھی تو آپ اس قدر غصہ میں آئے کہ میں نے آپ کو اس قدر غصہ میں کبھی نہ دیکھا تھا اور آپ نے سخت غصہ کی حالت میں دریافت کیا کہ اسے کس نے قتل کیا ہے؟اور پھر فرمایاکہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، ضعیفوں، بیماروں اور مذہبی لیڈروں پر کبھی ہاتھ مت اٹھائو۔ (ابو داؤدکتاب الجھاد باب فی دعاءالمشرکین)کجا وہ سلوک اور کجا یہ۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بہادری کامفہوم یہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے بتایا۔ مگر
میں اپنی جماعت سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا ان میں بھی وہی جرأت اور وہی رحم ہے جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ نے دکھایا؟
ہمارے دوستوں کی حالت یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو دوست گھبراجاتے ہیں کہ اب ہم قید ہوجائیں گے، پکڑے جائیں گے۔کیاانہیں پتہ نہیں کہ جب انہوں نے احمدیت کو قبول کیا تھا تو اس وقت یہ سب چیزیں ان کے سامنے رکھ دی گئی تھیں۔ کیا انہیں کسی نے دھوکا سے احمدیت میں داخل کرلیا تھا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ
جو لوگ تکالیف کو برداشت نہیں کرسکتے ان کا راستہ مجھ سے الگ ہے۔ میر اراستہ پھولوں کی سیج پر نہیں بلکہ کانٹوں پر ہے۔
(انوارالاسلام،روحانی خزائن جلد۹صفحہ ۲۴،۲۳)کسی سے کوئی دھوکا نہیں کیا گیا۔
ہر شخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھ کر ہوتا ہے کہ یہ سب تکالیف اسے برداشت کرنی پڑیں گی پھر شکایت کیسی!
اگر تو ہم کسی سے کہتے کہ آئو احمدی ہو جائو ہم تمہیں بڑے بڑے عہدے دلائیں گے، دولت دیں گے، بیماریوںاور تکلیفوں سے بچائیں گے، عمدہ عمدہ عورتوں سے شادیاں کردیں گے، تمہارے بچوں کی تعلیم کا انتظام کردیں گے تو شکایت ہوسکتی تھی مگر ہم تو شروع دن سے یہی کہتے کہ خدا نے ہمیں اس لئے چُن لیاہے کہ دین کے لیے ہمیں قربانی کی بھیڑیں بنائے۔ اگر ابتلائوں کی تلواروں سے گردن کٹوانی ہے، اگر اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون سے ہولی کھیلنی ہے تو آئو۔ تو پھر کوئی شکایت کاموقع نہیں۔ یہ بُزدل کا کام نہیں اور ڈرپوک ہمارے ساتھ نہیں چل سکتا۔
(باقی آئندہ)