خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ ۲۷؍جنوری ۲۰۲۳ء
اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری صحابہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ
٭… حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر ؓ، حضرت ابو ضیاح بن ثابت بن نعمان ؓ، حضرت ابو مرثد کناز ؓ، حضرت سلیط بن قیس بن عمر و ؓ، حضرت مجذر بن زیاد،ؓ حضرت رفاعہ بن رافع بن مالک بن عجلان ؓ، حضرت اُسید بن مالک ربیعہ ؓ، حضرت عبداللہ بن عبدالاسد ؓ، حضرت خلاد بن رافعؓ، حضرت عبادبن بشر ؓاور حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓکی سیرت کے بعض پہلوؤں کا ایمان افروزذکر
٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوشخص قرآن کریم خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے
٭…ایک بدوی کو نماز سکھاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے ایساکرلیا تو تمہاری نماز پوری ہوگئی
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍جنوری ۲۰۲۳ء بمطابق ۲۷؍صلح ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ ۲۷؍جنوری ۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
آج صحابہ کے ذکر میں سے کچھ بیان کروں گا۔پہلا ذکر حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر ؓکا ہے۔ان کے بارے میں بعض اور روایات ملی ہیں۔علامہ ابن عبدالبراپنی تصنیف الاستعیاب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓقرآن مجید کی آیات وَاٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِہِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا۔اور کچھ دوسرے ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔انہوں نے اچھے اعمال اور بداعمال مِلا جُلا دیے۔کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ آیات ابو لبابہؓ اور ان کے ساتھ سات آٹھ آدمیوں کے بارے میں ہے جوغزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے۔ بعد میں انہوں نے خدا کے حضور توبہ کی اور اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ باندھ لیا۔ ان کا اچھا عمل توبہ تھا اور ان کا بُرا عمل جہاد سے پیچھے رہنا تھا۔
مجمع بن جاریہ سے روایت ہے کہ حضرت انیس بن قتادہؓ کی شہادت کے بعد ان کی زوجہ حضرت خنساء بنت خدام کے والد نے مزینہ قبیلے کے ایک آدمی کے ساتھ اُن کی شادی کردی جو اُن کو ناپسند تھا جس پر آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم نے اُن کا نکاح فسخ کردیا جس کے بعد حضرت ابولبابہ ؓنے اُن سے شادی کی جن سے حضرت سائب بن ابولبابہ ؓپیدا ہوئے۔عبد اللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابولبابہ ؓکے ساتھ اُن کے گھر گئے تو وہاں ایک شخص پھٹے پُرانے کپڑوں میں بیٹھا تھا جس نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے کہ جوشخص قرآن کریم خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ایک روایت کے مطابق حضرت ابو ضیاح بن ثابت بن نعمان ؓکو غزوہ بدر میں پنڈلی میں پتھر کی نوک سے زخم لگنے کے بعد واپس لوٹنا پڑا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا حصہ رکھا۔ امام زہری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے بعدملنے والوں کو ملاقات کی اجازت دیا کرتے تھےاور یہ اجازت آپؐ سے حضرت انسہؓ لیاکرتے تھے۔
عمران بن مناح کہتے ہیں کہ جب ابو مرثد ؓاور ان کے بیٹے مرثد بن ابی مرثدؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اُس وقت آپؓ دونوں حضرت کلثوم بن ھِدم ؓکی طرف ٹھہرے۔محمد بن عمر کہتے ہیں کہ آپؓ غزوہ احد میں بھی شریک ہوئے۔حضرت ابو مرثد کنّاز ؓحضرت ابو حمزہ ؓکے ہم عمر اور حلیف تھے۔حضرت ابو مرثد ؓاور ان کے بیٹے حضرت مرثد ؓ دونوں کو غزوہ بدر میں شریک ہونے کی توفیق ملی۔
ربیع الاوّل۲؍ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس شُتر سوار مہاجرین کا ایک دستہ اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی قیادت میں مدینہ سے مشرق کی جانب سیف البحرکی طرف روانہ فرمایا جہاں مکہ کے رئیس اعظم ابو جہل اور اُس کے تین سوسواروں کے لشکر سے سامنا ہوا۔دونوں فوجیں لڑائی کےلیے صف آرا ہوگئیں کہ اس علاقے کے رئیس مجدی بن عمرو الجھنی رئیس اعظم معیدی بن عمرو الجہونی نے دونوں فریق کے درمیان بیچ بچاؤ کروادیا اورلڑائی رُک گئی۔ یہ مہم سریہ حمزہ بن عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت ابو مرثد ؓبھی اس سریہ میں شامل تھے۔روایات میں مشہور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا جھنڈا حضرت حمزہؓ کو باندھا تھااور اس سریہ میں حضرت حمزہ ؓکا جھنڈا حضرت ابومرثدؓ اُٹھائے ہوئے تھے۔
حضرت سلیط بن قیس بن عمرو ؓکا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عدی بن نجار سے تھا۔فتح مکہ کے موقع پر اور غزوہ حنین کے موقع پر انصار کے قبیلہ بنو مازن کا جھنڈاحضرت سلیط بن قیسؓ کے پاس تھا۔۱۳؍ہجری اور بعض کے مطابق ۱۴؍ہجری کے آغازمیں حضرت عمرؓ کے دَور خلافت میں مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان جنگ جسر کا واقعہ پیش آیا۔اس جنگ میں دو ہزار ایرانی تہ تیغ ہوئےجبکہ بعض روایات کے مطابق چھ ہزار ایرانی مارے گئے۔اسی طرح بعض کے مطابق اٹھارہ سو یا چار ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ان شہدا ء میں حضرت سلیط بن قیسؓ بھی شامل تھے۔
حضرت مجذر بن زیاد ؓنے زمانہ جاہلیت میں سوید بن صامت کو قتل کردیاتھا۔ بعد میں حضرت مجذرؓ اور حضرت حارث بن سوید بن صامت ؓنے اسلام قبول کرلیالیکن حضرت حارث بن سوید ؓاپنے والد کے قتل کے بدلے کی تلاش میں رہے۔غزوہ اُحد میں جب قریش نے مڑ کر مسلمانوں پر حملہ کیا تو حضرت حارث ؓنے پیچھے سےحضرت مجذرؓ کی گردن پر وار کرکے اُنہیں شہید کردیا۔حضرت جبرئیلؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایاکہ حضرت حارث ؓنے دھوکے سے حضرت مجذرؓ کو قتل کردیا ہےاور آپؐ کو حکم دیا کہ آپؐ حارثؓ کو مجذرؓ کے بدلے میں قتل کریں لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت عویم بن ساعدہ ؓنے مسجد قباء کے دروازے پر حضرت حارث بن سویدؓ کو قتل کردیا۔
رفاعہ بن رافع بن مالک بن عجلان ؓاپنے خالہ زادبھائی معاذ بن عفراء ؓکے ساتھ مکہ پہنچے اور ثنیہ پہاڑی سے نیچے اُترے تو ایک شخص کو دیکھا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ہم نے انہیں نہیں پہچانا اور اُن سے پوچھا کہ نبوت کا دعوےدار شخص کہاں ہے؟آپؐ نے فرمایا کہ وہ میں ہی ہوں۔ہمارے کہنے پر آپؐ نے ہمیں اسلام کے بارے میں بتایا۔حضرت رفاعہ ؓبیت اللہ کے طواف کے لیے چلے گئے اور دعا کی جس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھ لیااوراسلام قبول کرلیا۔حضرت رفاعہ ؓکہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجدمیں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بدوی شخص نے نماز پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ نماز دوبارہ پڑھو۔اُس نے نماز پڑھی اورواپس آکرسلام کیا۔آپؐ نے اُسے دوبارہ نماز پڑھنے کا فرمایا۔اس طرح دو تین بار ہوا۔آخر اُس نے کہا کہ مجھے نماز سکھا دیں، آپؐ نے فرمایا کہ جب تم نماز کا ارادہ کرو تو پہلے اللہ کے حکم کے مطابق وضو کرو۔پھر کچھ قرآن یاد ہو تو اُسے پڑھو۔پھر اطمینان سے رکوع کرواور اس کے بعد بالکل سیدھے کھڑے ہوجاؤ۔پھر خوب اعتدال سے سجدہ کرو۔ پھر اطمینان سے بیٹھو۔پھر سجدہ کرو اور پھر اُٹھو۔اگر تم نے ایساکرلیا تو تمہاری نماز پوری ہوگئی اور اگر تم نےاس میں کچھ کمی کی تو اتنی ہی تم نے اپنی نمازمیں کمی کی۔
حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ ؓکہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور کہا کہ کیا ماں باپ کے مرنے کے بعد بھی اُن کے ساتھ حسن سلوک کی ضرورت ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں،اُن کے لیے دعا کرنا، استغفار کرنا،اُن کے وعدوں کو پورا کرنا، اُن کے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا ، اُن کے دوستوں کی عزت کرنا۔ اس طرح اُن کو بھی ثواب پہنچتا رہے گااور اُن کی مغفرت کے سامان ہوتے رہیں گے۔
عثمان بن ارقم ؓاپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا کہ تمہارے پاس جو مال غنیمت ہے اُسے چھوڑ دو تو حضرت ابو اسید الساعدی نے عائذ المرزبان کی تلوار رکھ دی اور حضرت ارقمؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ تلوار مانگ لی جس پر آپؐ نے وہ تلوار اُنہیں عطا کردی۔
حضرت عبداللہ بن عبدالاسد ؓکا ذکر ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عبدالاسد ؓکو ایک پرچم دے کر بنو اسد کی سرکوبی کے لیے ڈیڑھ سو مہاجرین اور انصار کی سرکردگی میں بھیجا۔آپؓ غزوہ اُحد اور بدرمیں شریک ہوئے۔آپؓ غزوہ اُحدمیں بازو پر ایک زخم لگنے کی وجہ سے ۳؍جمادی الآخر ۴؍ہجری کو وفات پاگئے۔
حضرت خلاد بن رافعؓ کا تعلق انصار کے قبیلے بنو خزرج کی شاخ عجلان سے تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو دو تین مرتبہ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرمایا تھا اور پھر اُس کے کہنے پر اُسے نماز کا طریق سکھایا تھا وہ حضرت خلاد بن رافعؓ ہی تھے۔
پھرحضرت عبادبن بشر ؓکا ذکر ہے۔غزوہ خندق کے موقع پر انہیں بھرپور خدمت کی توفیق ملی۔حضرت عباد بن بشرؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اس موقع پر ابو سفیان اور اُس کے ساتھ چند مشرکین کا سامنا کیا اور انہیں واپس جانے پرمجبور کردیا تھا۔اس موقع پر حضرت عباد بن بشرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی حفاظت کرنے کی بھی توفیق پائی۔
پھر ذکر ہے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓکا ۔ان کی وفات ۶۵؍سال کی عمر میں تیس ہجری میں مدینہ میں ہوئی اورحضرت عثمان ؓنے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔یعقوب بن عتبہ سے مروی ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ ؓنے اپنی وفات کے دن چار ہزار دینار اور درہم چھوڑے۔ایک مرتبہ آپؓ کا ایک غلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپؓ کی شکایت لے کر آیا اور کہا حاطب ؓضرور جہنم میں داخل ہوگا ۔ آپؐ نے فرمایا تُونے جھوٹ بولا ۔ وہ ہرگز اس میں داخل نہیں ہوگا کیونکہ وہ غزوہ بدر اور صلح حدیبیہ میں شامل ہوا تھا۔
حضور انور نے آخرمیں فرمایا کہ کچھ ذکر رہ گیا ہے جو انشاءاللہ بعدمیں بیان کردوں گا۔