احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
محمدحسین صاحب بٹالوی ایک تعارف
(گذشتہ سے پیوستہ )بعدمیں حضرت اقدؑس کی نیکی تقویٰ اورپرہیزگاری کودیکھتے ہوئے رحیم بخش صاحب حضرت اقدسؑ کے بھی معتقدہوگئے۔اور خودمولوی محمدحسین بٹالوی صاحب تو آپؑ کی عقیدت میں اس حدتک بڑھے ہوئے تھے کہ آپؑ کے جوتے سیدھے کرنے میں فخراور آپ کے ہاتھ دھلانے کوعبادت سمجھ کریہ خدمت بجالایاکرتے تھے۔لیکن خدائی تقدیرانجام کارغالب آئی اور اولیاء و صلحاء کی اس روحانی جنت سے فَاخْرُجْ کے حکم کے تحت دربدری کاپروانہ جوان کے ہاتھ میں تھمایاگیا کہ پھرباقی ساری عمرمَذْمُوْمًا مَدْحُوْرًا کی ذلت ورسوائیوں میں ہی گزری۔یہاں مناسب معلوم ہوتاہے کہ محمدحسین بٹالوی صاحب کامختصرتعارف ہدیۂ قارئین کیاجائے۔
مولوی محمد حسین بٹالوی ابن رحیم بخش بن ذوق محمد، اہلحدیث کے ایک بہت بڑےعالم تھے۔ان کے آباء کائیست ذات کے ہندو تھے لیکن بعد ازاں اسلام قبول کر لیا تھا۔ 17؍محرم 1256ھ(مطابق4؍مئی 1836ء)کو بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم تو بٹالہ ہی میں حاصل کی (یہی وہ جگہ ہے جہاں مولوی گل علی شاہ صاحب کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور لالہ بھیم سین کے ہم مکتب ہونے کا شرف انہیں حاصل رہا)۔ بعد ازاں ملک کے طول و عرض (دہلی، علی گڑھ، لکھنؤ وغیرہ)میں معروف مولویان اور علمائے دین کی صحبت میں علم حاصل کیا۔ جن میں سے مفتی صدر الدین دہلوی اور علامہ نور الحسن کاندھلوی قابل ذکر ہیں۔ اپنے اساتذہ میں سے سب سے زیادہ اثر آپ نے اپنے استاذ حدیث مولوی نذیر حسین دہلوی سے لیا، جو پکے اہل حدیث تھے۔ کچھ عرصہ دہلی میں قیام رہا، پھر بٹالہ لوٹ آئے۔ ( ماخوذ از چودہویں صدی کے علمائے بر صغیرصفحہ539)
بٹالہ میں آپ کی بہت مخالفت ہوئی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی 1868ء یا 1869ء میں آپ سے مباحثہ کے لیے قادیان سے بڑی کوششوں کے بعد لایا گیا تھا۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے اس وقت کے عقائد کو حق پا کر عین میدان مباحثہ میں ان کے اعتقادات کی تصدیق فرمائی تھی، جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی بہت مخالفت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ عظیم الشان پیش خبری دی جس میں بادشاہوں کا آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈنے کا ذکر تھا۔(ماخوذ از براہین احمدیہ حصہ چہارم ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ621،622حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
مولوی محمد حسین صاحب کچھ عرصہ بٹالہ میں قسمت آزمائی کرنے کے بعد لاہور آگئے۔ کیونکہ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی سے نئی نئی دستار فضیلت بندھوا کر نکلے تھےا س لیے اہلحدیث کے دفاع کا بڑا شوق تھا اور جگہ جگہ مباحثوں اور مناظروں میں سر گرم نظر آتے تھے۔ اس وقت یہ بھاٹی گیٹ لاہور کی مسجد میں تھے۔ (سیرت ثنائی مصنفہ عبدالمجید سودہروی صفحہ452)جلد ہی لاہور میں ان کی ا س قدر شہرت ہو گئی کہ ان کو اندرون لاہور کی مشہور مسجد چینیاں والی کی امامت مل گئی۔ پھر تو ان کا طوطی پورے لاہور میں بولنے لگا۔ 1877ء کے قریب بٹالوی صاحب کا نام لوگوں میں آنے لگا۔ ان کے مباحثات کا شہرہ ہونے لگا اور حالات یہاں تک پہنچے کہ جب مولوی صاحب بازار میں نکلتے، تو دو رویہ دکانوں والے ان کے ادب میں کھڑے ہو جاتے اور بھاگ بھاگ کر مصافحہ کرنے کی کوشش کرتے اور ایک بھیڑ،ہوا خواہوں کی ان کے ساتھ ہو جاتی۔اس قسم کی نمائش نے مولوی صاحب کو بہت خود سر کر دیا تھا۔(بطالوی کا انجام از میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق صفحہ37،36)جس کا ذکر میاں محمد چٹو جو لاہور میں اولاً غیر مقلدین اور پھر اہل قرآن کے سرگروہ ہیں انہوں نے اپنی کتاب ’’اصلاح الانسان بعبادۃ الرحمان ‘‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’مولوی محمد حسین صاحب کو مسجد چینیاں میں ابتداء میں لانے والے بھی ہم ہی تھے۔ جب تک وہ اپنا فخر کم کرتے تھے۔ اور راہ راست پر رہے۔ہم ان کے مددگار تھے۔جب مولوی صاحب کو ایک انگریز بہادر کی ملاقات کا فخر حاصل ہوا۔ اسی وقت سے مولوی صاحب کے طریق میں ایک تغیر موج مارنے لگا۔ ایک جمعہ کے دن مولوی صاحب اپنے جاہ و جلال میں آ کر یوں در افشاں ہوئے کہ ہم مسجد سے ابھی چلے جاویں مگر ڈر ہے کہ مسجد ویران ہو جائیگی۔ اس پر ایک ضلعدار بولے۔ کہ جو لوگ مولوی صاحب کے ساتھ جانے والے ہیں وہ ہاتھ اٹھائیں۔ مگر ایک آدمی نے بھی مولوی صاحب کی اس آرزو کو پورا نہ کیا۔ تو مولوی صاحب اس مسجد سے ایسے گئے کہ اب تک واپس نہیں آئے۔‘‘(اصلاح الانسان بعبادۃ الرحمان بحوالہ بطالوی کا انجام از میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق صفحہ85)قیاساً کہا جا سکتا ہے کہ مولوی صاحب لاہور کے بعد امرتسر چلے گئے کیونکہ
1۔ کئی جگہ ان کے نام کے ساتھ ابو سعید محمد حسین لاہوری، ثم امرتسری لکھا ہوتا ہے۔
2۔ ان کے مضامین بعد ازاں امرتسر سے شائع ہوتے رہے۔
بہر حال یہ بات تو بر سبیل تذکرہ یہاں آ گئی ورنہ مولوی محمد حسین صاحب ایک لمبے عرصہ تک لاہور میں عروج کی منزلیں طے کرتے رہے۔ صرف لاہور کا ہی ذکر کیا۔ 1877ء میں ان کے مضامین اور مباحثات ملک کے دیگر اخبارات مثلاًاخبار سفیر ہند امرتسر میں بطور ضمیمہ کے شائع ہوتے رہے۔ [ان مباحثات کی تحریرات پڑھنے اور دیگر واقعات پر نظر ڈالنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان کے والد مولوی رحیم بخش بھی ان مناظروں میں اپنے بیٹے کا پورا پورا ہاتھ بٹاتے تھے۔چنانچہ 1868ء یا 1869ء کے جس مباحثہ کا حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں تحریر فرمایا ہے وہاں بھی مولوی صاحب کے ساتھ ان کے والد صاحب بغرض مباحثہ ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح 1877ء کے اکتوبر میں بٹالہ میں مولوی محمد عمر کے ساتھ مولوی صاحب کے مباحثہ کا جو احوال سفیر ہند میں درج ہے اس میں مولوی محمد عمر صاحب کے مطابق ’’آپ کے والد بزرگوار نے عہد نامہ بنسبت مباحثہ لاہور پیش کیا۔‘‘
1888ء میں بٹالوی صاحب نے اپنا اخبار اشاعۃ السنہ جاری کر لیا۔بٹالوی صاحب کا یہ اخبار ماہوار تھا۔لیکن اس اخبار کی بدولت انہیں ملک کے طول و عرض میں جانا جانے لگا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی براہین احمدیہ میں ایک تحریر سے علم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب انجمن ہمدردیٔ اسلام لاہور کے سیکرٹری بھی رہے ہیں۔(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ الف،روحانی خزائن جلد اول صفحہ 137)اسی طرح جب ہم 1883ء کے اشاعۃالسنۃ کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی بطور سیکرٹری انجمن ان کے مضامین نظر آتے ہیں۔
مولوی صاحب کی شہرت اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ خود ان کے مطابق:’’میں ایک گوشہ نشین خادم دین ہوں۔ جب کبھی قومی ضرورتوں کے لئے ویسراؤں، کمانڈر انچیف، لیفٹنٹ گورنروں اور ان کے سکرٹریوں اور صاحبان فنانشل کمشنر۔ کمشنرز۔ ڈپٹی کمشنرز کے گھروں پر ان کی ملاقات کے لئے گیا ہوں یا درباروں میں شامل ہوا ہوں۔ تو انہوں نے اپنی مہربانی سے میری عزت کی اور مجھے کرسی دی ہے۔‘‘ (اشاعۃ السنۃ جلد 20 نمبر 3 صفحہ90)مولوی محمد حسین بٹالوی کوگورنمنٹ کے مختلف کاغذات میں پنجاب کے اہلحدیث فرقہ کا سب سے بڑا مولوی قرار دیا گیا۔اس کے علاوہ خود اہلحدیث بھی انہیں ادب کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب(مجدد اہلحدیث) کی جو اپیل وائسرائے کے پاس گئی اس میں ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ کو اہل حدیث کے ترجمان کی حیثیت سے یاد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مشہور گورنر سر چارلس ایچیسن نے گورنری سے رخصت کے وقت مولوی محمد حسین بٹالوی کو یہ سرٹیفیکیٹ دیا کہ ’’ابو سعید محمد حسین فرقہ اہلحدیث کے ایک سرگرم مولوی اور اس فرقہ اسلام کے وفادار اور ثابت قدم وکیل ہیں۔ ان کی علمی کوششیں (یعنی تصانیف)لیاقت سے ممتاز ہیں‘‘(اشاعۃ السنۃ جلد 9 نمبر 10صفحہ 292)
لفظ’’وہابی ‘‘ ان ہی کی کوشش سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا۔ اور جماعت کو اہل حدیث کے نام موسوم کیا گیا۔(سیرت ثنائی مصنفہ عبدالمجید خادم سوہدروی صفحہ452،453حاشیہ)مولوی صاحب کو گورنمنٹ اور دوسری جگہوں سے ان کے علم و دانش اور سیاسی مصلحتوں سے آشنائی کے سبب مختلف اوقات میں اتنی جائیداد مل چکی تھی جس کی مالیت خود ان کی اپنی تحریر کے مطابق 25000روپے سے زائد تھی۔(اشاعۃ السنۃ جلد 22 نمبر 7 صفحہ 203)
غرض بلا شبہ مولوی محمد حسین بٹالوی پنجاب کے علماء میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھےاور مولوی ثناء اللہ امرتسری جیسے علماء بھی خود کو ان کا منہ بولا بیٹا کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ لیکن مولوی صاحب کی یہ ساری جاہ وحشمت اور عزت ورفعت وَلٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ کاعبرتناک نمونہ بنتے ہوئے اس وقت سے اکارت جانے لگی جب سے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مقابلہ کرنا شروع کیا۔ دنیا سے جو ٹھوکریں ملنی تھیں ملیں۔ کہیں کرسی نہ ملنے پر رسوائی تو کہیں کوئی ان کے بیٹھنے پر اپنی چادر بھی جھاڑتا۔ مولوی صاحب کی اپنی اولاداور بیوی ان سے سرکش ہونے لگی۔ جس کا اظہار خود کئی جگہ اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں کیا ہے۔ ان بچوں کے جو نام مل سکے ہیں وہ حسب ذیل ہیں
لڑکے:1۔ عبد السلام 2۔محمد اطہر 3۔احمدحسین 4۔عبدالنور 5۔عبدالشکور 6۔عبد الباسط 7۔ابو اسحاق
لڑکیاں:1۔امۃ السلام 2۔ امۃ الرشید3۔ مریم 4۔صفیہ
مولوی صاحب نے ان تمام بچوں کی بربادی کا ذکر اپنے ہی قلم سے اشاعۃ السنۃ جلد 22 نمبر 7 اور 8 میں عقوق کے عنوان سے کیا ہے۔ مولوی صاحب کے بقول ان کی یہ اولاد ناخلف، احکام شریعت کی دھجیاں اڑانے والی، زنا کار، شراب خور اور ’’فسق کو کامل کر کے درجہ کفر کوپہنچ گئی ہے۔‘‘(اشاعۃالسنۃ جلد 22 نمبر 7صفحہ 203) ان کی بیویوں میں سے ایک تو پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں، ایک نے ان کو آخری وقت میں چھوڑ دیااور اپنے بچوں کے ساتھ ان کے مکان سے کچھ فاصلے پر رہنے لگی۔ اس کانام زینب تھا۔ بچوں کی مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے مولوی صاحب کو گالیاں تک دیں۔ ان کے قتل کرنے کی کوششیں کیں اور اس کے علاوہ بھی اشاعۃ السنہ کے یہ پرچے بہت کچھ بتاتے ہیں جن کا بیان آسان نہیں۔ 1910ء ہی کے ایک پرچہ میں مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جب سب بڑے بچے آوارہ ہو گئے تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے کہنے سے چھوٹے بیٹے عبد الباسط کو انہوں نے قادیان کے مدرسہ میں بایں شرط داخل کروایا کہ اسے جماعت کی کتب نہ پڑھائی جائیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ یہاں اب بچہ اچھی طرح پڑھ رہا ہےا ور یہ ان کا مجھ پر احسان ہے لیکن آگے لکھتے ہیں:’’اس احسان اور ہمدردی کے ساتھ بھی اس فرقہ کے عقائد کا میں ایسا مخالف ہوں جیسا کہ پہلے تھا۔‘‘(بطالوی کا انجام صفحہ 52 )(باقی آئندہ)