بہادر بنو کہ مومن بُزدل نہیں ہوتا اور رحیم بنو کہ مومن ظالم نہیں ہوتا (قسط سوم)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۴؍جولائی۱۹۳۶ء)
ہمیں خداتعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ تا
محمد ﷺ کی بادشاہت کو پھر قائم کریں
اور ظاہر ہے کہ شیطان کے چیلے جنہیں اس سے پہلے انسانوں پر بادشاہت حاصل ہے وہ سیدھے ہاتھوں اپنی بادشاہتیں ہمارے حوالے نہیں کریں گے۔ وہ ہر تدبیر اختیار کریں گے جس سے ہمیں کچلا جاسکے اورہر سامان مہیا کریں گے جس سے ہمار ی طاقت کوتوڑا جاسکے۔ لیکن ہمیں خداتعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ جائو اور اُس وقت تک دم نہ لو جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کا وہ جھنڈا دنیا کے تمام مذاہب کے قلعوں پرنہ گاڑ دو جو صدیوں سے گِرا ہؤا ہے، جس کی عزت کو دشمنوںنے خاک میں ملانے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ ا س مقصد کوہم نے کبھی نہیں چھپایا گو یہ ہمیشہ کہا ہے کہ ہم اس مقصد کو امن کے ذریعہ اور دلوں کوفتح کرکے حاصل کریں گے۔ مگر یہ تو ہم نے کہا ہے کہ ہم ہر حال میں سچائی کو اختیار کریں گے۔ کیا ہمارے دشمنوں نے بھی یہ اقرار کیا ہؤا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ شکوہ کیسا کہ حکومت کے بعض افسر کیوں آئین کو توڑتے ہیں؟ کیا انہوںنے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہوئی ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے
کہ ایک بادشاہ تھا اس نے خیال کیا کہ فوج پر اتنا روپیہ صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ قصائی جو روز چھری چلاتے ہیں ان سے ہی فوج کا کام لیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سب فوج موقوف کردی گئی۔ اِردگِرد کے بادشاہوں کوجب یہ اطلاع ملی تو ایک بادشاہ نے جو اپنی حکومت کووسیع کرناچاہتا تھا او رہمت والاتھاحملہ کردیا۔ بادشاہ نے قصائیوں کو جمع کرکے حکم دیا کہ جاکر مقابلہ کرو۔ وہ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد شور مچاتے ہوئے آگئے کہ ظلم داد، فریاد، بے انصافی، بادشاہ نے دریافت کیا تو کہنے لگے کہ دشمن کالشکر بہت بے انصافی کرتا ہے۔ ہم تو چار چار مل کرایک آدی کو پکڑتے اور سر اور پاؤں کو پکڑ کرباقاعدہ بِسْمِ اللّٰہِ کہہ کے چھری پھیرتے ہیں لیکن دشمن بے تحاشہ تلواریں مار مار کر ہمارے بیسیوں آدمی ہلاک کردیتا ہے اس لئے اس کا ازالہ کیا جائے۔ اِسی طرح
ہمارے بعض نادان بھی یہی شور کرتے ہیں کہ ہم سچ بولتے ہیں اور آئینی طریق اختیار کرتے ہیں مگر ہمارے دشمن غیرآئینی کارروائیاں کرتے اور جھوٹ بولتے ہیں
ان کی بات ایسی ہی ہے جیسے قصائیوں نے کی تھی کیا ہمارا دشمن بھی سچائی کاپابند ہے؟ کیا وہ بھی میری ہدایتوں پر چلنے کے لئے تیار ہے؟ کیا اس کے اخلاق کا بھی وہی معیا رہے جو تمہارے سامنے پیش کیا جاتا ہے؟ کیا اس نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہوئی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی یہ بھی ایک دلیل ہے کہ
تم سچ بولتے ہو اور تمہارا دشمن جھوٹ
تم آئین کے مطابق چلتے ہو اور وہ غیرآئینی ذرائع اختیار کرتاہے، تم رحم کرتے ہو اور وہ سختی، اگر تم میں اور اس میں یہ فرق نہ ہوتا تو تم کو احمدیت میںداخل ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
دوسری طرف رحم کامعاملہ ہے۔ بہت تم میں ہیں جوچاہتے ہیں کہ اگر دشمن قابو آئے تو اس سے پوری طرح بدلہ لیاجائے لیکن یاد رکھو یہ طریق مسلمان کا نہیں ہوتا۔
مؤمن سے جب معافی طلب کی جاتی ہے تو وہ معاف کردیتاہے سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اس کی ممانعت آچکی ہو۔
بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنی خاص مصلحتوں کے ماتحت رحم سے روک دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وسیع علم ہرچیز پر حاوی ہے۔ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرکے فرماتا ہےعَفَااللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ (التوبۃ:43)منافق جنگ میں نہ جانے کی اجازت لینے آئے اور تُو نے اجازت دے دی۔ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کودورکرے جو اس رحم سے پیدا ہوگی تُو نے کیوں اجازت دی؟ محمد رسول اللہ ﷺ سے خدا کا علم زیادہ تھا اس لئے یہ فرمایا۔ پس ایسے مواقع کے علاوہ جہاں خدا کاحکم ہم کو روکے
شدید سے شدید دشمن بھی اگر ہتھیار ڈال دے تو ہمارا غصہ دور ہوجانا چاہئے
ہاں مؤمن بیوقوف نہیں ہوتا اور وہ کسی کے دھوکا میں نہیںآتا۔ رسول کریم ﷺ تو یہاں تک احتیاط فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص نے میدانِ جنگ میں جب ایک مسلمان اسے مارنے لگا تھا کہہ دیاکہ میں صابی ہوتاہوں۔ کفار مسلمانوں کوصابی کہا کرتے تھے جس طرح آج ہمیں مرزائی کہتے ہیں حالانکہ یہ سخت بداخلاقی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی اپنے اوپر لے لی مگر پھر بھی ہم انہیں مسلمان ہی کہتے ہیں۔عیسائیوں کو عیسائی اوریہودیوں کویہودی کہتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ تم کہاں کے ہدایت یافتہ ہو۔ مگر جو لوگ دین سے بے بہرہ ہوں ان کے اخلاق گِرجاتے ہیں اور وہ دوسرے کا نام بھی ٹھیک طرح نہیں لینا چاہتے۔ تو اس وقت کے کفار مسلمانوں کوصابی کہاکرتے تھے اور ایک شخص نے لڑائی کے دوران میں کہا کہ میں صابی ہوتاہوں مگر چونکہ یہ نام غلط تھا اور لڑائی ہورہی تھی مسلمان نے اسے مارڈالا۔رسول کریم ﷺ کوجب علم ہؤا تو آپ نے فرمایا۔ تم نے ظلم کیا۔ اسے مارنے کاتمہیں کیا حق تھا۔ اُس صحابی نے عرض کیا کہ اس نے صابی کا لفظ بولا تھا۔ آپ نے فرمایاکہ وہ لوگ صابی ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور شخص نے لڑائی میں کلمہ پڑھا اور ایک صحابی نے اُسے ماردیا۔ اس پر بھی رسول کریم ﷺ سخت ناراض ہوئے۔ تو
ایک طرف رحم اوردوسری طرف بہادری جب تک انتہاء کونہ پہنچی ہوئی ہو کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا۔
رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو وہ دشمن مجرموں کی حیثیت سے آپ کے سامنے پیش کئے گئے۔ وہ لوگ جن کے مظالم کی وجہ سے آپ کوراتوں رات مکہ چھوڑ کربھاگناپڑاتھا آپ کے سامنے پیش ہوئے۔ جو اِن کے ظلم سے اپنے عزیز وطن کواپنے پیارے خدا کے گھر کو چھوڑنے پر مجبورہوئے تھے۔ اور ان لوگوں کی موجودگی میں پیش ہوئے جن میں سے بعض کی بیویوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہوں نے ہلاک کرڈالا تھا، جن کے باپوں اور بھائیوں اور دوستوں کو ایک اونٹ کے ساتھ ایک ٹانگ اور دوسرے سے دوسری ٹانگ باندھ کر اور انہیں مختلف جہتوں میں چلا کر چیر پھاڑ کر ہلاک کردیا تھا ، ان غلاموں کے سامنے جنہیں جیٹھ اورہاڑ کی گرمیوں میں گرم پتھروں پر لٹا لٹا کرجلایا جاتا تھا اور پھر کوڑے لگائے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ اپنے دین سے توبہ کرو پھر چھوڑیں گے، مکہ کے وہ ظالم سردار جنہوںنے تیرہ سال تک صحابہ کے وطن کوان کے لئے جہنم بنارکھا مجرموں کی حیثیت سے حاضر تھے
صحابہ کہتے ہیں کہ تلواریں میانوں سے اُچھل اُچھل پڑتی تھیں کہ ان ظالموں سے اپنے بزرگوں کے خون کا بدلہ آج لیں گے۔
مہاجر تو مہاجر انصار کی آنکھوں سے خون ٹپک رہاتھا حتّٰی کہ ایک انصاری سردار کے منہ سے بے اختیار نکل ہی گیا کہ مکہ کے ظالم لوگو! آج تمہارے درودیوار کی اینٹ سے اینٹ ہم بجادیں گے۔ لیکن محمدرسول اللہ ﷺ نے بجائے اُن کو سزا دینے کے خود اُن ہی سے دریافت کیا کہ اے مکہ کے رہنے والو! بتائو تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ انہوںنے آگے سے جواب دیا کہ وہی جویوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کیاتھا۔ آپ نے فرمایا
جائو میں نے تم کومعاف کیا۔ تم مجھے یوسف سے کم رحم کرنے والا نہیں پائو گے اور سب کومعاف کردیا۔
یوسف کے بھائیوں نے انہیں صرف جلاوطن کیا تھا مگر رسول کریم ﷺ پر کفار کے مظالم کے مقابلہ میں جلاوطن کرنا کچھ چیز نہیں۔ یہاں جلاوطنی تو ہزاروں ظلموں میں سے ایک ظلم تھی۔ پھر یوسفؑ کے سامنے اُس کے باپ جائے بھائی کھڑے تھے جن کی سفارش کرنے والے اُن کے ماں باپ موجود تھے مگریہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے عزیزوں اور بھائیوں کے قاتل تھے۔ حضرت حمزہؓ کو قتل کرنے والے کون لوگ تھے؟ رسول کریم ﷺ کی چہیتی بیٹی کو مارنے والے کون تھے جبکہ وہ حاملہ تھیں؟ اور خاوند نے اس خیال سے کہ والد کی عداوت کی وجہ سے لوگ انہیں مکہ میں تنگ کرتے تھے مدینہ روانہ کردیا تھا مگر کفار نے راستہ میں انہیں سواری سے گِرادیا جس سے اسقاط ہوگیا اور اسی کی وجہ سے بعد میں آپ کی وفات ہوگئی۔ حضرت یوسفؑ کے سامنے کون سے جذبات تھے سوائے اس کے کہ ان کے بھائیوں نے اُن کووطن سے نکال دیا تھا مگر
یہاں تو یہ حالت تھی کہ ابوطالب کی روح آنحضرت ﷺ سے کہہ رہی تھی کہ میرے (جس نے تیری خاطر تیرہ سال تک اپنی قوم سے مقابلہ کیا )یہ لوگ قاتل ہیں۔
عالَمِ خیال میں حضرت خدیجہؓ آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ
میں نے اپنا مال و دولت، اپنا آرام آسائش سب کچھ آپ کے لئے قربان کردیا تھا اور یہ لوگ میرے قاتل ہیں۔
حضرت حمزہؓ کھڑے کہہ رہے تھے کہ
ان میں ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے میری لاش کی بے حرمتی
کی تھی اور میرے جگر اور کلیجہ کو باہر نکال کر پھینک دیا تھا۔ آپ کی بیٹی آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ایک عورت پر ہاتھ اُٹھاتے ہوئے شرم نہ آئی اور ایسی حالت میں مجھ پر حملہ کیا جبکہ میں حاملہ تھی اور مجھے ایسا نقصان پہنچایا جس سے بعدمیں میری وفات ہوگئی۔
پھر وہ سینکڑوں صحابہ جو آنحضرت ﷺ کو اپنے بچوں سے زیادہ عزیز تھے اور جن میں ایسے لوگ بھی تھے کہ جب ان میں سے ایک کومکہ میں کفار نے پکڑا اور قتل کرنے لگے تو کہا کہ کیا تم یہ پسندنہ کرو گے کہ اِس وقت تمہاری جگہ محمد ﷺ ہوں اور تم آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میں تو آرام سے گھر میں بیٹھا ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے پائوں میں کانٹا بھی چبھے۔(اسدالغابۃ جلد ۲صفحہ۲۳۰۔مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ)
(باقی آئندہ)