اللہ کے بندوں کے وصف
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ اکتوبر2013ء)
وَقُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا (بنی اسرائیل:54) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اور تُو میرے بندوں سے کہہ دے کہ ایسی بات کیا کریں جو سب سے اچھی ہو۔ یقیناً شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ شیطان بے شک انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے۔
جیسا کہ آپ نے ترجمہ سے سن لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بات کہو جو سب سے اچھی ہے۔ پہلی بات یہ ہے۔ اور اچھی بات وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ’’عبادی‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے کہ ’’میرے بندے۔‘‘ہمیں اس بات کا پابند کردیا کہ جو میرے بندے ہیں یا میرے بندے بننے کی تلاش میں ہیں ان کی اب اپنی مرضی نہیں رہی۔ ان کو اپنی مرضی چھوڑ کر میری مرضی کی تلاش کرنی چاہئے۔ اور اچھائیوں اور ان اچھی باتوں کی تلاش کرنی چاہئے جو مجھے یعنی خدا تعالیٰ کو پسند ہیں۔ اس کی مزید وضاحت اللہ تعالیٰ نے سورۃالبقرۃ میں یوں فرمائی ہے کہووَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ(البقرۃ: 187) اور اے رسول! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو کہہ میں ان کے پاس ہی ہوں۔ جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔ سو چاہئے کہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا ہدایت پا جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’عبادی‘‘یعنی میرے بندے کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لائے ہیں۔ وہی عبادی میں شامل ہیں اور عبادی میں شامل ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے قریب ہیں۔ اور وہ جو ایمان نہیں لاتے خدا تعالیٰ سے دور ہیں۔(ماخوذ از جنگ مقدس۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ 146)
پس سچا عبادی بننے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ہر حکم کو مانیں۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں۔ اور جب یہ کیفیت ہو گی تو ہر قسم کی بھلائیوں کو حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ دعائیں قبول ہوں گی۔ پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے وہی بات کریں، کہا بھی کریں اور کیا بھی کریں جو خدا تعالیٰ کو اچھی لگتی ہے تو پھر لازماً اپنے ایمان کو بڑھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تلاش کرنی ہوگی۔ اپنے عمل اس طرح ڈھالنے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اچھے اور احسن ہیں اور خوبصورت ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم عمل تو کچھ کر رہے ہوں اور باتیں کچھ اور ہوں۔ ہمارے عمل تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہوں لیکن دوسروں کو اُس کے مطابق جو اللہ اور رسول کے حکم ہیں ہم نصیحت کر رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے قول و فعل کے تضاد کو گناہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (الصف: 3)کہ اے مومنو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (الصف: 4) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔ پس قول و فعل کا تضاد اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے بلکہ گناہ ہے۔ ایک طرف ایمان کا دعویٰ اور دوسری طرف دورنگی یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کرلو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر انداز نہیں ہوتی۔‘‘(ملفوظات جلداول صفحہ 42-43۔ مطبوعہ ربوہ)یعنی سچی گفتگو بھی ہو اور جو گفتگو کررہا ہے اس کا عمل بھی اس کے مطابق ہو، اگر نہیں تو پھر وہ فائدہ نہیں دیتی۔ پس یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ یہ ہے کہ وہ بات کہو جو اَحْسَنُ ہے اور کسی بندے کی تعریف کے مطابق اَحْسَنُن ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کے مطابق اَحْسَنُ ہے۔ نیکیوں کو پھیلانے والی ہے اور برائیوں سے روکنے والی ہے۔
ہر انسان اپنی پسند کی تعریف کر کے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے قول و فعل میں تضادنہیں ہے اس لئے وہ مومن ہو گیا۔ ایک شرابی یہ کہے کہ میں شراب پیتا ہوں اور تم بھی پی لو، جو میں کہتا ہوں وہ کرتا ہوں تو یہ نیکی نہیں ہے اور نہ ہی یہ احسن ہے بلکہ گناہ ہے۔ یہاں اس معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں آزادی کے نام پر کتنی بے حیائیاں کی جاتی ہیں اور کھلے عام کی جاتی ہیں اور ٹی وی اور انٹرنیٹ پراور اخباروں میں ان بے حیائیوں کے اشتہار دیئے جاتے ہیں۔ فیشن شو اور ڈریس شو کے نام پر ننگے لباس دکھائے جاتے ہیں۔ تو بے شک ایسے لوگوں کے قول اور فعل ایک ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ مکروہ اور گناہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہیں یہ۔ پس بعض لوگ اور نوجوان ایسے لوگوں سے متاثر ہو جاتے ہیں کہ بڑا کھرا ہے یہ آدمی۔ جو کچھ ظاہر میں ہے وہی اندر بھی ہے دورنگی نہیں ہے۔ تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دو رنگی نہ ہونا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ بے حیائیوں کا اشتہار دینا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دوری ہے۔ پس اس معاشرے میں رہنے والے نوجوانوں، مردوں، عورتوں کو ایسے ماحول سے بچنے کی انتہائی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے ہمیشہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحۃ: 6) پر چلنے کی دعا کرنی چاہئے۔ شیطان سے بچنے کی دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایک مومن سے جو توقعات رکھتا ہے جن کا اُس نے ایک مومن کو حکم دیاہے اُن کی تلاش کرنی چاہئے۔ اُن احسن چیزوں کو تلاش کرنے کی کوشش اور اُس کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے اپنے قرب کی نشاندہی فرماتا ہے۔ اپنی رضا کے طریق اُنہیں سکھاتا ہے۔ بندے کی نیکیوں پر خوش ہو کر اس کے عمل اور قول کی یک رنگی کی وجہ سے بندے کو ثواب کا مستحق بناتا ہے۔ ان باتوں کی تلاش کے لئے ایک مومن کو خدا تعالیٰ کے حکموں کی تلاش کرنی چاہئے تاکہ احسن اور غیر احسن کا فرق معلوم ہو، ان کی حقیقت معلوم ہو اور ان لوگوں میں شمار ہو جن کو خدا تعالیٰ نے عبادی کہہ کر پکارا ہے۔ ان کی دعاؤں کی قبولیت کی انہیں نوید اور بشارت دی ہے۔ ہم احمدیوں پر تو اس زمانے میں یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے۔ یہ عہدکیا ہے کہ ہم اپنے قول اور فعل میں مطابقت رکھیں گے اور ہر وہ کام کریں گے اور اس کے لئے ہر کوشش کریں گے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک احسن ہے۔ ہمارے قول وفعل میں یک رنگی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی احسن باتوں کے لئے ہم قرآن کریم کی طرف رجوع کریں گے جہاں سینکڑوں حکم دیئے گئے ہیں۔ احسن اور غیر احسن کا فرق واضح کیا گیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کروگے تو اللہ تعالیٰ کی قرب کی راہوں کے پانے والے بن جاؤ گے۔ یہ کرو گے تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بنو گے۔