اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
پاکستان حکام اور ملاں
لاہور؛ 5؍نومبر2021ء: پریس رپورٹس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس اے خان نے ملاںحسن معاویہ کی درخواست پر جماعت احمدیہ کی جانب سے قرآن پاک کی مبینہ اشاعت سے متعلق کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا ۔ ہم ذیل میں ایکسپریس ٹریبیون tribune.com.pk مورخہ 5 ؍نومبر 2021ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کو بغیر تبصرہ کے دوبارہ پیش کر رہے ہیں تاقارئین ملک میں حکام اور ملاںکے تعلقات کے بارے میں نتائج خود اخذ کر سکیں:
وزیراعلیٰ بزدار کو طلب کر لیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، صوبائی ہائی کورٹ نے بتایا کہ متعلقہ حکام اس کی ہدایات پر عمل نہیں کر رہے۔
لاہور: لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان نے اقلیتی احمدیہ جماعت کی طرف سے قرآن پاک کی مبینہ اشاعت سے متعلق کیس میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو لاہور ہائی کورٹ میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے طلب کر لیا۔ ماضی میں، درخواست گزار حسن معاویہ نے ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اقلیتی برادری کے لوگ نہ صرف قرآن پاک کو ’’تحریری متن کو خراب کرکے اور مسخ شدہ ترجمہ ‘‘کے ساتھ شائع کر رہے ہیں بلکہ اس کی کاپیاں بیرون ملک بھی بھیج رہے ہیں۔ جسٹس شجاعت نے کچھ ہدایات دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی تھی۔ اب درخواست گزار نے ایک بار پھر عدالت سے رجوع کرتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ حکام عدالتی ہدایات پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔ کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اس معاملے پر ان کی رائے جاننے کے لیے دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی طلب کیا۔ کارروائی کے دوران پولیس نے اس کا قصوروفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) پر ڈال دیا۔ ایف آئی اے نے دعویٰ کیا کہ کیس کی تفتیش کے دوران پولیس نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے چناب نگر میں چھاپہ مارا لیکن ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) چنیوٹ اور دیگر پولیس اہلکار ان کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کر رہے۔ تاہم، ڈی پی او نے اپنا بیان برقرار رکھا کہ ایف آئی اے حکام نے چھاپہ مارنے سے قبل ضروری کارروائی مکمل نہیں کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کی کچھ ہدایات پر عمل درآمد کیا گیا ہے جبکہ زیادہ تر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس پر جسٹس شجاعت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو 8؍نومبر کو دوپہر ایک بجے طلب کر لیا تاکہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ اپنے پہلے حکم میں عدالت نے متعلقہ حکام کے لیے 18 ہدایات جاری کی تھیں جن میں وفاقی، صوبائی، ضلعی اور تحصیل کی سطحوں پر قرآن پاک کے معیاری نسخے کے ساتھ اس کے لغوی معنی کی دستیابی بھی شامل ہے جو کہ متعلقہ قرآن بورڈز کی جانب سے مستعمل ہے۔ یہ ایک نمونہ کے طور پر اس بات کا تعین کرنے کے لیے ہے کہ آیا قرآن کریم کی اس کے علاوہ کوئی بھی اشاعت اصل متن اور ترجمے کے مطابق ہے کہ نہیں۔ دوم، عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں کہ صرف قرآن بورڈ کے ذریعے مجاز پرنٹرز/پبلشرز کو قرآن پاک اور مسلمانوں کی دیگر مذہبی کتابوں کو چھاپنے کی اجازت دی جائے۔ مزید برآں، مجاز پرنٹرز/پبلشرز کو پابند کیا جائے گا کہ وہ مخصوص بار/کیو آر کوڈ کے ساتھ ساتھ ہر مذہبی کتاب بالخصوص قرآن پاک کے ہر ایک نسخے کے خلاف ایک الگ سیریل نمبر دیں، تاکہ مذکورہ کتاب کی صداقت کو جان سکیں اور اسے درست کریں۔
مزید برآں، قرآن پاک کے ہر صفحے پر پبلشر/کمپنی کا نام ہو تاکہ بعد کے مرحلے میں کسی بھی صفحہ کی تبدیلی کے امکان کو ختم کیا جا سکے۔
نوٹ: ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں احمدیہ جماعت نے کئی سال سے قرآن پاک شائع نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کبھی کوئی تحریف شدہ تحریر شائع نہیں کی۔ یہ الزامات سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں۔
کراچی میں احمدیہ مخالف کانفرنس
کراچی ڈرگ روڈ،؛19؍نومبر2021ء:احمدیہ مسجد کے قریب دیوبند کی بلال مسجد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں پاکستان کے مختلف مقامات سے تبلیغی جماعت کے علماء نے شرکت کی۔ شرکاء کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ملاؤں نے اپنی تقریروں میں احمدیہ جماعت اور اس کے بانی پر بہتان لگائے۔ انہوں نے بانی جماعت کی تحریروں سے تحریف شدہ حوالہ جات بھی نقل کیے۔ مقررین نے شرکاء کو احمدیوں کے خلاف بھی اکسایا۔ شرکاء نے احمدیہ مخالف نعرے لگائے۔یہ سب قوانین PPCs 153, 295-A اور298 کی خلاف ورزی ہے۔ اس موقع پر رینجرز اور پولیس اہلکار موجود تھے۔
فیصل آباد میں کھیلوں میں نفرت اور تعصب عیاں
نومبر 2021ء: چار کبڈی کلبوں نے اپنے سالانہ واہلہ کبڈی کپ، فیصل آباد کے انعقاد کی تیاری کی ہے جو 28؍ نومبر 2021ء کو 8 چک پنجگرین، ڈائیوو روڈ، سمال اسٹیٹ، فیصل آباد میں منعقد ہوگا۔ انہوں نے پوسٹرز کے ذریعے بھی اس تقریب کی تشہیر کی۔ پوسٹرز پر جلی حروف میں درج کیا گیا تھا کہ قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ قادیانی کافر ہے۔ مندرجہ ذیل چار کلب کے نام پوسٹرز پر درج تھے:
٭… واہلہ کبڈی کلب
٭… بندیشا رائل بیلجیم کبڈی کلب
٭… قادر آباد کبڈی کلب
٭… سانجھا پنجاب کبڈی کلب
پولیس نے بظاہر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
2021ء میں پی ٹی آئی حکومت کے تحت پنجاب پولیس کا احمدیہ مسجد اور قبروں سے نمٹنے کا ایک کیس
گجو چک، ضلع گوجرانوالہ ؛ 16؍دسمبر 2021ء: ملاؤں نے پولیس کو درخواست دی کہ احمدیوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے اپنی مسجدمیں مینار اور محراب بنائے ہیں۔ مزید یہ کہ انہوں نے اپنی قبروں کی تختیوں پر اسلامی الفاظ، کلمہ،اللہ کے نام (یا حیی، یا قیوم) وغیرہ لکھے ہیں۔ نیز انہوں نے خانہ کعبہ اور روضہ رسول کی تصاویر بھی بنا رکھی ہیں۔ جبکہ یہ قانون کے خلاف ہے۔نوٹ: قانون میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
14؍دسمبر کو احمدیوں کے ایک وفد نے پولیس سے ملاقات کی جس نے بتایا کہ ملاںاس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ احمدیوں کی مسجدکے میناروں کو کنکریٹ میں دبا دیا جائے اور مسجد کے اندر اسلامی تحریروں اور اس کی دیوار پر نمایاں گھڑی جس پر نماز کے اوقات درج ہوتے ہیں نیز تحریر کیے گئے کلمہ کو بھی ہٹا دیا جائے۔ اسی طرح محراب کو بھی گرا دیا جائے اور مقبروں پر اسلامی تحریروں کو ڈھانپ دیا جائے۔ وفد نے میناروں کے بار ے میں ان تحفظات سے پولیس کو آگاہ کیا اور تجویز دی کہ میناروں کے گرد ایک دیوار تعمیر کر دی جائے تاکہ ان کی ظاہری شکل کو باہر سے چھپایا جا سکے۔نیز کہا کہ جہاں تک اندر کا معاملہ ہے تو وہ احمدیوں کا حق ہے کہ چار دیواری کے اندر آزادانہ طریق پر اپنے عقائد کا اظہار کر سکیں اور ان پر عمل کر سکیں۔
اگلے دن 15؍دسمبر کو احمدیہ وفد دوبارہ پولیس سے ملنے گیا جہاں انہوں نے ملاؤں کے مطالبے کو پورا کرنے کے لیے تصویر ی منصوبہ پیش کیا۔ اس پر پولیس نے کہا کہ انہوں نے بڑی مشکل سے ملاؤں کو میناروں کو ہٹانے کے بجائے کنکریٹ میں سمونے پر راضی کیا تھا۔ اب اس مقصد کے لیے وہاں دیوار بنانے میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ انہوں نے تعاون نہ کرنے پر احمدیوں کے خلاف اعلیٰ حکام کو رپورٹ کرنے کی دھمکی بھی دی۔
16؍دسمبر کو پولیس نے احمدیہ مسجد کا تالہ توڑا ، چھوٹے میناروں کے گرد دیواریں بنائیں اور پھر اسے اپنے تالے سے بند کر دیا۔ جمعہ کے روز احمدیوں نے پولیس سے نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے تالا کھولنے کا کہاتو پولیس نے ایسا کرنے سےانکار کر دیا اور پہلے سی پی او سے ملنے کا کہا۔ ان حالات میں احمدیوں کو جمعہ کی نماز کسی پرائیویٹ مقام پر ادا کرنی پڑی۔ بعد میں، پولیس نے چھت کو خیمے سے ڈھانپ دیا، مسجد کے دو بڑے میناروں کے اوپر کے حصے کو گرا دیا، میناروں کے گرد دیوار بنائی اور کنکریٹ سے بھر کر دفن کر دیا۔ اسی طرح انہوں نے احمدیوں کی قبروں کے کتبوںپر بھی پلاسٹر کر دیا۔ اوراحمدیوں کو اپنے قبرستان میں دعا کی غرض سے بھی جانے کی اجازت نہیں دی۔ ہم اس پر خود تبصرہ نہیں کرتے تاہم ذیل میں مشہور زمانہ روزنامہ ڈان میں شائع تبصرے سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں: یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی حکومت 2018ء کے انتخابات کی جیت کے بعد کبھی دوبارہ اس درجے کی کامیابی کو نہیں پاسکی۔ اس سال اگست میں جب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا تب سے ہی پی ٹی آئی کی تنزلی شروع ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے لیے عمران خان کا حلف اٹھانا ان کی ترقی کی حد تھی۔ اس کے بعد سے ہر سال حکومت کی کارکردگی تنزلی کا شکار رہی اور اس کی ساکھ کمزور ہوتی چلی گئی اور یہ پارٹی حکومت کرنے کی قابلیت کو کھوتی چلی گئی۔ اگر عمران خان 2022ء میں کسی طرح پرائم منسٹر قائم رہتے ہیں تو پھر ایک کمزور حکومت ہی میں رہیں گے جو کہ اپنی ترقی کا بس ایک خول ہی بن کر رہ جائے گی۔ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں ذلت آمیز شکست نے اس امر کو او ر مضبوط کر دیا ہے۔ فہد حسین (25؍دسمبر2021ء کے روزنامہ ڈان)