امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ جرمنی کی (آن لائن) ملاقات
وقفِ نو کی حیثیت سے تمہارا یہ کام ہے کہ اس بات کو سمجھو کہ اسلام آخری مذہب ہے اور یہی مذہب اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں پھیلنے کے لیے بھیجا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔آپ کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آ سکتی اور یہی شریعت اب ہم نے دنیا میں قائم کرنی ہے اور یہ ہمارا فرض،ہماری ڈیوٹی ہے
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۲۲؍جنوری۲۰۲۳ء کو ناصرات الاحمدیہ جرمنی کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ مسجد بیت السبوح فرانکفرٹ جرمنی سے ناصرات نے آن لائن شرکت کی۔اس ملاقات میں ۱۰تا۱۲سال کی عمر کی ۴۶۱ناصرات کو شرکت کرنے کی سعادت ملی۔
پروگرام کا آغازتلاوت قرآن کریم مع جرمن اور اردو ترجمہ سے ہوا جس کے بعدایک نظم پیش کی گئی۔
اس کے بعد مختلف امور پر ناصرات کو حضور انور سے سوال کرنے کا موقع ملا۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ اگر کسی نے جلدی سکول جانا ہوتو کیا صبح۶بجےفجر کی نماز ادا کی جا سکتی ہے جبکہ فجر کی نماز کا وقت ۷بجے شروع ہوتا ہو؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر فجر کا وقت صبح ۷بجے شروع ہوتا ہے تو اس سے پہلے نماز نہیں ادا کی جا سکتی۔لیکن جونہی وقت شروع ہو جائے تو بس، گاڑی یا ٹرین میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ خلافت سے محبت کے اظہار کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ وہ تم لوگوں کو خلافت سے تعلق پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔جو خلیفہ وقت کہتا ہے اس کی باتوں پہ عمل کرنے کی کوشش کرو۔ یہ نہیں ہے کہ جو باتیں مرضی کی ہوئیں ان پہ عمل کر لیا اورجو مرضی کی باتیں نہ ہوئیں ان کو کہہ دیا کہ نہیں یہ تو اس طرح نہیں اس طرح ہونا چاہیے،یا اس کی تاویلیں پیش کرنے لگ جاؤ ،تشریحیں کرنے لگ جاؤ۔ عہدے دار بھی اور دوسرے لوگ بھی بعض دفعہ اپنی مرضی کی باتیں کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کہا تھا ،یہ نہیں کہا تھا۔جو الفاظ ہیں ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اسی سے تعلق اور محبت پیدا ہوتی ہے۔
ایک ناصرہ نے عرض کی کہ جب اس کے غیر احمدی جرمن دوست گھر آتے ہیں تو وہ وہاں موجود حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کےخلفاء کی تصاویر کے متعلق اکثر سوال کرتے ہیں۔اس ناصرہ نےسوال کیا کہ وہ اپنے دوستوں کے سامنے خلفاء کی اہمیت کو کس طرح واضح کرسکتی ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اسے یہ موقع حضرت مسیح موعودؑاور آپؑ کے خلفاء کو اپنے جرمن دوستوں کے سامنے متعارف کروانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔اپنے عیسائی دوستوں کو جو حضرت عیسیٰؑ کی آمد ثانی کے قائل ہیں انہیں بتایا جائے کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ تعالیٰ کے بزرگ نبی تھے جو وفات پا گئے اور آپؑ کی آمد ثانی حضرت مرزا غلام احمد ؑکی صورت میں ہوئی ہے جو مسیح موعود اور امام مہدی ہیں۔ آپؑ حقیقی اسلام کی تبلیغ کرنے آئے اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیااورآپ کے بعد نظام خلافت جاری ہوا۔
حضور انور نے نصیحت کی کہ وہ اپنے دوستوں کو بتائے کہ فریم میں لگی تصاویر خلفائے کرام کی ہیں اور احمدیت امن اور محبت کا پیغام ہے۔مذہب دل کا معاملہ ہے جو چاہے اسے قبول کرے جو چاہے نہ کرے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ حضور نے کبھی فرشتوں سے ملاقات کی ہےاور اس بارے میں ہمیں کچھ بتا سکتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ کیافرشتے ناصرات یا تمہاری طرح کوئی فزیکل باڈیز ہیں جو سامنے آ کر بیٹھ جائیں اور ملاقاتیں کرنے لگ جائیں ؟
فرشتہ کیا ہے؟فرشتہ تو جہاں موجود ہے وہیں اپنی جگہ پر رہتا ہے اور جو نیک خیالات اللہ تعالیٰ دل میں ڈالتا ہے، یا کشف، رؤیا ، الہام یا نبیوں کو وحی ہو وہ فرشتوں کے ذریعہ سے پہنچ جاتی ہے۔ کہیں ایسا موقع آجائے جہاں اللہ تعالیٰ ضرورت محسوس کرے تو فرشتےکی تمثیل پیش کر کے وہاںفرشتہ رکھ دیتا ہے لیکن وہاں بھی فرشتہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا ۔یہ نہیں ہے کہ فرشتہ وہاں سے اٹھ کر آ گیا اور آسمان پہ جگہ خالی ہو گئی ۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ فرشتے آسمان پہ موجود ہیں۔ہر جگہ اور ہر وقت وہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے اثر ڈال کر تمثیلیں پیش کر دیتے ہیں۔ اس کی جگہ نمونے آجاتے ہیں۔ اس لیے یہ خیال غلط ہے کہ فرشتے کوئی فزیکل باڈیز ہیں بلکہ جو نیک خیالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں یا کسی کو خواب میں فرشتہ آ گیا کہ میں فلاں فرشتہ ہوں وہ بھی ایک خواب کا ذریعہ ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرشتہ اٹھ کے تمہاری خواب میں آگیا ۔ جس طرح تم لوگ خواب میں بہت ساری چیزیں دیکھتے ہو کہ میں فلاں جگہ گئی میرے ماموں، چچا، پھوپھا وہاں بیٹھے ہوئے تھے یا بہن یا بھائی یا اماں،ابا وہاں تھے۔ دادی، دادا تھے نانا ،نانی تھے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ رات کو اٹھ کر تمہارے پلنگ کے اوپر آ گئے تھے۔وہ ایک نظارہ تھا جو تمہیں دکھایا گیا۔اسی طرح فرشتے بھی آتے ہیں۔ اگر کبھی آئیں تو وہ ایک نظارہ ہوتا ہے۔
ایک ناصرہ نے سوا ل کیا کہ میری کلاس کی غیر مسلم بچیاں میرا دوپٹہ لینا پسند نہیں کرتیں۔ اگر وہ مجھ سے دوستی نہ کریں تو میں کیا کروں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ ان سے کہو کہ ہر ایک کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے۔
پہلی بات ان سے یہ کرو کہ مذہب تو ایک طرف رہا۔میں مسلمان ہوں تم عیسائی ہو، یا تم خدا کو مانتی ہو کہ نہیں مانتی ،یا تمہارا کوئی مذہب نہیں ہے ،اس کو چھوڑو۔ اب تم نے سکرٹ (skirt)فراک (frock)پہنی ہوئی ہے یا منی سکرٹ (mini skirt)پہنی ہوئی ہے۔ یہ تمہاری اپنی مرضی ہے۔تم اس کو اچھا سمجھتی ہو، تم نے پہن لیا۔اب جس چیز کو مَیں اچھا سمجھتی ہوں مَیں نے پہن لیا۔ یہ تو کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ تمہاری عمر کی لڑکیاں ہی ہوں گی۔ ان کو سمجھاؤ کہ جو چیزتمہیں اچھی لگتی ہے تم پہنتی ہواورجو چیزمجھے اچھی لگتی ہے مَیں پہنتی ہوں۔
اس کے علاوہ ان سے کہو کہ میں ایک مذہب کو ماننے والی لڑکی ہوں، اسلام کو ماننے والی لڑکی ہوں اور اسلام میں لڑکیوںکے لیےایک ڈریس کوڈ(dress code) بھی ہے۔ ابھی تو تم بارہ سال سے کم ہو تمہارے اوپر پردہ اور حجاب لازمی نہیں ۔لیکن جب تم تیرہ ،چودہ ،پندرہ سال کی عمر میںجوان ہو جاؤ تب پردہ اور حجاب لازمی ہوتا ہے۔لیکن ابھی کم از کم سر ڈھانکنا اورحیا کا اظہار کرنا ضروری ہے۔لڑکیوں کو چاہیے کہ حیا کا اظہار کریں ۔
اگر ان کو دوپٹہ پر اعتراض ہے تو تم سکارف پہن کے چلی جایا کرو۔ باقی جب مسجد میں آتی ہو تودوپٹہ لے لیا کرو۔ سکول میں دوپٹہ نہ لیا کرو ،سکارف پہن لیا کرو ۔لیکن ان سے کہو کہ مَیں تمہارے سے ڈر کے یا تمہاری پسند کی وجہ سے ایسانہیں کر رہی۔ تمہیں جو کام پسند ہے تم کرتی ہو اورجو کام مجھے پسند ہےمَیں وہ کرتی ہوں۔ اس میں لڑنے جھگڑنے اور برا منانے کی کیا ضرورت ہے؟
ان سے کہو ہم انسان ہیں ہمیں آپس میں محبت اور پیار سے رہنا چاہیے۔یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کس نے کیا لباس پہنا ہوا ہے ۔یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارا دل کتنا صاف ہے ۔ہم ایک دوسرے کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ہم کس طرح ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں۔ ہم کس طرح ایک دوسرے کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ اصل چیز ہے جو انسان کا کام ہے۔ باقی دوپٹہ لینا یا نہ لینا یہ باقی باتیں ہیں۔
پہلے یہ انسانی باتیں بتا کے پھر بتاؤ کہ ایک زائد چیز بھی ہے جس کی میں نے پابندی کرنی ہے اور وہ میرا مذہب ہے۔ جب میں بڑی ہوں گی تو مجھے یہی حکم ہے کہ میں سر پہ دوپٹہ لوں، حجاب پہنوں ، اپنے لباس کو حیا دار رکھوں اور پردے کا جو کم از کم معیار ہے اس کو قائم رکھنے کی کوشش کروں۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ کیا حضور انور امسال جلسہ سالانہ جرمنی پر تشریف لائیں گے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب جلسہ ہو گا تو تمہیں پتا چلے گا کہ مَیں آرہا ہوں یا نہیں۔جلسہ سالانہ جرمنی اگست میں منعقد ہونا ہے اور تم مجھے آٹھ ماہ قبل ہی پوچھ رہی ہو۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ نماز کے بعد ہم دوسرے مسلمانوں کی طرح ہاتھ اٹھا کر دعا کیوں نہیں کرتے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ سارے تو نہیں کرتے جو پاکستانی مسلمان ہیں وہی ایسا کرتے ہیں۔ تمہارے پاکستانی دوست یا جو بھی کرنے والے ہیں ان سے پوچھو۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد دعا کیا کرتے تھے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو ثابت نہیں کہ آپؐ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کیا کرتے تھے۔نماز تو خود دعا ہے۔ عبادت کا مغز نماز ہے۔ یہی حدیث میں آیا ہے۔ دعاؤں کی جو basicاوربنیادی چیز ہے ،جو اس کا سب سے بہترین حصہ ہے وہ نماز ہے۔
اب نماز میں ہم دعا نہیں کریں توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ یہ اسی طرح ہےکہ ہم کسی بادشاہ کے پاس جائیں،اس کے دربار میں بیٹھیں اور وہ پوچھے:’’ مانگو مجھ سےکیا مانگتے ہو ۔‘‘اس سے کچھ نہ مانگیں اور وہاں بیٹھ کے چپ کر کے آ جائیں یا تھوڑے سے الفاظ استعمال کر کے آ جائیں جس کا مطلب بھی ہمیں نہیں آتا۔ اور جب اس کے محل سے باہر نکل کے سڑک پہ آ جائیں تو کھڑے ہو کے ہاتھ اٹھا کرکہہ دیں کہ بادشاہ سلامت مجھے فلاں چیز دے دے فلاں چیز دے دے۔ یہ کوئی عقل والی بات ہے؟ عقل کی بات تو یہی ہے کہ جب تم نےاماں ابا سے کوئی چیز مانگنی ہے تو ان کے پاس جا کے کہو گی کہ ابا یا اماں مجھے یہ چیز دے دو۔یا کیاتم یہ کرتی ہو کہ جب اماں ابا بیٹھے ہوتے ہیں اورتم نے کوئی چیز مانگنی ہے تو ان کے پاس جا کرکہتی ہو کہ ’’میں نے ایک چیز مانگنی ہے‘‘ اور چپ کر کے واپس آجاؤ۔ پھر واپس آ کر باہر اپنے کمرے میں چلی جاؤ تو وہاں سے ہاتھ اٹھا کے کہنا شروع کر دو ’’اماں مجھے فلاں چیز دے دے۔‘‘ یہ عقل والی بات نہیں ہے اس لیے ہم جو نماز میں دعا کرتے ہیں تو اللہ میاں سے جو مانگنا ہے وہ نماز میں مانگتے ہیں ۔بعد میں مانگنا تو اسی طرح ہے جس طرح اصل چیز سے ہٹ گئے اور باہر آکر مانگنا شروع کر دیا۔ عقل بھی اس کو نہیں مانتی۔ اس لیے ہم دعا نہیں کرتے نہ ہی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ نماز کے بعد ہاتھ اٹھاتے تھے۔ ہم تو وہ کام کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ اگر آپ ہاتھ اٹھا کر نماز کے بعد دعا کرتے تو ہم بھی کر لیتے لیکن عقل کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس طرح کیا جائے۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ جب تم ایک دربار میں بادشاہ کے پاس جاؤ یا کسی شخص کے پاس کچھ لینے کے لیے جاؤ تو اس سے اس وقت مانگو جب اس کے سامنے ہو نہ یہ کہ باہر آ کر سڑک پہ کھڑے ہو کر مانگنا شروع کر دو۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ مختلف مذاہب کیسے بنے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ مذاہب اس طرح بنے کہ اللہ تعالیٰ نے جب دنیا بنائی تو شروع میں تھوڑے لوگ ہوتے تھے۔ان کی ہدایت کے لیے اللہ میاں نے ایک نبی مقرر کیا۔ جس طرح ہمارے زمانے کے لیے اللہ تعالیٰ مثال دیتا ہے کہ آدم ؑکو پیدا کیا۔
پھر اس کے بعد لوگ بڑھے ،دوسرے علاقے میں چلے گئے تو وہاں کے لوگوں کی اصلاح کے لیے ،ان کی تربیت کے لیے،ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف لانے کے لیے ان کی قوم میں ایک نبی پیدا کر دیا ۔ اس وقت اس طرح ٹرانسپورٹ (transport)تو نہیں ہوتی تھی۔نہ جہاز ہوتے تھے، نہ کاریں ہوتی تھیں ،نہ فون ہوتے تھے، نہ میسج ہوتے تھے ،نہ واٹس ایپ گروپ بنے ہوئے تھے،نہ ای میلیں ہوتی تھیں۔ ہر ایک جس علاقے میں رہتا تھا وہیں رہتا تھا وہاں سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اصلاح کے لیے نبی بنائے،پھر بعض قوموں کے لیے نبی بنائے۔ جس طرح حضرت موسیٰ ؑکو بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیےبھیجا۔ انہوں نے فرعون کو یہی کہا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو یا مجھے ان کو تبلیغ کرنے دو۔
پھر اس کے بعد حضرت عیسیٰ ؑکو حضرت موسیٰ ؑکی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ بائبل میں لکھا ہے کہ میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لیے آیا ہوں۔ وہ قومیں اس وقت پوری طرح تیار نہیں تھیںاس لیے اللہ تعالیٰ چھوٹی چھوٹی قوموں کو تیار کرتا رہا جو اعلیٰ ترین تعلیم کو سننے ،جذب کرنے اور سیکھنے کے لیے تیار ہوئیں جو ابھی آنی تھی۔
اسی طرح ہر نبی جو آیا اس نے ایک آخری نبی کےآنے کی پیشگوئی کی۔آج کل فلمیں بھی بنی ہوئی ہیں جن میں یہی ہوتا ہے کہ آخری نبی آئے گا۔ بعض مسلمان اورعیسائیوں کے چینل دکھاتے بھی ہیں۔ بہرحال وہ بھی یہ مانتے ہیں کہ ہر نبی نےایک آخری نبی کے آنے کی پیشگوئی کی ہوئی ہے۔چھوٹی چھوٹی قوموں میں نبی آتے گئے تا کہ ان کی اصلاح ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ ساری دنیا میں، ہر قوم کی پاکٹس کو اطلاع ہو گئی ہے اور اب یہ لوگ اچھی طرح پیغام سن بھی سکتے ہیں اور پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ جا بھی سکتا ہے اس وقت اونٹوں یا گھوڑوں کے ذریعہ سے سواری کرتے تھے یا بحری جہازوں کے ذریعہ سے کشتیوں کے ذریعہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کے بھیجا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو قرآن شریف کی صورت میں مکمل تعلیم دے دی اور یہ کہا کہ اس کو دنیا میں پھیلاؤ اور اس وقت جتنا زیادہ پھیلا سکتے تھے انہوں نے پھیلایا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ آخری زمانے میں مسیح موعود کو بھیجوں گا جو اس پیغام کی تکمیل کرے گا۔اس کو ساری دنیا تک پہنچائے گا کیونکہ اُس زمانے میں کمیونیکیشن اور رابطوں کےذرائع زیادہ آسان ہو جائیں گے،جیسے آج کل ہو گئےہیں۔جہاز،شپ،کاریں، بسیں،ریل، ٹیکسٹ میسج ہو گئے، تم لوگ گروپ بنا کے ایک منٹ میں مختلف جگہ میسج بھیج دیتے ہو۔پھر پرنٹنگ پریس آگئے۔کتابیں شائع ہونی شروع ہو گئیں۔اس زمانے میں پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لیے مسیح موعود ؑکو بھیج دیا۔
شروع میں اس لیے مختلف مذاہب تھے کیونکہ لوگ ہر جگہ نہیں پہنچ سکتے تھے اور دوسرا یہ کہ لوگوں کے دماغ کی اتنی capacityنہیں تھی کہ وہ مکمل پیغام کو جو اللہ تعالیٰ چاہتا تھا سمجھ سکیں۔لیکن جب اللہ تعالیٰ نے دیکھاکہ اب انسان کا دماغ evolutionاور مذہب کو سیکھنے کے ذریعہ سے اتنا ڈیویلپ (develop)ہوگیا ہےاور پہلے نبیوں نے آنے والے کی خوشخبریاں بھی دے دیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور پھر اس کے بعد ان کے غلام کو بھیجا تا کہ سارے لوگوں کو اسلام کی تعلیم پہ اکٹھا کریں۔یہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب ایک ہی مذہب ہے جو آخری مذہب ہے، جو finalمذہب ہے۔ نہ بائبل نہ تورات اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں ہے لیکن قرآن شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ اصلی حالت میں محفوظ رہے گا اور چودہ سو سال ہو گئے ابھی تک اصلی حالت میں محفوظ ہے اور قیامت تک رہے گا۔ یہ دعویٰ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اسلام ہی وہ سچا مذہب ہے جس نے دنیا میں پھیلنا ہے۔یہ ہمارا کام ہے ،واقفات نو کا بھی، واقفین نو کا بھی اور جماعت کے ہر فرد کا بھی کہ جو کامل اور مکمل تعلیم آئی ہے اس پہ عمل بھی کریں اور دنیا میں تبلیغ کرکے اس کوپھیلائیں۔ اب وقف نو کی حیثیت سے تمہارا یہ کام ہے کہ اس بات کو سمجھو کہ اسلام آخری مذہب ہے اور یہی مذہب اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں پھیلنے کے لیے بھیجا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔آپ کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آ سکتی اور یہی شریعت اب ہم نے دنیا میں قائم کرنی ہے اور یہ ہمارا فرض،ہماری ڈیوٹی ہے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ ہم ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے‘‘کہتے ہیں ’’فرماتی ہے ‘‘کیوں نہیں کہتے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو نہ مرد ہے نہ عورت۔اللہ تعالیٰ کاکوئی genderنہیں۔یہ تواردو میںہم کہتے ہیں۔اردو زبان ایسی ہے کہ اگراس میں کسی کے لیے عزت اور احترام کا لفظ بولنا پڑے ، کسی بات کی majestyظاہر کرنی پڑے،کسی کی طاقت کا اظہار کرنا پڑے تو وہاں ’’فرماتا ہے‘‘ کا لفظ بول دیتے ہیں۔یہ تو زبان کا قصور ہے۔ اس زبان میں زیادہ عزت اور احترام اور بڑے آدمی کی majesty اورطاقت ظاہر کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اردو زبان کا ایک تصور ہے کہ جب مذکر کی حیثیت سے بولا جائے تو اس سے زیادہ طاقت ظاہر ہوتی ہے۔بہرحال ایک طاقت کا اظہار ہے جو اردو زبان میں ہے۔ یہ زبان کا قصور ہے۔ اللہ تعالیٰ تو نہ مرد ہے نہ عورت۔ اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی ہے جوہر چیز سے بلند و بالا ہے، ہر چیز پہ حاوی ہے، ہر چیز کو اس نے گھیرا ہوا ہے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ نماز جنازہ کے وقت نمازیوں کے سامنے جنازہ کیوں رکھا جاتا ہے؟
اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کیا تمہارے خیال میں جنازہ نمازیوں کے پیچھے رکھنا چاہیے؟
حضور انور نے فرمایا کہ جنازہ سامنے اس لیے رکھا جاتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد، درود شریف کے علاوہ نمازیوں کو فوت ہوئے شخص کے لیے دعا کرنے کی بھی تحریک ہو۔لیکن بسا اوقات ہم جنازہ غائب بھی ادا کرتے ہیں۔
برکینا فاسو کے شہداء کاذکر کرتے ہوئے حضور انورنے فرمایا کہ اگرچہ ان کے جنازے میرے سامنے نہیں تھے پھر بھی میں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔پس اگر فوت ہوئے شخص کا جنازہ موجود ہو تو اسے سامنے رکھا جاتا ہے تاکہ نمازی فوت ہوئےشخص، اس کےلواحقین اور اپنے لیے بھی دعا کر سکیں۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ آپ کی اپنے والدین کے ساتھ سب سے پسندیدہ activitiesکون سی تھیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ پتا نہیں،بےشمار ہوں گی۔ اب ساٹھ ستّر سال کے بعد تو ویسے ہی بھول گئیں۔ان کی نصیحتیں کرنا۔ امی ابا کے ساتھ سیریں کرنا ،پہاڑوں پہ جانا، پھرناہماری activitiesہوتی تھیں۔ ماں باپ کے ساتھ تو ساری یادیں ہی اچھی ہوتی ہیں۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ پانچوں نمازوں میں جب ہم سب کچھ وہی پڑھتے ہیں توپھر دن میں ایک نماز کیوں نہیں کافی؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ شکر کرو پانچ نمازیں پڑھتی ہو۔ شروع میں تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پچاس نمازیں پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ پچاس نمازیں پڑھنی پڑتیں تو تم سکول بھی نہ جا سکتی۔
ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیںکہ اس نے ہمیںپیدا کیا۔ہم اس کو کہتے ہیں تُو رب العالمین ہے۔ تُو ساری دنیا کاربّ ہے ۔ پھر بےشمار رحم کرنے والا ہے بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ دنیا کے کاموں کی جزا سزا بھی دینے والا ہے ۔ہم اس کی عبادت کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں کہ ہم عبادت کر سکیں۔
ہم سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں، اس کا ترجمہ سیکھو تو پتا لگے گا۔ بار بار ہم اس سے مانگتے ہیں۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے انعاموں کا وارث بنائے،ہمیں انعام دیتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ جب دے دیتا ہے تو انسان کو شکر گزار بھی ہوناچاہیے۔ پھر ہم شکر گزاری کے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں کہ اس نے ہم پہ احسان کیا اور ہمیں اتنی نعمتیں دیں۔
اللہ تعالیٰ نے تمہیں کپڑے دیے،اچھا کھانا دیا، فریج میں تمہارے جوس اور دوسرے ڈرنکس پڑے ہوتے ہیں جوتم پی لیتی ہو۔تمہیں برگر کھانے کا موقع مل جاتا ہے۔تم یہاں آؤ تو لنگر خانے سے پلاؤ اور بریانی مل جاتی ہے اور گھر میں اماں تمہیں اچھے اچھے کھانے پکا کے دے دیتی ہے۔ تم اچھے کپڑے پہن لیتے ہو، عید والے دن تم لوگ اچھے کپڑے پہنتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بہت ساری نعمتیں دی ہوئی ہیں تو شکر گزاری کے طور پہ ہم اس کا شکر کرتے ہیں ۔
پانچ وقت ہم شکر کرتے ہیں کیونکہ انسان کی دن کے وقت بھی پانچ حالتیں ہیں۔کبھی اس کا عروج ہوتا ہے جس طرح سورج چڑھتا ہے۔پھر زوال ہوتا ہے۔پھر سورج آ کر اپنے ایک peak پہ پہنچ کر پھر نیچے گرنا شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھرنیچے چلا جاتا ہے، پھر ڈوب جاتا ہے ،پھر اندھیری رات آ جاتی ہے۔دن میں بھی پانچ وقت ہیں۔ تم کہتے ہو ایک نماز کیوں نہیں پڑھ لیتے۔ تو پھر تم کہو گی کہ سارا دن سورج کیوں نہیں رہتا؟ اللہ تعالیٰ کہتا ہے اگر میں چاہتا تو میں مستقل سورج نکال کر رکھتا۔ رات ہوتی ہی نہ۔پھر تم کیا کر لیتے؟اگر میں چاہتا تو صرف رات ہی رات ہوتی اور دن نہ ہوتا پھر تم کیا کر لیتے؟ تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہےکہ اس نے دن کی مختلف حالتیں رکھی ہیں اور جس طرح دن کو سورج سے طلوع کیا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ سورج نیچے جاتا رہا ، رات آئی اور رات کے بعد پھر دن آیا۔انہی حالتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ہم پہ نمازیں فرض کی ہیں تا کہ ہم اس کے مطابق عبادت کر سکیں ، اللہ تعالیٰ کا شکر کر سکیں ، دن کے مختلف وقتوں میں ہمارے سے جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کی معافی مانگ سکیں اور آئندہ آنے والی چیزوں میںاللہ تعالیٰ نے جوفائدے رکھے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے دعا کر سکیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ انعامات دیتا رہے۔دن کے پانچ وقت ہیں اس لیے نمازوں کے بھی پانچ وقت ہیں۔
ایک سوال کیا گیا کہ عورتوں کے لیے پردے کا حکم ہے لیکن ان کے لیے صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر وہ صبح سیر کے لیے گھر سے باہر جائیں تو کیا وہ اپنا سر cover کر کے سکارف کو کوٹ یا جیکٹ کے اندر ڈال کر جوگنگ (jogging)کر سکتی ہیں؟ اگر کر سکتی ہیں تو کس حد تک اجازت ہے کیونکہ اکثر وہاں غیر مرد بھی جوگنگ کر رہے ہوتے ہیں۔
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ کوئی بات نہیں تم بےشک جوگنگ کرو ،اجازت ہے۔ مَیں پارک میں جاتا رہا ہوں وہاں میں نے دیکھا ہے انگریز لڑکیوں نےبھی پوراٹریک سوٹ پہنا ہوتا ہے ۔ وہ جانگیا پہن کر یا شارٹس پہن کر توجوگنگ نہیںکر رہی ہوتیں۔مردوں اورعورتوں نے ٹریک سوٹ پہنا ہوتا ہےاور سردیوں میں تو اکثر نے اپنے کان بھی ڈھانکے ہوتے ہیں اوراوپر ٹوپی لی ہوتی ہے بلکہ گرمیوں میں بھی بعضوں نے پی کیپ پہنی ہوتی ہے۔کیپ پہن کرسر ڈھانکے ہوتے ہیں۔ تم لوگ ایک ماڈرن قسم کا ڈیزائن کر لو ۔کیپ اور زیادہ ٹائٹ لباس نہ ہو تو تم پارک میں سیر بھی کر سکتی ہو اور جوگنگ بھی کر سکتی ہو ،کسی نے نہیں روکا۔
یہ خیال رکھناکہ دوسروں سے زیادہ مکس اپ (Mix up)نہیں ہونا۔اپنی exerciseکرو ،دوڑ لگاؤ اور واپس آ جاؤ۔ زیادہ بہتر ہے اگرتمہارے ساتھ تمہارا کوئی مرد بھائی یا ابا ساتھ ہوں کیونکہ آج کل بعض پارکوں میں بعض وقتوں میںاچھے لوگ نہیں آتے بعض غلط قسم کے لوگ آ جاتے ہیں ۔ تو اس لیے بہتر ہوتا ہے کہ مرد بھی ساتھ ہو۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ کیا ہم باہر مانگنے والوں کو پیسے دے سکتے ہیں جبکہ ہمیں یہ علم نہیں ہوتا کہ کیا وہ واقعی غریب ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ ان یورپین ممالک میں بعض نشے کرنے والے بھی مانگتے ہیں۔ بیٹھے پیسے مانگتے ہیں کہ ہم addictedہیں، نشہ ،سموکنگ کرنی ہے یا شراب پینی ہے۔ بہانہ یہی کرتے ہیں ہم بھوکے مر گئے ہمیں پیسے دے دو اور جا کے شراب پی لیتے ہیں یا نشہ کر لیتے ہیں۔ بہرحال جو بھی تمہارے سے مانگتا ہے تم اگردیکھو کہ غریب ہے اور تمہارا اس کو پیسے دینے کا دل چاہتا ہے تو بے شک دے دو۔ لیکن زیادہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ جوcharitiesہیں ان کو پیسے دو۔عیسائیوں کی چیریٹیز بھی ہیں جن میں جماعت ان کو دیتی ہے۔ ہیومینٹی فرسٹ، خدام الاحمدیہ ،انصار اللہ یاجماعتی طور پر بھی ہم دنیا کی دوسری چیریٹیز کو پیسے دیتے ہیں تا کہ وہ غریبوں پر خرچ کر سکیں۔ان کو پتا ہوتا ہے کہ ہم نے کہاں خرچ کرنا ہے۔بچوں کی تعلیم پہ ،کھاناکھلانے پہ یا لوگوں کے علاج کرانے پہ خرچ کرنا ہے۔اس لیے ہم ان چیریٹیز کو بھی رقم دے دیتے ہیں ۔لیکن اگر کوئی شخص انفرادی طور پر بھی تم سے مانگے تو ہماری یہی تعلیم ہے کہ اس کو نہ دھتکارو،کچھ دے دو چاہے تھوڑا دو۔ اگر نہیں دیناتو پھر سلام کر کے آ جاؤ لیکن ڈانٹو نہ،کیا پتا وہ ضرورتمند ہے یا نہیں کیونکہ ہم دل کا حال تو نہیں جانتے۔ تمہارا دینے کو دل چاہتا ہے تو دے دو۔کیا پتا وہ غریب ہی ہو ،تم اس کو امیر سمجھتی ہو اوراللہ میاں کو یہ پسند نہیں کہ ہم کسی کوانکار کریں۔ مانگنے والے کو دے دینا چاہیے یہی اللہ تعالیٰ کہتا ہے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ ’مقام محمود‘سے کیا مراد ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ ایک بلند مقام ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ نیک اعمال بجا لائے، اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ اسے نیک اعمال بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور مقام محمود حاصل کرنے کی توفیق دے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ اگر کوئی نماز ادا کرنا بھول جائے تو کیا کیا جائے؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ کیا تم کبھی کھانا کھانا بھولی ہو یا کبھی سکول جانے سے پہلے ناشتہ کرنا بھولی ہو؟اگر اللہ تعالیٰ سے محبت ہو تو نماز ادا کرنی نہیں بھولنی چاہیے۔اگر کوئی کام یا سکول سے دیر سے گھر آنے کی وجہ سے نماز پڑھنی بھول جائے اور اگلی نماز سے پہلے اسے یاد آ جائے تو وہ نماز ادا کرے لیکن اس بات کا خیال رکھے کہ ممنوع اوقات نہ ہوں۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ آنحضرتﷺ کا جائےنماز کیسا ہوتا تھا؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ابتدائی زمانے میں مسجد نبوی میں چھت نہیں ہوا کرتی تھی۔ جب مسلمان سجدہ کرتے تو بارش کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر کیچڑ کے نشان ہوتے کیونکہ وہ زمین پر ہی سجدہ کرتےتھے۔پھر مسلمان کھجور کے پتوں سے میٹ بناتے جو نماز کے لیے بھی اور سونے کے لیے بطور بستر استعمال ہوتے۔
ایک مرتبہ آنحضرتﷺ آرام فرما کراٹھے تو حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ کھجور کے پتوں کے نشان آنحضرتﷺ کی کمر پر موجود تھے۔پس اس وقت کھجورکے پتے سے بنےہوئے میٹ کو ہی بطور جائے نماز استعمال کیا جاتا تھا۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف سیارے کیوں بنائے ہیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اللہ کی مرضی ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پین آ جاتا ہے تم لکیریں کھینچتی رہتی ہو۔ تمہاری مرضی ہوتی ہے تو بناتی ہو۔ کبھی گول دائرہ کھینچ لیا،کبھی squareبنالیا،کبھی triangleبنا لیا۔ تمہاری مرضی تم بناتی رہتی ہو تو اللہ تعالیٰ ہر چیز کا بادشاہ ہے،اس کی مرضی ہے جو مرضی بنائے۔
اللہ تعالیٰ کہتا ہے جو بھی میں نے کائنات میں پیدا کیا ہے فضول نہیں پیدا کیا۔ ہر چیز کا ایک مقصد ہے اور ہر سیارے کا ایک مقصد ہے۔اسی کی وجہ سے ہماری کائنات اور کشش ثقل بھی قائم ہے۔ہر سیارے کا فائدہ دوسرے سیارے کو ہو رہا ہوتا ہے اور ان کا زمین پہ بھی اور آبادیوں پہ بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سیارےاس لیے بنائے ہیں تا کہ ایک ایسا نظام بنا دے جو ہمارے فائدے کے لیے ہو ۔ اللہ تعالیٰ بادشاہ ہے اس کی قدرت کا بھی پتا لگے۔
دنیا کو بھی یہ آہستہ آہستہ معلوم ہو رہا ہے۔سائنٹسٹ ریسرچ کرتے جاتے ہیں ۔تم بڑی ہو گی توتمہیں بھی پتا لگ جائے گاکہ کس سیارے کا کیا مقصد ہے اور کتنے فائدے ہو رہے ہیں۔بےشمار ستارے ہیں۔ایک تو بڑے بڑے planets ہیں ان کا اپنا ایک بڑاسولر سسٹم ہے ۔اس کے علاوہ بےشمار چھوٹے چھوٹے ستارے جو ہمیں دور سےنظر آتے ہیں ان کا بھی ایک مقصد ہے اور ان کاا نسانی زندگی پہ اثر بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک لمبا مضمون ہے لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بھی نشان ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے فائدے کے لیے بنائے ہیں۔
سیکرٹری صاحبہ ناصرات کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انور نے استفسار فرمایاکہ کیا بچوں کو اردو سکھانے کے حوالے سے کام کیا ہے ؟
اس پر سیکرٹری صاحبہ نے عرض کی کہ واقفات نو کے لیے انتظام ہے جس میں ہم انشاء اللہ ناصرات کو بھی شامل کریں گے۔
حضور انورنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں اردو میں بتایا کریں پھر اس کا ترجمہ کیا کریں۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا کہ چلو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔