الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم قریشی محمد اسلم صاحب آف کسراں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 10؍اکتوبر 2013ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکر م مدثر احمد صاحب نے اپنے والد محترم لیفٹیننٹ ریٹائرڈ قریشی محمد اسلم صاحب آف کسراں (اٹک)کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
محترم قریشی محمد اسلم صاحب کا تعلق پونچھ (کشمیر) کی ایک نمبردار فیملی سے تھا جو بااثر بھی تھی اور اہلِ حدیث فرقہ سے تعلق رکھنے کی بِنا پر ایک مذہبی گھرانہ کہلاتا تھا۔ 1930ء سے 1934ء تک حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے کی تبلیغ اور دعائوں کے نتیجے میں اس خاندان کے اکثر احباب نے احمدیت قبول کر لی۔لیکن محترم سردار کالا خان صاحب کافی دیر تک بحث مباحثہ کرتے رہے اور آخر ایک خواب دیکھنے کے بعدوہ کشمیر سے قادیان تک پیدل سفر کرکے گئے اور حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوگئے۔ آپ کی اہلیہ پہلے ہی اپنے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے ہمراہ احمدیت قبول کر چکی تھیں۔ پھر ان کے ہاں 15؍اپریل 1940ء کو محترم قریشی محمد اسلم صاحب کی پیدائش ہوئی۔
محترم قریشی صاحب بچپن سے ہی نیک فطرت،حلیم، بہادر اور ذہین تھے۔ ابتدائی تعلیم پونچھ میں حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد سارا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور اٹک کے ایک گائوں کسراں میں 1950ء میں آباد ہوگیا جہاں انہیں زمین الاٹ کی گئی تھی۔
کسراں میں صرف پرائمری سکول تھا۔ چنانچہ قریشی صاحب کو روزانہ پیدل چل کر چھ کلومیٹر دُور ہائی سکول میں جانا پڑتا۔ بہرحال اعلیٰ پوزیشن میں میٹرک پاس کرکے 1960ء میں آپ نےپاکستان ایئر فورس میں ملازمت اختیار کرلی اور کراچی منتقل ہو گئے۔ اسی دوران اپنے ہی خاندان میں محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ سے آپ کی شادی ہوگئی جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطا فرمائیں۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے ایک نواحمدی خاتون سے دوسری شادی کی جن سے اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں عطا کیں۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران آپ کی بہادری اورقابلیت کی وجہ سے آپ کو کئی تمغوں سے نوازاگیا اورآپ کے سینئر آفیسرز نے آپ کو پاک آرمی کمیشن کے امتحان میں بیٹھنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ آپ نے ایف اے کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان آرمی کمیشن کا امتحان پاس کیا اور کاکول اکیڈمی (ایبٹ آباد) میں ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد AK رجمنٹ میں بطور لیفٹیننٹ ذمہ داری سنبھالی۔
آپ کی خداداد ذہانت اور اخلاص سے جہاں آپ کے بہت سے آفیسرز خوش تھے وہاں احمدیت کی وجہ سے چندشدید مخالف بھی تھے۔ جب آپ نے جان کا خطرہ محسوس کیا تو 1970ء میں ریٹائرمنٹ لے لی۔ پھر کچھ عرصہ سندھ میں واقع محترم شاہنواز صاحب کے باغات اور زمینوں کی دیکھ بھال پر بطور انچارج مامور رہے۔ بعدازاں ایک احمدی دوست کے ساتھ مل کر تعمیراتی کمپنی بنائی اور لمبا عرصہ سرکاری منصوبوں کے ٹھیکے لیتے رہے۔
آپ کی دوسری اہلیہ فوج کے طبّی شعبے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک موقع پر اُن کی تقرری سعودی عرب میں ہوئی تو 1984ء میں آپ کو بھی سرکاری طور پر وہاں جانے اور معجزانہ طور پرحج کرنے کی سعادت ملی۔ جب آپ اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ہمراہ سعودی عرب سے واپس پاکستان پہنچے تو ضیاءالحق کا آرڈیننس نافذ ہوچکا تھا۔ آپ کی دوسری اہلیہ کے غیراحمدی رشتہ داروں نے ایک مولوی کو ساتھ ملاکر آپ کی فیملی کے خلاف اتنا اشتعال پھیلایا کہ آپ کی اہلیہ جو فوج کی سرکاری ملازمت میں تھیں، انہوں نے بھی خوف زدہ ہو کر ایک جرگہ نما مجمع میں احمدیت چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ اس پر مخالفین نے اٹک شہر کے ایک مولوی کی قیادت میں آپ سے بھی مطالبہ کیا کہ ہماری مسجد میں جا کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں۔ آپ نے نہایت دلیری سے جواب دیا کہ الحمدللہ میں مسلمان ہوں مگر مَیں یہ اعلان آپ کی مسجدمیں جا کر نہیں کروں گا کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ وہاں آپ مجھ سے کن باتوں کا انکار کروانا چاہتے ہیں۔ پھر آپ نے بڑی بہادری سے وہاں یہ اعلان کیا کہ میں احمدی تھا، احمدی ہوں اور احمدی ہی رہوں گا۔ انشاء اللہ
اس پر اُس مولوی نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور آپ سے کہا کہ چونکہ آپ کی اہلیہ اب مسلمان ہو چکی ہیں اس لیے اب آپ کا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ اس موقع پر آپ کی اہلیہ نے یہ بھی کہا کہ بچے بھی منحرف ہو گئے ہیں اور وہ اپنی والدہ کے پاس ہی رہنا چاہتے ہیں۔ اس پر آپ خاموشی سے سب کچھ چھوڑ کر واپس آگئے اور اٹک شہر کا اپنا گھر اور اس میں موجود سارا سامان انہیں دے دیا اور پھر ساری زندگی اُن سے کوئی تعلق رکھا اور نہ کبھی ان کا ذکر کیا۔یہ واقعہ اخبارات میں بھی شائع ہوا اور کچھ عرصے تک آپ کے خلاف رسالہ ’’ختم نبوت‘‘ میں دھمکیوں بھرے آرٹیکلز کی مہم چلتی رہی۔ بہرحال آپ نے نہایت استقامت سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور اپنے ایمان میں لغزش نہیں آنے دی۔
1988ء میں آپ نے شاہ تاج شوگر ملزمنڈی بہائوالدین میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر ساری توجہ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کر دی۔ 1998ء میں آپ کو جماعت احمدیہ کسراں ضلع اٹک کا صدر جماعت مقرر کردیا گیا اور بڑے مشکل حالات میں آپ یہ ذمہ داری ادا کرتے رہے۔
آپ ایک اچھے مقرر، شاعر اور مضمون نویس بھی تھے۔ آپ کے مضامین الفضل میں بھی شائع ہوتے رہے۔
ملازمت سے فراغت کے بعد آپ کے معاشی حالات کافی خراب ہوگئے تھے۔ اسی دوران آپ کو ایک غیراحمدی رشتہ دار کے ذریعے دھوکا دے کر ایک نہایت قیمتی زمین کے فراڈ میں ملوّث کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ آپ کے صدر ہونے کی بنا پرمقامی جماعت کے خلاف بنائی گئی ایک خطرناک سازش تھی جسے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اور آپ کی فراست سے ناکام بنا دیا۔
آپ بہت بہادر مشہور تھے لیکن دین کے نام پر تو آپ کی جرأت ناقابلِ بیان تھی۔ ضیاءالحق کے دَور میں گاؤں کے کچھ احمدیوں کے نام پر دھمکی آمیز خطوط آنے لگے جن میں حضرت مسیح موعودؑ کے لیے غلیظ زبان استعمال کی جاتی تھی۔ ایک دن جب یہ خط میرے نام آیا تو میں گھر میں موجود نہیں تھا اور یہ خط آپ کے ہاتھ لگ گیا۔ آپ نے حضرت مسیح موعوؑدکے متعلق ایسی گندی تحریر پڑھی تو غصہ سے بےچین ہوکر اکیلے ہی ڈاک خانہ میں چلے گئے جہاں چند مخالف نوجوان بیٹھے ایسے خط لکھ بھی رہے تھے۔ آپ نے ان سب کو للکارا اور ان کے سامنے وہ تمام خط پھاڑ دیے۔ وہ لڑکے تو وہاں سے بھاگ گئے لیکن ڈاک خانے کے مینیجر نے آپ سے معذرت کی اور اس طرح یہ سلسلہ بند ہوگیا۔
آپ کو خلافت سے جنون کی حد تک محبت تھی۔ ربوہ میں آپ نے ایک شخص سےپچاس ہزار روپے لینے تھے کہ اچانک اس کو کسی جماعتی نافرمانی پر اخراج از نظام جماعت کی سزا ہوگئی۔ آپ نے جاکر اُسے سمجھایا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرے اور حضور سے فوراً معافی مانگے مگر وہ غلطی پر مُصر رہا۔ چنانچہ آپ اس سے ناراض ہو کر واپس آ گئے اور دوبارہ پیسے کی خاطر بھی کبھی اس سے رابطہ نہیں کیا۔
آپ کی صدارت کے دَور میں ایک بار گائوں کی دیواروں پر احمدیت اور حضرت مسیح موعوؑدکے خلاف کچھ گندی تحریریں مخالفین نے رات کے وقت لکھ دیں۔ آپ کو صبح جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اُن کی تصاویر اُترواکر تھانے دار کو بلالیا اور اسے یہ فوٹو دکھا کر نہایت احسن رنگ میں بات سمجھائی کہ اس طرح امن برباد ہوسکتا ہے۔ تھانے دار نے ان تحریروں کو مٹانے کے لیے رنگ و روغن کے لیے کچھ رقم اور چند احمدی خدام کی مدد مانگی۔آپ نے رقم تو اسی وقت اپنی جیب سے ادا کردی مگر کمال حکمت سے احمدی خدام کی بجا ئے ایک مخالف کا نام تحریریں مٹانے کے لیے پیش کیا۔ چنانچہ پولیس نے اُس مخالف سے وہ تمام تحریریں مٹوائیں اور پھر گاؤں کی مساجد سے آئندہ ایسی حرکت کرنے والوں کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے اعلانات بھی کروادیے۔ چنانچہ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ رُک گیا۔
آپ کہا کرتے تھے کہ آسائش کے وقت ادا کی ہوئی نماز اور مشکلات کے وقت ادا کیا ہوا چندہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لازماً قبول ہوتا ہے۔ آپ اللہ کے فضل سے موصی تھے اور اپنی اور اپنی اہلیہ کی تمام جائیداد کا حصہ آپ نے اپنی زندگی میں ادا کردیا اور حصہ آمد کے علاوہ باقی تمام چندے بھی سال کے پہلے دن ادا کرتے۔ چندہ تحریک جدید کی مد میں ہمیشہ سے آنحضرتﷺ، حضرت مسیح موعودؑ، خلفائے راشدین، خلفائے احمدیت اور اپنے والدین کے نام کا چندہ جاری کیا ہوا تھا جو نئے سال کا اعلان ہوتے ہی ادا کردیتے۔ اپنے پیدائشی احمدی ہونے پر اللہ تعالیٰ اور اپنے بزرگوں کا شکرگزار ہوتے اوراسی و جہ سے ہمیشہ ان کے نام کے ساتھ صدقات اور چندہ جات ادا کرتے تھے۔
آپ کو چندے کی برکت کا اس قدر یقین تھا کہ اپنی پنشن میں مناسب اضافہ خود لگا کر اس اضافے کے ساتھ چندہ سال کے شروع میں ادا کردیتے۔ ہمیں ملکی بجٹ سے قبل ہی بتا دیتے کہ ان شاءاللہ اس مرتبہ میری پنشن میں اتنا اضافہ ضرور ہو گا اور جب بجٹ پیش ہوتا تو ہر سال آپ کی پنشن میں اتنا ہی اضافہ ہو جاتا۔ ایک دفعہ یہ اضافہ آپ کے اندازے سے کم ہوا تو کچھ بے چین ہوئے اور کہا کہ شاید اس دفعہ چندے میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ لیکن ہمیں حیرت تب ہوئی جب آپ کے نام بنک کی طرف سے اضافے کا خط موصول ہوا تو اس میں رقم آپ کے اندازے کے مطابق لکھی تھی۔
ایک دفعہ آپ نے اپنے پوتے اور میرے بیٹے کے لیے کچھ رقم جمع کی تو مجھے کہنے لگے کہ ’’میرا خیال تھا کہ کسی بنک میں اس بچے کے نام یہ رقم محفوظ کردوں جو اس کے بالغ ہونے پر اسے ملے پس میں نے آج یہ ساری رقم چندے میں دے کر اس کے لیے محفوظ کر دی ہے۔‘‘ آپ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہتے کہ سال کے شروع میں چندہ دے کر پورا سال اس کی برکات سے فائدہ اٹھایا کرو اور خود بھی اس پر یوں عمل کرتے کہ آپ کی وفات پر جب وصیت کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو پتا چلا کہ آپ نے اگلے سال کا چندہ بھی ادا کیا ہوا ہے۔
2000ء میں آپ اور خاکسار پر ایک جھوٹامقدمہ بنا دیا گیا جو احمدیت سے منحرف ہونے والے آپ کے بہت قریبی رشتہ دار کی طرف سے تھا۔ ان دنوں ہمارے نہ صرف گھریلو معاشی حالات خراب تھے بلکہ مخالف رشتہ داروں کی طرف سے بھی سخت قسم کی پریشانیوں کا سامنا تھا۔ آپ صدر جماعت تھے اس لیے مقامی جماعت میں بھی خاصی بے چینی پیدا ہوئی۔ چنانچہ ایک مرکزی وفد نے آکر تحقیق کی اور مقامی حالات کے پس منظر میں آپ کو ربوہ شفٹ ہونے کا دوستانہ مشورہ بھی دیا۔ اُن دنوں ہماری ساری فیملی باجماعت نماز تہجد ادا کیا کرتی تھی۔ رات کے آخری پہر آپ کے سجدوں میں سے صرف مدھم سسکیوں کی آواز سنائی دیتی تھی۔ دورانِ نمازآپ دعائوں میں حضرت مسیح موعودؑ کے اردو اشعار بھی اونچی آواز میں پڑھتے خاص کر یہ شعر ؎
کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے
کیا مرے دلدار تُو آئے گا مر جانے کے دن
الغرض جھوٹے مقدمے کے معاملات کسی حد تک نپٹانے اور بہت دعا ئوں کے بعد آپ نے کسراں سے ربوہ شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا جو یقیناً ایک مشکل فیصلہ تھا۔ آپ نے اس دن اپنی پوری فیملی کو اکٹھا کیا اور کہا کہ دیکھو تم سب کی بہتری کے لیے میں نے آج ربوہ شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے، وہاں تم نے ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان بنانا ہے۔ مَیں تمہیں قبل از وقت بتاتا ہوں کہ ربوہ تمہیں خوب آزمائے گا اور شروع میں طرح طرح کی مشکلات تم پر آئیں گی لیکن یاد رکھنا کہ ہمت نہیں ہارنی۔ خوب دعائیں کرنا اور میری طرف سے تمہیں اپنی بہتری کے لیے ربوہ سے آگے جانے کی اجازت تو ہے لیکن واپس گائوں آنے کی نہیں۔
پھر آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چند دعائوں کو دہراتے ہوئے انہی کے سائے میں ہمیں ہمراہ لیا اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر نومبر2000ء میں ربوہ شفٹ ہو گئے۔
واقعۃً پہلے چار سال سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ ہمیں مخاطب کر کے کہتے کہ اللہ کی مدد اور نصرت اب بہت قریب ہے اور میری اولادکو اللہ تعالیٰ بہت جلد دین و دنیا کی بے شمار نعمتوں سے نوازنے والا ہے، بس تم سب دین و خلافت کا پلو پکڑے رکھو۔ الحمدللہ کہ خلیفہ وقت اور ہمارے والدین کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اوردنیا کی ہر نعمت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی۔ بیٹوں اور بیٹیوں کے رشتوں کے نتیجے میں ہمدرد ، مخلص اور نہایت پیار کرنے والے نئے رشتہ دار آپ کو نصیب ہوئے۔ آپ کی اکثر اولاد دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل گئی۔ اور واقعۃً آپ عبدشکور بن گئے۔
آپ کو چلتے پھرتے اور دوران سفر گاڑی میں ہروقت درود شریف اور عربی دعائوں کا ورد کرنے کی عادت تھی۔ آپ کی دعائیں کثرت سے قبول ہوتیں اور قبل از وقت خبر بھی مل جاتی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوایک ذاتی شیروانی بھی تحفۃً بھجوائی۔ آپ نے اظہار تشکر میں صدقات دیے اور اسے خصوصی دعا کے وقت استعمال کرنے کو کہا۔
خلافت جوبلی 2008ء کے دوران خاکسار پر رمضان کیلنڈر پر عہد ِوفاخلافت لکھنے پر ایک مقدمہ بنا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً ایک ماہ تک اسیرراہ مولیٰ رہنے کا اعزاز ملا۔ جب ہمیں جیل میں لے جایا جا رہا تھا تو آپ نے بہت حوصلے سے مجھے الوداع کیا اور جاتے ہوئے مجھے دعائیہ خزائن کی کتاب دی جس کا ہم اسیران کو بےحد فائدہ ہوا۔ آپ کی اکثر دعائوں کی قبولیت کے ہم سب گواہ بھی ہیں۔ آپ ہمیں توجہ دلانے کے لیے اکثر کہتے کہ میں نے اپنے خدا کو منانے میں چالیس دن سے زائد عرصہ کبھی نہیں لگایا۔
یومِ وفات تک آپ ایک تندرست انسان تھے اور آپ کی صحت کافی اچھی تھی لیکن کچھ عرصہ سے آپ ہمیں اپنی وفات کے متعلق کچھ خوابیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اشارے بتاتے رہتے تھے۔ پچھلے سال خاکسار کے چھوٹے بھائی مقیم امریکہ نے آپ اور والدہ صاحبہ کو امریکہ سپانسر کرنے کی درخواست جمع کروائی تو کہنے لگے کہ میرے کاغذات کہیں اَور جمع ہو گئے ہیں، ویسے بھی مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت قربانیوں کے بعد ربوہ عطا کیا ہے، مَیں ربوہ سے باہر کہیں نہیں جائوں گا۔لیکن اپنی اہلیہ کو امریکہ جانے کی اجازت دے دی۔ اسی طرح جن رشتہ داروں کے ساتھ مذہبی یا خاندانی اختلافات کی وجہ سے عرصہ دراز سے تعلقات خراب تھے ، وفات سے ایک ہفتہ قبل آپ ان سب کو ملنے گئے اور ان میں سے چند ایک کی کچھ مالی امداد بھی کی اور کچھ مریضوں کے علاج اور جسمانی تکلیف دُور کرنے کا بہتر بندوبست کیا ،آپ نے خاندانی دشمنی اور پرانے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر ایک کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کی اور ہمیں بھی ان کی بھرپور مدد کرنے کی تلقین کی۔
20؍اگست 2012ء کو عیدالفطر تھی۔ آپ نئے کپڑے پہن کر عید کی نماز ادا کرنے کے بعد گھر والوں سے عید ملے اور سب سے مخاطب ہو کرمسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ آج تین فرشتے مجھے لینے آ رہے ہیں۔ اس کے بعد اپنی چھوٹی بیٹی کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا تم مجھ پر خوش ہو تو وہ بولی کہ ابو میں آپ پر خوش ہوں ،کیا ہوا ہے؟ آپ مسکرائے اور بولے کہ اب مجھے کوئی ڈر نہیں۔ پھر اپنی ساڑھے تین سالہ پوتی کو پیار سے بلایا جس کے ہاتھ میں کیمرہ تھا۔ اُسے کہا کہ میری ایک تصویر بنائو جو اس نے اسی وقت بنالی جو اتفاق سے بہت اچھی بنی۔ اُس روز خاکسار نے بذریعہ فون آپ کو عید مبارک کہا۔ آپ نے مختصر سی گفتگو کرنے کے بعد مجھے کہا سب بچوں کو میری طرف سے عید مبارک اور السلام علیکم۔ یہ کہہ کر ساتھ ہی اللہ حافظ کہا اور کال بند کر دی۔ دس منٹ کے بعد یہ اطلاع ملی کہ آپ دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے ہیں۔
وفات کے وقت آپ کی عمر72 سال تھی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔
………٭………٭………٭………
نیلسن رولی ہلاہلا منڈیلا
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 11؍دسمبر 2013ء میں مکرم عطاءالوحید باجوہ صاحب کے قلم سے انسانی حقوق کے عظیم لیڈر نیلسن رولی ہلاہلامنڈیلا (Nelson Rolihlahla Mandela) کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
نیلسن منڈیلا 18؍جولائی1918ء کو جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے اور اپنے ملک کے پہلے سیاہ فام جمہوری منتخب صدر بنے۔ ان کا دور صدارت 1994ء تا 1999ء تھا۔ اس دوران انہوں نے جنوبی افریقہ کو ایک نیا آئین بھی دیا۔
نیلسن منڈیلا قانون کے طالب علم تھے اور ایک وکیل کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں سے برتے جانے والے نسلی امتیاز کے خلاف تحریک میں حصہ لینے پر انہوں نے قیدبامشقّت بھی کاٹی۔ وہ مجموعی طور پر قریباً ستائیس سال پابند سلاسل رہے۔ 11؍فروری1990ءکو شدید بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں اُن کی رہائی عمل میں آئی۔ پھر انہوں نے تحریک کو خیرباد کہتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اپنایا اور اپنے ملک میں ہونے والے نسلی امتیاز کے مسئلے کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
1991ء سے 1997ء تک وہ افریقی نیشنل کانگریس کے صدر بھی رہے۔ جنوبی افریقہ میں اُن کو قوم کے باپ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 1999ء میں صدارت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے سیاست کو خیرباد کہا اور ’نیلسن منڈیلا فاؤنڈیشن‘ قائم کی جس کا مقصد ایڈز کے بارے میں آگاہی دینا، غیرترقی یافتہ علاقوں کی بہبود اور سکولوں کا قیام تھا۔ اس مقصد کے لیے عطیات اکٹھے کرنے کے لیے 2000ء میں ایک گولف ٹورنامنٹ کی بنیاد رکھی۔ نیلسن منڈیلا کو اُن کی خدمات کے اعتراف میں اڑہائی صد سے زیادہ انعامات سے نوازا گیا جن میں 1993ء میں نوبیل انعام برائے امن بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کا صدارتی تمغہ امتیاز برائے آزادی اور سوویت آرڈر آف لینن بھی دیے گئے۔
2003ء میں منڈیلا نے آکسفورڈ میں ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد افریقن کو پوسٹ گریجوایٹ ڈگریاں دینا تھا۔ کئی دیگر ادارے بھی قائم کیے اور بہت سی فلاحی تحریکوں کی قیادت اور راہنمائی بھی کی۔ انہوں نے افریقہ کے لیے مالی مدد کے حصول کے لیے ایک ٹرسٹ بھی قائم کیا۔
2008ء میں اُن کی 90ویں سالگرہ کئی ممالک میں منائی گئی۔ نومبر 2009ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا بھر میں امن و آزادی کے لیے کی جانے والی اُن کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال 18؍جولائی کو ’’یوم منڈیلا‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
دنیا کا یہ عظیم شخص 5؍دسمبر 2013ء کو 95سال کی عمر میں اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گیا۔
=================
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 16؍دسمبر 2013ء میں مکرم فضیل عیاض احمد صاحب نے نیلسن منڈیلا کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے صوبہ Cape کے ایک گاؤں مویزو (Mvezo) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق Xhosa قبیلے سے تھا۔ جب سکول میں داخل ہوئے تو سکول ٹیچر نے انگریزی نام نیلسن دیا۔ سکول میں داخل ہونے والے آپ اپنے خاندان کے پہلے بچے تھے۔ گو آپ نے وکالت میں ڈگری لی لیکن سماجی اور سیاسی راہنما کے طور پر شہرت پائی۔
1948ء میں جنوبی افریقہ میں نسل پرست نیشنل پارٹی کی پہلی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد نسل پرستی کے سیاہ قانون لاگو کیے گئے اور سیاہ فاموں سے اُن کی سرزمین پر انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا حق چھین لیا گیا، انتخابات میں ووٹ دینے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ اُن کو صرف مقررہ علاقوں میں رہنے کی اجازت تھی، سیاہ فاموں کی مختلف نسلوں کے درمیان شادی کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
1912ء میں سیاہ فام افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے افریقی نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ 1942ء میں نیلسن منڈیلا اس تنظیم کے رُکن بن گئے۔ 1955ء میں انہوں نے اس کے فریڈم چارٹر میں لکھا کہ جنوبی افریقہ اُن تمام لوگوں کا ہے جو یہاں رہتے ہیں، سیاہ فام ہوں یا سفید فام، کوئی بھی اُس وقت تک حکومت کرنے کا حق نہیں رکھتا جب تک کہ وہ تمام لوگوں کے حقوق کی پاسبانی کا وعدہ نہ کرے۔ ایک سال بعد نیلسن منڈیلا سمیت 156کارکنوں کو غداری کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ 1960ء میں سیاہ فام مظاہرین پر گولیاں برساکر 69افراد ہلاک کردیے گئے۔اس قتل عام کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں سیاسی کارکنوں کو بغیر مقدمے کے جیل بھیج دیا گیا جن میں منڈیلا بھی شامل تھے۔ 1964ء میں بدامنی کے الزام میں انہیں عمرقید کی سزا ہوئی۔
اگرچہ دنیا کی سفید فام حکومتیں کھل کر جنوبی افریقہ کی سفید فام حکومت کے خلاف کارروائی نہ کرتی تھیں لیکن دنیا میں نسل پرستی کے خلاف جاری تحریک نے بتدریج جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ فروری 1990ء میں منڈیلا کو رہا کردے۔ 1994ء میں وہ ملک کے صدر منتخب ہوئے تو ملک سے نسل پرستی کا خاتمہ کرکے ایک ایسی جمہوریت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی جس میں سارے نسلی، مذہبی اور لسانی گروہوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔
نیلسن منڈیلا کی فکر اور شخصیت پر بہت کام ہورہا ہے۔ 5؍دسمبر 2013ء کو اُن کی وفات ہوئی۔ اُن کی اہلیہ گریشامچل پہلے ہی وفات پاچکی تھیں۔ ان کے پانچ بچے ہیں۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 14؍فروری 2014ء میں مکرم ڈاکٹر طارق احمد مرزا صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
خدا نے کہہ دیا ’اِنِّیْ مَعَکَ‘
فرشتے کر رہے ہیں صاف راہیں
وہ ’مسرور‘ آگے بڑھتا جا رہا ہے
جلَو میں ہیں ملائک کی سِپاہیں
وہ بولے جب دفاعِ دینِ حق میں
عدُو ہوں دَم بخود ، اپنے سراہیں
عجب مشکل سی یارو آ پڑی ہے
اُسے لکھیں، اُسے دیکھیں یا چاہیں
بھرے خلوت میں جلوے ایم ٹی اے نے
مکانوں میں سجی ہیں جلسہ گاہیں
ملی توفیق تجدیدِ وفا کی
دعا ہے عہدِ بیعت بھی نباہیں
ہمارا چاہنا ، نہ چاہنا کیا
ہمیں منظور وہ ، جو آپ چاہیں
یہ دنیا پُرخطر وحشت سرا ہے
خدا کے پاس ہیں ساری پناہیں
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ طارقؔ
قیامُ اللیل اور سجدوں کی آہیں
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 8؍جنوری 2014ء میں مکرم لئیق احمد عابد صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو جلسہ سالانہ ربوہ کی یادوں کے حوالے سے کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
عرفان کی بارش ہوتی تھی دن رات ہمارے ربوہ میں
اِک مرد مجاہد رہتا تھا دریا کے کنارے ربوہ میں
بہلاتے ہیں سہلاتے ہیں اِک نشہ سا دے جاتے ہیں
وہ دن جو دسمبر کے ہم نے مل جُل کر گزارے ربوہ میں
وہ دن کب آئیں گے مولا کب سرسوں ہوگی جوبن پر
کب چاند زمیں پر نکلے گا چمکیں گے ستارے ربوہ میں
پھر کان سنیں گے صلّ علیٰ اور نعروں سے گونجے گی فضا
پھر دیکھنے والے دیکھیں گے جنّت کے نظارے ربوہ میں
اے ابن مسیحا مانتا ہوں سب دنیا ہے بیمار پڑی
پر راہ تمہاری تکتے ہیں کچھ درد کے مارے ربوہ میں
تب پوہ کی ٹھنڈی راتوں کو سجدوں کی گرمی ملتی تھی
جب اُس کے در پہ جھکتے تھے ہم عابدؔ سارے ، ربوہ میں