احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
روزوں کا عظیم مجاہدہ
بندے کا اپنے خداسے قرب کاایک ذریعہ روزہ بھی ہے۔اور یہ اہمیت تمام مذاہب میں مسلّم ہے۔یہودونصاریٰ میں بھی روزوں کی اس اہمیت کوتسلیم کیاگیا۔اور اسلام نے تو روزہ کواس کی بہترین متوازن کیفیت میں پیش کیاہے۔ اور مذہبی دنیامیں یہ تسلیم شدہ امرہے کہ روحانی ترقیات اور روحانی قوتوں کوصیقل کرنے اور تنویرقلب کے لیے روزہ ایک اہم کرداراداکرتاہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام کہ جن کے شب وروز قرآن کریم کی تلاوت اور کثرت سے درودشریف و ذکرالٰہی کے ساتھ گزررہے تھے۔جبکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کے جذبہ سے سرشارمعمولات بھی آپؑ کی مصروفیات کاایک حصہ تھے۔ لیکن اب تقدیرخداوندی آپؑ کوحجلۂ گمنامی اور زاویۂ خمول سے باہرلانے کی تیاری کررہی تھی اور شرف مکالمہ ومخاطبہ کے زیورسے آراستہ کرنے کی گھڑیاں قریب آرہی تھیں۔أصلحہ اللہ کی مبارک گھڑی کاوقت آنے ہی والاتھا۔اور حضرت اقدسؑ کے والدصاحب کی وفات کازمانہ قریب ہی تھا کہ آپؑ کوروزوں کے ایک مجاہدہ کاحکم ہوا۔چنانچہ حضرت اقدسؑ اپنی سوانح مبارکہ تحریرفرماتے ہوئے لکھتے ہیں :’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ’’ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے‘‘۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں۔ سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نےپہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجز خداتعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی۔ پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام رات دن میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا۔ یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی۔ غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خداتعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا۔ اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ حسنین و علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا۔ اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش ودلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے۔ وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے۔
غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے۔ ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں۔ میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ ا گر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے۔ اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعّم پسند روحانی منازل کےلائق نہیں ہو سکتا۔‘‘
(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13 صفحہ 197تا200حاشیہ)
حضرت اقدسؑ کے روزوں کایہ معمول اور خاص مجاہدہ کم وبیش آٹھ یانوماہ تک جاری رہا۔ جیساکہ آپؑ نے مذکورہ بالاتحریرمیں فرمایا غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا۔
اسی طرح یہ بھی ایک قابل ذکرامرہے اور متعددباراس کااظہاراس کتاب میں بھی کیاگیاہے کہ اس عہدکے صوفیاء اورفقراء کی طرح کی ریاضتیں اورمجاہدات حضورؑ کے معمولات میں سے ہرگزنہ تھے۔ اور روزوں کایہ مجاہدہ ایک کشف صریح کی بنیادپراختیار کیا گیا۔ جیساکہ آپؑ اسی مذکورہ بالا کتاب میں فرماتے ہیں:’’میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوں کی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلہ کشی کی اور نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خداتعالیٰ کےکلام کو اعتراض ہو۔ بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروں اور بدعت شعار لوگوں سے بیزار رہا جو انواع اقسام کے بدعات میں مبتلا ہیں۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 196تا 197حاشیہ)
البتہ آپؑ نےایک اصولی راہنمائی ایسے لوگوں کے لیے فرمادی کہ جوطرح طرح کی عبادتوں اور ریاضتوں کاشوق رکھتے ہیں کہ خودسے کوئی مجاہدہ نہیں کرناچاہیے اور خودتراشیدہ وظائف اورریاضتیں اختیارکرنے سے بچناچاہیے کیونکہ ایسے مجاہدات جسمانی اور دماغی بیماریوں کاباعث بن جایاکرتے ہیں۔یہ راہنمائی اورمشورہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا۔ میں نے کئی جاہل درویش ایسے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے شدید ریاضتیں اختیار کیں اور آخریبوست دماغ سے وہ مجنون ہوگئے اور بقیہ عمر ان کی دیوانہ پن میں گذری یا دوسرے امراض سل اور دق وغیرہ میں مبتلا ہوگئے۔ انسانوں کے دماغی قویٰ ایک طرز کے نہیں ہیں۔ پس ایسے اشخاص جن کے فطرتاً قویٰ ضعیف ہیں ان کو کسی قسم کا جسمانی مجاہدہ موافق نہیں پڑ سکتا اور جلد تر کسی خطرناک بیماری میں پڑ جاتے ہیں۔ سو بہتر ہے کہ انسان اپنی نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے۔ ہاں اگر خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی الہام ہو اور شریعتِ غرّاء اسلام سے منافی نہ ہو تواس کو بجا لانا ضروری ہے لیکن آج کل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ پس ان سے پرہیز کرنا چاہیئے۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 200حاشیہ)
ہاں کوئی کہہ سکتاہے پھرحضورؑ نے خودکیوں یہ مجاہدہ کیاتواس کاجواب بھی خودہی دے دیاکہ میں نے بھی ازخودیہ عمل نہیں کیابلکہ’’ یاد رہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجا لانا چھوڑ دیا۔ اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13صفحہ 200حاشیہ)آپؑ کی اس مذکورہ بالاتحریرسے یہ اندازہ ہوتاہے کہ آپؑ نے مستقل طور پرایسامجاہدہ تو نہیں کیالیکن کبھی کبھی آپؑ نے کچھ مسلسل روزے رکھنے کی عبادت کی ہے۔ جیساکہ ایک اور مشہورواقعہ ہوشیارپورکی چلہ کشی کی عبادت ہے اور وہ بھی الہام صریح کی بنیادپرتھی جس کی تفصیل متعلقہ سال میں آئے گی۔
تجلیات الٰہیہ کے اس اسراءِ روحانی کے بارےمیں آپؑ کی یہ تحریرعجیب پرلطف اور ایمان افروزہے۔جس میں آپؑ فرماتے ہیں:’’اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ ﷺکو معہ حسنین و علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا۔ اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 198حاشیہ)حضرت اقدسؑ نے اپنی مختلف تحریرات میں اس زمانہ کے کچھ کشوف کاذکربھی فرمایاہے اگران کاذکریہاں ہوجائے تو کچھ اندازہ ہوسکتاہے کہ گذشتہ انبیاء اور اولیاء میں سے جن کوکشفی طورپردیکھاہوگا وہ کون کون سے ہوسکتے ہیں۔ہرچندکہ خاکسارکایہ گمان ہے کہ حضرت اقدسؑ نے نہ تو وہ سارے کشوف بیان فرمائے ہیں اور جوبیان فرمائے بھی ہیں ضروری نہیں کہ وہ سارے تحریری صورت میں ہمارے سامنے ہوں۔بہرحال حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات سے کچھ تفصیل ہم معلوم کرسکتے ہیں۔مثلاًحضرت بابانانک رحمۃ اللہ علیہ کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’تیس(30) برس کا عرصہ ہوا کہ مجھے صاف صاف مکاشفات کے ذریعہ سے اُن کے حالات دریافت ہوئے تھے۔ اگر میں جزماً کہوں تو شاید غلطی ہو۔ مگر میں نے اُسی زمانہ میں ایک دفعہ عالمِ کشف میں اُن سے ملاقات کی۔ یا کوئی ایسی صورتیں تھیں جو ملاقات سے مشابہ تھیں۔ چونکہ زمانہ بہت گذر گیا ہے۔ اس لئے اصل صورت اُس کشف کی میرے ذہن سے فرو ہوگئی ہے۔‘‘(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 141حاشیہ)
(باقی آئندہ)