مسئلہ ظل وبروز کی حقیقت (قسط3)
(گذشتہ سے پیوستہ )فرمایا کہ’’اگر یہی بات سچ ہے کہ مخاطبت کے وقت وہی لوگ مُراد ہوتے ہیں جو موجودہ زمانہ میں بحیثیت ایمانداری زندہ موجود ہوں تو ایسا تجویز کرنے سے سارا قرآن زیرو زبر ہو جائے گا۔ مثلًا اسی آیت موصوفہ بالا کے مشابہ قرآن کریم میں ایک اور آیت بھی ہے جس میں اسی طرح بظاہر الفاظ وہ لوگ مخاطب ہیں جو حضرت موسیٰ پر ایمان لائے تھے اوراس وقت زندہ موجود تھے بلکہ ان آیات میں تو اس بات پر نہایت قوی قرائن موجود ہیں کہ درحقیقت وہی مخاطب کئے گئے ہیں اوروہ آیات یہ ہیں سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَنَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡۚ وَاِنَّا فَوۡقَہُمۡ قٰہِرُوۡن قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہِ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِاللّٰہِ وَاصۡبِرُوۡاۚ اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلّٰہِ ۟ۙ یُوۡرِثُہَا مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَالۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ۔ قَالُوۡۤا اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَاۡتِیَنَا وَمِنۡۢ بَعۡدِ مَا جِئۡتَنَا ؕ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَیَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ۔ (الاعراف:128تا130) الجز نمبر 9 سورۃ الاعراف۔یعنی فرعون نے کہا کہ ہم بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور اوراُن کی بیٹیوں کو زندہ رکھیں گے اور تحقیقًا ہم ان پر غالب ہیں۔ تب موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا کہ اللہ سے مدد چاہو اورصبر کرو زمین خدا کی ہے جس کو اپنے بندوں سے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام بخیر پرہیز گاروں کا ہی ہوتا ہے۔ تب موسیٰ کی قوم نے اس کو جواب دیا کہ ہم تیرے پہلے بھی ستائے جاتے تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ستا ئے گئے تو موسیٰ نے اُن کے جواب میں کہا کہ قریب ہے کہ خُداتمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور زمین پر تمہیں خلیفے مقرر کر دے اور پھر دیکھے کہ تم کس طور کے کام کرتے ہو۔
اَب اِ ن آیات میں صریح اور صا ف طور پروہی لوگ مخاطب ہیں جو حضرت موسیٰ کی قوم میں سے اُن کے سامنے زندہ موجود تھے اور انہوں نے فرعون کے ظلموں کا شکوہ بھی کیا تھا اورکہا تھا کہ ہم تیرے پہلے بھی ستائے گئے اور تیرے آنے کے بعد بھی اور انہیں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ تم ان تکلیفات پر صبر کرو خدا تمہاری طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہو گا اور تمہارے دشمنوں کو ہلا ک کر دے گا اور تم کو زمین پر خلیفے بنا دے گا لیکن تاریخ دانوں پر ظاہر ہے اور یہودیوں اورنصاریٰ کی کتابوں کو دیکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گو اس قوم کا دشمن یعنی فرعون اُن کے سامنے ہلاک ہوا مگر وہ خود تو زمین پر نہ ظاہری خلافت پر پہنچے نہ باطنی خلافت پر۔ بلکہ اکثر ان کی نافرمانیوں سے ہلاک کئے گئے اور چالیس برس تک بیابان لق و دق میں آوارہ رہ کر جاں بحق تسلیم ہوئے پھر بعد ان کی ہلاکت کے ان کی اولادمیں ایک ایسا سلسلہ خلافت کا شروع ہوا کہ بہت سے بادشاہ اس قوم میں ہوئے اور داؤد اور سلیمان جیسے خلیفۃ اللہ اسی قوم میں سےپیدا ہوئے یہاں تک کہ آخریہ سلسلہ خلافت کا چودھویں صدی میں حضرت مسیح پر ختم ہوا پس اس سے ظاہر ہے کہ کسی قوم موجودہ کو مخاطب کرنے سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خطاب قوم موجودہ تک ہی محدود رہے بلکہ قرآن کریم کاتو یہ بھی محاورہ پایا جاتا ہے کہ بسااوقات ایک قوم کو مخاطب کرتا ہے مگر اصل مخاطب کوئی اور لوگ ہوتے ہیں جو گذر گئے یا آئندہ آنے والے ہیں مثلًا اللہ جلّ شانہ سورۃ البقرہ میں یہود موجودہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہےیٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَاَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَاِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ۔(البقرہ:41) یعنی اے بنی اسرائیل اُس نعمت کو یاد کرو جو ہم نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پُورا کرو تامَیں بھی تمہارے عہد کو پُورا کروں اورپس مجھ سے ڈرو۔ اب ظاہرہے کہ یہودموجودہ زمانہ آنحضرت تو ضربت علیھم الذلۃ کا مصداق تھے ان پر تو کوئی انعام بھی نہیں ہوا تھا اور نہ ان سے یہ عہد ہوا تھا کہ تم نے خاتم الانبیاء پر ایمان لانا۔ پھر بعد اس کے فرمایا وَاِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَیَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَفِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ۔ وَاِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَاَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ۔(البقرہ:51،50)یعنی وہ وقت یاد کروجب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی وہ تم کو طرح طرح کے دُکھ دیتے تھے تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا اور وہ وقت یاد کروجبکہ ہم نے تمہارے پہنچنے کے ساتھ ہی دریا کو پھاڑ دیا۔ پھر ہم نے تم کو نجات دے دی اور فرعون کے لوگوں کو ہلاک کر دیا اور تم دیکھتے تھے۔
اب سوچنا چاہیئے کہ ان واقعات میں سے کوئی واقعہ بھی ان یہودیوں کو پیش نہیں آیا تھا جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے نہ وہ فرعون کے ہاتھ سے دُکھ دیئے گئےنہ اُن کے بیٹوں کوکسی نے قتل کیا نہ وہ کسی دریا سے پار کئے گئے۔ پھر آگے فرماتا ہے وَاِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ۔ثُمَّ بَعَثۡنٰکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔وَظَلَّلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡغَمَامَ وَاَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡمَنَّ وَالسَّلۡوٰی (البقرہ:56تا58)یعنی وہ وقت یاد کرو جب تم نے موسیٰ کو کہا کہ ہم تیرے کہے پر تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو بچشم خود نہ دیکھ لیں تب تم پر صاعقہ پڑی اور پھر تم کو زندہ کیا گیا تاکہ تم شکرکرو اور ہم نے بادلوں کو تم پر سائبان کیا اور ہم نے تم پر من و سلویٰ اُتارا۔ اب ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ تو ان یہودیوں سے جو قرآن میں مخاطب کئے گئے دو ہزار برس پہلے فوت ہو چکے تھے اور ان کا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں نام ونشان بھی نہ تھا پھر وہ حضرت موسیٰ سے ایسا سوال کیونکرکر سکتے تھے کہاں اُن پر بجلی گری کہاں انہوں نے من وسلویٰ کھایا۔ کیا وہ پہلے حضرت موسیٰ کے زمانہ میں اور اورقالبوں میں موجودتھے اور پھر آنحضرتؐ کے زمانہ میں بھی بطور تناسخ آموجود ہوئے اور اگر یہ نہیں تو بجز اس تاویل کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ مخاطبت کے وقت ضروری نہیں کہ وہی لوگ حقیقی طور پر واقعات منسوبہ کے مصدا ق ہوں جو مخاطب ہوں۔ کلام الٰہی اوراحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ایک قاعدہ ٹھہر گیا ہے کہ بسا اوقات کوئی واقعہ ایک شخص یا ایک قوم کی طرف منسوب کیاجاتا ہے اور دراصل وہ واقعہ کسی دوسری قوم یادُوسرے شخص سے تعلق رکھتا ہے اور اسی باب میں سے عیسیٰ بن مریم کے آنے کی خبر ہے کیونکہ بعض احادیث میں آخری زمانہ میں آنے کاایک واقعہ حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کیا گیاہے حالانکہ وہ فوت ہو چکے تھے پس یہ واقعہ بھی حضرت مسیح کی طرف ایسا ہی منسوب ہے جیسا کہ واقعہ فرعون کے ہاتھ سے نجات پانے کا اور من و سلوٰی کھانے کا اور صاعقہ گرنے کا اور دریا سے پار ہونے کا اورقصّہ لَن نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَاحِدٍ(البقرہ:62) کااُن یہودیوں کی طرف منسوب کیاگیا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے۔ حالانکہ وہ واقعات اُن کی پہلی قوم کے تھے جو اُن سے صد ہا برس پہلے مر چکے تھے۔ پس اگر کسی کو آیات کے معنے کرنے میں معقولی شق کی طرف خیال نہ ہو اور ظاہر الفاظ پر اڑ جانا واجب سمجھے تو کم سے کم ان آیات سے یہ ثابت ہو گاکہ مسئلہ تناسخ حق ہے ورنہ کیونکر ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ ایک فاعل کے فعل کو کسی ایسے شخص کی طرف منسوب کرے جس کو اِس فعل کے ارتکاب سے کچھ بھی تعلق نہیں حالانکہ وُہ آپ ہی فرماتاہےلَاتَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی (بنی اسرائیل:16) پھر اگر موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کی نافرمانی کی تھی اور اُن پر بجلی گری تھی یا انہوں نے گوسالہ پرستی کی تھی اور ان پر عذاب نازل ہواتھا تو اس دُوسری قوم کو ان واقعات سے کیا تعلق تھا جودو ہزار برس بعد پیدا ہوئے۔ یوں تو حضرت آدم سے تا ایں دم متقدمین متاخرین کے لئے بطور آباء و اجدا د ہیں لیکن کسی کا گناہ کسی پر عائد نہیں ہو سکتا۔ پھر خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ فرمانا کہ تم نے موسیٰ کی نافرمانی کی اور تم نے کہا کہ ہم خدا کو نہیں مانیں گے جب تک اس کو دیکھ نہ لیں اور اس گناہ کے سبب سے تم پر بجلی گری کیونکر ان تمام الفاظ کے بنظر ظاہر کوئی اور معنے ہو سکتے ہیں بجُز اس کے کہ کہا جائے کہ دراصل وہ تمام یہودی جوہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی موجود تھے اور انہیں پر من و سلویٰ نازل ہوا تھا اور انہیں پر بجلی پڑی تھی اور انہیں کی خاطر فرعون کو ہلاک کیا گیا تھا اور پھر وہی یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بطور تناسخ پیدا ہو گئے اور اِ س طرح پر خطاب صحیح ٹھہر گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیوں ایسے سیدھے سیدھے معنے نہیں کئے جاتے۔ کیا یہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے دُور ہیں اور کیوں ایسے معنے قبول کئے جاتے ہیں جو تاویلات بعیدہ کے حکم میں ہیں کیا خداتعالیٰ قادر نہیں کہ جس طرح بقول ہمارے مخالفوں کے وہ حضرت عیسیٰ کو بعینہٖ بجسدہ العنصریکسی وقت صدہا برسوں کے بعد پھر زمین پر لے آئے گا۔ اسی طرح اُس نے حضرت موسیٰ کے زمانہ کے یہودیوں کو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں زندہ کر دیا ہو یا اُن کی رُوحوں کو بطور تناسخ پھر دُنیا میں لے آیا ہو جس حالت میں صرف بے بنیاد اقوال کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ کی روح کا پھر دنیا میں آناتسلیم کیا گیا ہے تو کیوں اور کیا وجہ ہے کہ ان تمام یہودیوں کی روحوں کا دوبارہ بطور تناسخ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں آجاناقبول نہ کیاجائے جن کے موجود ہوجانے پرنصوص صریحہ بینہ قرآن کریم شاہد ہیں۔ دیکھو خدا تعالیٰ صاف فرماتاہےوَاِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ۔(البقرہ:56) یعنی تم وہ وقت یاد کرو جبکہ تم نے نہ کسی اور نے یہ کہا کہ ہم تیرے کہنے پرتو ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم آپ ظاہر ظاہر خدا کو نہ دیکھ لیں اور پھر تم کو بجلی نے پکڑا او ر تم دیکھتے تھے۔ اور اس آیت میں ایک اور لطیفہ یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے اِ س آیت کے مضمون میں موجودہ یہودیوں کو گذشتہ لوگوں کے قائم مقام نہیں ٹھہرایا بلکہ اُن کو فی الحقیقت گذشتہ لوگ ہی ٹھہرا دیا تو اس صورت میں قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے یہودیوں کے وہی نام رکھ دئے جو اُن گذشتہ بنی اسرائیل کے نام تھے کیونکہ جبکہ یہ لوگ حقیقتًا وہی لوگ قرار دیئے گئے تو یہ لازمی ہوا کہ نام بھی وہی ہوں وجہ یہ کہ نام حقائق کے لئے مثل عوارض غیر منفک کے ہیں اور عوارض لازمیہ اپنے حقائق سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اب خوب متوجہ ہو کر سوچو کہ جبکہ خدا تعالیٰ نے صریح اور صاف لفظوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم نے ہی ایسے ایسے برے کام حضرت موسیٰ کے عہد میں کیے تھے تو پھر ایسی صریح اور کھلی کھلی نص کی تاویل کرنا اور احادیث کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جوقرآن کریم کی رُو سے وفات یافتہ ہے پھر زمین پر اُتارنا کیسی بےاعتدالی اور ناانصافی ہے۔ عزیزو! اگر خدا تعالیٰ کی یہی عادت اور سنت ہے کہ گزشتہ لوگوں کو پھر دُنیا میں لے آتا ہے تو نص قرآنی جو بہ تکراردر تکرارگزشتہ لوگوں کو مخاطب کر کے اُن کے زندہ ہونے کی شہادت دے رہی ہے اس سے در گذرکرنا ہرگز جائز نہیں اوراگر وہاں یہ دھڑکہ دل کو پکڑتا ہے کہ ایسے معنے گو خدا تعالیٰ کی قدرت سے تو بعید نہیں لیکن معقول کے برخلاف ہیں۔ اِسلئے تاویل کی طرف رُخ کیاجاتاہے اور وہ معنے کئے جاتے ہیں جو عند العقل کچھ بعید نہیں ہیں تو پھر ایسا ہی حضرت عیسیٰ کے آنے کی پیشگوئی کے معنے کرنے چاہئیں کیونکہ اگر گذشتہ یہودیوں کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زندہ ہوجانا یا اگر بطریق تناسخ کے اُن کی رُوحیں پھر آجانا طریق معقول کے برخلاف ہے تو حضرت مسیح کی نسبت کیونکر دوبارہ دنیا میں آنا تجویز کیاجاتاہے جن کی وفات پر آیت فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ(المائدہ:118) بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے کیا یہودیوں کی رُوحوں کا دوبار ہ دُنیا میں آنا خدا تعالیٰ کی قدرت سے بعید اور نیز طریق معقول کے برخلاف لیکن حضرت عیسیٰ کا بجسدہ العنصری پھر زمین پر آجانا بہت معقول ہے۔پھر اگر نصوص بینہ صریحہ قرآنیہ کو بباعث استبعاد ظاہری معنوں کے مؤوّل کر کے طریق صَرف عن الظاہر اختیار کیاجاتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ نصوص احادیثیہ کا صَرف عن الظاہر جائز نہیں کیا احادیث کی قرآن کریم سے کوئی اعلیٰ شان ہے کہ تا ہمیشہ احادیث کے بیان کو گو کیسا ہی بعید از عقل ہو ظاہر الفاظ پر قبول کیا جائے اور قرآن شریف میں تاویلات بھی کی جائیں۔‘‘(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 324تا 330)
(9)امت محمدیہؐ کے خلفاءسابقہ خلفاء کے مثیل ہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ (النور :56):ترجمہ:تم مىں سے جو لوگ اىمان لائے اور نىک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کىا ہے کہ انہىں ضرور زمىن مىں خلىفہ بنائے گا جىساکہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلىفہ بناىا۔اس آیت میں لفظ’’ کما‘‘مشابہت بیان کرنے کے لیے آیا ہے۔اور مشابہت (۱)یا فاعل کی فاعل کے ساتھ ہوتی ہے (۲) یا مفعول کی مفعول کے ساتھ۔ واضح رہے کہ مشبَّہ یعنی وہ چیز جس کو مشابہت دی جارہی ہو اور مشبَّہ بہٖ یعنی جس چیز کے ساتھ مشابہت دی جارہی ہو، کا باہم جدا جدا ہونا ضروری ہے۔ اس آیت میں دونوں جملوں کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے البتہ دونوں جملوں کے مفعول جدا جدا ہیں۔ جس سے پتا چلا کہ یہاں مفعول کو مفعول کے ساتھ مشابہت دی جارہی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں امت محمدیہ کے خلفاء کو پہلے خلفاء سے تشبیہ دینی مقصود ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ جس طرح موسوی سلسلہ میں خلافت کا سلسلہ جاری ہوا اسی طرح امت محمدیہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ جاری ہو گا۔ اور محمدی سلسلہ کے خلفاء موسوی سلسلہ کے خلفاء کے مثیل ہوں گے۔جب بنی اسرائیل کے خلفاء کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ سب نبی تھے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ کلما ھلک نبی خلفہ نبی(بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل )بنی اسرائیل میں جب کوئی نبی فوت ہوتا تھا تو اس کا خلیفہ بھی نبی ہوتا تھا ۔اس حدیث نے بتایا کہ موسوی سلسلہ کے خلفاء نبی ہوتے تھے۔ اور آنے والے مسیح موعود کے علاوہ جسے آنحضرت ﷺ نے نبی قراردیا ہے،محمدی سلسلہ کے خلفاء کی اکثریت نبی نہ ہو گی۔البتہ محمدی سلسلہ کے خلفاء اسرائیلی انبیاء کے مثیل ہوں گے۔
(10)امت محمدیہ کے علماء صالحین
مثل انبیاء بنی اسرائیل ہیں
آنحضرتؐ فرماتے ہیں : علماء امتی کاَنبیاء بنی اسرائیل۔ (تفسیر کبیر امام رازی تفسیر سورۃ حٰم السجدہ زیر آیت ومن احسن قولًا ممن دعا الی اللّٰہ آیت نمبر:33) یعنی میری امت کے نیک علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مثیل ہوں گے۔
مذکورہ بالا بحث سے پتا چلا کہ محمدی سلسلہ کے خلفاء جو حقیقی عالم ہیں نبی نہ ہونے کے باوجود اسرائیلی انبیاء کے مثیل ہیں کوئی خلیفہ کسی نبی کا مثیل ہوگااور کوئی کسی نبی کا۔اب یہاں واضح ہے کہ امت محمدیہ میں پہلے لوگوں کے خلفاء کی طرح کے خلفاء مبعوث کیےجانے کی پیشگوئی فرمائی جارہی ہے۔ یعنی اس امت مرحومہ میں گذشتہ امتوں کے خلفاء کے مثیل و بروز، ظل، ہم صفت خلفاء ظاہر ہو ں گے۔
(11)حضرت یوسف کو فرشتہ قرار دیا جانا
آپؑ کے متعلق قرآن مجید میں ہے: إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ(يوسف: 32)ترجمہ: ىہ تو اىک معزز فرشتہ کے سوا کچھ نہىں۔
اس آیت میں حضرت یوسف کو فرشتہ صفت، ملکوتی سیرت وجود قرار دیا گیا ہے۔ اور اسی کو بروز، ظل اور مثیل کہتے ہیں۔
(12)امہات المومنین کو صواحب یوسف قرار دیا گیا ہے
’’عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ:أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ قَالَ فِي مَرَضِهِ:’’مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ‘‘قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ:إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ، فَقَالَ: ’’مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ‘‘ قَالَتْ عَائِشَةُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ، فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ’’مَهْ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ،مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ‘‘(بخاری،کتاب الانبیاء،بَابُ إِذَا بَكَى الإِمَامُ فِي الصَّلاَةِحدیث نمبر: ۷۱۶) ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی بیماری میں فرمایا: ابوبکرؓ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں کہ میں نے آپؐ سے کہا کہ اگر حضرت ابوبکرؓ آپؐ کی جگہ کھڑے ہوئے تو وہ بسبب رونے کے لوگوں کو نہ سنا سکیں گے۔ اس لئے آپؐ حضرت عمرؓ سے فرمائیں کہ وہ ( لوگوں کو) نماز پڑھائیں۔ آپؐ نے فرمایا: ابوبکرؓ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں: میں نے حضرت حفصہؓ سے کہا کہ آنحضرت ﷺ سے عرض کرو کہ حضرت ابوبکرؓ اگر آپؐ کی جگہ کھڑے ہوئے تو بوجہ رونے کے لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے آپؐ حضرت عمرؓ سے فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ چنانچہ حضرت حفصہؓ نے ایسا ہی کیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: چپ رہو۔ تم تو یوسف والی عورتیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
(13)رسول اللہ ﷺ کو ابن أبی کبشہ قرار دیا جانا
ابو سفیان نے ہرقل سے بیت المقدس میں صلح حدیبیہ کی میعاد کے زمانہ میں ملاقات کی۔ابو سفیان کا بیان ہے کہ ہرقل نے آنحضرت ﷺکے متعلق واقعات سن کر اور رسول اللہﷺ کا خط پڑھ کر تصدیق کی اور کہا کہ میں تو پہلے ہی سے جانتا تھا کہ وہ نبی موعود ظاہر ہونے والا ہے۔ اپنی گفتگو کے اختتام اور ہرقل کے بیان کے متعلق ابوسفیان بیان کرتا ہے کہ ’’فَلَمَّا قَالَ مَا قَالَ،وَفَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الكِتَابِ،كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ وَارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا،فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ،إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ‘‘(بخاری،کتاب بدء الوحی۔كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ۔حدیث نمبر۷) یعنی جب ہرقل جو کچھ اس نے کہنا تھا کہہ چکا اور خط کے پڑھنے سے فارغ ہواتو وہاں بہت شور ہو ا اور آوازیں بلند ہوئیں اور ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ جب ہم نکال دیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابوکبشہ کے بیٹے کامعاملہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس سے تو رومیوں کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔
اس فقرہ میں اعلانِ توحید میں ابن ابی کبشہ سے مشابہت کی وجہ سے ابو سفیان نے استعارہ کے طور پر آنحضرت ﷺ کو ابن ابی کبشہ قرار دیا ہے حالانکہ آپ محمد بن عبد اللہ تھے۔
(14)حضرت علی رضی اللہ عنہ مثیل ہارون اور رسول اللہ ﷺ مثیل موسیٰ
’’قَالَ النَّبِيُّﷺ لِعَلِيٍّ:’’أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ، مِنْ مُوسَى‘‘(بخاری،کتاب مناقب اصحاب النبیؐ۔ بَابُ مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ القُرَشِيِّ الهَاشِمِيِّ أَبِي الحَسَنِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ۔حدیث نمبر ۳۷۰۶)فرمایا:اے علی !کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مجھ سے وہی تعلق ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا۔
شیعہ حضرات حضرت علیؓ کو آیت مباہلہ (آل عمران: 62) سے استدلال کرکےنفس رسولﷺ قرار دیتے ہیں۔کیا اس وجہ سے وہ بھی دوسرے محمدﷺ سمجھے جائیں گے۔ہرگز نہیں۔
(15)یاجوج و ماجوج کے زمانہ میں سابقہ اقوام کے مثیل آئیں گے
ایک جگہ قرآن کریم خبر دیتا ہے کہ آخری زمانے میں نیکوں کے مثیل بھی دنیا میں آئیں گے بدو ں کے مثیل بھی آئیں گے۔ سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ۔حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ۔(الانبياء:96-97) اور قطعاً لازم ہے کسى بستى کے لئے جسے ہم نے ہلاک کر دىا ہو کہ وہ لوگ پھر لَوٹ کر نہىں آئىں گے۔ ىہاں تک کہ جب ىاجوج ماجوج کو کھولا جائے گا اور وہ ہر اونچى جگہ سے دوڑے چلے آئىں گے۔
قرآن کریم کی دوسری آیات بتاتی ہیں کہ فوت ہونے والوں کی دو قسمیں ہیں : یا نیک ہیں ؟یا بد ہیں؟ تو فوت ہونے والے جو نیک ہیں ان کی روحیں وفات کے بعد جنت کے اعلیٰ درجے میں داخل ہوگئیں اور جو فوت ہونے والے شریر ہیں ان کی روحیں وفات کے بعد جہنم کے ادنیٰ درجے میں داخل ہوگئیں۔ تو جہنم سے نکل کر بھی کوئی دنیا میں نہیں آئے گا، جنت سے نکل کر بھی کوئی دنیا میں نہیں آئے گا وَمَا ہُمۡ مِّنۡہَا بِمُخۡرَجِیۡن (الحجر:49) اور نہ وہ کبھى ان مىں سے نکالے جائىں گے کیونکہ وفات کے بعد دارالجزا شروع ہو جاتا ہے جس میں نیکی اور بدی کا بدلہ ملتا ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے تو جس کا امتحان ختم ہو گیا امتحان کا نتیجہ ا سے ملنا شروع ہو گیا۔ اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں دارالامتحان میں نہیں جائے گا تو فرمایا:حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا۔ آپ دونوں آیتوں کو جوڑیں بالکل متصل آیات ہیں۔ان کا مفہوم یہ بنا کہ جو لوگ ہلاک ہوگئے وہ پلٹ کر دنیا میں نہیں آئیں گے یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کو کھول دیا جائے گا تو پھر دنیا میں پلٹ آئیں گے؟جبکہ دوسری آیات بتاتی ہیں کہ جو مر گیا وہ دنیا میں زندہ ہو کر دوبارہ نہیں آئے گا۔ یہ آیت کہتی ہے کہ آخری زمانہ میں آجائیں گےحالانکہ قرآن ہمیں صاف بتلاتا ہے کہ وَلَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا۔(النساء:83) حالانکہ اگر وہ اللہ کے سوا کسى اور کى طرف سے ہوتا تو ضرور اس مىں بہت اختلاف پاتے۔ ظاہر ہے کہ قرآن پاک میں تضاد نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ تو پھر کس لحاظ سے آئیں گے؟ معلوم ہوتا ہے ان کا صفاتی طور پر آنا ہوگا ۔ چنانچہ اس آیت میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ جو یاجوج وماجوج کے کھلنے کا زمانہ ہے، یعنی جوآخری زمانہ یاجوج و ماجوج دونوں قوموں کی ترقیات کا زمانہ ہےجس میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اس زمانے میں جو فوت شدہ بستیاں ہیں وہ صفاتی و روحانی طور پر دنیا میں آئیں گی۔ یعنی جو فوت شدہ افراد ہیں ان کے مثیل، ان کے ظل، ان کے بروز جو صفاتی طور پر ان کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں۔ کردار کے لحاظ سے مشابہت رکھتے ہیں وہ دنیا میں آجائیں گے۔ یعنی بروں اور اچھوں کے ظل اور بروز دنیا میں آئیں گے۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظل و بروز کی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ خدا تعالیٰ کے علم میں ایک زمانہ مقدر تھا جس میں فوت شدہ رُوحیں بروزی طور پر آنے والی تھیں۔ اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یعنی سورۃ انبیاء جزو نمبر١٧ میں ایک پیشگوئی کی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ ہلاک شدہ لوگ یاجوج ماجوج کے زمانہ میں پھر دنیا میں رجوع کریں گے اور وہ یہ آیت ہے۔وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ۔حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ۔ (الأنبياء96-97)‘‘(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد17صفحہ 297)
(باقی آئندہ)