کپتان ڈگلس
لیفٹیننٹ کرنل مونٹیگو ولیم ڈگلس (C.I.E۔، C.S.I.) ایک ممتاز کیریئر کے حامل انسان ہیں، جن کی زندگی نمایاں کارناموں اور کامیابیوں سے مرصع ہے۔ یہ مضمون ان کی زندگی کی ایک جھلک پیش کرتا ہے اور کچھ چنیدہ کارہائے نمایاں پر نظر ڈالتا ہے۔ اس مضمون میں، میں نے صرف ایک عنوان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے یعنی: ’’کپتان ڈگلس‘‘۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اوّلاً یہ وہ عنوان ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مبارک تحریرات میں استعمال فرمایا اور دوسرے اس لیے کہ ایک مستقل عنوان رکھنے سے مضمون میں روانی اور ربط قائم رہتا ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کپتان ڈگلس کا ذکر نہایت شاندار الفاظ میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اگر اُس کے وجود کو قوم کا فخر اور حکام کے لئے نمونہ سمجھا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔‘‘ 2یہ ایک ایسا بیان ہے جس نے یہ جاننے کا تجسس اور خواہش پیدا کی کہ کپتان ڈگلس کون تھے اور وہ اتنی اعلیٰ تعریف کے لائق کیسے بنے؟
چنانچہ یہ مضمون اِس انتہائی خوش نصیب شخص کپتان ڈگلس کے بارےمیں آج تک کی دستیاب تحقیق پر مبنی ہے جس میں ان کی زندگی کا اجمالی نقشہ اور جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
٭…کپتان ڈگلس اور حضرت مسیح موعود ؑ
کپتان ڈگلس نے ہندوستان کے شہر بٹالہ کے ایک ریلوے اسٹیشن پر پہلی مرتبہ حضرت احمد علیہ السلام کی ایک جھلک دیکھی۔یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ہندوستانی ٹرینوں کو نسلی لحاظ سے الگ الگ رکھا جاتا تھا، لہٰذا یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی انگریز افسر دورانِ سفر کسی ہندوستانی شہری سے مل سکتا، کجا یہ کہ اسے یاد بھی رکھتا۔
پلیٹ فارم عبور کرتے ہوئے، کپتان ڈگلس نے ایک شخص کو دیکھا جو نظریں جھکائے چل رہا تھا، اور اس کے وجود سے نور جھلک رہا تھا۔ اُس انسان کی مقناطیسی قوت نے کپتان ڈگلس کو اپنے حصار میں لے لیا۔یہ وجود حضرت امام الزمان احمدعلیہ السلام تھے۔ جن کے پلیٹ فارم سے گزر جانے کے بعد بھی کپتان ڈگلس جہاں کھڑا تھا وہیں ساکت ہو کر رہ گیا۔
کپتان ڈگلس نے اس واقعہ کو اس طرح یا دکیا کہ ’’میرے بس میں نہ تھا کہ ان سے نظریں ہٹا سکوں۔‘‘3
اُس وقت آپ دونوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ بہت جلد دوبارہ آپس میں ملنے والے ہیں!جب منطق غیر معقولات کو مایوس کر دے تو ظلم و استبداد اور ایذا رسانی جنم لیتی ہے۔ اورحق بات کے لیے ظلم و ستم برداشت کرنا نبیوں کی علامت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام، ان سب کی مثال ہمارے سامنے بطور دلیل موجود ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے منصوبے میں منطق کو نہیں دیکھ پاتے تو ان کی مایوسی اوراضطراب انہیں اس نتیجے پر پہنچا دیتا ہے کہ وہ ایسی برگزیدہ شخصیات کو دنیاوی حکام کے روبرو پیش کریں۔ خوش قسمتی سے حضرت احمد علیہ السلام کے معاملے میں انگریز حکومت نے قانون کی حکمرانی کو نافذ کیا ہوا تھا۔ اور اسی وجہ سے آپؑ کے خلاف عیسائیوں، مسلمانوں اور ہندوؤں کی عداوت کو پوری طرح قانونی عمل سے گزرنا پڑا۔
بٹالہ ریلوے اسٹیشن کے واقعہ کے کچھ عرصہ بعد 1897ء میں کپتان ڈگلس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات اُس مقدمہ کے دوران ہوئی جو ’’احمدؑ بمقابلہ مارٹن کلارک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 4چرچ مشنری سوسائٹی کے ایک میڈیکل مشنری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے حضرت احمد علیہ السلام کے خلاف ’اقدامِ قتل ‘کا مقدمہ دائر کیا۔
قبل ازیں ڈاکٹر کلارک کو حضرت احمد علیہ السلام کے مقابل پر مباحثہ ’’جنگ مقدس‘‘5 میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ آپؑ پر دوبارہ حملہ کرنے کی تاک میں تھا۔ چنانچہ اس نے آریہ سماج اور شدت پسندمسلمان مولویوں کے ساتھ مل کر یہ الزام عائد کیا کہ حضرت احمدؑ نے اپنے ایک ساتھی کو ڈاکٹر مارٹن کلارک کے قتل کا کام سونپا ہے۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کپتان ڈگلس نہ تو اس مقدمہ کے گواہوں سے مطمئن تھے اور نہ ہی اس الزام سے۔ بیانات سننے کے بعد انہیں یقین ہو چکا تھا کہ اس کیس میں کوئی جان نہیں اور مرکزی گواہ عبدالحمید کو سکھایا گیا ہے۔
بعد کی زندگی میں کپتان ڈگلس نے متعدد بار تذکرہ کیا کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا آیا جب اسے لگتاتھا کہ وہ پاگل ہوجائے گا کیونکہ جس طرف بھی وہ رُخ کرتا اسے حضرت احمد علیہ السلام کا فرشتہ نما نورانی چہرہ دکھائی دیتا اور وہ کہہ رہے ہوتے کہ ’’میں بے قصور ہوں۔‘‘
کپتان ڈگلس نے اپنے ایک ساتھی سے مشورہ کیا اور غور وفکر کے بعد عبدالحمید سے دوبارہ پوچھ گچھ کی گئی۔ جس پر آنسو بہاتے ہوئے عبدالحمید نے اعتراف کیا کہ چرچ کی طرف سے اس پر شدید دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ جھوٹی گواہی دے۔6 کپتان ڈگلس جو کہ ایک نہایت ایماندار شخص تھا، اس نے فوراً حضرت احمد علیہ السلام کے خلاف مقدمہ خارج کردیا اور آپؑ کو اختیار دیا کہ ڈاکٹر کلارک کے خلاف حلفاً دروغ گوئی کرنے اور بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر ہرجانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔لیکن آپؑ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا:’’مجھے کسی پر مقدمہ کرنے کی ضرورت نہیں، میرے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت کے ساتھ بری کر دیا۔‘‘7یہ ردّعمل کپتان ڈگلس کی فطرت سے اس قدر مطابقت رکھتا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آپؑ کے ساتھ ان کا ایک نہ ختم ہونے والی دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا۔8
اس مقدمے کا انجام اگرچہ بہت سے پہلوؤں سے ناقابلِ فراموش اور یادگار ہے لیکن خود حضرت احمد علیہ السلام کے لیے یہ حیرت انگیز نہ تھا۔ کیونکہ ان واقعات سے تین ماہ پیشتر آپؑ نے کشفاً دیکھا تھا کہ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا، لیکن اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا: ’’میں اپنے فرشتوں کے ساتھ ناگہانی طور پر تیری مدد کروں گا‘‘۔
مقدمہ کی کارروائی کے دوران بھی آپؑ کو الزامات سے بری ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیگر الہامات بھی ہوئے۔ یہ تمام الہامات بشمول اس کیس کی تفصیلات آپؑ کی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘میں شائع شدہ ہیں۔9
مغربی دنیا میں بسنے والے موجودہ دَور کے قارئین کو اس مقدمہ کی اہمیت شاید عجیب معلوم ہو۔ کیونکہ ہم خدا کے فضل سے ایک ایسے وقت میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ہم غیرجانبدار عدالتی نظام کی توقع رکھتے ہیں۔ تاہم 19 ویں صدی میں برٹش انڈیا میں کلیسا (چرچ) کو خدا سمجھا جاتا تھا اور یہ سب سے طاقتور اور با اثر ادارہ تھا جس کا زندگی کے جملہ پہلوؤں پر زبردست دباؤ اور اثر و رسوخ قائم تھا۔ برطانوی حکومت کے تحت ہندوستانی سول سروس میں برطانوی جج کے لیے ایسے طاقتور ادارے کے خلاف ڈٹ کر انصاف کرنا واقعی ایک غیر معمولی کارنامہ تھا۔
٭…کرنل کے عہدہ پر ترقی اوراس کے بعد کپتان ڈگلس ایسے عظیم انسان کیسے بنے؟
مونٹیگو ولیم ڈگلس کی ولادت ایڈورڈ ڈگلس اور این آربتھنوٹ کے ہاں 23؍نومبر1863ء کو ہوئی۔ ان کے والد اس وقت ماریشس میں اسسٹنٹ نوآبادیاتی سیکرٹری تھے۔ 1867ء میں والد کے انتقال کے بعد یہ خاندان برطانیہ چلا گیا۔مونٹیگو ڈگلس نے ایڈنبرا میں امراءکے ایک نجی سکول، فیٹس کالج (Fettes College) میں داخلہ لیا۔ چھوٹی عمر سے ہی انہوں نے عادلانہ سوچ اور مضبوط قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ شاید فیٹس کالج میں ہی ان کو پہلی مرتبہ کوئی ذمہ داری سونپی گئی جب انہیں ’سکول پریفیکٹ ‘بنایا گیا۔یہ یقیناً سکول انتظامیہ کی طرف سے ایک طالب علم کے لیے اعزاز کی بات تھی۔
ایک ہونہار نوجوان کے طور پر انہوں نے دو کھیلوں یعنی رگبی اور کرکٹ میں بھی حصہ لیا، یہ کھیلیں ایک طرح سے ہر انگریز کے خون میں شامل سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی محنت، لگن اور کھیل میں مہارت نے انہیں کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا دیا۔ وہ نہایت صبروتحمل کے ساتھ بیٹنگ کرنے اور آخر تک مقابلہ کرنے والے کھلاڑی کے طور پر مشہور تھے۔ یہ دونوں صفات اپنی ذات میں پیش گوئی کا رنگ رکھتی تھیں جوکہ زندگی میں ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں نمایاں ہوتی چلی گئیں۔10
گورداسپور میں مدتِ ملازمت کے بعد انہیں 1899ء میں دہلی کا ڈپٹی کمشنر مقرر کیا گیا۔ 1857ء کی بغاوت کے بعد کے واقعات نے دہلی کو برٹش انڈیا میں ایک اہم مقام بنا دیا تھا۔11 بغاوت کے نتیجہ میں بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا جسے دہلی کو بھی بھگتنا پڑا۔ جہاں تباہی وبربادی نے دہلی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا، وہیں اس کی تعمیر نو نے دہلی کو فتح کی علامت میں بدلنے میں مدد دی۔
دہلی کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر 1877ء میں ملکہ وکٹوریہ کی ہندوستان میں بادشاہت کے اعلان کی رسمی تقریبات کی میزبانی کے لیے اسی شہر کو منتخب کیا گیا۔ اسی جگہ1903ء میں12 کنگ ایڈورڈ VII کی تاجپوشی کی تہنیتی تقریبات منعقد ہوئیں اوراُس مقام کو ’کورونیشن پارک ‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دہلی کے ڈپٹی کمشنر کپتان مونٹیگو ولیم ڈگلس کو دہلی دربارکی ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل کیا گیا۔دہلی دربار کا نام مغل بادشاہوں کے اس طرزِعمل کی وجہ سے رکھا گیا تھا کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ عوام الناس کے لیے کھلی کچہری لگاتے تھے۔ کپتان ڈگلس کو اپنے عہدہ کی مناسبت سے پنجاب حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کروانے کے علاوہ تاج پوشی کی تقریبات کے حوالے سے تمام تر تیاریوں کے کام کی ذمہ داری بھی سپرد تھی۔13
میجر کے عہدے پر ترقی پانے اور چار سال تک دہلی کے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد کپتان ڈگلس شملہ میں پہاڑی ریاستوں کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے کے لیے اہم امیدوار تھے۔’شملہ ‘برٹش انڈیا کا گرمائی دارالحکومت اور سابقہ بوشہر (Bushahr) ریاست کا مرکز تھا۔ 20 ویں صدی کا آغاز اس علاقہ کی سیاسی تاریخ کا ایک پریشان کن دَور تھا اوربرطانوی راج کے لیے شملہ کا استحکام اوّلین ترجیح تھا۔14۔ 15 پہاڑی ریاستوں میں سے ایک ریاست بھاگل نے 1857ء کی بغاوت کے دوران اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1905ء میں ایک بار پھر بھاگل کے لوگ بغاوت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور انہوں نے زمین کےٹیکس کی ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے ریاستی احکامات کی نافرمانی کرنا شروع کر دی۔ اس فتنہ کے نتیجے میں ریاستی انتظامیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ کپتان ڈگلس نے اس بغاوت کو دبانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 16غیرمعمولی اعلیٰ اخلاق کی حامل طبیعت اور بہترین اخلاقی پرورش کی وجہ سے میجر ڈگلس کو اس خطے میں مروّجہ بعض رسوم و رواج نے پریشان کیا۔ ان میں سے دو رسمیں، ریت Reet17 اور Polyandryیعنی کثیر شوہری تھیں۔ یہ دونوں جسم فروشی کی ہی اقسام تھیں۔
1907ء میں میجر ڈگلس نے ریاست بوشہر (Bushahr) میں موجود تمام 28 پہاڑی ریاستوں کے سربراہان کے ساتھ مل کر ’ریت ‘کے خاتمے کی مہم کا آغاز کیا۔ پھراپنے دورِ ملازمت میں وہ ایک باقاعدہ معاہدہ اور اس تاریخی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کامنصوبہ مرتب کر چکے تھے۔ اگلے بیس سال کے عرصہ میں تعلیم کے فروغ اور انسانی فلاحی تنظیموں کی طرف سے بھرپور کوششوں کے ذریعے ریت کی رسم کا خاتمہ ہوا۔ جس کے بعد لوگوں میں عام آگاہی کے نتیجہ میں Polyandry کی رسم بھی آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر گئی۔18
پہاڑی ریاستوں میں وہ سیاسی انتشار جس نے 20ویں صدی کے آغاز کے بعد جنم لیا، 1907ء میں اس میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس فتنہ و فساد کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ سریندر شاہ تخت کا وارث بن گیا جو بوشہر (Bushahr) کے راجہ کا منہ بولا بیٹا تھا۔ نتیجۃً بہت سارے امید واروں اور دعویداروں نے احتجاج کیا اور پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کے پاس شکایت درج کرائی۔ لیفٹیننٹ گورنر نے منہ بولے بیٹے ( یعنی متبنیٰ) کے بارے میں قانونی رائے کے لیے کپتان ڈگلس کو یہ معاملہ سپرد کیا۔ ایک سال تک جاری رہنے والی جامع تحقیقات، مقامی افراد، راجہ کے رشتہ داروں اور ریاستی عہدیداروں کی آرا اور خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کپتان ڈگلس نے سریندر شاہ کی بطور وارث سفارش کی اور تخت سے متعلق دیگر تمام دعوؤں کو مسترد کردیا۔
جب پہاڑی ریاستوں میں سیاسی صورتحال مستحکم ہوچکی تو کپتان ڈگلس کو 1910ء میں لائل پور کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ 1858ء میں پنجاب کے الحاق کے بعد ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی توسیع عروج کو پہنچ چکی تھی۔ ملک میں استحکام قائم کرچکنے اور یورپ کے ساتھ زرعی تجارت کو بڑھانے کے لیے دریائے چناب کے جنوبی علاقے کو آباد کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا گیا اور لاہور کے ساتھ ریلوے لنک بنا کر تجارتی ضروریات کو بڑھانے میں مددملی۔
اس نوآبادیاتی اسٹیبلشمنٹ کا نام لائل پور رکھا گیا۔ یہ برطانوی ہند میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بنایا گیا پہلا شہر تھا۔19-20 یہاں اپنے دور میں کپتان ڈگلس نے بطور شہر لائل پور کی توسیع اور ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کی۔لائل پور زرعی اراضی پر از سر نو تعمیر کیا جارہا تھا اور وہاں کے ماحول کی وجہ سے انگریز افسران اور ان کے اہل خانہ کی بیزاری اور تھکن میں اضافہ ہونے لگا۔ چنانچہ کپتان ڈگلس نے ایک مقامی تفریحی کلب کے لیے ایسا منصوبہ تیار کیا جس کے ذریعہ کام کرنے والوں کی پیداواری اور تعمیری صلاحیت بھی زیادہ سے زیادہ ہوسکے اور جو انگریز افسران اور ان کے اہل خانہ کی معاشرتی و سماجی ضروریات کو بھی پورا کر سکے۔ نہایت مہارت کے ساتھ انہوں نے ضروری وسائل کو محفوظ اور مہیا کرنے کے لیے مختلف سطح پر حکومتی عہدیداران سے بات چیت کی اور کامیابی کے ساتھ اس علاقے میں پہلے کلب کی تعمیر کی۔ چناب کالونی توسیعی منصوبے کے نام سے منسوب ’چناب کلب آف لائل پور‘1910ء میں قائم ہوا اور کپتان ڈگلس اس کے پہلے صدر بنے۔ یہ کلب اِس وقت بھی نئے نام سے موسوم شہر فیصل آباد میں پروان چڑھ رہا ہے۔21
٭…کالاپانی۔ زمین پر جہنم
نئے شہر لائل پور کے منصوبوں کو کامیابی کے ساتھ شروع کرنے کے بعد کپتان ڈگلس کا بطور چیف کمشنر جزائر اندامن اور نکوبار (Andaman Islands) میں تبادلہ ہو گیا۔ انہیں پورٹ بلیئر کا سپرنٹنڈنٹ بھی بنا دیا گیا جو کہ برٹش انڈیا کے سیاسی دشمنوں اور مخالفین کے لیے ایک تعزیری کالونی (Penal Colony) تھی جسے بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ تاریخی اعتبار سے بہت ساری وجوہات کی بنا پر یہ ایک اسٹریٹجک جگہ تھی۔
کلکتہ کے جنوب میں خلیج بنگال میں تقریباً 1200 کلومیٹر دُور واقع جزائر اندامن 5000 سال سے زیادہ پرانے ہیں، یہاں کے رہنے والے اس مقام کی بے مثال خوبصورتی، شاندار عجائب قدرت اور آسمان سے باتیں کرتے بلند وبالا پہاڑوں پر فخر کرتے ہیں۔ تاہم ان کی جدید تاریخ المناک داستانوں اور لرزہ خیز واقعات سے دوچار رہی ہے۔ انگریزوں نے پہلے 1789ء میں یہاں ایک چھوٹی سی آبادکاری قائم کی تھی۔ لیکن جلد ہی خطرناک حد تک زیادہ شرحِ اموات اور سیاسی و تجارتی عدم استحکام کی وجہ سے اسے 1796ء میں ترک کر دیا گیا۔22 1824ء کی برما سے جنگ کے دوران ایک مختصر فوجی موجودگی کے علاوہ یہ جزیرے متروک ہی رہے۔لیکن1857ءکی بغاوت کے بعد اٹھنے والے فتنوں کے نتیجہ میں سیاسی قیدیوں کو الگ تھلگ رکھنا ضروری سمجھا گیا، تاکہ عوام کو ان کے سیاسی نظریات سے دور رکھا جا سکے۔23
طویل مدتی نوآبادیاتی توسیع کے منصوبوں24 کو محفوظ بنانے کے لیے برطانوی حکومت اپنے سیاسی مجرموں کو مزدوروں کی حیثیت سے بھی دیکھتی تھی، جو ان کے لیے کام کر سکتے تھے۔ اس طرح جزائر اندامن میں بدنام زمانہ اور تاریخی تعزیری کالونی کا آغاز ہوا جس کا نام ’’کالا پانی‘‘ رکھا گیا۔ ’’کالاپانی‘‘ میں 87 سالہ مدت کے دوران نہ صرف برطانوی راج کے سیاسی قیدیوں بلکہ عادی اور نہایت خطرناک مجرموں کو بھی رکھا جاتا رہا۔25 نتیجۃً یہ کالونی بہت ساری سماجی اور اخلاقی بیماریوں کی آماج گاہ بن گئی۔ جہاں ہم جنس پرستی اور جنسی تشدد ایک معمول بن چکا تھا۔ جسم فروشی اور بدکاری جیسی اخلاقی بیماری ان کے ’کلچر‘ میں بری طرح گھس چکی تھی۔ مجرموں کو شادی کی اجازت تھی لیکن بہت سی خواتین ایسا کرنے سے انکار کردیتی تھیں کیونکہ عام طور پر شادی کا مطلب زبردستی جسم فروشی ہوتا تھا جس کا مالی فائدہ شوہر اٹھاتے تھے۔26
کپتان ڈگلس سے قبل یہاں کے سپرنٹنڈنٹ صاحبان برطانوی حکومت کو خطوط لکھ کر تاکید کرچکے تھے کہ ان برائیوں کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے۔ تاہم یہ کپتان ڈگلس ہی تھے جو حکومت کو مسلسل درخواستیں بھجواتے رہے، اور مستقل مزاجی کے ساتھ کوشش کرتے رہے۔ بدقسمتی سے پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی اور تعزیری کالونی سے متعلق معاملہ التوا کا شکار ہوگیا۔ حکومت کی طرف سے عدم جواب سے مایوس ہوئے بغیر کپتان ڈگلس نے کالونی کو بند کروانے کے لیے اپنی مہم جاری رکھی اور مختلف جرائم کے قیدیوں اور دیگرگواہوں کے بیانات کی بنیاد پر اپنے مقدمے کی تشکیل جاری رکھی۔ ان کی انتھک کوششوں اوربرصغیر پاک و ہند میں کالا پانی کے خلاف سیاسی اورسماجی غم و غصہ کے نتیجہ میں 1919ءمیں جیل کمیشن تشکیل پایا۔
کپتان ڈگلس کی انتھک محنت کی بدولت گفت وشنید کا آغاز ہوا اور حکامِ بالا فیصلہ کن اقدامات کرنے پر مجبور ہوئے۔بالآخر پورٹ بلیئر (یعنی کالاپانی) میں سزا کے خاتمے کے لیے ستمبر 1922ء میں قانون ساز اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا۔ جس کے بعد قیدیوں کی اکثریت کو ایک دہائی کے اندر اندر دوسرے مقامات پر منتقل کردیا گیا، اور کئی سال بعد 1939ءمیں حتمی طور پر اس کالونی کو بند کر دیا گیا۔27
برطانوی ہند سے مختلف قوموں کی از خود نقل مکانی کے ساتھ جزائر اندامن کی نوآبادیات کا سلسلہ جاری رہا۔ 1921ء سے پہلے کے عرصہ سے موجود اس جزیرے پر آزاد اور ترقی کرتی ہوئی آبادی کے دکانداروں، تاجروں اور پولیس اہلکاروں نے ان تارکین وطن لوگوں کی مدد کی۔
غیر معمولی کارہائے نمایاں سے مزیّن، عدل و انصاف کے ترازو کو لطیف انداز میں متوازن کرتے ہوئے شاندارکیریئر کے بعد کپتان ڈگلس 22؍ مئی 1920ءکو ریٹائر ہوئے۔28
٭…ریٹائرمنٹ کے دوران کپتان ڈگلس
ریٹائرمنٹ کے بعد، مونٹیگو ڈگلس واپس لندن چلے گئے، جہاں انہوں نے اپنے Coleherne Court کے مکان29 کی دیواروں کو خود ’واٹر کلر پینٹنگز‘سے سجایا۔ وہ ایک ماہر مصور بھی تھے اور لندن بھر میں اپنے فن پاروں کی نمائش کر چکے تھے۔30 اس کے علاوہ وہ ’’شیکسپیئر فیلوشپ‘‘ کے بانی ممبران میں سے ایک تھے۔ یہ ایک ایسی سوسائٹی ہے جو شیکسپیئر کی تصانیف کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وقف ہے۔ اس سوسائٹی کی سربراہی ان کے دوست اور سابق رفیق کار کرنل وارڈ کررہے تھے جو پہلی جنگ عظیم کے دوران ہوائی حملوں سے لندن کا دفاع کرنے کے انچارج تھے۔ یہ سوسائٹی Stratfordianنظریہ سے عدم اطمینان کی وجہ سے تشکیل دی گئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ولیم شیکسپیئر نے خود اپنے ڈرامے لکھے تھے۔
’’شیکسپیئر فیلوشپ‘‘ میں اپنی رکنیت کے دوران کپتان ڈگلس نے تین کتابیں تصنیف کیں اور اس موضوع پر کہ شیکسپیئر کے قلم کے پیچھے اصل شخص کون تھا، ان کی کتاب The case for the Earl of Oxford as Shakespeare آج تک سب سے زیادہ قائل کرنے والا کام ہے، باوجودیکہ اس بارےمیں اب بہت سی جدیدتحقیقات بھی ہو چکی ہیں۔
کپتان ڈگلس کو اُردو پر بھی عبور حاصل تھا31 اور وہ 1922ءکے اوائل سے ہی مسجد فضل لندن میں آتے رہے۔ وہ مسجد میں منعقد ہونے والی تقاریب میں شرکت کرتے، لیکچرز دیتے اور جہاں بھی ممکن ہوتا جماعت احمدیہ کے معززین سے ملاقاتیں کرتے۔ وہ ایک حلیم طبع شخص تھے جن کا دل سونے کا تھا۔ وہ اپنی بیماری کے دوران بھی ملاقات کے لیے آنے والے احمدی احباب کی عزت واحترام کا خیال رکھتے، اور ان کے ساتھ مہربانی اور شفقت کا سلوک کرتے۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سے انہوں نے یہ الفاظ کہے: ’’آپ میرے معزز دوست کے فرزند ہیں۔‘‘32 یہ الفاظ یقیناً حضرت احمد علیہ السلام کے حوالے سے تھے۔ بہت سارے مواقع پر انہوں نے 1897ءکے واقعات کے بارے میں تفصیل سے بات کی اور جو کوئی بھی ان کے مایہ ناز کیریئر کے بارے میں دریافت کرتا تو وہ اس کیس سے متعلق پورا واقعہ نہایت خوش دلی سے بیان کرتے۔ بہت سارے احمدی علماء اور معززین اس عظیم جج اور زمانہ کے پیلاطوس سے ملاقات کرتے رہے۔33 جن میں حضرت سَر محمدظفر اللہ خانؓ بھی شامل ہیں جو بعد ازاں عالمی عدالت انصاف کے جج بنے۔
کپتان ڈگلس کی زندگی بھر کی کامیابیوں کو تین الگ الگ ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ان میں سے دو ایوارڈ برطانوی حکومت جبکہ تیسرا اعزاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں عطا کیا۔ سلطنت ِبرطانیہ کی ہندوستان میں حکومت کے لیے غیر معمولی خدمات اور شاہی خاندان اور تخت سے وفاداری کی بنا پر انہیں Companion of the Order of the Indian Empire اور Companion of the Order of the Star of India سے نوازا گیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا ممتاز ایوارڈ کپتان ڈگلس کو عطا فرمایا جو اِس دنیا میں اُس وقت تک انہیں حاصل رہے گا جب تک کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کا وجود ہے اور جو دوسرے جہان میں بھی ان کو عزت بخشتا رہے گا۔ آپؑ نے کپتان ڈگلس کی عدل و انصاف پسندی کی وجہ سے انہیں ’’نیک نیّت حاکم‘‘34 اور اپنے زمانہ کے ’’پیلاطوس ‘‘35 کے خطاب سے نوازا۔ یہ اعزاز کپتان ڈگلس کے لیے ایسا منفرد اور یکتا ہے کہ اس دنیاکے اختتام تک کوئی دوسرا انسان اس میں حصہ دار نہیں ہو سکتا۔
یہ دو خطابات یعنی ’’نیک نیّت حاکم‘‘اور’’پیلاطوس ‘‘ اپنی اہمیت کے اعتبار سے مزید ذکر کے متقاضی ہیں۔
٭…مسیح ناصریؑ، مسیح قادیانیؑ، روم کا پیلاطوس اور معزز جج کپتان ڈگلس
قریباً 60 قبل مسیح میں، یسوع مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے نصف صدی پہلے وہ علاقے جو کبھی یہودیوں کے ہوا کرتے تھے وہ رومن سلطنت کے زیرِ تسلط آچکے تھے۔ تاہم رومیوں نے یہودیوں کو خودمختار حکمرانی اور سین ہڈرین (Sanhedrin) یعنی یہودیت کی سب سے اعلیٰ عدالت یا عدالتی جرگہ کے قیام کی اجازت دی ہوئی تھی۔ یہ جرگہ یا مجلس مذہبی معاملات پر فیصلے صادر کر سکتی تھی لیکن اسے سزائے موت دینے کا اختیار حاصل نہ تھا۔ صرف رومیوں کو ہی یہ اختیار حاصل تھا۔36 اسی لیےجب Sanhedrin نے یہ فیصلہ کر لیا کہ حضرت عیسیٰ سزائے موت کے حقدار ہیں تو وہ انہیں یہودیہ (Judea) کے گورنر پینٹیوس پیلاطوس (Pontius Pilate) کے روبرو پیش کرنے کے لیے لے گئے۔37
یہودی حکام چاہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو توہین رسالت کے الزام میں پھانسی دی جائے، لیکن اس طرح کے الزام کا رومن عدالت میں کوئی جواز نہ تھا۔ لہٰذایہ الزام لگایا گیا کہ عیسیٰؑ نے یہودیوں کے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ اس مقدمے کی سماعت کے دوران زیادہ تر خاموش رہے اور جھوٹے الزامات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس وجہ سے پیلاطوس کو بہت حیرت ہوئی کیونکہ وہ قائل ہوچکا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مجرم نہیں ہیں۔38
چنانچہ اس نے فوری طور پر حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب کرنے کی سزا نہ سنائی اور لوگوں کے مجمع کو موقع فراہم کیا کہ وہ انہیں چھڑا کر لے جائیں۔ پیلاطوس کو امید تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام چونکہ ایک مقبول شخصیت ہیں اس لیے عوامی ہجوم ان کی رہائی کا مطالبہ کرے گا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسا نہ ہوا اور فسادات سے گھرے ہوئے یہودیہ میں بغاوت اور فتنہ وفساد کو روکنے کے لیے بالآخر پیلاطوس نے Sanhedrin کے دباؤ کے سامنےگھٹنےٹیک دیے اور حضرت عیسیٰؑ کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ اس طرح پیلاطوس تاریخ عالم میں ایک متنازع کردار کے طور پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگیا۔39
پیلاطوس کے برعکس کپتان ڈگلس نے اپنے سامنے پیش ہونے والے بودے مقدمہ کی حقیقت کو جان لیا اور چرچ کے حق میں فیصلہ دینے کے دباؤ کے باوجودبرطانوی نظام عدل کے تقاضوں کو مجروح کرنے سے انکار کردیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو باعزت بری کردیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں: ’’…عدالت کے امر میں وہ دلیری اور استقامت سے عدالت کا پابند رہا اور بالائی سفارشوں کی اُس نے کچھ بھی پروا نہ کی اور قومی اور مذہبی خیال نے بھی اُس میں کچھ تغیّر پیدا نہ کیا اور اس نے عدالت پر پورا قدم مارنے سے ایسا عمدہ نمونہ دکھایا کہ اگر اس کے وجود کو قوم کا فخر اور حکام کے لیے نمونہ سمجھا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ عدالت ایک مشکل امر ہے جب تک انسان تمام تر تعلقات سے علیحدہ ہو کر عدالت کی کرسی پر نہ بیٹھے تب تک اس فرض کو عمدہ طور پر ادا نہیں کر سکتا مگر ہم اس سچی گواہی کو ادا کرتے ہیں کہ اِس پیلاطوس نے اس فرض کو پورے طور پر ادا کیا۔ اگرچہ پہلا پیلاطوس جو رومی تھا اس فرض کو اچھے طور پر ادا نہیں کر سکا اور اُس کی بزدلی نے مسیح کو بڑی بڑی تکالیف کا نشانہ بنایا۔‘‘ 40
٭…’’بہادر کبھی موت کا مزہ نہیں چکھتا، مگر ایک بار‘‘ 41
مونیٹگو ولیم ڈگلس ایک غیر معمولی انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی عدل وانصاف کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ معاشرے کے لیے ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔ انہیں متعدد القاب وخطابات سے پہچانا جاتا ہے جو انہیں اپنے ممتاز کیریئر کے دوران عطا ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے دوران بھی انہوں نے اپنے نظم و ضبط کو ہرگز نہ چھوڑا جس کے ماتحت انہوں نے اپنی تمام تر زندگی بسر کی۔
’’شیکسپیئرفیلوشپ‘‘ انہیں ان الفاظ میں یاد کرتی ہے: ’’…اعلیٰ درجہ کے چیئرمین، منصف مزاج اور غیر جانبداراور ہمیشہ ان خیالات کو بھی سننے کے لیے تیار جن سے وہ خود اتفاق نہ بھی کرتے ہوں۔ ‘‘42
24؍ فروری 1957ء کو منصف مزاج پیلاطوس ثانی، اس زمانے کے نیک حاکم، لندن کے ایک چھوٹے سے علاقہ Ealing میں انتقال کر گئے۔ نہایت ہنرمند، انصاف کے علمبردار، تمام منصفوں کے منصف کپتان ڈگلس کے جسدِ خاکی کو جلانےکے بعد راکھ لندن کے بالکل شمال میں واقع گولڈرز گرین (Golders Green) کے ایک شمشان گھاٹ میں بکھیر دی گئی۔43
حوالہ جات
1۔میں اس مضمون کی تحقیق و تحریر کے دوران معاونت کرنے پر فرحان کھوکھر صاحب (کینیڈا)، بلال طاہر صاحب (ریویو آف ریلیجنز)، پام ویٹلی (لائبریرین)، فنلی مارٹن (مصنف) اور ڈاکٹر توصیف خان صاحب (محقق) کا ممنون احسان ہوں۔
2۔کشتی نوح۔(مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام)۔روحانی خزائن جلد19 صفحہ 55 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008ء
3۔روزنامہ الفضل ربوہ۔ 8؍مئی 2009ء صفحہ 3
4۔The history of the Church Missionary Society – its environment, its men and its work. pp 47.-67
5۔ 22مئی تا 5؍ جون 1893ء، امرتسر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین ایک تحریری مباحثہ ہوا۔ جس کے منتظم ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے اسے جنگ مقدس سے موسوم کیا۔ عبد اللہ آتھم، جو کہ ایک قابل مباحث تھا، نے عیسائیت کی نمائندگی کی اور حضرت احمد علیہ السلام نے اسلام کی نمائندگی فرمائی۔ اس مباحثے کے نتیجے میں اسلام کو غیرمعمولی فتح حاصل ہوئی۔ اس کی مکمل کارروائی حضرت احمد علیہ السلام نے جنگ مقدس کے نام سے ایک کتاب میں شائع فرمائی۔
تفصیلات کے لیے روحانی خزائن جلد 6 میں شامل کتاب جنگ مقدس از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ملاحظہ کریں۔
6۔خطبات محمود از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدرضی اللہ عنہ جلد 38 صفحہ 77 تا 84۔خطبہ جمعہ 22؍مارچ 1957ء
7۔تحقیق حق کا صحیح طریق انوار العلوم جلد 13 صفحہ 259۔www.alislam.org
8۔سیرت حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی۔ اصحابِ احمد جلد 9 صفحہ 330 پہلا ایڈیشن۔از ملک صلاح الدین (ایم۔اے)
9۔روحانی خزائن جلد 13۔ کتاب البریہ ٹائٹل پیج
10۔نومبر1881ء کے فیٹس سکول میگزین میں اپنی ’’بہت تحمل مزاج بیٹسمین‘‘ کہا گیا، ان کے کھیلنے کا انداز بالکل سیدھا تھا۔ اچھے فیلڈر اور بہترین حکمت عملی کے ساتھ باؤلرز تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
سکول میگزین کے اپریل 1882ءکے ایڈیشن میں رگبی ٹیم کے کھلاڑی کی حیثیت سے ان کی صلاحیت کے بارہ میں تحریر ہے: ’’وہ بہت ہی عمدہ فارورڈ تھے۔ برق رفتاری سے اٹیک کرتے اور بہت محنت کے ساتھ مخالف کھلاڑیوں کا پیچھا کرتے۔‘‘
Archivist کریگ ڈبلیو مارشل کے ساتھ انٹرویو۔ فیٹس کالج، ایڈنبرا۔ 17؍جولائی، 2018ء۔
11۔https://thebioscope.net/2011/12/11/the-delhi-durbar/. Date Accessed: February 10, 2019
12۔https://web.archive.org/web/20090513183442/http://www.charlottecory.com/travel/delhi_durbar.htm. Date Accessed: February 17, 2019
13۔History of the Delhi Coronation Durbar, Stephen Wheeler, London 1904, Appendix VI – Officers on Special Duty in Connection with the Delhi Durbar. P 292) and At Delhi, Lovat Fraser, Times of India 1903, p. 209
14۔Dr. M. Hyde. Simla and the Simla Hill States Under British Protection 1815-1835. Journal of the Panjab University Historical Society. Vol XIII. December 1961. pp. 149
15۔Chauhan, Raja Ram. History of Bushahr State: 1815-۔1948. Himachal Pradesh University. 2000.
http://hdl.handle.net/10603/120961 Accessed Jan 1, 2019
16۔Shodhganga.inflibnet.ac.in/jspui/bitstream/10603/121155/8/08_chapter%204.pdf and
https://hpsolan.nic.in/history/
17۔رِیت ایک پرانی رسم تھی جس میں عورت اپنی مرضی سے نئے آدمی سے شادی کر سکتی تھی۔ نئے ’شوہر‘کے لیےلازم تھا کہ سابقہ ’شوہر‘کو معاوضہ ادا کرے اور عارضی شادی کے لیے’دلہن ‘کوبھی کوئی تحفہ پیش کرے۔ یہ رسم اس قدر پھیل چکی تھی کہ کچھ تاریخی احوال تو شملہ کی تمام پہاڑی ریاستوں کو ایک بڑے کوٹھےیا طوائف گھرقرار دیتے ہیں۔
مزید پڑھنے کے لیے، براہ کرم ملاحظہ کریں:
Snehi, Yogesh. ’’Conjugality, sexuality and shastras: Debate on the abolition of reet in colonial Himachal Pradesh.‘‘ The Indian Economic & Social History Review 43, no. 2 (2006): 163-۔197.
18۔Kapta, Subhash. Impact of British rule on society and economy of Himachal Pradesh A.D. 1815-.1947. Himachal Pradesh University. 2000. http://hdl.handle.net/10603/129169 Accessed July 18, 2019
19۔http://faisalabad.dc.lhc.gov.pk/PublicPages/HistoryOfDistrict.aspx – Accessed March 5, 2019
20۔Ahmad, Muhammad Abrar, and Muhammad Iqbal Chawla. ’’HISTORY AND DEVELOPMENT OF LYALLPUR 1890-.1947‘‘Journal of the Research Society of Pakistan 54, no. 1 (2017).
21۔The Story of a Club Chenab and its rich history. Syed Afsar Sajid. DNA 16-22 March 2014, p. 19
(https://www.pakistantoday.com.pk/2014/03/15/the-story-of-a-club/ accessed Feb 27, 2019)
22۔Imperial Andamans, Aparna Vaidik, Colonizing the Bay, pp 39-42
23۔Singh, Ujjwal Kumar. Political Prisoners in India, 1920-1977. Theses for Doctor of Philosophy. University of London. 1996. pp 58-60. ProQuest Number: 10731591
24۔Anderson, Clare. The Indian Uprising of 1857-.58: Prisons, Prisoners and Rebellion. LONDON; NEW YORK; DELHI: Anthem Press, 2007. http://www.jstor.org/stable/j.ctt1gxp9x1.
25۔Manju Ludwig, ’’ Murder in the Andamans: A Colonial Narrative of Sodomy, Jealousy and Violence ‘‘, South Asia Multidisciplinary Academic Journal [Online], Free-Standing Articles, Online since 17 October 2013, connection on 23 February 2019. URL : http://journals.openedition.org/samaj/3633 ; DOI : 10.4000/samaj.3633
26۔Imperial Andamans, Aparna Vaidik, Colonizing the Bay. p 169
27۔For excellent, comprehensive discussion on the Andamans, and the role of some of the Superintendents including Captain Douglas, please see Aparna Vaidik‘s Imperial Andamans: Colonial Encounter and Island History.
28۔Proceedings of the Home Department, July 1920. Proforma number 113, letter number 258, dated Simla, the 17th May 1920.
29۔Martell, Edward, L. G. Pine, and Alberta Lawrence. Who was who Among English and European Authors 1931-.1949: Based on Entries which First Appeared in’’ The Author‘s and Writer‘s Who‘s who and Reference Guide‘‘ Originally Compiled by. Gale research Company, 1978. p 431.
30۔The Shakespeare Fellowship News-Letter (sic). Obituary. Spring 1957. p 11.
31۔Hayat-e-Shams. p 463.
32۔Malik, Salahuddin (M.A.). Seerat Hazrat Bhai Abdul Rahman Sahib Qadiani. Ashab-e-Ahmad, vol 9. p 330. 1st ed.
33۔Sami, Safia Bashir. Meeri Poonji. Urdu. Unitech Publications Qadian 2013. pp 37-.39
34۔کشتیٔ نوح۔(مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام)۔روحانی خزائن جلد19 صفحہ 56 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008ء
35۔کشتی نوح۔(مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام)۔روحانی خزائن جلد19 صفحہ 56 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008ء
36۔Scheindlin, Raymond P. A short history of the Jewish people: From legendary times to modern statehood. Oxford University Press, USA, 2000.
37۔Evans, Craig A., and Stanley E. Porter Jr, eds. Dictionary of New Testament background: a compendium of contemporary biblical scholarship. InterVarsity Press, 2010. pp. 1010-.18
38۔Husband, Richard Wellington. The Prosecution of Jesus: Its Date, History and Legality. Princeton University Press, 1916.Chapter IX.
39۔Mark 14:53–65, Matthew 26:57–68, Luke 22:63–71, and John 18:12–24
40کشتی نوح۔(مصنفہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام)۔روحانی خزائن جلد19 صفحہ 55-56 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008
41۔Shakespeare, William. Julius Caesar. Circa 1599
42۔The Shakespeare Fellowship News-Letter (sic). Obituary. Spring 1957. p 11
43۔Golders Green Crematorium Cremation record. Register number 137950 (Cremation date: Feb 28, 1957). Record obtained July 11, 2018.