اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
دسمبر2021ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
احمدیوں کا ضمانت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع
روحان احمد، ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد وغیرہ کے خلاف 26؍مئی 2020ءکو PPCs 295-B, 298-C, 120-B, 109, 34 R/W, 2016-PECA-11 کے تحت پولیس اسٹیشن ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور نےایف آئی آر نمبر29/2020 اس الزام پردرج کی کہ احمدیہ لٹریچر کے متعلق ایک کوئز پروگرام کرایا گیا ہے اور مقابلہ میں قرآن کریم کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ پولیس نے 26؍ مئی 2020ء کو اس ایف آئی آر کے تحت روحان احمد کو گرفتار کیا۔ ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد کو ایف آئی اے کے دفتر میں پیشی پر گرفتار کیا گیا۔ ان کی ضمانت کی درخواست 30؍ستمبر 2020ء کو مسترد کر دی گئی۔ مخالفین کی درخواست کے جواب میں ایڈیشنل سیشن جج لاہور نے 29؍ جون 2021ء کو چارج شیٹ میں توہین رسالت کی شق PPC 295-C شامل کی۔ اس مہلک شق سے ملزم کو سزائے موت سنائے جانے کے امکان ہوتے ہیں۔ 9؍مارچ 2021ء کو ایڈیشنل سیشن جج لاہور حامد حسین نے ان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی اور جسٹس محمد امجد رفیق نے 30؍ اگست کو اسے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کے لیے چٹھی دائر کی۔ دریں اثناء کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج لاہور علی عباس کی عدالت میں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے درخواست ضمانت کی سماعت 16 دسمبر کو کرنی تھی۔جسٹس سردار مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کر دی۔
پبلک سروس میں احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک
فیصل آباد اور اٹک۔دسمبر 2021ء: طلحہ احمد شیخ پاکستان آرمی میں سروس کے لیے ایک انٹرویو میں حاضر ہوئے۔ ایک بریگیڈیئر اور چار افسران پر مشتمل انٹرویو پینل نے ان سے اپنا تعارف کرانے کو کہا۔ اس کے بعد ان سے ان کے بہن بھائیوں کے بارے میں پوچھا گیا جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک بھائی جماعت احمدیہ کا مبلغ ہے۔ انہوں نے اس سے اس کی پوسٹنگ اور الاؤنس وغیرہ کے بارے میں پوچھا۔پھر انہوں نے احمدیت اور اسلام کے دوسرے فرقوں کے درمیان اختلافات کے بارے میں سوالات پوچھے۔ اُنہوں نے اُس سے کہا کہ کوئی تین امورجن میں فرق ہو کی وضاحت کریں۔ مزید برآں، انہوں نے ان سے حضرت عیسیٰؑ کے نزول اور قرآن پاک میں احمدیوں کے عقیدہ کے بارے میں سوالات پوچھے۔ پھرانہوں نے جنرل نالج کے چند سوالات بھی پوچھے۔ انہوں نے ان سے جماعت احمدیہ اور لاہوری احمدیوں کے مابین فرق کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی سے ہی احمدیوں میں اختلافات تھے۔ جو کہ درست نہیں۔ شیخ صاحب نے جواب دینا شروع کیا لیکن ان سے کہا گیا کہ وہ چلے جائیں۔ یہ انٹرویو تقریباً 25 منٹ تک جاری رہا۔ یہ بنیادی طور پر محض ان کے عقائد کے بارے میں تھا اور ان کی سلیکشن بھی نہیں ہوئی۔
ایک اور کیس میں ایک احمدی محمد عبدالسلام جو کہ کسران ڈسٹرکٹ اٹک کے رہائشی ہیں، پاکستان آرمی میں سپاہی کے طور پر بھرتی ہوئے۔ انہوں نے 26؍جون 2021ء کو آرٹلری سنٹر کو ٹریننگ کے لیے رپورٹ کیا۔ کچھ دنوں بعدانہیں کہا گیا کہ وہ چلے جائیں اور مرکز کو رپورٹ کریں۔ جب وجہ پوچھی تو انسٹرکٹر نے بتایا کہ فوج کے قوانین کے مطابق کوئی بھی احمدی فائٹنگ کور میں خدمات سرانجام نہیں دے سکتا۔ کچھ دنوں بعد کرنل نعمان ظہور نے انہیں طلب کیا۔ انٹرویو کے لیے جاتے ہوئے ایک انسٹرکٹر نے ان سے کہا کہ احمدیت چھوڑو اور اپنی نوکری بچاؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’’اگر میں اپنے عقیدے کی وجہ سے نوکری کھو دیتا ہوں، تو میں ایسی نوکری خود چھوڑ دوں گا‘‘۔ انٹرویو کے بعد عبدالسلام کو کہا گیا کہ وہ فوراً چلے جائیں۔ انہیں 12؍جولائی 2021ء کو واپس بھیجا گیا تھا۔ اس کے بعد سے انہیں واپس نہیں بلایا گیا اور نہ ہی ان کی برطرفی کی وجہ آفیشل طور پر بتائی گئی ہے۔
احمدی تاجر کو مارپیٹ کر ہراساں کیا گیا
مریدکے، ضلع شیخوپورہ۔دسمبر 2021ء: زاہد احمد ایک احمدی ہیں جو اس علاقہ میں ایک آٹو ورکشاپ چلا رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کے عقیدے کے بارے میں معلوم ہوا اور وہ ان کے خلاف ہو گئے۔ مخالفین اب گاہکوں کو ان کے عقیدے کے بارے میں بتاتے ہیں اور ان کے ساتھ تجارت کرنے سے روکتے ہیں۔ انہوں نے لاہور کے ہول سیل ڈیلروں کو جہاں سے زاہد اپنی دکان کے لیے اشیاء خریدتے تھے ان کے عقیدے کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس پر ڈیلرز نے ان کے ساتھ معاملات بحال رکھنے سے انکار کر دیا۔ زاہد کو دھمکیاں بھی ملیں۔ کچھ لوگوں نے انہیں مارا پیٹا لیکن چند اچھے لوگوں نے مداخلت کی اور انہیں کسی بڑے نقصان سے بچنے میں مدد دی۔ مخالفین نے مالک مکان سے کہا کہ وہ قادیانی ہونے کی وجہ سے زاہد سے اپنی دکان خالی کرا دے۔ اس پر مالک نے زاہد کو دکان خالی کرنے کو کہا اور انہیں دکان خالی کرنی پڑی۔ انہیں اپنا سامان اور سٹاک دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا۔ ان کا کاروبار بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے راہنما کیپٹن صفدر ایک بار پھر احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف
اسلام آباد۔ دسمبر 2021ء: کیپٹن (ر) محمد صفدر نے ایک بار پھر جماعت احمدیہ کے خلاف جارحانہ الفاظ کا استعمال کیا۔ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد ہیں۔ 21؍ دسمبر کی ایک ویڈیو میں کیپٹن صفدر نے ایک اراضی تنازعہ کیس میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) اعجاز افضل خان کے خلاف پریس سے بات کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کیے۔یاد رہے افضل خان احمدی نہیں ہیں۔ افضل خان کے خلاف براہ راست اور احمدیوں کے خلاف بالواسطہ کیپٹن صفدر کے تعصب بھرے الفاظ درج ذیل ہیں:
صفدر نے کہا کہ ’’جہاں تک اعجاز افضل کا تعلق ہے، یہ مقدمہ بازی نہیں، دشمنی ہے۔ دشمنی یہ ہے کہ ماضی میں اس نے 1973ءکے آئین کے باغیوں اور ختم نبوت کے منکروں کا بطور وکیل دفاع کیا۔ وہ مانسہرہ میں ریکارڈ کے مطابق قادیانیوں کے چار مقدمات لڑ چکے ہیں اور یہی دشمنی کی وجہ ہے۔‘‘
’’آپ مذہب کو ہتھیار کے طور پر کیوں استعمال کر رہے ہیں؟‘‘، ایک رپورٹر (مطیع اللہ جان) نے پوچھا۔
’’میرے پاس بہت سے ہتھیار ہیں۔ وہ کبھی پشاور ہائی کورٹ، کبھی سپریم کورٹ تک بھاگتے ہیں۔ میں تمہیں اپنی دشمنی کی وجہ بتا رہا ہوں۔ یہ روحانی معاملہ ہے۔ اللہ نے مجھے یہ فرض سونپا ہے‘‘،صفدر نے کہا۔
’’لیکن یہ زمینی تنازعہ کا معاملہ ہے، اس میں روحانیت کیسے شامل ہے؟‘‘ایک رپورٹر نے پوچھا۔
صفدر:’’اعجاز افضل کا زمین سے کوئی تعلق نہیں، نہ اس کی بیوی کا اور نہ ہی کسی اور کا۔ اگر یہ ان کی زمین تھی تو اس پر زبردستی قبضہ کیوں کرایا؟ اس نے سیکیورٹی گن مین کیوں بھیجے؟ مانسہرہ کے معززین نے مجھ سے صلح کرنے کو کہا لیکن میں نے ان سے کہا کہ اگر میں اس شخص سے صلح کر لوں جو حضورﷺ کے منکروں کا حامی تھا تو میں قیامت کے دن اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں گا۔‘‘
انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ مجھے مہنگائی کی فکر نہیں، مجھے اس ملک کے لوگوں کے ایمان کی فکر ہے۔
اس سے قبل 8؍ دسمبر 2021ء کو کیپٹن (ر) صفدر نے اسی تناظر میں کہا تھا کہ ’’کوئی بھی جو حضورﷺ کے منکروں کا وکیل ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ عزت سے مر سکتا ہے؟ نہیں مانسہرہ میں کوئی ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھے گا، انشاء اللہ۔ میری دعا ہے کہ کوئی مولوی جو اس کی نماز جنازہ پڑھائے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم رہے۔ میں یہ مقدمہ لڑوں یا نہ لڑوں، یہ بات طے ہے کہ مانسہرہ میں اس شخص کا جنازہ کوئی نہیں پڑھائے گا۔ اعجاز افضل جو اس عدالت میں جج تھاقادیانیوں کا وکیل تھا۔ اب وہ زمین پر قبضہ کرنے والا ہے۔ میں پاکستان میں کہیں بھی جانے کو تیار ہوں کیونکہ یہ کیس میرا نہیں بلکہ میرے بزرگوں کا ہے۔ میں یہاں مدینہ کا خادم بن کر حاضر ہو رہا ہوں۔ ‘‘
احمدی خاتون کو مخالفت کا سامنا
بازار دھمیال کیمپ، ضلع راولپنڈی : دسمبر 2021ء: محترمہ امة الودود اپنے بیٹے مبارز احمد کے ساتھ قریبی بازار میں اشیائے خورونوش لینےکے لیے گئیں۔ وہاں انہوں نے اپنے بیٹے کے استاد کو دیکھا جنہیں انہوں نے احتراماً ’’سلام‘‘ کہا۔ استاد نے بہت برا رد عمل ظاہر کیا اور چلانا شروع کر دیا کہ قادیانیوں کی طرف سے اسے کیوں سلام کیا جائے۔ اس نےدکانداروں سے یہ بھی کہا کہ وہ انہیں کچھ نہ بیچیں۔ اس نے احمدیہ جماعت کے بانی اور خلفاء کو برا بھلا کہا۔ بازار سے ایک بڑا ہجوم وہاں جمع ہو گیا، لیکن کسی نے ان کے غیر فطری ردعمل کو نہیں روکا۔ محترمہ ودود اور ان کا بیٹا بغیر کوئی خریداری کیے وہاں سے چلے گئے۔
(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)