حضرت چھوٹی آپا اُمّ متین سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ کا ذکرِ خیر
لجنہ اماءاللہ کی خدمات میں گزرنے والی زندگی سے جو برکات حاصل ہوئیں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔اللہ پاک نے اپنے فضل و احسان سے خاکسار کوخاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قریب رکھا۔خواتین مبارکہ سے قریبی تعلق قائم ہوئےاور زندگی ایسے ماحول میں گزری جہاں قدم قدم پر خلافت کی برکات کے نظارے دیکھے۔ خاکسار اس مضمون میں اس سارے ماحول کا ایک تاثراتی نقشہ پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ العلی العظیم۔
اس عاجزہ کو محض خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے50 سال تک لجنہ اماءاللہ کے کام کرنے کاموقع ملا۔ جن میں سے 44 سال تک امِّ متین حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مرحومہ مغفورہ کے زیر سایہ اور آپ کی راہنمائی میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے مختلف عہدوں پررہ کر خدمت کی توفیق ملی اور اس طرح آپ کے خصائل حسنہ اور اوصاف جمیلہ کوقریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ کے بارے میں میرا مجموعی تاثر جو دل و دماغ پر نقش ہے وہ یہ ہے کہ آپ فرشتہ خصلت، دُعا گو اور سراپا شفقت و محبت تھیں مگر ساتھ ساتھ خدا داد رعب اوروقار بھی تھا۔ نہایت جوہر شناس تھیں کام کرنے والوں سے کام کرانے کا خاص ملکہ رکھتی تھیں جس کی وجہ سے آپ کے ساتھ کام کرکے کوئی تھکن اور بوجھ محسوس نہ ہوتا تھا۔ بلکہ آپ کے ساتھ کام کرکےخوشی محسوس ہوتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ جن کو بھی آپ کے ساتھ کام کرنے کاموقع ملا آج وہ جہاں بھی ہیں اپنے اپنے رنگ میں خدمت کی توفیق پارہی ہیں۔ آپ بہت معمور الاوقات تھیں اور انتہائی محنت کرنے کی عادی تھیں۔ عفو و درگزر سے کام لینا بھی آپ کی ایک خاص صفت تھی۔ بلا امتیاز سب کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتی تھیں۔ دوسرےکی رائے کو بھی توجہ سے سنتی تھیں۔ پردے کی پابندی کرتیں اور کرواتی تھیں۔ خلفائے کرام کا خاص احترام کرتیں اور ان کی تحریکات کو کامیاب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی تھیں۔ لین دین بہت صاف ستھرا تھا۔ دوسروں کی دلداری کرنے کاایک خاص انداز تھا۔ غرض آپ بہت سےغیرمعمولی اوصاف کی مالک تھیں اور آپ کی یہی خوبیاں تھیں جو آپ کے ساتھ کام کرنے والوں کے دل موہ لیا کرتی تھیں۔
اپنے عظیم شوہر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرح اور ان کی خواہش کے عین مطابق آپ میں بھی تمام قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ آپ عمر بھر احمدی خواتین کی جودنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں راہنمائی کرتی رہیں۔
آپ نے 55سال کے طویل عرصہ تک پہلے لجنہ اماءاللہ کی جنرل سیکرٹری کے طور پر اور پھر صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی حیثیت سے نہایت محنت اور جا ںفشانی سے لجنہ کےپودے کی ایسی آبیاری فرمائی کہ اب اس کی شاخیں دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں اور نہایت مضبوط جڑوں کے ساتھ استوار ہوچکی ہیں۔ الحمدللہ۔
آپ حضرت ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحبؓ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے چچا تھے۔ان دونوں گھرانوں میں ایسا میل جول تھا کہ ایک ہی گھرمعلوم ہوتا تھا۔ اس ماحول میں جو بچے پلے اور پھلے پھولے ان میں ایک ہی لگن اور تڑپ تھی یعنی دین کا کام اور جماعت کی خدمت۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب محلہ دارالفتوح قادیان میں مکان بنوایا اوروہاں رہائش اختیار کی توعاجزہ اس محلہ کی لجنہ کی سیکرٹری تھی۔ حضرت میر صاحبؓ کی بیٹی محترمہ صاحبزادی امۃ القدوس بیگم صاحبہ اہلیہ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمدصاحب میری کلاس فیلوتھیں۔ اس لیے آپ کے گھر جانے کااتفاق ہوتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے گھر کا رہن سہن بہت سادہ تھا۔ لباس میں سادگی تھی،پردے کا بہت زیادہ خیال رکھاجاتا تھا۔ حضرت چھوٹی آپا جب شادی ہوکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حرم بن کر آئیں تووہاں ماشاء اللہ بہت بڑی فیملی تھی۔ آپ نے اپنے اخلاق سے سب کادل موہ لیا۔ بڑوں کی عزت کی، بچوں سے پیار کیا۔ بڑے اور چھوٹے سب آپ سےخوش تھے۔ آپ کی نندیں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاآپ سے بہت محبت اور پیارکرتیں۔ قادیان میں حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ آپ کی رہائش تھی۔آپ کے گھر بہت سےرشتہ دار آتے جاتے رہتے جن کا کھلے دل سے استقبال اور مہمان نوازی کرتیں۔ عمدہ کھانے پکواتیں عزیزوں کے گھروں میں بھجواتیں۔ ربوہ کے ابتدائی دنوں میں حالات کی مجبوری کی وجہ سے لوگ قربانی نہیں کرسکتے تھے۔آپ عید کی نماز کے بعد بہت جلدی قربانی کروا کرگوشت تقسیم کرواتیں تاکہ لوگ جلد از جلد عید کاکھانا پکا سکیں۔ آپ کوفکر ہوتا کہ بازار سے بھی گوشت دستیاب نہیں ہوگا۔ اس لیے تقسیم کروانے میں جلدی کرتیں۔ بعض خاص کھانے پکوا کرعزیز و اقارب کے گھروں میں بھجواتیں۔موسم کے مطابق مہمان نوازی کرتیں۔ آپ کی دو والدہ تھیں محترمہ شوکت سلطان صاحبہ جوحضرت میر صاحبؓ کی بڑی بیگم تھیں۔ ان سے کوئی اولاد نہیں تھی۔ آپ کی حقیقی والدہ کا نام حضرت امۃاللطیف صاحبہ تھا جو حضرت مرزا محمد شفیع صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دختر تھیں، انہیں سےحضرت ڈاکٹر صاحبؓ کی ساری اولاد ہوئی۔ دونوں بیویوں میں سگی بہنوں جیسا تعلق تھا۔ گھر کا ہر کام باہمی مشورہ سے کرتیں۔ اولاد کی نگرانی اور تعلیم و تربیت بھی دونوں مل کر کرتیں بلکہ بڑی بیگم سے اولاد کو زیادہ پیار ملتا تھا۔ سب انہیں چھوٹی اماں کہتے تھے۔ یہی نام بعد میں سارے خاندان میں مشہور ہوگیا۔ ساری اولاد بھی ان کا بہت خیال رکھتی تھی۔ آخری علالت میں حضرت چھوٹی آپا صاحبہ انہیں اپنے گھر ہی لے آئی تھیں۔ جہاں آپ کو ان کی خدمت اور تیمارداری کی بہت توفیق ملی۔ آپ کی والدہ محترمہ امۃ اللطیف صاحبہ نے اپنے خاوند کی وفات کے بعدعزت نفس کا بہت خیال رکھا اور وقارکے ساتھ اپنی زندگی گزاری۔ ان کی زندگی حضرت میر صاحبؓ کے ان اشعارکے عین مطابق تھی جو انہوں نے بطور وصیت لکھے تھے:
وقار اپنا بنا رکھنا نہ ضائع جائے خودداری
کوئی کہنے نہ یہ پائے کہ ہے آفت میں بے چاری
خدا محفوظ ہی رکھے خوشامد سے لجاجت سے
مطاعن سے،مصائب سے، نہ آئے پیش دشواری
حضرت میر صاحبؓ نے فرمایا تھا کہ میری بچیوں کی شادیاں خلیفہ ٔوقت کے اذن سے کرنا۔ چنانچہ ایسا ہی کیاگیا۔ والدہ کی وفات کے بعد بحیثیت بڑی بہن، بہن بھائیوں کا ہر طرح سےخیال رکھنے کا حق ادا کیا۔ آپ کے بہن بھائیوں نے بھی آپ کو بہت عزت اور احترام کا مقام دیا۔
حضور کی دوسری بیویوں سے بہنوں کی طرح سلوک تھا اور ان کے بچوں سے بھی بہت پیارکیا۔ آپ کی ایک ہی بیٹی سیدہ امۃ المتین صاحبہ تھیں۔ حضور کی ساری اولاد آپ کو اپنی مشفق اور مہربان ماں سمجھتی تھی۔ سب بچوں نے آپ سےپیار لیا۔ اپنے مسائل بتاتے،آپ سے سفارشیں کرواکراپنی باتیں اپنی ماؤں اور بسا اوقات اپنے باپ (حضورؓ) سے بھی منواتے۔ جب بچے شادی شدہ ہوگئے تو اگلی پود بھی اپنے مسائل حل کروانے کے لیے مشورہ اور دعا کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھی۔آپ بھی اپنے نواسے نواسیوں، پوتے پوتیوں سے بہت پیار کرتیں۔ ہر کوئی آپ سے خوش تھا۔ سب کو تحائف دیتیں، بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتیں۔ نماز کی پابندی، قرآن مجید کی تعلیم اور بڑوں کا ادب کرنا سکھاتیں۔ گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی بچوں سےکرواتیں۔ آپ کی اس خاص تربیت سے صرف آپ کے بچوں نے ہی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ جماعت کے مرد، عورتیں اور بچے بھی اپنی ضرورت کے مطابق ان کے فیض سے حصہ پاتے اور خدا کا شکر ادا کرتے۔ بہت سی لڑکیوں نے آپ کے گھر رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔آپ ان کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتی تھیں۔
بچوں کی تربیت
آپ بچوں کی تربیت کس طرح کیا کرتی تھیں؟اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یادآیاہے۔ایک دفعہ آپ کے نواسے عزیز فرخ نے جو اس وقت چار سال کے تھے، شرارت کرتے ہوئے ایک بچے کو چٹکی کاٹی۔ آپ نے فوراً فرخ کودو تین بار چٹکی کاٹی اور پھر اسے فرمایا جس طرح تمہیں چٹکی کا درد ہؤا ہے اسی طرح اس بچے کو بھی درد ہؤا ہے جسے تم نے چٹکی کاٹی۔ آئندہ کبھی ایسی غلط حرکت نہ کرنا۔میں سوچتی ہوں اگر کوئی اور ماں ہوتی تو اس معمولی شرارت کو کوئی اہمیت نہ دیتی مگرآپ نے نہ صرف عزیز فرخ کو بلکہ ہم دیکھنے والوں کو بھی ایک سبق دے دیا کہ کس طرح بچوں کی تربیت کرنی چاہیے۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی ایک دلی خواہش
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی دلی خواہش اور تڑپ تھی کہ حضورؓ کے حرم میں ایک ایسا وجود ہو جو اعلیٰ دینی اور دنیوی تعلیم سے مزین ہونے کے بعد حضور ؓکی زیر ہدایت احمدی خواتین کی قیادت کے فرائض سرانجام دے سکے۔ چنانچہ جب حضرت سیدہ امۃالحیٔ صاحبہ کی وفات ہوئی توحضورؓ نے فرمایا:’’میں نے جو ان سے شادی کی تو اس وقت میری نیت بطور احسان کے یہ تھی کہ ان کے ذریعہ بآسانی عورتوں میں تعلیم دے سکوں گا۔‘‘(تاریخ لجنہ، جلد اول صفحہ 143)
حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ سے نکاح کے موقع پربھی حضورؓ نے فرمایا: میری توجہ اس طرف مائل ہوئی کہ عورتوں میں اعلیٰ تعلیم کو رواج دینے اور ان میں سلسلہ کی روح پیدا کرنے کے لیے کسی ایسی لڑکی سے شادی کروں جو تعلیم یافتہ ہو اور جسے میں صرف تربیت دے کر تعلیمی کام کرنے کے قابل بنا سکوں۔(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 125)
حضرت سیدہ اُمّ طاہر نے حضور ؓکی خواہش کے مطابق لجنہ کے لیے بہت قربانی دی، انتھک محنت کی، بہت کام کیااور کروایا۔ مگر افسوس کہ ان کو بہت مختصر زندگی ملی۔ ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کو حضورؓ کی اس دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کی توفیق دی۔ شادی کے بعد اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ایف اے، بی اے اور پھر ایم اے تک اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت اور احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت اور ان کی علمی اور تعلیمی ترقی کے لیے ہمیشہ وقف رکھا۔
آپ کی دینی مصروفیات
آپ جماعت کی خواتین کے مسائل حضورؓ کی خدمت میں پیش کرکے حضورؓسے مناسب ہدایات لیتیں۔ دفتری ڈاک اور حضورؓ کی تقاریرکے نوٹس بھی لیتیں۔ چونکہ دن میں بہت مصروف ہوتی تھیں اس لیے حضور ؓرات کو قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر لکھواتے تھے اور اکثر اسی مصروفیت میں صبح ہو جاتی تھی۔ آپ کی لکھائی اور قلم دونوں خوبصورت ہوتے تھے۔ زیادہ سےزیادہ لکھنے کے باوجود آپ کی لکھائی میں یکسانیت اور خوبصورتی قائم رہتی اور کبھی کوئی ایسا لفظ نہ ہوتاجو پڑھانہ جاسکے۔ لمبی سے لمبی تقریریں جو خود آپ اپنے لیے لکھتی تھیں وہ اکثر بیس سے پچیس صفحات پر مشتمل ہوتیں۔ ان میں کبھی کانٹ چھانٹ یا دوبارا سے لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
جب حضورؓ کی علالت لمبی ہوگئی اور طبیعت کمزور ہوگئی تو پھر حضرت چھوٹی آپا جان کی ذمہ داریوں میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ لجنہ اماء اللہ کے کاموں کے ساتھ حضورؓ کے دفتری کاموںمیں حضورؓ کی مدد کرتیں۔ ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق حضورؓ کی تیمارداری کرتیں۔ کثرت سےعیادت کےلیے آنے والے افراد جماعت اور رشتہ داروں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ ان سےملاقاتیں کرواتیں اور مہمان نوازی بھی کرتیں۔ بیرون از ربوہ دورہ جات اور لجنہ کے ضروری جلسوں پر بھی جاتیں۔ آپ حضرت سیدہ مہر آپا مرحومہ کےتعاون سے یہ سب ذمہ داریاں ادا کرتیں۔
خلفاء کا احترام
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓہی لجنہ اماءاللہکی تنظیم کے بانی تھے۔ اس تنظیم کے جو تقاضے اصولی طور پر ہوتے ہیں ان کے مطابق آپ حضور ؓسے لائحہ عمل اور ضروری کاموں کی منظوری کے لیے باقاعدگی سے تحریری اجازت لیتی تھیں۔ باوجود اس کے کہ آپ کو حضورؓ کی قربت حاصل تھی لیکن کام کے اصول کوہمیشہ مدنظر رکھتی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کے بعد حضورؓکے دو بیٹے یکےبعد دیگرے خلیفہ ہوئے۔ آپ نے ان دونوں کا بے حد احترام کیا۔ لجنہ کے اور دیگر سب دینی اور دنیاوی کاموں میںان کا مشورہ اور اجازت حاصل کرتی تھیں۔
میری ایک پرانی یاد
میری عمر آٹھ سال کی تھی جبکہ میں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بہت خوش تھی کہ آج میں کسی خاص شادی میں جارہی ہوں۔ یہ آپ کی شادی کی مبارک تقریب تھی۔ وہ گھر بھی آج تک یاد ہے جہاں سے آپ رخصت ہوئی تھیں۔
لباس اور عادت
آپ کی ذمہ داریاں اور مصروفیات بہت زیادہ تھیں جس کی وجہ سے آپ کو لباس اور کپڑوں کی طرف توجہ دینے کا بہت کم موقع ملتا تھا۔ ویسے بھی آپ کی عادات میں بہت سادگی تھی۔ قادیان اورربوہ کےابتدائی زمانہ میں شادیوں اورخوشی کی تقریبات میں برقع پہنے رکھتے۔ اس لیے کپڑوں وغیرہ کا اہتمام کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ پھر ہدایت کی گئی کہ اگر پردہ کا اچھا انتظام ہوتو اچھا لباس پہناجائےاور برقع اُتار دیاجائے۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شادیوں میں خاص طور پر بہت اچھے کپڑے اور زیور پہنتی تھیں۔ کئی بار مجھے بتایاکہ یہ کپڑے اور زیور پرانے ہیں اورمجھے خاندان کے فلاں بزرگ نے تحفۃً دیے تھے۔
اپنے ایک بچے کی شادی پر جہاں تک مجھے یاد ہے اپنی بیٹی صاحبزادی امۃ المتین کی شادی پر سرخ رنگ کی ساڑھی پہنی تھی۔ آپ کواپنی بیٹی سے بہت پیار تھا اور آپ کی بیٹی نے بھی آپ کی آخری علالت میں خدمت اور تیمارداری کاحق ادا کردیا۔
ایک دفعہ پاکستان کے مختلف مقامات پر لجنہ کے زیر انتظام سیرت النبیؐ کے جلسے منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ چنانچہ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ،راولپنڈی اورسرگودھا وغیرہ میں جلسے ہوئے۔ ان میں آپ نے بطور مہمان خصوصی خطاب فرمایا۔ ان موقعوں پرآپ نے فیروزی رنگ کے ایک ہی کپڑے پہنے۔میں نے عرض کیا کہ کیاآپ نے یہ کپڑے خاص طور پر جلسہ سیرت النبیؐ کے لیے بنوائے ہیں کیونکہ ہر جلسہ میں آپ نے یہی کپڑے پہنے ہیں۔ آپ نے ہنس کر فرمایا مجھے تو یہ خیال ہی نہیں کہ میں نے ہر جگہ ایک ہی کپڑے پہنے ہیں۔
آپ خدا کے فضل سےکھانے پکانے، نٹنگ وغیرہ میں بہت ماہر تھیں لیکن عام طور پر گھر میں سادہ کھانا ہوتا تھا۔ مہمانوں کے لیے ان کی پسند کا خیال فرماتیں۔ ہم تاریخ لجنہ کے کاموں کے سلسلہ میں آپ کے گھر جاتیں توکئی بار ہمارے لیے ہماری پسند کی چیز پکواتیں۔
آپ کی ڈاک
آپ سے تعلق رکھنے والوں اور ملنے ملانے والوں کاحلقہ بہت وسیع تھا۔ جماعتی لحاظ سے اور لجنہ کے متعلق اپنے عزیز و اقارب کی طرف سے پاکستان اور بیرونی ممالک سے بکثرت آپ کو خطوط ملتے تھے۔ آپ کی ذاتی ڈاک بہت زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ سب خطوط کے باقاعدگی اور التزام کے ساتھ اپنے ہاتھ سے لکھ کر جواب دیا کرتی تھیں۔ اس لیے لوگ بڑے شوق کے ساتھ آپ کوخط لکھتے اور جواب آنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔ آپ کی ڈاک ہر مسئلہ کے متعلق ہوتی۔ لوگ اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے، پھر رشتوں کے لیے مشورہ طلب کرتے اور دعاکی درخواست کرتے۔ پھر تعلیمی مشورے اور باہمی اختلافات غرض آپ کی ڈاک ہر طرح کے مسائل پر مشتمل ہوتی۔ آپ بڑے پیار اور محبت سے تمام خطوط کاجواب دیتیں۔ بچوں اور عزیزوں کی خیریت دریافت کرتیں اور انہیں پیار و سلام لکھتیں۔ جماعت اور لجنہ کی نئی خبروں کا ذکرکرتیں اور پھر اپنے لیے دعا کا بھی ضرور لکھتیں۔ لجنہ کی ڈاک کے جو جواب لکھواتیں وہ بھی اتنے اچھے ہوتے تھے کہ کبھی کسی لفظ کو بدلنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔
آپ کی انکساری کاایک خاص واقعہ
میں آپ کی ایک خاص خوبی بیان کرتی ہوں۔ وہ یہ کہ اپنے بلند مقام کے باوجود آپ اتنی انکساری سے کام لیا کرتی تھیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا۔ جب دسمبر 1986ء میں میرا کینیڈاآنے کا پروگرام بنا تو اس وقت میرا یہی خیال تھا کہ میں کچھ عرصہ وہاں رہ کر واپس آجاؤں گی اور پھر پہلے کی طرح آپ کے زیر سایہ مجھے کام کرنے کی توفیق مل جائے گی۔ لیکن آپ کو بخوبی اندازہ تھا کہ اتنی دور بچوں کے پاس جاکر واپس آنا مشکل ہوگا۔ آپ نے ازراہ شفقت لجنہ اماء اللہ کی مجلس مشاورت میں بہت پیارے انداز میں عاجزہ کے کام کا ذکر فرمایا اور پھرسفر کے لیے دعا کی تحریک فرمائی۔
جب میں آپ کے گھر آخری مرتبہ سلام کے لیے حاضر ہوئی اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد واپسی کے لیے کھڑی ہوئی تو آپ بھی کھڑی ہوگئیں اور مجھے گلےلگا لیا اور پھر فرمایا’’لطیف ! جب ایک لمبے عرصہ تک اکٹھے کام کیا جائے تو بعض اوقات کوئی غلط فہمی یا ناگوار بات بھی ہوجاتی ہے،معاف کردینا‘‘۔
میں یہ سن کرسکتہ میں آگئی اور سخت شرمندہ ہوئی کہ جو بات مجھے کہنی چاہیے تھی وہ آپ نے کہہ دی۔ کجا آپ کی بزرگی اور آپ کا بلند مقام اور کجا یہ حقیر عاجزہ جس سے خدا جانے کتنی غلطیاں سرزد ہوئی ہوںگی۔ آپ کے اس فقرہ میں ہمارے لیے ایک نمونہ اور بہت بڑا سبق ہے کہ ہمیں باہمی کس طرح رہنا چاہیے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ عفو اور درگزر اور انکساری کاکیا نمونہ دکھانا چاہیے۔ اگراس نمونہ کو ہم سب اختیار کرلیں تو ہمارے کاموں اور باہمی تعلقات میں بہت برکت اور ترقی ہوسکتی ہے۔
آپ کے بعض نمایاں کام
آپ نے لجنہ اماء اللہ کے کئی اہم کام شروع کیے جن کے فیوض اب بھی جاری ہیں اور انہیں دیکھ کردل سے آپ کی بلندئ درجات کے لیے دُعا نکلتی ہے۔ آپ جامعہ نصرت کی ڈائریکٹر تھیں۔ پھر اس ادارے میں سائنس بلاک کااجرا ہوا جس کے لیے آپ نے بہت جدوجہد کی۔ لجنات کی بیداری کے لیے ملک کے طول و عرض کے کامیاب دورے کیے۔ مندرجہ ذیل ادارے بھی آپ کی یادگار ہیں۔ نصرت انڈسٹریل سکول، فضل عمر ہائی سکول، مریم میڈیکل سکول گھٹیالیاں، چک منگلا سکول، دفترلجنہ اماء اللہ مرکزیہ، مسجد مبارک ہیگ ہالینڈ اور مسجد نصرت جہاں ڈنمارک احمدی خواتین کے چندہ سے تعمیر ہوئیں۔ ان کے لیے بھی آپ نے خاص سعی فرمائی اور دیگر بہت سے اہم کام بھی سرانجام دیے۔
غرضیکہ خلیفہ وقت کی جاری فرمودہ ہر تحریک اور ہر سکیم میں آپ کی نگرانی میں لجنات سرگرم حصہ لیتی رہیں۔
آپ کی ہدایت اور نگرانی میں درج ذیل لٹریچر شائع ہوا
تاریخ لجنہ پانچ جلدیں،الازھار لذوات الخماریعنی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی عورتوں کے متعلق تقاریر کامجموعہ، المصابیح یعنی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تقاریر کا مجموعہ، تربیتی نصاب دوحصے، یادِمحمودؓ، رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم، مقامات النساء ،ہمارادستور ، راہ ایمان، مختصرتاریخ احمدیت، قواعد و ضوابط، سالانہ رپورٹ۔
آپ نے جو بھی کا م سرانجام دیے ان میں خلیفہ وقت کی تربیت کے علاوہ اس تربیت کا بھی اہم حصہ تھا جو آپ نے اپنی چچی جان حضرت صالحہ بیگم صاحبہ مرحومہ ؓ اہلیہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓ سے حاصل کی تھی۔ وہ جماعت میں بھی ممانی جان کے نام سے مشہور تھیں۔ان کے کام کرنے کا طریق ایسے تھا جیسے وہ کسی اہم تاریخی عہد کی بنیاد رکھ رہی ہوں۔ عاجزہ نے بھی ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل کی تھی اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔
آپ کی خوشی کے دو خاص مواقع
لجنہ کے کام کرتے ہوئے کئی دفعہ آپ کو بہت خوش دیکھا مگر آپ کی خوشی کے دو مواقع ایسے تھے جنہیں میں کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ ان کا مختصر ذکر کرتی ہوں۔
جب تاریخ لجنہ کاکام شروع ہوا توسب سےپہلے ان ابتدائی چودہ ممبرات کے ناموں کی تلاش شروع ہوئی جنہوں نے لجنہ کے قیام کے پہلے دن بطور ممبر حسب ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ رجسٹرپردستخط کیے تھے۔ اس سلسلہ میں زبانی روایات اور خطوط کے ذریعہ جو معلومات موصول ہوئیں ان میں بہت تضاد تھا۔ جماعت کے موجودہ لٹریچر میں پہلے دن کی کارروائی اور ممبرا ت کے نام مل نہیں رہے تھے جس کی وجہ سے آپ پریشان تھیں۔
قادیان اس تحقیق کے لیے خط لکھا۔وہاں سے ایک رسالہ ’’احمدی خاتون‘‘کی چار پانچ کاپیاں موصول ہوئیں۔ ان میں لجنہ کے قیام کااعلان اور پہلے دن کی کارروائی بھی درج تھی۔ ان میں ابتدائی چودہ ممبرات کے نام بھی مل گئے جس سے آپ ازحدخوش ہوئیں۔ اس دن آپ کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ جو بھی ملتا اس کو آپ بہت خوش ہوکر بتاتیں۔
دوسری غیر معمولی خوشی آپ کو اس وقت ہوئی جب لجنہ اماء اللہ کی تاریخ کی پہلی جلد لےکر عاجزہ بحیثیت سیکرٹری اشاعت 26؍ دسمبر 1972ء کو بہت رات گئے اپنے بچے کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے کتاب اپنےہاتھ میں لے کر غیر معمولی طور پر بہت ہی خوشی کا اظہار فرمایا اور اسی وقت مٹھائی کا ڈبہّ ہمیں عنایت فرمایا۔
تاریخ لجنہ کا کام
لجنہ اماء اللہ کے قیام پر چالیس سال گزر چکے تھے۔لجنہ کے قیام کے ابتدائی حالات بھولتے جارہے تھے اور روایات میں تضاد پیدا ہو رہا تھا۔ آپ کو خیال آیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے نقوش دھندلے ہوتے جارہے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ لجنہ کی تاریخ مرتب کی جائے۔ چنانچہ آپ نے 1962ء میں تاریخ لکھنے کاکام شروع کردیا لیکن حضورؓ کی علالت کی وجہ سےآپ کی مصروفیات بڑھ گئیں اور یہ کام التوا میں پڑ گیا۔ پھر جب لجنہ کے قیام کو پچاس سال ہونے والے تھے تو شکرانہ کے طور پر لجنہ کی جو بلی منانے کافیصلہ ہوا۔ اس موقع پر اور کئی کاموں کے علاوہ آپ نے لجنہ کی تاریخ لکھنے کا بھی فیصلہ فرمایا۔ جلد اوّل آپ نےخود لکھنے کا ارادہ کیا اور جلد دوم مرتب کرنے کاکام عاجزہ کے سپرد فرمایا۔
یہ بہت ذمہ داری کا کام تھا۔ جماعت کےپرانے لٹریچر کوپڑھنے کی ضرورت تھی۔ اس لیے آپ کے گھر، آپ کی لائبریری میں بیٹھ کر کام کاآغاز کیا گیا۔پہلے توصرف عاجزہ نے کام شروع کیا لیکن کام بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اور لڑکیاں بھی کام کے لیے آنے لگیں۔چنانچہ امۃ الرؤف، امۃالرفیق ظفر، امۃ النصیر، قمرالنساء اور اسی طرح کئی اور لڑکیاں بھی آتی رہیں۔ پانچ چھ سال تک اسی طرح مسلسل تاریخ کے لیے کام ہوتا رہا۔ آپ کے دل میں تاریخ لجنہ مرتب کرنے کا جو خیال پیدا ہوا اور پھر آپ نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جو کام کیا یہ بلاشبہ آپ کا جماعت پر اور بالخصوص لجنہ کی ممبرات پرایک عظیم الشان احسان ہے جس کی قدر اور اہمیت وقت گزرنے اور جماعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائےگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہےکہ جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیموں میں سے سب سے پہلے لجنہ کی تاریخ شائع ہوئی۔ الحمدللہ۔
گھریلو ملازمین سےحسن سلوک
گھریلو ملازمین زیادہ تر ایک ہی گھرمیں ٹکا نہیں کرتے۔ مگرجو ملازم ایک دفعہ آپ کے گھر آجاتا وہ آپ کے حسن سلوک، ہمدردی اور شفقت کو دیکھ کر مستقل طور پر یہیں کا ہو جاتا۔ آج سے 55 سال قبل قادیان میں مَیں نے دیکھا کہ ایک لڑکی فاطمہ نامی آپ کے پاس رہتی تھی۔ آپ کےپاس ہی اس کی شادی ہوئی۔ وہ شادی کے بعد بھی آپ کے پاس ہی رہی۔ اس طرح کئی اور ملازم عورتیں آپ کے گھر رہیں۔ ان لڑکیوں کو بھی آپ نے تعلیم دلوائی اور ساتھ قرآن مجید باترجمہ آپ نے پڑھایا اور ہر طرح کا سلیقہ سکھایا۔ پھر ان کی شادیاں کیں اور بعد میں بھی ہر موقع پر ان کا خیال رکھا اور تحائف دیتی رہیں۔
سرزنش اور درگزر
عہدیدار لجنہ، کارکنات یا گھر کے ملازمین سے اگر کچھ غلطیاں یا نقصانات سرزد ہوجائیں تو آپ تحقیق فرماتیں اور سرزنش کرتیں۔ آپ کو کئی مواقع پرتکلیف بھی پہنچتی لیکن جلدی بھول جاتیں۔ آپ میں عفو و درگزر کی بہت بڑی خوبی تھی۔لڑائی جھگڑا، غلطی کرنے والوں سے جب آپ بعد میں ملتیں تو یوں لگتا تھا جیسےکوئی بات ہوئی ہی نہیں تھی۔
آپ کی ایک غیر معمولی خوبی اور چند ذاتی واقعات
آپ کی ایک غیر معمولی خوبی یہ تھی کہ آپ بعض اوقات بظاہر ایک بالکل معمولی سی تعلیم اور لیاقت رکھنے والی کارکن کے سپرد بڑےبڑے اہم کام کردیا کرتی تھیں اور اس پراعتماد کرتی تھیں اور پھروہ کام محض خدا تعالیٰ کے فضل اور آپ کی توجہ اور دعا کے ساتھ بخیر و خوبی انجام پاتےتھے۔میں اس سلسلہ میں چند ذاتی واقعات عرض کرتی ہوں۔ اس عاجزہ کی ذاتی قابلیت حالات اور تعلیم کچھ بھی نہ تھی مگر آپ کی نگرانی اور توجہ سے بعض اہم کام کرنے کی توفیق پائی۔
برصغیر کی تقسیم سے قبل قادیان میں انتخابات اور پھر ہولناک فسادات کے ایام میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے کام کی توفیق دی۔ 1947ء میں ہجرت کے وقت جب میں اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ بے سروسامانی کی حالت میں رتن باغ لاہور پہنچی تو حضرت چھوٹی آپا صاحبہ نے مجھے دیکھتے ہی بڑی شفقت کے ساتھ گلے لگایا اور پھر فرمایا لطیف اب تم آگئی ہو آنے والی مہاجرات کے قیام اور نگرانی کا کام اب میں تمہارے سپرد کرتی ہوں۔ اسی دن 29؍ستمبر 1947ء کی رات کے گیارہ بجے حضرت چھوٹی آپا کا لکھا ہوا مندرجہ ذیل رقعہ ملا۔آپ نے تحریر فرمایا:مکرمہ امۃ اللطیف صاحبہ جس عمارت میں عورتیں ٹھہری ہیں اب تک مجھے ہر کام خود آکر کروانا پڑتا تھا۔ اب میں تمہیں اس کی منتظم مقرر کرتی ہوں۔ تم خود اس کام کاایک پروگرام اور نقشہ بنالو۔ کھاناسارا ایک جگہ تقسیم ہوتا ہے اور بڑی گڑبڑ رہتی ہے۔ اگر ہر کمرہ کی الگ الگ منتظم بنادوتو وہ اپنے اپنے کمرہ کی ذمہ دار ہوںگی اور اپنے اپنے کمرہ کی عورتوں کو گن کر کھانا لے لیا کر یں گی۔ اسی طرح عورتوں کو ہر وقت صفائی کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ عورتوں میں پھر کر اعلان کردیا جائے کہ مغرب عشاء کی نماز باجماعت ہوا کرے گی۔
عصر اورظہر کی بھی اور اگر ہوسکے توصبح کی بھی اور نمازوں کے بعد چند منٹ عورتوں کو دعاؤں کی تحریک، صفائی وغیرہ پر اور اس قسم کی عام نصائح ہوا کریں۔ ان تمام باتوں پہ غور کرکےجتنی کام کرنے والیوں کی ضرورت ہو مجھ سے لے …۔
والسلام مریم صدیقہ ‘‘
میں نے یہ رقعہ پڑھ کردل میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ کی توقع کے مطابق یہ خدمت کرنے کی توفیق دے اور پھر تفصیلی ہدایات لینے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئی۔ آپ نے حضرت صاحبؓ، حضرت اماں جانؓ اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ سے ملاقات کرائی اور یہ بھی بتایاکہ میں نے اب یہ کام لطیف کے سپرد کردیاہے۔ چنانچہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سےیہ کٹھن کام کیا اور آپ کی حسن ظنی پر پورا اُترنے کی کوشش کی۔ ربوہ کی آبادی کے ابتدائی ایام کے لیے آپ کے مشورہ پر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے مجھے ربوہ کی خواتین کی پہلی منتظمہ اور عہدیدار مقرر فرمایا۔ پہلے چھ ماہ تک لجنہ کاسارا کام بھی میرے سپرد رہا۔
لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی پہلی پانچ جنرل سیکرٹریاں خاندان حضرت مسیح موعود ؑکی خواتین مبارکہ میں سے ہی مقرر ہوئیں۔ ان خواتین مبارکہ کے بعد لجنہ اماء اللہ کی چھٹی جنرل سیکرٹری حضرت چھوٹی آپا نے عاجزہ کو مقرر کیا جس پر میں اپنے مولیٰ کریم کی نہایت عاجزی سے شکر گزار ہوں۔
خاکسار کو لجنہ اماء اللہ کے مختلف شعبوں میں خدمت دین کی توفیق ملی۔ ان میں ناصرات، اشاعت، تجنید، اصلاح و ارشاد کے شعبے شامل ہیں۔اس کے علاوہ رسالہ مصباح کی مدیرہ کے طور پر بھی آٹھ سال خدمت بجا لانے کی توفیق ملی اور اس طرح خدا کے فضل سےنصف صدی سےزائد عرصہ تک کام کرنے کی سعادت ملی۔ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ میں باقاعدہ تنخواہ لے کرکام کرتی ہوں حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔
درحقیقت یہ سب کام حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کی حسن ظنی، اعتماد اور آپ کے کام لینے کے طریق کی برکت کی وجہ سے انجام پائے ہیں۔ ان کاموںکی برکت سے خدا تعالیٰ کےفضل سے میرے دین اور دنیا دونوں سنور گئے۔
آپ کا حسن سلوک اور شفقت
ایک خوبی آپ کی یہ تھی کہ آپ سلسلہ کے کارکنوں کے ساتھ اور بالخصوص لجنہ کی کارکنات کے ساتھ نہایت شفقت کاسلوک فرماتی تھیں۔ جنہیں آپ کےساتھ کام کرنے کا موقع ملتا تھانہ صرف ان کا بلکہ ان کے عزیزوں کا بھی خیال رکھتیں۔ ان کے ذاتی مسائل میں گہری دلچسپی لیتیں اور انہیں مفید مشوروں سے نوازتیں۔ اس سلسلہ میں چند ذاتی واقعات عرض کرتی ہوں جن کا گہرا اثر میرے دل و دماغ پر حاوی ہے۔
میرا پہلا بیٹا لئیق احمد ابھی چند ماہ کا تھا کہ مجھے اپنے شوہر شیخ خورشید احمد صاحب کے ساتھ 1953ء میں کراچی جانا پڑا کیونکہ روزنامہ الفضل ربوہ حکومت پنجاب نے عارضی طور پر بند کردیا تھا۔اس لیے حضور ؓکے ارشاد کے مطابق کراچی جاکر اخبار المصلح کو اخبار الفضل کی جگہ شائع کرنا تھا۔جانے سے پہلے میں بچے کو لےکر حضورؓ کی ملاقات کے لیے حاضر ہوئی۔ اس دن حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کی باری تھی۔جمعہ کا روز تھا۔ جمعہ کی نماز میں میں حضرت چھوٹی آپا صاحبہ سے ملی اور دعا کے لیے عرض کیا۔ آپ نے فرمایا کہ مہر آپا نے بتایا ہے کہ تمہارا بیٹا بہت پیارا ہے۔ میرے پاس اسے ضرور لانا۔ چنانچہ شام کو بیٹےکو لےکر حاضر ہوئی اس وقت حضور ؓبھی وہیں تشریف فرما تھے۔ حضرت چھوٹی آپا صاحبہ نے فرمایا کہ دیکھیں لطیف کا بچہ کتنا پیارا ہے۔ حضور ؓنے فرمایا: ہاں میں نے اسے صبح دیکھا ہے۔ اس کے بعد نہ صرف میرے بچوں کی پیدائش پر بلکہ میرے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی پیدائش پر اور پھر ان کی آمین کی تقاریب پر بھی ضرور میرے گھر تشریف لائیں۔ پھر میرے سب بچوں کی رشتوں اور شادیوں پر بھی ہمیں آپ کے قیمتی مشورے حاصل رہے۔ جہیز اور بری وغیرہ کی تیاری کے معاملات میں بھی گہری دلچسپی لیتی تھیں۔ آپ کے مشوروں کی برکت سے یہ کام آسان اور خوبصورت ہو جاتے اور مجھے تسلی ہو جاتی۔
ایک بچے کی شادی سے پہلے میں بیمار ہوگئی۔ آپ کو بہت فکر ہوا۔ مجھے دیکھنے گھر تشریف لائیں اور پوچھا کہ بری کاکیاکرنا ہے؟ کچھ تفصیل ان کو بتائی اور پھر میری بڑی بہو عزیزہ بدر النساء آپ کے پاس جاکر مشورہ کر کےآتی رہیں اور یوں آپ مطمئن ہوگئیں۔ آپ فرمایا کرتی تھیں کہ لطیف خدا کے فضل سے تمہارے سب بچوں کے رشتے اچھے ہوگئے ہیں۔ الحمد للہ۔
چونکہ میرے والد میاں عبد الرحیم صاحب دیانت مرحوم کا شمار درویشان قادیان میں تھا اس لیے میری شادی اور میرے بہن بھائیوں کی شادیوں اور پھر ان کی تعلیم میں بھی دلچسپی لیتی رہیں۔ جب میرے بچوں کی تعلیم کا وقت آیا تو بھی آپ میری راہنمائی کرتی رہیں۔
ایک دفعہ مجھے نظارت تعلیم سے قرض لینے کی ضرورت پیش آئی۔ دفتری کارروائی کی وجہ سے تاخیر ہو رہی تھی۔ آپ کو بے حد فکر تھا۔ حضرت سیدہ آپا ناصرہ بیگم صاحبہ کو ان حالات کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت چھوٹی آپا صاحبہ سے کہا کہ آپ 500 روپے لجنہ مرکزیہ سے دیں اور 500میں لجنہ ربوہ سے قرض دےدوں گی۔ بعد میں جب نظارت تعلیم سے قرض مل جائے گا تولطیف یہ رقم واپس کردے گی۔ حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کو یہ مشورہ پسند آیا۔ چنانچہ اسی کے مطابق بروقت رقم کا انتظام ہوگیا۔ بعد میں نظارت سے جب قرض مل گیا تو یہ رقم شکریہ کے ساتھ واپس کردی۔
میری بیٹی عزیزہ نصرت نے آرٹس کے مضامین میں میٹرک پاس کیا تو ایف اے کے داخلہ کے لیے آپ کے مشورہ سے آرٹس کے مضامین لکھ دیے گئے۔ بعد میں آپ کوخیال آیا کہ اسے میڈیکل میں جاناچاہیے تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے لیے یہ مشکل ہوگا۔ آپ نےفرمایا کہ ایف ایس سی ربوہ میں کرے بعد میں خدا تعالیٰ خود کوئی انتظام کردے گا۔ چنانچہ فارم منگوا کران پر آرٹس کی بجائے میڈیکل کے مضامین لکھ دیے۔بعد میں بھی جامعہ نصرت کالج ربوہ کے اساتذہ سے دریافت فرماتی رہیں کہ یہ لڑکی پڑھائی میں کیسی چل رہی ہے۔ آپ اس کی تعلیمی ترقی کو دیکھ کرخوشی کا اظہار کرتیں اور اس طرح آپ کی دعا اور توجہ سے یہ بچی بالآخر ڈاکٹر بن گئی۔ الحمدللہ۔
حضرت سیدہ چھوٹی آپا مرحومہ مغفورہ کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ باتیں تو بہت سی ہیں۔ جب آپ کی یاد آتی ہے تو سوچتی رہ جاتی ہوں کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔ بڑھاپے کی کمزوری اور آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے بھی لکھنا مشکل ہے۔ پھر اخبار میں گنجائش کا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔ خدا کرے حضرت چھوٹی آپا صاحبہ مرحومہ کی مثالی زندگی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہو۔ آپ17؍کتوبر 1918ء کو پیدا ہوئیں اور 3؍نومبر 1999ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ گویا 81سال عمرپائی۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں آپ کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔ آمین۔
میں اس مضمون کو اپنی ہمشیرہ امۃ الباری ناصر کے ان اشعار پرختم کرتی ہوں
لجنہ کی رُوح رواں تھیں سیدہ امّ متین
اس تنِ زندہ کی جاں تھیں سیدہ امّ متین
علم و حکمت کا جہاں تھیں سیدہ امّ متین
گویا تابندہ نشاں تھیں سیدہ امّ متین