حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ کا ڈیورنڈ لائن میں کردار اور شہادت سے متعلق دستاویزات
پیدائش اورمقام ومرتبہ
صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی پیدائش خوست افغانستان کے ایک قصبہ سید گاہ میں ہوئی تھی۔خاندانی تعلق حضرت داتا گنج بخش ؒسے تھا۔ آپ کے آباء ایران سے ہندوستان (سہارنپور) بعدازاں سیدگاہ افغانستان آکر آباد ہوئے۔آپ کا خاندان ایک وسیع و عریض رقبہ کا مالک تھا جس کی وجہ سے علاقہ میں اچھا خاصا اثر ورسوخ رکھتے تھے۔ صاحبزادہ صاحب ایک عالم باعمل شخصیت تھے۔ علم کی تڑپ کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپ تحصیل علم کے لیے دو بار ہندوستان کا سفر اختیار کرچکے تھے۔ جس کا مقصد قرآن کریم اور حدیث کا علم مختلف علماء سے حاصل کرنا تھا۔افغانستان واپس آکرآہستہ آہستہ علاقہ میں آپ کی ساکھ مضبوط ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ آپ کا حلقہ احباب وسیع ہونا شروع ہوگیا۔ ایک انگریز سیاح/انجینئر مارٹن کے مطابق آپ کے تلامذہ ومتبعین کی تعداد 50 ہزار سے زائد تھی۔آپ کے اسی اثر کے باعث پہلے گورنر خوست سردار شیریں دل خان آپ کا گرویدہ ہوا اور بارہا آپ کے درس اور دیگر محفلوں میں آپ کے ارشادات سننے کا متلاشی رہا۔ چنانچہ بعض روایات کے مطابق ایک دفعہ گورنر خوست نے آپ کو اپنے گھر دعوت طعام پر بلایا۔ کھانے کی طشتری جب اندر زنان خانہ سے مہمان خانہ میں آئی تو اس میں ایک رقعہ موجود تھا جس میں گورنر کی بیوی نے صاحبزادہ صاحب سے دعا کی درخواست کے ساتھ آپ کی آمد پر خوشنودی کا اظہار کیا تھا۔اور بیعت کی خواہش کااظہارکیاتھا۔ یہ جان کر گورنر کو خود بھی بہت مسرت ہوئی کہ میرے گھر میں بھی خداتعالیٰ نے اسلام سے رغبت ڈال رکھی ہے اور صاحبزادہ صاحب کی عقیدت کا احساس ہے۔چنانچہ اس نے کہا ’’الحمدللہ ہمارے گھروالوں کوبھی خداسےملنے کاشوق ہے‘‘۔(سیدالشہداء از صاحبزادہ جمیل لطیف صفحہ53) اسی مرتبہ اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ نے فرمایا: ’’وہ امیر کابل کی نظرمیں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے جاتے تھے ‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد 20مطبوعہ لندن صفحہ 10)
چنانچہ بعض معاملات میں گورنر کو اسلامی تعلیمات کے مطابق فیصلہ جات کے لیے آپ کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے لیے اس نے امیر افغانستان کو لکھوا بھیجا۔ امیر نے جواباً صاحبزادہ صاحب کو گورنر کی درخواست کے برعکس اپنے پاس اپنے دربار میں رکھنے کا ارادہ کرلیا چنانچہ آپ کو بمع اہل وعیال بھرپور عزت وتکریم کے ساتھ کابل لے جایا گیا۔یوں آپ نے امیر افغانستان کے لیے بلکہ اپنے ملک افغانستان کے لیے خدمت کا آغاز کیا۔ البتہ امیر کی خواہش تھی کہ آپ کو قاضی القضاة لگایا جائے، آپ نے یہ شرط قبول نہ کی اور بغیر کسی عہدہ کے اس کے دربار کے معاملات میں اپنی آرا وغیرہ کا اظہار کرتے رہے۔ اسی کام سے متعلق آپ فرمایاکرتے تھے کہ میرا مقصد مظلوم عوام کو ظالم بادشاہ کے مظالم سے بچانا ہے۔ اسی لیے میں اس کے ساتھ معاونت کرتا ہوں تا غلط کام کی نشاندہی کرسکوں۔ایک واقعہ آپ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ امیر عبدالرحمٰن کے ساتھ میں کسی فیصلہ کے لیے بیٹھا ہوا تھا۔ میرا معمول تھا کہ جب مجھ سے پوچھا جائے تو میں درست فیصلہ کی صورت میں ہاں میں جواب دیتا تھا اور غلط فیصلہ کی صورت میں انشاءاللہ کہتا تھا۔ چنانچہ اس فیصلہ کی بابت مجھے لگا کہ یہ درست نہیں، تو میں نے انشاء اللہ کہا۔ اس پر عبدالرحمٰن کو شدید غصہ آیا اور چیخ کر بولا کہ نہیں چاہتا عبدالرحمٰن انشاء اللہ۔آپ فرماتے تھے کہ کس قدر ظالم اور گمراہ ہے یہ شخص۔(سیدالشہداء از صاحبزادہ جمیل لطیف صفحہ67)چنانچہ اسی مقام ومرتبہ کے باعث آپؓ پر حکومت اور بادشاہ وقت کو بھرپور اطمینان تھا اور اسی وجہ سے آپ کو ڈیورنڈ لائن / حدبندی کے لیے افغان نمائندہ بناکر بھجوایا گیا تھا۔
ڈیورنڈ لائن کا پس منظر
1870ء کے اواخر میں دیگر اہم معاملات کے علاوہ انگریزوں نے اپنے علاقے (متحدہ ہندوستان) کی سالمیت کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ایک سرحد قائم کرلی جائے۔جس کا مقصد حد بندی اور افواج کو باز رکھنا تھا۔اور جس نےدراصل ہندوستان اور روس کے درمیان بفرزون کا کام دینا تھا۔روس اور انگریزوں کےدرمیان عرصہ دراز سے چلنے والے اس مسابقانہ ومقابلانہ ماحول کو ایک انگریز افسر آرتھر کانولے نے The Great Gameکے نام سے موسوم کیا جسے بعدازاں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے لیے عرصہ تک کام کرنے والے معروف صحافی Rudyard Kipling نے بھی اپنی تحریروں میں کثرت سے استعمال کیا۔ چنانچہ مختلف اخبارات نے بھی امیر افغانستان کی اپنی اطراف میں موجود دو قوتوں کے درمیان اس بے بسی کو اپنی اشاعت سے عیاں کیا۔ 30؍نومبر 1878ءکو چھپنےوالے پنچ میگزین نے بھی اس سلسلہ میں ایک کارٹون شائع کیا جس میں افغان امیر شیر علی کو ایک شیر اور ریچھ کے درمیان بےبس دکھایا گیا ہے۔اور نیچے یہ الفاظ درج ہیں Save me from my friends اسی طرح 1884ء میں ہونے والے پنجدہ واقعہ نے بھی انگریزوں کی پریشانی میں خاطرخواہ اضافہ کردیا تھا۔ اس واقعہ میں روس نے افغانستان کا ایک کثیر رقبہ اپنے قبضہ میں کرلیا تھا۔ دونوں سپر پاورز کے درمیان اس کشمکش (گریٹ گیم ) کا عرصہ تقریباً 1813ء سے 1907ءکے اینگلورشین کنونشن تک محیط ہے۔جس کے بعد سینٹ پیٹربرگ میں ہونے والے معاہدہ میں افغانستان کو باضابطہ طور پر بفر سٹیٹ کا درجہ دے دیا گیا اور ہر دو قوتوں نے ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی۔بعض اخبارات کی رپورٹ کے مطابق انگریز اپنی سرزمین (ہندوستان) پر حملہ سے روکنے کے لیے روس کو ہر مہینہ 18 کروڑ روپے تک کی ادائیگی کیا کرتے تھے۔
1893 / 1894ء میں اسی سرحد بندی کی بابت انگریز حکمرانوں اور اس وقت کے افغان امیر عبدالرحمٰن کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ان مذاکرات میں ایک متفقہ نقشہ کے مطابق حد بندی پر اتفاق ہوا اور پھر اسی کے مطابق سرحد کی تعیین بھی۔سرکاری دستاویزات کے مطابق انگریزوں کی جانب سے مارٹمر ڈیورنڈ اور صاحبزادہ عبدالقیوم آف ٹوپی پولیٹکل ایجنٹ وفد کے سربراہ تھے۔دیگر وفد میں جے ایس ڈونلڈ (آفیسر سپیشل ڈیوٹی کُرم ایجنسی)،کمشنر /سپرنٹنڈنٹ پشاور ڈویژن، سی ایل ٹپر (چیف سیکرٹری پنجاب)،سید شاہ (غالباً سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں موجود سید چن پادشاہ صاحب جنہوں نے صاحبزادہ صاحب کو آئینہ کمالات اسلام مہیا کی تھی)،لفٹیننٹ کرنل جے بی ہچنسن،سپرنٹنڈنٹ ڈیرہ جات ڈویژن،ایچ اے اینڈرسن، ایل وائٹ کنگ، کیپٹن میک موہن اور بابو ہیرا سنگھ شامل تھے۔ اسی طرح افغان امیر کی جانب سے سردار شیریں دل خان سابق گورنر خوست اور صاحبزادہ عبداللطیف صاحب وفد کے سربراہ تھے۔ دیگر وفد میں داد محمد خان (حاکم چک مانیز)، محمد امین خان، کرامت خان،میر افضل خان،خواجہ میرخان،پیر محمد خان،ملک غلام محمد،نجم الدین اور غلام حیدر خان شامل تھے۔
سرحد کی حدبندی میں آنے والے مسائل
مذکورہ بالا حدبندی کمیشن کی کارروائی اور سرحد کی تعیین کے مکمل دورانیے میں کئی بار مختلف تنازعات اور تلخی کی فضا نے بھی جنم لیا جس میں سے اکثر کی وجہ انگریزی سے پشتو / دری زبان میں ترجمہ تھا۔ انہیں تنازعات میں ایک مسئلہ نقشہ کی تصدیق اور توثیق تھا۔ انگریزوں کے مہیا کردہ نقشہ جات جب افغان افسران سے واپس موصول ہوتے تو ان میں بعض جگہوں پر غلط نشاندہی کی گئی ہوتی جس پر مذاکرات میں خلل آجاتا، چنانچہ انڈیا آفس لائبریری کے ریکارڈ میں موجود اصل ٹیلی گرامز (خط وکتابت)دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب ہی ایسے مواقع پر معاملات کو سلجھانے کا کردار ادا کرتے رہے اور انگریز افسران کے پاس آکر اصل نقشہ جات وغیرہ کا احوال معلوم کرتے رہے۔چنانچہ ایک ٹیلی گرام میں انگریز افسر J.S Donaldنے صاحبزادہ صاحب کی بابت لکھا کہ
One of these letters was sent by me to the Sardar on the morning of the 21 instant, and it was brought back to me on the evening of the same date by Sahibzada Latif Jan, a trusted agent of the Sardar.
سرحد کی تعیین کی اس کارروائی سے متعلق انڈیا آفس ریکارڈ میں اس معاہدہ کی بابت ہونے والی تمام خط وکتابت موجود ہے۔ جس کا ذکر مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 135 پر بھی کیا ہے۔ اسی طرح کے دیگر کئی ٹیلی گرامز میں صاحبزادہ صاحب کی کمیشن میں شمولیت بلکہ بھرپور شمولیت کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان ٹیلی گرامز کے چربہ جات بھی شامل مضمون ہیں۔ ان میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا نام صاحبزادہ لطیف جان لکھا گیا ہے۔ اور یہ تمام ٹیلی گرام دراصل ہر دو فریقین کے مابین تصفیہ اور متفقہ نقشہ پر اتفاق سے متعلق ہیں جن میں صاحبزادہ صاحب کا کردار انتہائی عیاں ہے۔
ظلم وجبر کاسلوک
افسوس کہ پھر اسی Trusted Agent کے ساتھ سردار(امیر) اور اس کی اولاد نے کیا سلوک کیا۔ وہ وجود جس نے افغانستان کی سالمیت اور اس کی بہبود کے لیے بنفس نفیس مذاکرات میں کردار ادا کیا اور امیر افغانستان کا موقف واضح کیا اسی وجود کو پھر اپنی جھوٹی مذہبی غیرت اور شہنشاہی برقرار رکھنے کے واسطے جس بہیمانہ طریق پر شہید کیا گیا، آج تک افغانستان کی سرزمین اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے آپ کی شہادت سے متعلق فرمایا:’’یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیاہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملے گی۔ ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کما ل بےدردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا۔اے کابل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ اے بدقسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلمِ عظیم کی جگہ ہے‘‘۔ (تذکرۃالشہادتین روحانی خزائن جلد20، صفحہ 47مطبوعہ لندن)آپؑ نے مزید فرمایا: ’’صاحبزادہ مولوی عبداللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگرچہ ایساامرہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتاہے (وما رأینا ظلمًا اغیظ من ھذا) لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہونگے اور کابل کی زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا۔ یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا۔ پہلے اس سے غریب عبدالرحمٰن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا او ر خدا چپ رہا مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہونگے ‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد 20صفحہ47مطبوعہ لندن)
صاحبزادہ صاحب کی شہادت پر پریس کا ردعمل
صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے بعد عمومی طور پر زبان بندی کردی گئی تھی اور انتہائی کوشش کی گئی کہ اس سارے امر کو پوشیدہ رکھا جاوے۔ چنانچہ آپؓ کا علماء سے تحریری مناظرہ بھی منظر عام پر لانے نہ دیا گیا۔ مگر اس سب کے باوجود یہ خبر غیر ممالک تک پہنچ گئی۔ ہندوستان میں سب سے پہلے اخبار ’وطن ‘میں یہ خبر شائع ہوئی۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے حضرت اقدس علیہ السلام کویہ دردناک خبر سنائی۔ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ حضور! عموماً ’وطن‘ اخبار کی خبریں درست ہوتی ہیں۔حضورؑ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ابھی ہمارے اخبارمیں کچھ شائع نہ کریں…انشاء اللہ ہم خود لکھیں گے‘‘۔چنانچہ آپؓ کی شہادت پر 17؍فروری 1904ء کو اخبار الحکم میں ایک تفصیلی ایڈیٹوریل شائع ہوا۔(سیدالشہداء از محمد جمیل لطیف صفحہ315،314)’وطن ‘اخبار کے علاوہ ہندوستان کے دیگر اخبارات نے بھی صاحبزادہ صاحب کی اس دردناک شہادت کے فوری بعد خبریں شائع کیں۔ ان میں پیسہ اخبار، اخبار روزنامہ دہلی، ریاست دہلی، پنجاب سماچار،سیالکوٹ پیپر،سراج الاخبار جہلم وغیرہ شامل ہیں۔ پنجاب سماچار لاہور نے 15؍اگست 1903ءکولکھا کہ صاحبزادہ صاحب کو پیغام بھجوایا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو ماننے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور آپؓ کو اپنی غلطی سدھارنے کا موقع فراہم کیا۔ چنانچہ ایسا نہ کرنے پر آپؓ کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ (پنجاب سماچار (لاہور)15؍اگست 1903ءبحوالہ رپورٹ مقامی اخبارات شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ 1903ء)
اسی طرح سیالکوٹ پیپر نے 7؍ ستمبر 1903ء کی اشاعت میں صاحبزادہ صاحب کی شہادت سے متعلق دو سوالات اٹھائے ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ کیا کسی معصوم کا اس طرح قتل کرنا جائز ہے ؟ نمبر دو کیا مذہب یا عقائد کی تبدیلی کی وجہ سے سزائے موت دی جانی چاہیے؟ ان سوالات کے بعد ایڈیٹر نے خود ہی اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ ہندوستان میں انگریز حکومت کے تحت مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور ریاستی مذہب کے خلاف عقائد رکھنے والوں کو ہرگز سنگسار نہیں کیا جاتا یا گولی سے نہیں ماراجاتا۔بلکہ حضرت عیسیٰؑ کے خلاف مقامی اخبارات میں بےشمار تحریرات بھی چھپتی رہی ہیں مگر آج تک کسی کو حکومت کی طرف سے سزا نہیں دی گئی جو امیر افغانستان نے دی ہے۔ لہٰذا میری دعا ہے کہ ہندوستان میں انگریز حکومت کا دوام ہی رہنا چاہیے۔(سیالکوٹ پیپر(سیالکوٹ)07؍ستمبر 1903ءبحوالہ رپورٹ مقامی اخبارات شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ 1903ء)
اسی طرح سلسلہ کے ایک معاند اخبار سراج الاخبار جہلم نے یہ خبر دی کہ ایک معزز صاحبزادہ خاندان امیر عبدالرحمٰن کے دور میں کابل آکر آباد ہوا۔ اس خاندان کے ایک فرد نے دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، افغانستان کی حالیہ باؤنڈری کمیشن میں نمائندگی بھی کی اور کابل میں رئیس العلماء تھا۔ گذشتہ سردیوں میں حج پر جانے کی اجازت لے کر مرزا صاحب کے پاس قادیان چلا گیا۔کچھ مہینوں بعد واپس آکر لوگوں میں مرزا صاحب کی تحریرات اپنے تأثرات کے ہمراہ بھجوانا شروع کی تھی اس پر امیر نے آپ کو چند دن کی مہلت دی جس کے گزرنے کے بعد آپ کو سنگسار کردیا گیا۔اور آپ کی اولاد کو بھی گرفتار کر کے کابل میں رکھا جانے لگا۔(سیالکوٹ پیپر(سیالکوٹ)07؍ستمبر 1903ءبحوالہ رپورٹ مقامی اخبارات شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ 1903ء) (سراج الاخبار(جہلم)24؍اگست 1903ءبحوالہ رپورٹ مقامی اخبارات شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ 1903ء)
مذکورہ بالا اخبارات نے صاحبزادہ صاحبؓ کی شہادت کے بعد انہی ایام میں اس بابت لکھا۔ البتہ یہ سلسلہ یہیں پر نہ رکا بلکہ آپؓ کی شہادت کے چار سال بعد یعنی 1907ء میں بھی اخبارات میں یہ موضوع اشاعت کا حصہ بنا رہا۔ چنانچہ بریلی سے نکلنے والے یونین گزٹ نے مسلمانوں کو انگریز حکومت کے فضائل اور فوائد بیان کرتے ہوئے اور امن وامان قائم کرنے میں اس کے کردار کو عیاں کرنے کے ضمن میں صاحبزادہ صاحبؓ کی مثال کے ساتھ یہ واضح کیا کہ امیر افغانستان کے جہاد کے نظریہ کے خلاف بولنے پر صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کردیا گیا۔(یونین گزٹ (بریلی) 14؍مئی 1907ءبحوالہ رپورٹ مقامی اخبارات شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ 1907ء)
اس کے علاوہ تقریباً 24 سال بعد کابل سے چھپنے والے اخبار امان افغان نے ایک طویل مضمون بزبان پشتو شائع کیا جس میں صاحبزادہ صاحب کی شہادت کا تفصیلی موقف پیش کیا۔ چنانچہ اس کا ترجمہ ہندوستان کے ایک اخبار سیاست نے اپنی 12؍ اکتوبر 1924ء کی اشاعت میں شائع کیا جو الفضل 30؍اپریل 1925ء میں شائع ہوا۔ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:’’کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ اعلیٰ حضرت ضیاء الملک والدین کی سلطنت کےاخیر ایام میں جو کہ تقریباً 24 یا 27 سال کا عرصہ گزرا ہے، مرزا غلام احمد قادیانی کےمبلغین ومتعلقین میں سے ایک شخص خوست میں نمودار ہوا تھا۔اس نے لوگوں میں اپنے مذہب کی اشاعت شروع کی۔ علمائے خوست اس امر کے طالب ہوئے کہ اس کا ہاتھ روک دیاجائے۔ حکومت نے اس قادیانی کو مرکز میں بھیج دیا۔ اس وقت کے بڑے بڑے علماء نے جومدرسہ شاہی کے مدرس تھے، اس کے ساتھ مباحثہ کیا۔ لیکن قادیانی ملا صاحب نے علماء کےبیانات اوردلائل کوتسلیم نہ کیا اور آپ اپنے عقیدہ سے باز نہ آئے۔علماء نے اس کے عقائد کو اہلسنت والجماعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کو ملحد گردانا اور اس کے قتل کا حکم دیا۔ چنانچہ اس کا قتل عمل میں لایا گیا۔
ہم کو صاحبزادہ عبداللطیف کا واقعہ خوب یاد ہے۔ آپ مرزاصاحب کے دوسرے مقلد اور مبلغ تھے جو افغانستان میں ظاہر ہوئے۔ راقم الحروف اس مباحثہ میں شریک تھا جو علماء کا صاحبزادہ صاحب سے ہوا۔ صاحبزادہ صاحب بھی خوست کے مشہور ملاؤں میں سے تھے۔کابل میں آپ کے بہت سے شاگرد بھی تھے۔ صاحبزادہ صاحب قادیانی ہونے سے پیشتر وہابی یعنی غیر مقلد یا عامل بالحدیث تھے۔ اعلیٰ حضرت شہید کے ابتدائی ایام سلطنت میں آپ نے زیارت بیت اللہ الحرام کاقصد کیا۔ آپ ہندوستان میں وارد ہوکر قادیان میں حکیم نورالدین خلیفہ اول مرزا غلام احمد سے ملاقی ہوئے اور اس کے عقیدے پر لٹو ہوگئے۔ زیارت کا ارادہ فسخ کردیا اور خوست میں واپس تشریف لے آئے۔آپ نے لوٹ آنے کی بابت خطوط اپنے شاگردوں کےنام تحریر کیے، ان میں لکھا کہ جب میں قادیان دارالامان پہنچا تو جو فیض میں نے وہاں حاصل کیے، وہ ان برکات سے زیادہ نظر آئے جو بیت الحرام میں نصیب ہوسکتے تھے۔ لہٰذا میں نے حج کاارادہ فسخ کیا۔ اس لیے میں واپس آگیا ہوں۔ جب حکومت کواس کی اطلاع حاصل ہوئی تواس نے صاحبزادہ صاحب کو بلوا یا اور اس کو قید کردیا۔اس کی اپنی خواہش کےمطابق مباحثہ کے لیے علماء طلب کیے گئے۔ اس وقت کتاب ’سراج الاحکام ‘کی تیاری کے لیے 50 کےقریب عالم شاہی میں موجود تھے۔…صبح سےلےکرعصر تک بحث ہوتی رہی۔ صاحبزادہ صاحب نے کہاکہ بخاری شریف کی سند سےحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت شدہ ہے۔ بخاری شریف آپ کے ہاتھ میں دے دی گئی۔ آپ بہت دیر تک اوراق ادلتےبدلتے رہے لیکن آپ کو مطلوبہ حدیث نہ ملی۔ مختصر یوں سمجھئے کہ اس مجلس مباحثہ میں بہت سی باتیں ہوئیں۔آخر کارخاتمہ کےوقت علماء نےمتفق البیان ہوکر آپ سے درخواست کی کہ آپ عقیدۂ مرزائیت سے تائب ہوجائیں۔یہاں تک کہ بعض علماء نے اپنے سر ننگے کرکے بڑی گریہ وزاری سے آپ کو کہا کہ آپ اپنے اس عقیدہ سے باز آجائیں۔ لیکن آپ باز نہ آئے۔ آخر کار کہاگیا کہ آپ کو مجلس سے لےجایا جائے۔ علماء نے محضر نامہ اور قتل نامہ تیار کیا اور اسے بادشاہ کی خدمت میں ارسال کردیا۔دوسرے دن صاحبزادہ اور تمام علماء بادشاہ کے حضور میں حاضر ہوئے اور صاحبزادہ صاحب کا محضر قتل پڑھا گیا۔اعلیٰ حضرت نے خود اس کو یہ سمجھایا کہ وہ قادیانی مذہب سے تائب ہوجائے لیکن آپ کا سمجھانا بھی کارگر نہ ہوا۔ لاچار ہوکر اس کی سنگساری کا حکم دےدیا گیا۔چنانچہ اس کو علماء کی موجودگی میں سنگسار کردیاگیا۔اس واقعہ کے بعد لوگوں کویہ معلوم ہوگیا کہ جو شخص قادیانی مذہب اختیار کرےگا اسے مرواڈالا جائے گا۔بعض جاہلوں اورخوش عقیدہ لوگوں کےدلوں میں یہ عقیدہ سرایت کرچکا تھا لیکن خوف جان کی وجہ سے کسی کو اظہار کی جرأت نہ ہوسکی۔‘‘
اختتامیہ
قارئین، صاحبزادہ صاحبؓ کی شہادت کے بعد ہونے والے واقعات اور امیر افغانستان کے خاندان کے ساتھ ہونے والے خدائی سلوک کی داستان بھی جاننے سے تعلق رکھتی ہے۔ کس طرح خدا کے فرستادہ کے الفاظ بعینہٖ پورے ہورہے ہیں اور واقعۃً سرزمین کابل آج تک امن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ فاعتبروا یا اولی الالباب
حضرت اقدس علیہ السلام کی آپ سے محبت کا اظہار آپؓ کی شہادت پر لکھی گئی کتاب سے بھرپور عیاں ہے بلکہ قابل رشک ہے۔ فرمایا: ’’جیسا کہ ان کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی ان کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا‘‘ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 8)
نیز فرمایا:’’وہ بھی تو دور کی زمین کا رہنے والا تھا جس کے صدق اور وفا اور اخلاص اور استقامت کے آگے پنجاب کے بڑے بڑے مخلصوں کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایک شخص تھا کہ ہم سب سے پیچھے آیا اور سب سے آگے بڑھ گیا۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 326 ایڈیشن 2019ء)