ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(کینسر کے متعلق قسط 6)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
کالی فاسفور یکم
Kali phosphoricum
(Phosphate of Potassium)
٭…غدودوں کی سوزش میں بھی کالی فاس بہت مفید ہے۔ بسا اوقات گردن کی دونوں اطراف میں غدود پھول جاتے ہیں، یہ تپ دق یا کینسر کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے مریضوں کو براہ راست سلیشیا دیں تو بعض اوقات خطرناک نتائج نکلتے ہیں لیکن حسب حالات مریض کو سلیشیا دیتے وقت کئی دوسری دوائیں پہلے یا ساتھ ملا کر دینی پڑتی ہیں۔ انہی دواؤں میں سے ایک کالی فاس ہے جس سے سلیشیا کا رد عمل متوازن ہو جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ ترکیب اچھا اثر دکھانے والی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سلیشیا دینے سے پہلے کالی فاس دے کر مریض کو صحیح رد عمل کے لیے تیار کر لیا جائے۔ ایسی صورت میں بہتر ہے کہ کالی فاس کی ایک ہزار طاقت کی خوراک دے کر چند دن انتظار کر لیا جائے۔ بعض اوقات اس سے حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں اور ایک ہی خوراک غد ودوں کو چھوٹا کرنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں سلیشیا دینے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ آٹھ دس دن کے بعد ایک خوراک اور دی جا سکتی ہے۔ جب تک غدود چھوٹے ہوتے جا رہے ہوں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ کالی فاس صرف بیرونی طور پر نظر آنے والے غدودوں میں ہی نہیں بلکہ اندرونی اعضاء اور رحم کے غدودوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر یہ شک ہو کہ یہ گومڑ کینسر کی شکل اختیار کر رہے ہیں تو کالی فاس کو لا ز ما ًیاد رکھنا چاہیے کہ یہ کینسر کے زخموں کو مندمل کرنے میں بھی مدد گار ہوتی ہے۔ (صفحہ507)
کر ئیوزوٹم
Kreosotum
٭… کینسر کے رجحان والے مریض میں بھی کر ئیو زوٹ مفید ہے خصوصاً معدے کے کینسر کے آغاز میں کو نیم کے ساتھ ملا کر دی جائے تو فائدہ پہنچاتی ہے۔ بیماری کی پوری علامتیں ظاہر ہونے سے پہلے ہی اگر کر ئیو زوٹ کی علامتیں نظر آئیں تو فوراً شروع کروا دینی چاہیے ورنہ اگر یہ کینسر ایک دفعہ شروع ہو جائے تو اسے سنبھالنا ناممکن ہو تا ہے۔ مناسب علاج مریض کو صرف آرام تو پہنچا سکتا ہے، مکمل شفا نہیں بخشا۔ زندگی کو سہولت سے اپنی آخری’’ مقررہ اجل‘‘ تک بڑھانے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ یہ محاورہ میں نے عمداً استعمال کیا ہے کیونکہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ زندگی کے کچھ سال بڑھائے جا سکتے ہیں۔ سال تو بڑھ نہیں سکتے لیکن خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ انتہائی مدت سے زندگی کے جو سال کم ہو رہے ہیں ان کی کمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ بیماری اور شفا کا یہی فلسفہ ہے۔ گویا صحیح علاج سے مقررہ مدت تک عمر لمبی کی جا سکتی ہے۔ بیماری عمر کو کم کر دیتی ہے اور صحت عمر کو مقررہ عمر تک لے جانے میں مدد کرتی ہے۔ (صفحہ522۔523)
لیکیسس
Lachesis
(سیاہ پھن دار سانپ ’’سروکوکو‘‘کا زہر)
٭… فاسفورس کا بھی جگر سے تعلق ہے اور عموماً جگر کے کینسر میں مفید ثابت ہوتی ہے لیکن اسے بہت احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اونچی طاقت میں بار بار اور غیر ضروری طور پر دینے سے خطرناک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات یرقان مزمن شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایسی صورت میں لیکیسس بہت کام آنے والی دوا ہے۔(549۔550)
میگنیشیا کارب
Magnesia carbonica
(Carbonate of Magnesia)
٭… ایسے مریض جن میں سل کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ چہرہ زرد ہو جائے۔ اگر دیگر علامتیں کسی معین دوا کی طرف اشارہ نہ کریں تو میگنیشیا کا رب استعمال کریں۔ میگنیشیا کا رب کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ فضلے کا رنگ مٹی کی طرح ہو جاتا ہے اور اس میں سخت بدبو ہوتی ہے۔ یہ جگر کی خرابی کی علامت ہے۔ بہت کھل کر اجابت ہوتی ہے جو ٹکڑوں کی صورت میں ہوتی ہے اور پانی پر تیرتی ہے۔ معدے اور انتڑیوں کے کینسر میں بھی اجابت پانی پر تیرتی رہتی ہے اور ڈوبتی نہیں کیونکہ اس میں گیس ملی ہوئی ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ جس شخص کی اجابت ہلکی ہو کر تیرے اسے ضرور کینسر ہی ہو گا۔ اس لئے خواہ مخواہ وہموں میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ کینسر کی دوسری علامتیں ہوں تو علاج کی فکر کرنی چاہیے۔میگنیشیا کارب میں اجابت کا رنگ بعض دفعہ سبزی مائل ہو جاتا ہے۔ (صفحہ570)
مینگینم
Manganum aceticum
(Manganese Acetate)
٭… مینگینم میں جلد ی علامتیں بھی ملتی ہیں۔ زخموں اور ناسور کے کنارے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اکثر زخم لمبا عرصہ چلتے ہیں اور ٹھیک نہیں ہوتے۔ سورائسس (Psoriasis) میں بھی اسے مفید بتایا گیا ہے۔ اگر سورائسس یعنی چنبل دب چکا ہو تو مینگینم سے فائدے کی صورت میں پہلے بہت زور سے جلد پر ابھرے گا اور لمبا عرصہ وقفہ وقفہ سے استعمال کے نتیجہ میں کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ لہٰذا مینگینم دینے کے بعد سورائسس یعنی چنبل ظاہر ہو تو گھبرانا نہیں چاہیے۔ ڈاکٹر کینٹ اس بات کے سخت خلاف تھے کہ سورائسس کو دواؤں سے دبا دیا جائے کیونکہ اس کے نتیجہ میں انتڑیوں میں یا کسی اور عضو میں کینسر ہو سکتا ہے۔ ان کے اکثر بیانات درست ہوتے ہیں اس لیے بعید نہیں کہ یہ بھی درست ہو۔ مینگینم میں سورائسس کی علامات فاسفورس اور ڈلکامارا سے ملتی ہیں۔(صفحہ578)
٭…مینگینم کے مریض کے زخم اور ناسور ٹھیک نہیں ہوتے اور مسلسل ہرے رہتے ہیں۔ یہ کیفیت جزوی کینسر کی ہے۔ اگر اسے زبردستی ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ پورے کینسر میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس کے مریض کو معمولی لمس بھی سخت تکلیف دیتا ہے۔ اگر چلنے سے ہڈیوں میں درد ہو اور آرنیکا،برائیو نیا سے فائدہ نہ ہو تو مینگینم فائدہ دیتی ہے۔(صفحہ579)
مرکری کے مرکبات
Mercurius
٭…رحم اور چھاتی کے کینسر میں اگر چہ مرکری مکمل شفا بخشنے کی صلاحیت نہیں رکھتی مگر تکلیف کو کم کر دیتی ہے اور آرام پہنچاتی ہے۔ ہاں وہ گلٹیاں جو کینسر نہ ہوں مرکری سے شفا پا جاتی ہیں۔ مرکری کی ایک قسم پروٹو آئیوڈائیڈ (Proto iodide) سینے کے کینسر میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔ ڈاکٹر کینٹ سینے کے کینسر کی وجہ سے پیدا ہونے والے درد میں پروٹو آئیوڈائیڈ 100 کی طاقت میں استعمال کرواتے تھے۔جب بھی درد اٹھے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کے تجربہ میں آیا ہےکہ انڈے کے برار رسولی اس دوا کے استعمال سے بالکل ختم ہو گئی۔ یہ دوا دائیں طرف کی تکلیف میں زیادہ اثر دکھاتی ہے۔ جبکہ اس کی دوسری قسم Bin iodide بائیں طرف کی تکلیفوں میں مفید ہے۔ (صفحہ599۔600)
ملی فولیم
Millefolium
(Yerrow)
٭…کینٹ (Dr. Kent) اس کے متعلق پہلے فقرہ میں ہی اس کو ویریکوزوینز (Vericose Veins) میں چوٹی کی دوا بتاتا ہے۔ اس لیے وہ اس کے اخراج خون کو ہمیشہ سرخ نہیں بلکہ عموماً سرخ بیان کرتا ہے۔ بہرحال اگرچہ اکثر سرخ خون ہی نکلتا ہے مگر جریان خون کی خواہ وہ کالا ہی ہو یہ اوّلین دوا ہے۔ اس سے بڑھ کر جریان خون کی علامات شاید ہی کسی اور دوائی میں پانی جائی ہوں۔ اگر کینسر کے زخموں سے خون کا جریان زیادہ ہو تو اس کی روک تھام میں بھی یہ مفید ہو سکتی ہے۔ کینسر کے زخم پر خالص شہد کا لیپ بار بار لگانے سے بھی افاقہ ہونا ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ (صفحہ601)
نیٹرم کار بو نیکم
Natrum carbonicum
(Carbonate of Sodium)
٭…شہد کینسر کے زخموں اور آنکھوں کے ناسور وغیرہ میں بھی غیر معمولی اثر دکھاتا ہے۔ پر وپلس بہت طاقتور دوا ہے لیکن کیمیائی لحاظ سے بہت ہلکی ہے۔ ایک دفعہ فرانس میں یہ تحقیق ہوئی کہ دنیا میں جتنے بھی کیڑے مکوڑے ہیں وہ سب کچھ نہ کچھ جراثیم (Bacteria) اٹھائے پھرتے ہیں۔ چنانچہ یہ معلوم کیا جائے کہ ہر قسم کے کیڑے مکوڑے کا کس خاص بیکٹیریا سے تعلق ہے۔ جس سائنس دان نے شہد کی مکھی پر تحقیق کی وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ شہد کی مکھی کے بدن پر کسی بیکٹیریا کا کوئی نشان نہیں ملتا اور وہ ہر قسم کے جراثیم سے کلیتاً پاک ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز دریافت تھی جس سے ایک نئے تحقیقی دور کا آغاز ہوا کہ کیا وجہ ہے کہ شہد کی مکھی ہر قسم کے جراثیم سے پاک ہوتی ہے۔ قرآن کریم کا یہ فرمانا کہ فیہ شفاء للناس بڑی گہرائی رکھتا ہے۔ جب فرانس میں یہ تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ شہد کی مکھی اتنی صفائی پسند ہے کہ شہد کے ہر چھتے کے کنارے پر یہ ایک کیمیکل لگاتی ہے جس کا نام پروپلس(Propolis) ہے۔ مکھی پر وپلس کو سفیدے اور دوسرے درختوں سے رسنے والے موم سے تیار کرتی ہے اور اپنے چھتے کے کناروں پر ہر طرف مل دیتی ہے۔ جب بھی اندر جاتی ہے پہلے کنارے پر پاؤں رکھتی ہے۔ جب باہر آتی ہے پھر بھی اس پر پاؤں رکھ کر باہر نکلتی ہے جس سے اس کے پاؤں پر وہ مادہ لگ جاتا ہے جو اسے جراثیم سے پاک رکھتا ہے۔ اس وجہ سے شہد کے چھتے میں کوئی جراثیم داخل نہیں ہو سکتے۔ اس تحقیق کے بعد ڈنمارک میں ایک قابل زمیندار نے خصوصی فارم تیار کر کے شہد کی مکھی کی افزائش کی جہاں سے وہ بڑی مقدار میں پر وپلس حاصل کرتا تھا۔ پر وپلس کو گلیسرین یا وٹامن ای کریم میں ملا کر استعمال کیا جائے تو روز مرہ کے پھوڑےپھنسیوں میں بہت مفید دوا ہے۔(صفحہ612۔613)