خلافت روحانی ترقیات کا عظیم الشان ذریعہ
خدا کا قرب بندگانِ خدا کا قرب ہے اور خدا تعالیٰ کا ارشاد کُوۡنُوۡا مَعَ الصَّادِقِیۡن اس پر شاہد ہے
قرآن کریم میں مومنوں کی ایک بڑی نشانی اُن کی اللہ سے محبت بیان فرمائی گئی ہے جیسا کہ فرمایا ہے :وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ(البقرۃ:166) وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ کی محبت میں (ہر محبت سے) زیادہ شدید ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنے ربّ کی تلاش میں سرگرداں ہوں،اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد اور راہنمائی فرماتاہے اور انہیں اپنے قرب اور محبت کی دولت سے مالا مال کرکے اپنے پیاروں میں شامل کرلیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:وَالَّذِیۡنَ جَاھَدُوۡا فِیۡنَا لَنَھۡدِ یَنَّھُمۡ سُبُلَنَا(العنکبوت:70)اور وہ لوگ جو ہمارے بارہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے۔
انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصدبھی توحید الٰہی کا قیام اور بندوں اور خالق کے درمیان محبت کا رشتہ استوار کرناہوتا ہے۔نبی اور مامور من اللہ اپنی اندھیری راتوں کی دعائوں سے اپنے متبعین کے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتاہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید وتفرید کے قیام اور محبت وقرب الٰہی کے نور سے لوگوں کے دلوں کو منور کرنے کے لیے وہ ایسی سکیمیں بناتا اور ایسی تحریکات جاری کرتا ہے جس سے آہستہ آہستہ اُس انقلاب کا راستہ ہموار ہوتا چلاجاتا ہے جس کے لیے وہ مبعوث ہوتا ہے۔ نبی اور اُس کے خلفاء کی شمع کے گرد جمع ہونے والے پروانے اپنا سب کچھ اُس پر نثار اور نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔ وہ صدق ووفا کے پیکر بن کر اپنی زندگی کے آخری سانس تک اُس کی اطاعت اور فرمانبرداری کو اپنا شعار بنالیتے ہیں۔ عبادت الٰہی اور دیگر تمام دینی احکامات پر عمل کرنے کی وجہ سے اُن کی روحانی قوتوں میں ترقی ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور اس دنیا میں رہنے کے باوجود وہ دنیا داروں کے طور طریقوں کے برعکس زندگی گزارتے ہیں۔ اُن کے قول وفعل اور عمل سے روحانیت ہویدا ہوتی ہے۔ اور وہ اس پاک فرمان کی سچی تصویر بن جاتے ہیں کہ
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار
متبعین خلافت اور منکرین خلافت میں فرق
متبعین خلافت اور منکرین خلافت کی زندگیوں میں ایک نمایاں فرق ہوتاہے۔ حلقۂ خلافت میں نہ آنے والے ایک غول، ایک بِھیڑ، ایک منتشر انبوہ کی مانند ہوتے ہیں۔ جن کا کوئی امام اور راہنما نہیں ہوتا۔ کوئی نظام نہیں ہوتا۔اُن میں سے ہر ایک اپنی مرضی کے تابع جو چاہے،جب چاہے کرگزرتا ہے۔ اُن کی متفرق اور منتشر سوچیں دین اور دنیا کی بھلائی سے عاری ہوتی ہیں۔ وہ بغیر سوچے سمجھے جو من مانی کرتے ہیں اُس سے انتشار وخلفشار اور فساد اور بد امنی پھیلتی ہے اور لوگوں کے مصائب ومشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔
اس کے برعکس خلافت کے ماننے والے اور بیعتِ خلافت کرنے والے ایک امام کے تابع فرمان ہوکر زندگی گزارتے ہیں۔ خلیفۂ وقت اُن کی علمی وروحانی ترقی کے لیے اور اُن کے تعلق باللہ میں اضافہ کے لیے آئے روز نئی سے نئی تحریکات جاری کرتا اور پروگرام بناتا ہے۔ جن پر عمل پیرا ہوکر وہ حلقۂ خلافت سے منسلک نہ ہونے والے لوگوں سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔ اُن میں ایک وقاراور سنجیدگی کی روح پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ ایک نظم وضبط کے تحت زندگی گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اُن کی عبادت کے طریقوں میں بھی نظم وضبط ہوتا ہے۔وہ اپنے امام کی ہرآواز پر ہر دم لبیک کہنے کی روح سے سرشار ہوجاتے ہیں۔ اور ایک کے بعد ایک نئی تحریک اور نئے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے وہ ترقی کی ایسی شاہراہ پر گامزن ہوتے ہیں جس سے دنیا اور اہل دنیا کو بے شمار فوائد ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور مخلصین خلافت کے نمونہ کو دیکھ کر اُن کے اندر بھی مثبت سوچ اور پاک تبدیلی پیدا ہونے لگتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے …سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 353)
حضرت اقدس علیہ السلام کے اس ارشاد سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خلافت محض ایک انتظامی عہدہ نہیں۔ بلکہ ایک روحانی منصب اور مقام ہے۔ جس پر فائز شخصیت نبی اور رسول کا کامل متبع اور جانشین ہوتا ہے۔وہ نبی کے کمالات،انوار اور فیوض وبرکات کا وارث ہوتا ہے۔ ایسا وجود فنا فی اللہ اور فنا فی الرّسول ؐ ہوتا ہے۔ وہ قال اللہ اور قال الرسول ؐ پر من وعن عمل کرتا ہے۔ اطاعت باری تعالیٰ اور اطاعت رسول ؐ میں مومنین کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ رکھتا ہے۔ اُس کے دل میں غیرت توحید اس قدر راسخ ہوتی ہے کہ وہ غیراللہ سے نہ مرعوب ہوتا ہے اور نہ کسی بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے اُس کا سر خم ہوتا ہے۔ اعلائے کلمہ ٔ حق کی خاطر وہ اپنی تمام خواہشات اور مرضیات کو قربان کردیتاہے۔ جب دنیا کے تاجدار اُسے راہِ حق سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ حق کا پہاڑ بن کر اُن کے سامنے ڈٹ جاتا ہے اور اُس کے پائے ثبات میں ایک ذرّہ بھر لغزش نہیں آتی۔وہ ایسا پاک دل، پاک باز اور صدق وصفا کا پیکر ہوتا ہے کہ اُسے دیکھ کر لوگ اپنی گناہ آلود زندگی سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ خدائی تائید اور نصرت ہر ہر قدم پر اُس کے شامل حال ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہیٰٓاَیُّھَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوۡااللّٰہَ وَکُوۡنُوۡامَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبہ:119)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہوجائو۔جیساکہ نبی اپنی قوت قدسیہ، اخلاقی اقدار کے اعلیٰ نمونہ،اپنی دعائوں اور اپنی تبلیغ کے ذریعہ لوگوںکو خدائے واحد کی طرف بلاتا اوراپنے متبعین کی تربیت اس رنگ میں کرتا ہے کہ جس سے وہ خدا رسیدہ وجود بن جائیں۔اسی طرح خلیفۂ وقت بھی اپنے متبعین اور اپنی بیعت کرنے والوں میں تمام اخلاقی اور روحانی اوصاف پیداکرتا ہے۔ اُن میں عبادات کی حقیقی روح پھونکتا ہے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی و غمگساری کا جوہر اُن میں پیداکرتا ہے۔ نبی کی قائم کردہ جماعت ایک طرف خدا اور رسول کی سچی اطاعت کرنے والی ہوتی ہے اور دوسری طرف وہ شمع خلافت کے پروانے بن کر خلافت کے پورے نظام میں شامل ہوتے اور خلیفہ ٔوقت کی جاری کردہ تحریکات پردیوانہ وار عمل کرتے ہوئے شب وروز محنت وجانفشانی سے کام لیتے ہیں۔ خلیفہ ٔوقت کو اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ مومنوں کے دل اس کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مومنوں کو خلیفۂ وقت میں نبی کا عکس نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ اس کے ادنیٰ اشارہ پر تن من دھن قربان کرنے کے لیے ہردم تیار رہتے ہیں۔
نبی کے بعد خلیفہ بھی اُسی کی روشن کردہ روحانی شمع کا نور پھیلاتا ہے اوراُس کے ذریعہ تائید الٰہی اور نصرت خدا وندی کے نشانوں کا پیہم ظہور ہونے لگتا ہے۔ جس سے اُس کے متبعین کے ایمان تازہ ہوجاتے ہیں اور اُن کے دل اِس نوریقین سے بھرجاتے ہیں کہ ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے اُس کے سر پر خدا کا ہاتھ ہے۔ یوں ایک زبردست مضبوط روحانی نظام تشکیل پاتاہے۔ جس کی ہر کڑی اور ہر حصہ میں اخلاقی اقدار اور روحانیت کا نور جلوہ گر نظر آتا ہے۔ الغرض نبی کے فیوض وبرکات سے فیض یافتہ خلیفۂ وقت کے ذریعہ ایک ایسا مثالی معاشرہ اور روحانی جماعت ایک منارِ نور کی حیثیت سے دنیا میں قائم ہوتی ہے جو اپنے ماحول میں بھی نور افشانی کرتی ہے اور دنیا دار اُس کی مقناطیسی کشش اور روحانی انوار کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور ہوتے ہوتے یہ جماعت دنیا کے شرق وغرب اور شمال وجنوب میں پھیل جاتی ہے۔ یہی وہ مابہ الامتیاز ہے جو آج مسیح موعود علیہ السلام کے بعد جاری ہونے والی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کو حاصل ہے۔ جس کے ذریعہ انوار خلافت اور اُس کی تحریکات کی برکات چہاردانگ عالم میں پھیلتی چلی جارہی ہیں۔ اور ہزاروں لوگ اُس کی برکات سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ درحقیقت یہی وہ معاشرہ تھا جو خدا کے سب سے زیادہ محبوب اور مقدس رسول حضرت محمد ﷺ نے چودہ سو سال پہلے قائم فرمایا تھا اور لاریب یہی مقصودِ تخلیق کائنات تھا۔ رسول کریم ﷺنے اپنے صحابہ ؓ میں ایسی انقلابی تبدیلی پیدا کردی کہ وہ جو شراب کے رسیاتھے۔وہ پُرسوز دعائیں کرنے والے، پنجگانہ نمازوں کے عادی،تہجد گزار اور شب زندہ دار بن گئے۔ پھر جو اپنی خواہشات کے اسیر، اپنے نفس کے غلام اور خود غرضی اور ہواو ہوس کے بندے تھے اُن میں ایسا انقلاب آیا کہ جب ہجرت مدینہ کے بعد رسول کریم ﷺ نے مہاجرین اور انصار میں مواخات قائم فرمائی تو انصارِ مدینہ میں سے جس کے پاس دو باغ تھے اُن میں سے ایک باغ اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا۔ جس کے پاس دومکان تھے اُن میںسے ایک اپنے مہاجر بھائی کے لیے وقف کردیا۔حتّٰی کہ بعض انصار نے آنحضور ﷺ کو یہ تک پیش کش کردی کہ اگر حضورﷺ اجازت دیں تو ہم اپنی دو یا دو سے زائد بیویوں میں سے ایک بیوی کو طلاق دے کر اپنے مہاجر بھائی کے عقد میں دے دیں۔ اللہ اللہ ! رسول اللہﷺ کے فیضِ صحبت نے ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں میں کیسا انقلاب پیدا کیا کہ وہ ایک دوسرے کے لیےخون دینے والے، جاں نثار بن گئے۔
خلافت قرب الٰہی اور روحانی ترقیات کا ذریعہ
حقیقی خلافت کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ خلیفہ وقت اپنے ماننے والوں کی روحانی ترقی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔وہ اُنہیں قرب الٰہی عطا کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتا ہے تاکہ وہ اپنی پیدائش کے اصل مقصد کو حاصل کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت مومنین کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَیَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔(اٰل عمران:105)اورچاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بری باتوں سے روکیں۔اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
ایک حقیقی جماعت کا قیام محض اللہ تعالیٰ کے ارادہ اوراس کے اذن سے ہی ممکن ہے۔اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر رحم فرماتے ہوئے،اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو قائم کرکے ہمیں یہ سعادت عطا فرمائی ہے کہ اس جماعت اور اس امام عالی مقام کے جاں نثاروں میں شامل ہوکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میںروحانی ترقیات کے حصول کا ایک ذریعہ یہ بتایا ہے کہیٰٓاَیُّھَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوااتَّقُوااللّٰہَ وَابۡتَغُوۡٓا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ (المائدہ: 36) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کے قرب کا وسیلہ ڈھونڈو۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کی متابعت میں خلفائے عظام میں بھی یہ برکت منتقل کردی جاتی ہے کہ وہ قرب الٰہی کے حصول میں ممدومعاون ثابت ہوں۔ ان کے ساتھ مل کر اور ان کی اطاعت میں رہتے ہوئے نیکی اور بھلائی کے کاموں میںقدم آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ان کی فیض رساں صحبت سے روحانی ترقیات کا حصول ممکن ہے۔چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی اخلاص ووفا کے ساتھ خلافت کے دامن کو تھام کر اپنے نفس کو قربان کردیا، وہ اور اس کی نسلیں خدا تعالیٰ کی محبت اور قرب کو پانے والی بنادی گئیں۔
چونکہ اللہ تعالیٰ براہِ راست خلفاء کی راہنمائی کرتا ہے اس لیے ان کی صحبت اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے بعد سب سے زیادہ فیض رساں ہوتی ہے۔ وہ روحانی لحاظ سے خدا تعالیٰ کے قریب ہوتے ہیں۔خلفاء سے تعلق کی وجہ سے ایک مومن کے لیے خداتعالیٰ کے قرب اور محبت کی راہیں آسان ہو جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا قانون قدرت اس طرح سے چل رہا ہے کہ انسان توا نسان دنیا کی ہر چیز کسی نہ کسی رنگ میں اپنے ماحول کا اثر قبو ل کررہی ہے اور ہر چیز ایک دوسرے پر اپنا اثر ڈال رہی ہے۔نیک صحبت انسان کو نیک اور بری صحبت برا بنادیتی ہے۔حضور نبی پاک ﷺکا ارشاد مبارک ہے :اچھے ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی سی ہے۔ خوشبو والایا تو تجھے (خوشبو) دے دے گا یا تو اس سے خرید لے گا یا کم ازکم تجھے اس سے اچھی خوشبو تو آجائے گی اور بھٹی جھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلادے گا یا تجھے اس سے بدبو آئے گی۔ (صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ والآداب بَابُ اسۡتِحۡبَابِ مُجَالَسَۃِ الصَّالِحِیۡنَ وَمُجَانَبَۃِ قُرَنَاء السُّوء)
سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’یہ فضل اور برکت صحبت میں رہنے سے ملتی ہے۔ رسول اللہﷺ کے پاس صحابہؓ بیٹھے۔ آخر نتیجہ یہ ہوا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ اللّٰہُ اللّٰہُ فِیۡ اَصۡحَابِیۡ۔گویا صحابہؓ خدا کا رُوپ ہوگئے۔ یہ درجہ ممکن نہ تھا کہ اُن کو ملتا اگر دُور ہی بیٹھے رہتے۔ یہ بہت ضروری مسئلہ ہے۔ خدا کا قرب، بندگانِ خدا کا قرب ہے اور خدا تعالیٰ کا ارشاد کُوۡنُوۡا مَعَ الصَّادِقِیۡنَ(التوبہ:119) اس پر شاہد ہے۔ یہ ایک سِرّ ہے جس کو تھوڑے ہیں جو سمجھتے ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 351۔ ایڈیشن2003ء)
حضور علیہ السلام بد صحبت اور صحبت صالحین کے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اصلاحِ نفس کی ایک راہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کُوۡنُوۡا مَعَ الصَّادِقِیۡنَ( التوبہ:119)یعنی جو لوگ قولی، فعلی، عملی اور حالی رنگ میں سچائی پر قائم ہیں اُن کے ساتھ رہو۔اس سے پہلے فرمایا یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوااللّٰہَ (التوبہ:119) یعنی ایمان والو۔تقویٰ اللہ اختیار کرو۔اس سے یہ مراد ہے کہ پہلے ایمان ہو پھر سنت کے طور پر بدی کی جگہ کو چھوڑ دے اور صادقوں کی صحبت میں رہے۔ صحبت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جو اندر ہی اندر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ہر روز کنجریوں کے ہاں جاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ کیا مَیں زنا کرتا ہوں ؟ اسے کہنا چاہئے کہ ہاں تو کرے گا اور وہ ایک نہ ایک دن اس میں مبتلا ہوجاوے گا کیونکہ صحبت میں تاثیر ہوتی ہے اسی طرح پر جو شخص شراب خانہ میں جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی پرہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ ضرور پئے گا۔
پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ صحبت میںبہت بڑی تاثیر ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اصلاحِ نفس کے لئے کُوۡنُوۡا مَعَ الصَّادِقِیۡنَ کاحکم دیا ہے۔جو شخص نیک صحبت میں جاتا ہے خواہ وہ مخالفت ہی کے رنگ میںہو لیکن وہ صحبت اپنا اثر کئے بغیر نہ رہے گی اور ایک نہ ایک دن وہ اس مخالفت سے باز آجائے گا… لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب صلح حدیبیہ کی ہے تو صلح حدیبیہ کے مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپ کے پاس آنے کا موقعہ ملا۔ اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کی باتیں سُنیں تو اُن میں سے صدہا مسلمان ہوگئے۔ جب تک انہوں نے آپﷺ کی باتیں نہ سنی تھیں اُن میں اور آنحضرت ﷺ کے درمیان ایک دیوار حائل تھی جو آپ کے حُسن وجمال پر اُن کو اطلاع نہ پانے دیتی تھی اور جیسا کہ دوسرے لوگ کذّاب کہتے تھے (معاذاللہ ) وہ بھی کہہ دیتے تھے اور اُن فیوض وبرکات سے بے نصیب تھے جو آپ لے کر آئے تھے اس لیے کہ دُور تھے۔ لیکن جب وہ حجاب اُٹھ گیا اور پاس آکر دیکھا اور سنا تو وہ محرومی نہ رہی اور سعیدوں کے گروہ میں داخل ہوگئے۔ ‘‘(ملفوظات جلد3صفحہ 506،505۔ ایڈیشن2003ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’جو شخص خلافت کے لئے منتخب ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر دوسرا اس منصب کے سزاوار اس وقت ہرگز نہیں ہوتا۔ کیسی آسان بات تھی کہ خدا تعالیٰ جس کو چاہے مصلح مقرر کردے۔ پھر جن لوگوں نے خدا کے ان مامور کردہ منتخب بندوں سے تعلق پیدا کیا انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کی پاک صحبت میں ایک پاک تبدیلی اندر ہی اندر شروع ہوجاتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی آرزو پیدا ہونے لگتی ہے۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 226)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’خلافت کا مقصد حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھرپور توجہ دینا ہے۔ ان حقوق کو منوانا اور قائم کرنا اور مشترکہ کوشش سے ان کی ادائیگی کی کوشش کرنا ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لیے افراد جماعت میں یہ روح پیدا کرنا ہے۔ ان کو توجہ دلانا ہے کہ دین بہرحال دنیا سے مقدم رہنا چاہیے۔ اور اسی میں تمہاری بقا ء ہے اور اس میں تمہاری نسلوں کی بقاء ہے۔ یہ ایک روح پھونکنا بھی خلافت کا کام ہے۔ توحید کے قیام کے لیے بھرپور کوشش کرنابھی خلافت کا کام ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍جون 2014ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍جون 2014ء صفحہ 7)نیز فرمایا:’’کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے احمدیوں کا، چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی، ایسا نہیں جس پر خلیفہ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لیے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ میں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔‘‘(خطبہ جمعہ 6؍جون 2014ء۔ الفضل انٹرنیشنل 27؍جون 2014ء صفحہ 7)
خدا تعالیٰ کے مقربین کی پاک صحبت اورقوتِ قدسیہ کی برکت سے انسان کے اندر نیکیوں کے لیے ایک تڑپ پیدا ہوجاتی ہے اور اُس کا دل بدیوں سے متنفرہوکراُن سے دُور ہوجاتا ہے۔ایسے میں اللہ تعالیٰ کا فضل اُس کی راہنمائی کرتے ہوئے اُسے امن کے اُس مقام میں داخل کردیتا ہے جہاں وہ روحانی تاثیرات سے حصہ پاکر اسی دنیا کی زندگی میں نفس مطمئنہ کے مقام کو پالیتاہے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے :وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّھُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ (العنکبوت:10) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ہم انہیں ضرور نیک لوگوں میں داخل کریں گے۔ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡاۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ؕ وَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (البقرہ:258)اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے۔ وہ ان کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست شیطان ہیں۔ وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔
دراصل نیک لوگ صادق القول یعنی سچی بات کہنے والے اور صادق العمل یعنی نیک اور صحیح عمل کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی مرضی اور رضا کے مطابق گزارتے ہیں۔ اس لیے جو پاک فطرت انسان ان کی صحبت اختیار کرے گا۔وہ ان کی روحانی کشش سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔دنیا کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ جتنے بھی بڑے بڑے بدنام یا بری شہرت کے مالک لوگ دنیا میں گزرے ہیں وہ پیدائشی طور پربرے نہیں تھے بلکہ معاشرے اور بری مجالس نے انہیں بُرا بنا دیا۔ فارسی زبان کا ایک قول ہے کہ
صحبتِ صالِح تُرا صالِح کُنَد
صحبتِ طالِح تُرا طالِح کُنَد
یعنی نیک صحبت میں رہنا نیک کردیتا ہے اور بری صحبت میں بیٹھنا برا بنا دیتا ہے۔ لہٰذاہماری تمام کامیابیوں،کامرانیوں اور دنیوی ودینی ترقیات کا راز خلیفۂ وقت کے ساتھ غیر مشروط تعلق میں پنہاں ہے کیونکہ خلیفہ وقت ہی وہ بابرکت وجود ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہنمائی اور اُس کے اذن سے جماعت مومنین کی راہنمائی کرتا ہے اور انہیں ہدایت کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے دن رات کوشاں رہتا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جس کو خدا اپنی مرضی بتاتا ہے، جس پر خدا اپنے الہام نازل فرماتا ہے، جس کو خدا نے اس جماعت کا خلیفہ اور امام بنادیا ہے اس سے مشورہ اور ہدایت حاصل کرکے تم کام کرسکتے ہو۔ اس سے جتنا زیادہ تعلق رکھو گے اُسی قدر تمہارے کاموںمیں برکت پیدا ہوگی اور اُس سے جس قدر دُور رہو گے، اُسی قدر تمہارے کاموں میں بے برکتی پیدا ہوگی۔ جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو۔ وہ کٹی ہوئی شاخ پھل پیدا نہیں کرسکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اسی طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو، وہ اتنا بھی کام نہیں کرسکے گا جتنا بکری کا بکروٹہ کرسکتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ یکم نومبر 1946ء۔ خطبات محمود جلد 27صفحہ 575)
ہم اپنے تجربے اور مشاہدے سے جانتے ہیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اس انعام (خلافت) کی قدر کرتے ہیں اور اُس سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ انہیں صالحین کے گروہ میں شامل کرکے روحانی طور پر بلند کردیتا ہے۔یہاں تک کہ اُن کی اولاد اور اُن کی نسلوں میں بھی اس فیض کو منتقل کردیتا ہے۔اسلام کے دَور اوّلین کی ان گنت مثالیں ہمارے سامنے ہیں اورتاریخ احمدیت بھی ایسی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ افراد جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’میری آرزو ہے کہ میں تم میں ایسی جماعت دیکھوں جو اﷲ تعالیٰ کی محب ہو۔ اﷲ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد ﷺ کی متبع ہو۔ قرآن سمجھنے والی ہو۔ میرے مولیٰ نے بلا امتحان اور بغیر مانگنے کے بھی مجھے عجیب عجیب انعامات دیئے ہیں۔ جن کو میں گن بھی نہیں سکتا۔ وہ ہمیشہ میری ضرورتوں کا آپ ہی کفیل ہوا ہے۔ وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور آپ ہی کھلاتا ہے۔ وہ مجھے کپڑا پہناتا ہے اور آپ ہی پہناتا ہے۔ وہ مجھے آرام دیتا ہے اور آپ ہی آرام دیتا ہے۔ اس نے مجھے بہت سے مکانات دیئے ہیں۔ بیوی بچے دیئے۔ مخلص اور سچے دوست دیئے۔ اتنی کتابیں دیں کہ دوسرے کی عقل دیکھ کر ہی چکر کھا جائے۔پھر مطالعہ کے لئے وقت، صحت، علم سامان دیا۔ اب میری آرزو ہے اور میں اپنے مولیٰ پر بڑی بڑی امید رکھتا ہوں کہ وہ یہ آرزو بھی پوری کرے گا کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کی محبت کرنے والے، محمد رسول اللہ ﷺ کے کلام سے محبت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور اس کے خاتم النبیین کے سچے متبع ہوں۔اور تم میں سے ایک جماعت ہو جو قرآن مجید اور سنتِ نبوی پر چلنے والی ہو۔‘‘(حیات نور صفحہ470-471)
ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا طریق
جس طرح اللہ تعالیٰ کی ظاہری تائیدونصرت خلفاء کے ساتھ ہوتی ہے اسی طرح باطنی طورپر وہ اُن کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے اور اُس کی طرف سے جاری کردہ نظام نہ صرف خلفاء کا ممدومعاون ہوتا ہے بلکہ وہ ہر اُس شخص کی مدد کرتا ہے جونہ صرف خلوص اور دلی محبت کے ساتھ خلافت کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں بلکہ اطاعت کے اعلیٰ نمونے دکھاتے ہیں۔ پس اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے جاری کردہ روحانی نظام سے فیضیاب ہو تو اُس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو خلافت کے دامن سے وابستہ کرلے۔ اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا درج ذیل ارشاد بہت توجہ اور عمل کے لائق ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں :’’ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے چنانچہ …طالوت کے انتخاب میں خدائی ہاتھ کا ثبوت یہی پیش کیا گیا ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نزول ہو گا۔اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ اُن دلوں کو اُٹھائے ہوئے ہوں گے۔گویا طالوت کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں تم میں ایک تغیر عظیم واقع ہوجائے گا۔تمہاری ہمتیں بلند ہو جائیں گی۔تمہارے ایمان اور یقین میں اضافہ ہو جائے گا۔ملائکہ تمہاری تائید میں کھڑے ہو جائیں گے اور تمہارے دلوں میں استقامت اور قربانی کی روح پھونکتے رہیں گے۔پس سچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملائکہ سے تعلق پیدا کر دیتا اور انسان کو انوارِالہیہ کا مہبط بنا دیتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ561)
عبادت کے بغیر خلافت سے فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا
انسانی زندگی کا اوّلین مقصد عبادت الٰہی کا قیام ہے اس لیے عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنا اور اپنے متبعین کو اس طرف متوجہ کرنا خلافت کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ چونکہ خلافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری روحانی نظام کی ایک اہم کڑی ہے اس لیے خلافت کے انعام سے بھرپور رنگ میں فائدہ اُٹھانے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی عبادت کے معیاروں کو بڑھائے اور خلیفہ وقت کی طرف سے جاری تمام تحریکوں اور منصوبوں پر لبیک کہتے ہوئے اُن میں ممدومعاون بنے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’انسان کے اس دنیا میں آنے کا یہی مقصد قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی بعثت کا بہت بڑا مقصد یہی بتایا ہے کہ بندے اور خدا میں ایک زندہ تعلق قائم کیاجائے۔ پس ہر احمدی باقاعدہ نمازیں پڑھنے والا ہو اور ہونا چاہئے اور اس کی نمازیں ایسی نہ ہوں جو سر سے بوجھ اتارنے والی ہوں بلکہ ایک فرض سمجھ کر ادا کی جائیں جس کے بغیر زندگی بے کار ہے۔
ہمیشہ یادرکھیں کہ ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پوری دنیا کو احمدیت کی آغوش میں لے آئیں گے تو ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ احمدیت کیا ہے۔ احمدیت اصل میں قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق خدا تعالیٰ جو واحد ویگانہ ہے اس کی حکومت لوگوں کے دلوں پر قائم کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکومت دلوں میں اس وقت قائم ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر زمینی و آسمانی چیز سے بالا سمجھا جائے اور اس کی ہستی کو سب چیزوں سے بالا سمجھتے ہوئے حقیقی رنگ میں اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عبادت کی جائے۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل 9؍ مئی 2008ء صفحہ 5)حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’قرآن کریم میں جہاں مومنوں سے خلافت کے وعدے کا ذکر ہے اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ(النور:57) اور تم سب نمازوں کو قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اس رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ خلافت کے انعام سے فائدہ اٹھانے کے لئے قیام نماز سب سے پہلی شرط ہے۔ پس مَیں جو یہ اس قدر زور دے رہا ہوں کہ ہر احمدی، مرد، جوان، بچہ، عورت اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے تو اس لئے کہ انعام جو آپ کو ملا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ آپ فائدہ اٹھاسکیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ کیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق خلافت کا یہ سلسلہ تو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے لیکن اس سے فائدہ وہی حاصل کریں گے جو خدا تعالیٰ سے اپنی عبادتوں کی وجہ سے زندہ تعلق جوڑیں گے۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل 09؍مئی 2008ء صفحہ 6)
خلافت شیطانی قوتوں سے بچنے کا اہم ذریعہ
ابتدائی زمانہ سے رحمانی اور شیطانی قوتیں باہم دست و گریبان ہیں۔ شیطان اپنے لاؤ لشکر سمیت اپنے حربے استعمال کرتا ہے اورسازشوں کے تانے بانے بُنتا رہتا ہے۔ پس شیطان ہمیشہ سے انسان کا دشمن ہے۔وہ ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ حضرتِ انسان کو اس کے پیدا کرنے والے سے دُور کردے۔ سو جاننا چاہیےکہ خلافت کا نظام شیطانی اور طاغوتی طاقتوں سے بچنے کے لیے ایک اہم ترین مدافعتی نظام ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ کرلیتے ہیں اُن کے اندر بھی خلافت کے بتائے ہوئے طریقوں سے قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اوروہ اس خطرناک ترین وائرس کا نہ صرف مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں بلکہ اُن کی روحانی طاقتوں میں جِلا اور نکھار پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے محسنِ حقیقی کے قریب ہوجاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کی زندگیوں پر نظر رکھنے والے،آپ کے خطبات و خطابات کو سننے اور پڑھنے والے جانتے ہیں کہ خلفائے عظام ہمیشہ احباب جماعت کی روحانی ترقی اور اُن کی عبادت کے معیاروں کو بلند کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اُن کی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ انہی کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ نظام سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سچے جوش، پورے صدق اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اور خلافت کی بتائی ہوئی راہوں کو اختیار کرلے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص سچے جوش اور پورے صدق اور اخلاص سے اللہ تعالیٰ کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ ایسے عبادت کرنے والے کبھی ضائع نہیں ہوں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ان کی نسلیں بھی شیطان کے شر سے بچی رہیں گی اور خلیفۂ وقت کی دعائیں ان کے حق میں اور ان کی دعائیں خلافت کے حق میں پوری ہوتی رہیں گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو ایسے لوگ عطافرمائے ہوئے ہیں جو اس کی عبادت کرنے والے ہیں تبھی تو خلافت کے انعام سے بھی ہم فیضیاب ہورہے ہیں اور انشاء اللہ، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ عبادت گزاروں کے لیے تمکنت دین کے سامان خلافت کے ذریعہ پیدا فرماتا چلا جائے گا۔ لیکن میں پھراس بات کو دہرائوں گا کہ ہر ایک کو اپنے آپ کو اس گروہ میں شامل کرنے اور شامل رکھنے کے لئے خود بھی کوشش کرنی ہوگی۔
…پس یہ معیار جو آپ نے قائم کرنے کی کوشش کی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ خلافت احمدیہ سے آپ کو محبت ہے۔ کمزور سے کمزور احمدی کے دل میں بھی اس محبت کی ایک چنگاری ہے جس نے اس دن اپنا اثر دکھایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوئی تاکہ خلافت احمدیہ کے قیام اور استحکام کے لئے دعائیں کریں۔ پس اس چنگاری کو شعلوں میں مستقل بدلنے کی کوشش کریں۔ اس کو کبھی ختم نہ ہونے دیں۔ ان شعلوں کو آسمان تک پہنچانے کی ہر احمدی کو ایک تڑپ کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے کہ یہی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔یہی اللہ تعالیٰ کے فیض سے فیضیاب ہونے کا ذریعہ ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کے فیض یافتہ گروہ کا حصہ بننے کا ذریعہ ہے …ہر ایک اپنے خدا سے اپنے سجدوں میں پھر یہ عہد کرے کہ جو مثال ہم نے 27؍مئی کو قائم کی تھی، جس طرح دعائوں اور عبادتوں کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ کے احسان سے توجہ پیدا ہوئی تھی اسے ہم اپنی زندگیوں کا دائمی حصہ بنانے کی کوشش کریں گے تاکہ ہمارا شمار ہمیشہ ان لوگوں میں ہوتا رہے جو خدا تعالیٰ کے سچے عابد ہیں اور جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کا خلافت کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطافرمائے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 18؍جولائی 2008ء صفحہ 7)
خلافت سے وابستگی میں ہی ہماری بقا ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح ہمارے بڑوںنے اپنے آپ کو خلافت کے ساتھ وابستہ رکھا اور خلافت کی مضبوطی اور اس کے استحکام کی خاطر ہر قربانی کے لیے اپنے آپ کو نہ صرف پیش کیا بلکہ ہمارے دلوں میںبھی خلافت کی محبت جاگزین کی بالکل اُسی طرح بلکہ اُس سے بھی بڑھ کر ہم خلافت کے ساتھ اخلاص ومحبت اور وفا کا تعلق قائم رکھیں اور اپنی نسلوں میں بھی اس فیض کو منتقل کرتے رہیں تاکہ وہ بھی فیضان خلافت سے فیضیاب ہوتے رہیں اور خلافت کا انمول فیض ہماری نسلوں میں منتقل ہوتا رہے۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پراحباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ تو کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ وہ تو ایسے ایمان لانے والوں کو جو عمل صالح بھی کررہے ہوں، اپنی قدرت دکھاتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔ پس اپنے پر رحم کریں، اپنی نسلوں پر رحم کریں اورفضول بحثوں میں پڑنے کی بجائے یا ایسی بحثیں کرنے والوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم اور وعدے پر نظر رکھیں اور حضرت مسیح موعود ؑکی جماعت کو مضبوط بنائیں۔ جماعت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پھیل چکی ہے۔اس لیے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہمارا خاندان، ہمارا ملک یا ہماری قوم ہی احمدیت کے علمبردار ہیں۔ اب احمدیت کا علمبردار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍مئی 2005ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2005ء صفحہ 8)
خلاصہ کلام یہ کہ خلافت احمدیہ، نبوت کے جاری فیضان کا ایک ایسا رَواں چشمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت مومنین کو عطاہوا ہے۔ افراد جماعت کے سوا کون اس حقیقت کو جان سکتا ہے کہ خلافت کے دامن سے وابستہ ہونے کے نتیجہ میں انہیں جو ایمانی حلاوت حاصل ہوئی ہے اور جس روحانی انقلاب کوانہوں نے اپنے اندر پیدا ہوتے دیکھا ہے وہ کسی اور ذریعہ سے ممکن نہیں تھا۔پس وہ جان چکے ہیں کہ اُن کی تمام تر روحانی ترقیات خلافت سے وابستہ ہیں اور خلافت کے بغیرہرسو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔