استعانت بغیر عبودیت کے حاصل نہیں ہوسکتی (قسط سوم)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۴؍ اگست ۱۹۳۶ء بمقا م دھرم سالہ)
حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ ایک خاص سلوک ہے کہ مجھے رات کا فاقہ کبھی نہیں ہوتا۔ ایک دوست سناتے تھے کہ ایک دفعہ کا ذکرہے کہ حضور رات کے وقت بٹالہ پہنچے اور آپ کے پاس کھانے کے لئے اُس وقت کچھ نہ تھا۔
آپ قادیان سے محبت کی وجہ سے رات کو ہی قادیان کی طرف چل دیئے
وہ دوست کہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ تھا اور میں نے دل میں کہا کہ آج میں حضرت کی اس بات کا امتحان اچھی طرح سے لے سکتاہوں کہ آیا آپ پر کسی رات کوفاقہ آتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ آج آپ نے اب تک کچھ نہیں کھایا اور اب چار بج چکے ہیں۔ گھر جاکر بھی ان کو کھانا ملنے کی امید نہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب ہم وڈالہ کے قریب پہنچے تو ایک شخص ہماری طرف دَوڑتا ہؤا آیا اُس کے ہاتھوں میں برتن تھے اور اُس کے پیچھے کچھ ساتھی تھے اُن کو آواز دیتا چلا آرہا تھا۔ جب وہ ہم تک پہنچ گیا تو اس نے ہمارے سامنے کھانا رکھ دیا اور چارپائی بچھوادی۔ جب ہم کھانا کھاچکے تو حضرت خلیفہ اوّل نے اُس دوست سے پوچھا کہ آپ کو کس طرح پتہ تھا کہ آج ہم نے یہاں سے گزرنا ہے؟ کہنے لگا کہ مجھے معلوم تھا کہ آپ دہلی گئے ہوئے ہیں او ردہلی سے واپسی کا دن آج ہے اور میں صبح سے کھانا لئے بیٹھا ہوں کہ آپ اب تشریف لے آئے ہیں۔ نیز میری والدہ سخت بیمار تھی میں نے سوچا کہ میں حضور کو وہ مریضہ بھی دکھادوں گا۔ چنانچہ حضور نے مریضہ کو دیکھ لیا اور قادیان تشریف لے گئے اور
آپ کی یہ بات کہ مجھے رات کا فاقہ کبھی نہیں ہوتا پوری ہوگئی
تومؤمن جب اللہ تعالیٰ کا ہورہتا ہے تو اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے ماتحت خودبخود آجاتا ہے اور ہر مؤمن سے اللہ تعالیٰ کے مختلف سلوک ہوتے ہیں ایک ہی رنگ کاسلوک ہر ایک سے نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں امرتسر سے یکے پر سوار ہوکر روانہ ہؤا۔ ایک بہت موٹا تازہ ہندو بھی میرے ساتھ ہی یکے پر سوار ہؤا وہ مجھ سے پہلے یکے کے اندر بیٹھ گیا اور اپنے آرام کی خاطر اپنی ٹانگوں کو اچھی طرح پھیلالیا حتّٰی کہ اگلی سیٹ جہاں میں نے بیٹھنا تھا وہ بھی بندکردی۔ چنانچہ میں تھوڑی سی جگہ میں ہی بیٹھ رہا۔ اُن دنوں دھوپ بہت سخت پڑتی تھی کہ انسان کے ہوش باختہ ہوجاتے تھے۔ مجھے دھوپ سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیجی جو ہمارے یکّے کے ساتھ ساتھ سایہ کرتی ہوئی بٹالہ تک آئی۔
یہ نظارہ دیکھ کروہ ہندو کہنے لگا آپ تو خداتعالیٰ کے بڑے بزرگ معلوم ہوتے ہیں
اسی طرح حضور نے ایک دفعہ کا واقعہ بیان فرمایا کہ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ ایک مکان میں سورہا تھا کہ مجھے القاء ہؤا کہ کوئی مصیبت آنے والی ہے اس مکان سے جلد نکل چلو اور دل میں ایسا ڈالا گیا کہ جب تک میں اس مکان کے اندر ہوں وہ مصیبت نازل ہونے سے رُکی رہے گی۔ چنانچہ میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے سب دوستوں کو پہلے مکان سے باہر نکال لوں۔ چنانچہ جب وہ باہر چلے گئے اور میں بھی باہر جانے لگا تو
ابھی میرا ایک قدم باہر اور ایک دروازے کے اندر کی طرف تھا کہ اس مکان کی چھت گِر پڑی
لیکن اپنی قدرت سے خداتعالیٰ نے ہم سب کو اس بلائے ناگہانی سے محفوظ رکھا۔ پس
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسے سلوک کرتاہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے مگر عبودیت شرط ہے اور ایسے انسان کا انجام ضرور بخیر ہوگا۔
بظاہر وہ دنیا کی ظاہر بین نظروںمیں ذلیل ہوتا نظر آرہا ہوگا لیکن انجام کار اُس کو عزت حاصل ہوگی۔ بظاہر وہ بدنام بھی ہورہا ہوگا لیکن انجام کار نیک نامی اسی کوحاصل ہوگی۔ گویا اس شخص کی ابتداء عبودیت سے اور انجام استعانت پر ختم ہوگا۔
عبودیت کے معنی بندگی کے ہیں
اورمثل مشہورہے کہ بندگی بیچارگی۔ اور استعانت کے معنی ہیں اعزاز۔گویا جب انسان بیچارگی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تب اُس کو اعزاز۔ حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ترتیب کہ خداتعالیٰ نے پہلے عبودیت اور اس کے بعد استعانت کو رکھا ہے بالکل درست ہے اور جو لوگ اس ترتیب کو بدلناچاہتے ہیں وہ اِس نکتے کو سمجھے ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ پہلے اپنے بندہ کی کامل بیچارگی ظاہرکرتا ہے اور بعد میں اس کی مدد کرکے دنیا کو دکھادیتاہے کہ میں کس طرح اپنے بندوں کی مدد کرتا ہوں۔ اگر استعانت حاصل ہونے سے پہلے انسا ن پر بیچارگی طاری نہ ہو تو پھر استعانت کو بھی لوگ ایک اتفاقی امر سے زیادہ وقعت نہ دیں گے۔
ہر انسان کا فرض ہے کہ استعانت کے اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرے
دنیا ہمیں کیا دے سکتی ہے اور کیا ہم سے چھین سکتی ہے۔ دنیا ہم کو کچھ نہیں دے سکتی کیونکہ اس کے پاس دینے کوہے ہی کیا اوردنیا ہم سے کچھ لے بھی نہیں سکتی کیونکہ ہم پہلے ہی خداتعالیٰ کے لیے سب کچھ چھوڑے بیٹھے ہیں۔ توہم سے کسی چیز کا چھیننا کیا معنی؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک اندھا کسی سے باتیں کررہا تھا اور اُس کی بلند آواز کی وجہ سے کسی تیسرے شخص کی نیند اُچاٹ ہورہی تھی ۔ وہ اندھے سے کہنے لگا حافظ جی! سوجائیں۔ اس اندھے نے جواب دیا بھائی! میں نے سونا کیا ہے بس خاموش ہی ہورہنا ہے۔ اُس کامطلب یہ تھا کہ میری آنکھیں تو پہلے ہی بندہیں اگر آوا زبند کرلوں تو بس یہی میرا سونا ہوجائے گا۔
یہی حالت کامل مؤمن کی ہوتی ہے کہ وہ پہلے تو خداتعالیٰ کے راستے میں سب کچھ قربان کرکے بیٹھا ہوتا ہے تو دنیا اُس سے کیا چھینے گی؟
کچھ بھی نہیں۔ مؤمن نے اگر دنیا کوتھوڑا بہت ہاتھ لگایا ہؤا ہوتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیّد عبدالقادر صاحب جیلانیؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہولے کھانے اور پہننے کی طر ف ہاتھ کو نہیں بڑھاتا۔ اور ایسے شخص کو کوئی لالچ بھی کس طرح دِلاسکتا ہے کیونکہ ایسے شخص کو خداتعالیٰ زمین و آسمان کی بادشاہت دے دیتا ہے اور وہ خداتعالیٰ کا نوکر ہوجاتاہے۔ تو کیا ایک ہزار روپے کے مالک کو کوئی چار آنے یا آٹھ آنے کا لالچ دے سکتاہے؟ یا ایک کروڑ پتی کوکوئی دس روپے کی طمع دلاسکتاہے؟ ہرگز نہیں۔ اور اگر کوئی اسے لالچ دلانے کی کوشش کرے گا تو وہ احمق ہی ہوگا۔ جس شخص کو خدا مل گیا تو گویا اُس کو زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک مل گیا اور اِس طرح اُس شخص کے ہاتھ میں یہ سب خزانے بھی آگئے اور پھر ایسا انسان لالچ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔
اس کی ایک بیّن مثال یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تبلیغ سے جب کفارِ مکہ تنگ آگئے تو وہ حضور کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ اپنی اس تبلیغ کو بند کردیںاور اس کے بدلہ میں اگر آپ شادی کرنا چاہیں تو ہم اپنے میں سے خوبصورت سے خوبصورت عورتوں سے کرواسکتے ہیں۔ اگر آپ مال کے خواہشمند ہیں تو ہم سب لوگ ہزاروں روپے آ پ کو جمع کرکے لادیتے ہیں اور
اگر آپ دنیاوی عزت کے طالب ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرنے کو تیار ہیں
لیکن برائے خدا اِس تبلیغ کو بند کردیں۔حضور کیونکہ دنیا کوہیچ اور ذلیل چیز سمجھتے تھے اس لئے اُن کوجواب دیا کہ یہ چیزیں تو کیا
اگر تم سورج کومیرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کومیرے بائیں ہاتھ پر لاکر رکھ دوتو میں ہرگز اس فرض کو ترک نہیں کرسکتا جو مجھ پر خداتعالیٰ کی طرف سے عائد کیاگیا ہے۔
(سیرت ابن ھشام جلد1صفحہ258مطبوعہ مصر1936ء)
پس جس کاخدا ہوگیا اُس کا سب کچھ ہوگیا۔ اب جبکہ دنیا کا سب کچھ ہی اُس کا ہے تو اس کی مملوکہ چیزوں کی اس کو لالچ دلانے کے کیا معنی؟ بھلا کیا کوئی شخص کسی کو اپنے ہی مال میں سے کچھ روپیہ نکال کر اس کولالچ دلاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اور جس شخص کوخداتعالیٰ زمین وآسمان کی بادشاہت دے چکا ہو ایسے شخص کو اگر کوئی یہ کہے کہ ہم تم کو فلاں دنیاوی عہدہ دے دیتے ہیں تو وہ کیا اس بات پر خوشیاں منانے لگے گا؟ قطعاً نہیں۔اورجبکہ دنیا کے بادشاہ بھی اتنی قدرت کے مالک ہیں کہ ان کے سپاہیوں کی طرف اگر کوئی شخص بُری نظرسے دیکھے تو اس کو تباہ و برباد کردیتے ہیں تو کیا تم خیال کرتے ہو کہ خداتعالیٰ کے سپاہیوں کونقصان دینے کا ارادہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہ سکتا ہے؟(باقی آئندہ)