اللہ تعالیٰ کی صفت ستار
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍اپریل ۲۰۰۹ء)
قرآن کریم میں متعدد جگہ پر اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی غلطیوں کو معاف فرماتا ہے، ان سے صرف نظر فرماتا ہے اور صرفِ نظر فرماتے ہوئے ستاری کا سلوک فرماتا ہے۔ ستاری کیا ہے؟ سَتَرَ کے معنی ہیں کسی چیز کو ڈھانپنے اور اس کی حفاظت کرنے کے۔ پس ہمارا خدا وہ پیارا خدا ہے جو ہماری بے شمار خطاؤں کو اور غلطیوں کو ڈھانپتا ہے، اُن سے صرفِ نظر فرماتا ہے۔ فوری طور پر کسی غلطی پر پکڑتا نہیں بلکہ موقع عطا فرماتا ہے کہ انسان، ایک حقیقی مومن، اللہ تعالیٰ کے اس سلوک سے فائدہ اٹھا ئے اور جو اس نے غلطیاں اور کوتاہیاں کی ہوں ان کا احساس کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ نہ کہ اُن کا اعادہ کرتے ہوئے ان پر دلیر ہو جائے۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خطاؤں اور غلطیوں کو ڈھانپتا ہے تو بندے کا بھی کام ہے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہوئے اس کی حفاظت کے حصار میں آ جائے، جہاں پر وہ اللہ تعالیٰ کی ستاری کے نئے سے نئے جلوے دیکھے گا۔
اِس وقت مَیں چند آیات آپ کے سامنے رکھوں گا جن میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بعض امور کی طرف توجہ دلائی ہے۔اللہ تعالیٰ سورۃ عنکبوت میں فرماتا ہے کہ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَلَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَحۡسَنَ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (العنکبوت: 8) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہم لازماً ان کی بدیاں ان سے دور کر دیں گے اور ضرور انہیں ان کے بہترین اعمال کے مطابق جزا دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کی بدیاں دور کر دیں گے لَنُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمْ۔ لغات میں کَفَرَکا مطلب لکھا ہے کہ پردے میں کر دینا، کسی چیز کو ڈھانک دینا اور مکمل طور پر ختم کر دینا۔ یعنی ایسے لوگ جو بُرائی کرتے ہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جس طرح کہ انہوں نے کوئی برائی کی نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ بندہ برائی کرتا ہے تو فو راً نہ تو اسے پکڑتا ہے، نہ ہی اس کی پردہ دری کرتا ہے کہ انسان اپنے معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ کئی قسم کی برائیاں انسان سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ کئی قسم کی غلطیوں کا انسان مرتکب ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفتِ ستّار اسے ڈھانکے رکھتی ہے۔ اور پھرجو لوگ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس رکھتے ہوئے اصلاح کی طرف مائل ہوتے ہیں، اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کرتے ہیں، نیک اعمال بجالانے کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُس بدی اور اُس کے اثرات تک کو اس طرح اس بندے سے دور کر دیتا ہے گویا کہ وہ برائی اس نے کی ہی نہیں تھی۔ نہ تو اس گناہ کی سزا دیتا ہے اور نہ ہی اُس کی شہرت ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں کہیں بات نکل بھی جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے پر توجہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس بات کو پھیلنے سے بھی روک دیتا ہے جس سے اس شخص کی بدنامی ہو رہی ہو۔ اور پھر یہ خدا جو سَتَّاربھی ہے، مَالِک بھی ہے، جو بندے کے توجہ کرنے پر نہ صرف یکسر اس کی برائیوں کو ڈھانپ دیتا ہے بلکہ ان کو نیک کاموں کی بہترین جزا دیتا ہے۔ جب برائیوں کے بعدنیک کام کرتے ہیں تو اس کی جزا بھی بہترین ہوتی ہے۔ نیکیوں کی جزا کئی گنا کرکے دیتا ہے اور برائیوں کے دور میں بھی جو چھوٹی چھوٹی نیکیاں ایک انسان نے کی ہوتی ہیں ان کی جزا بھی جمع کرکے دے دیتا ہے اور اس طرح نیکیوں کی تعداد اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ برائیاں کہیں نظرہی نہیں آتیں۔ پس حقیقی مومن وہی ہے جو خداتعالیٰ سے اس کی ستاری طلب کرے۔ اپنی برائیوں کا احساس ہونے کے بعد ان سے دور ہٹنے کی کوشش کرے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔ غلطیوں کی صورت میں توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وہ اس کی رضا حاصل کرنے والا بنتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’انسان اپنی فطرت میں نہایت کمزور ہے اور خداتعالیٰ کے صد ہا احکام کا اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے پس اس کی فطرت میں یہ داخل ہے(یعنی انسان کی فطرت میں یہ داخل ہے) کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے بعض احکام کے ادا کرنے سے قاصر رہ سکتا ہے اور کبھی نفس امّارہ کی بعض خواہشیں اس پر غالب آ جاتی ہیں پس وہ اپنی کمزور فطرت کی رو سے حق رکھتا ہے کہ کسی لغزش کے وقت اگر وہ توبہ استغفار کرے تو خدا کی رحمت اس کو ہلاک ہونے سے بچا لے‘‘۔(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ190,189)
یہ ہے وہ حقیقی فہم و ادراک اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا اور آپؑ نے پھر ہمیں بتایا۔ ورنہ آج دیکھیں دین کے بعض ٹھیکیدار جو ہیں، بڑے بڑے علماء، جبہ پوش انہوں نے تو خداتعالیٰ کے تصور کو اس طرح بنا دیا ہے، ایسا خوفناک سختی کرنے والا اور سزا دینے والا خدا پیش کرتے ہیں کہ جس طرح اس میں کوئی نرمی ہے ہی نہیں اور اسی وجہ سے عیسائیوں اور لامذہبوں کو بھی جہاں موقع ملتا ہے وہ اسلام کے خلاف غلط تصور پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلام کا خدا سَتَّاراور رَحِیْم خدا ہے اور نہ صرف خود بلکہ خداتعالیٰ نے مومنوں کو بھی یہ کہا ہے کہ میری صفات اپنی اپنی استعداد کے مطابق اپنانے کی کوشش کرو اور جب یہ ہو گا تو پھر کس قدر ستاری اور درگزر اور رحم کے نظارے معاشرے میں نظر آئیں گے۔ جب اس کا تصور کیا جائے تو بے اختیار اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور پھر آنحضرتﷺ پر درُود بھی ایک مومن بھیجتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل دین کو آپﷺ پر اتار کر ایک احسان عظیم ہم پر فرمایا ہے۔
ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ’’قرآن شریف میں خدا نے جو یہ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے بندو! مجھ سے ناامیدمت ہو۔ مَیں رَحِیْم، کَرِیْم اور ستّار اور غَفَّار ہوں اور سب سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہوں اور اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرے گا جو مَیں کرتا ہوں۔ اپنے باپوں سے زیادہ میرے ساتھ محبت کرو کہ درحقیقت مَیں محبت میں ان سے زیادہ ہوں۔ اگر تم میری طرف آؤ تو مَیں سارے گناہ بخش دوں گا۔ اور اگر تم توبہ کرو تو میں قبول کروں گا اور اگر تم میری طرف آہستہ قدم سے بھی آؤ تو مَیں دوڑ کر آؤ ں گا۔ جو شخص مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے گا وہ بھی میرے دروازہ کو کھلا پائے گا۔ مَیں توبہ کرنے والے کے گناہ بخشتا ہوں خواہ پہاڑوں سے زیادہ گناہ ہوں۔ میرا رحم تم پر بہت زیادہ ہے اور غضب کم ہے کیونکہ تم میری مخلوق ہو۔ مَیں نے تمہیں پیدا کیا اس لئے میرا رحم تم سب پر محیط ہے‘‘۔ (چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ56)پس اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہی وہ راستے سکھائے ہیں کہ جن سے اس کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ ایمان میں کامل بننے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو۔ بندوں کے حقوق ادا کرو۔ اعمال صالحہ بجا لاؤ اور ان اعمال صالحہ کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر بھی فرما دیا کہ کون کون سے اعمال ہیں جو تمہیں بجا لانے چاہئیں۔ کون سے ایسے اعمال ہیں جن کواللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ کون سے اعمال ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ پس ان تمام اوامر کے کرنے اور نواہی سے بچنے کی مومن کو کوشش کرنی چاہئے جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے تاکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری اور رحم سے حصہ لینے والے بنتے رہیں۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے میاں بیوی کے تعلقات کا بھی مختصراً ذکر کیا تھا کہ بعض حالات میں کس طرح آپس کے اختلافات کی صورت میں ایک دوسرے پر گند اچھالنے سے بھی دونوں فریق باز نہیں رہتے اور یہ بات خداتعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو، میاں کو بھی اور بیوی کو بھی، کس طرح ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس دلایا ہے۔ فرماتا ہے ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنّ(البقرۃ: 188) یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ یعنی آپس کے تعلقات کی پردہ پوشی جو ہے وہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں ہی خداتعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس ننگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، تیسرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔