دین کی خدمت کے لیے علوم جدیدہ حاصل کرو
مَیں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں۔ وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علومِ جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بد ظن اور گمراہ کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں۔ کہ گویاعقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضادچیزیں ہیں۔ چونکہ خودفلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علومِ جدیدہ کا پڑھنا ہی جائزنہیں۔ اُن کی رُوح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے۔… پس ضرورت ہے کہ آج کل دین کی خدمت اور اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدوجہد سے حاصل کرو۔ لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم ہی میں یکطرفہ پڑ گئے اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہل دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقعہ نہ ملا اور وہ خود اپنے اندر الٰہی نور نہ رکھتے تھے وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دُور جا پڑے۔اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے اْلٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بےسود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفّل بن گئے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے یعنی دینی خدمات وہی بجا لا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو۔(ملفوظات جلداول صفحہ۶۹،۶۸،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)