پنڈت لیکھرام پشاوری (1885ء اور فروری1897ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کودنیا میں ثابت اور قائم کرنے کے لیے جو قہری نشانات ظاہر ہوئے ان میں سے ایک نشان پنڈت لیکھرام پشاوری کے متعلق بھی تھا۔ ملتا ہے کہ یہ شخص دو دفعہ قادیان پہنچااورایک دفعہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے قریب آیا تھا۔
1880ءکی دہائی میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تصنیف براہین احمدیہ اپنی برتری و عظمت کے ساتھ برصغیر کے مذہبی افق پر نہ صرف چمک رہی بلکہ آپؑ کی علمی ثقاہت پر بھی محکم گواہ بن کر موجود تھی۔ اس ماحول میں جب اللہ تعالیٰ کے اذن سے آپؑ نے نشان نمائی کے لیے مختلف مذاہب و ملل کے سرکردہ لوگوں کو بلایا اور اس مقصد کے لیے قادیان آکر رہنے کا اشتہار دیا تو جن لوگوں نے جوابی خط و کتابت شروع کی ، آریہ سماجی مقرر پنڈت لیکھرام بھی ان میں سے ایک تھا۔
ملتا ہے کہ تب پنڈت لیکھرام یہ سمجھتا رہا کہ قادیان آکر رہنے کے متعلق اس کے نامعقول مطالبات کا جواب قطعی طور پر نفی میں ملے گا اور وہ اسے اچھالتے ہوئے اپنی شہرت کا موجب بنالے گا۔ مگر جب حضور نے ہر طرح آمادگی کا اظہار فرمایا اور اس کے مطالبہ کی تکمیل کے لیے ایک معقول طریق بھی سامنے رکھ دیا تو اس پراس شخص نے اپنی بدزبانی اور اعتراض کرنے کی عادت کو مزید بڑھادیا۔
اُس زمانہ کی لیکھرام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرحلہ پر حضرت مسیح موعودؑ نے اسے جاہل سمجھ کر منہ لگانا ہی چھوڑ دیا۔
مگر چند ماہ بعد جب اس نے آپ کی خدمت میں ایک پوسٹ کارڈ لکھا تو حضرت نے جواباً لکھوایا کہ قادیان کوئی دور نہیں ہے آکر ملاقات کرجاؤ امید ہے کہ یہاں پر باہمی ملنے سے شرائط طے ہو جاویں گی۔
مورخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے تاریخ احمدیت کی جلد اول میں صفحہ 256 سے 261 پر ’’پنڈت لیکھرام کی آمادگی اور مصلحت آمیز کارروائیوں کے ساتھ فرار‘‘ کا عنوان باندھ کر اس قیام قادیان کا احوال درج کیا ہے۔
لکھا کہ حضرت اقدس کے خاندان کا ایک طبقہ جس میں آپ کا ایک چچا زاد بھائی مرزا امام الدین اپنے ملحدانہ خیالات اور بے دینی میں پیش پیش تھا۔ ابتدا ہی سے نہ صرف حضور کے دعاوی و الہامات کا مذاق اڑاتا تھا بلکہ اسلام اور رسول خداﷺ اور قرآن مجید کے خلاف ہرزہ سرائی اس کا ایک عام مشغلہ بن چکا تھا۔ چنانچہ اب جو حضور نے نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی تو مرزا امام الدین نے منشی اندر من مراد آبادی اور پنڈت لیکھرام اور دوسرے دشمنان دین کی پیٹھ ٹھونکتے اور محض زبانی بیہودہ گوئی پر اکتفانہ کرتے ہوئے اگست ۱۸۸۵ء میں ’’قانونی ہندپریس ‘‘اور ’’چشمہ نورامرت سر ‘‘سے آپ کے خلاف نہایت گندے اشتہار شائع کیے۔
نیز جب حضرت اقدس نے پنڈت لیکھرام کو قادیان آنے کی دعوت دی تو ( حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی تحقیق کے مطابق) یہ معانداسلام خود گیا اور پنڈت لیکھرام کو قادیان لے آیا۔ یہ 19؍نومبر 1885ءکا واقعہ ہےاور لیکھرام کا قیام دو ماہ تک قادیان میں رہا۔
پنڈت لیکھرام گو بظاہر حضرت مسیح موعودؑ کی دعوت پر آیا اور اسے شرائط طے کرنے کے لیے حضرت اقدس سے بہرحال ملا قات کرنا چاہیے تھی مگر مرزا امام الدین وغیرہ کو جو محض اپنے ذوق بے دینی کی تسکین کے لیے تماشائی بنے ہوئے تھے۔ لیکھرام کا اظہار خیالات کے لیے حضرت اقدس کی مجلس میں جانا کیونکر پسند ہو سکتاتھا۔ چنانچہ مرزا امام الدین نے لیکھرام کو اپنے اشاروں کے مطابق چلانے کے لیے یہ مکروہ چال چلی کہ وہ اپنے لگے بندھے بعض نام نہاد مسلمانوں مثلاً ملاں حسیناں اور مراد علی وغیرہ کے ساتھ آریہ سماج میں داخل ہوگئے اور یوں خود مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ’’قادیان آریہ سماج‘‘کی توسیع ہوئی۔
لیکھرام جب اس طرح مرزا امام الدین کے دام تزویر میں الجھ گیا تو اسے ہر جھوٹے اور مکروہ پر وپیگنڈے کا شکار بنانا چنداں مشکل نہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا امام الدین اور مقامی ہندوؤں کی فتنہ انگیزی سے حضرت اقدس کے خلاف لیکھرام میں دشمنی اور بغض و کینہ کے جذبات ہر لمحہ شدید تر ہوگئے۔ حالانکہ ابتدا میں اس کی حالت اتنی خطرناک نہیں تھی۔ یہ تبدیلی قادیان آنے کے بعد پیدا ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں :’’قادیان کے بعض شریر الطبع لوگوں نے اس کے دل کو خراب کر دیا اور میری نسبت بھی ان نالائق ہندوؤں نے بہت کچھ جھوٹی باتیں اس کو سنائیں تا وہ میری صحبت سے متنفر ہو جائے پس ان بدصحبتوں کی وجہ سے روز بروز ردی حالت کی طرف گرتا گیا مگر جہاں تک میرا خیال ہے ابتداء میں اس کی ایسی ردی حالت نہ تھی صرف مذہبی جوش تھا جو ہر اہل مذہب حق رکھتا ہے کہ اپنے مذہب کی پابندی میں بپابندی حق پرستی و انصاف بحث کرے۔ ‘‘
بہرحال لیکھرام کے ماحول پر مرزا امام الدین اور قادیان کے ہندو پوری طرح چھائے ہوئے تھے اس لیے وہ حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لیے تو نہ آیا البتہ اس نے نہایت شوخی اور بے باکی کے رنگ میں حضرت اقدس سے سلسلہ خط و کتابت شروع کر دیا۔
یہ خط و کتابت اکثر بھائی کشن سنگھ اور گاہے گاہے پنڈت موہن لال ، پنڈت نہال چند اور حکیم دیارام کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔
پنڈت موہن لال کا بیان ہے کہ ’’حضرت صاحب بڑی مہربانی فرماتے تھے اور ہنستے ہوئے ملتے تھے اور کبھی خالی ہاتھ نہ آنے دیتے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے نہایت عمدہ سیب دیئے۔ میں لے کر گیا۔ پنڈت لیکھرام کا بھی معمول ہوگیا تھا کہ جب میں واپس جاتا تو ضرور پوچھتا کیا لائے ہو؟ میں نے جب کہا کہ سیب لایا ہوں تو اس نے گویا للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر کہا۔لاؤ لاؤ میں کھاؤں۔ میں نے ان کو ہنسی سے کہا کہ دشمن کے گھر کی چیز تم کو نہیں کھانی چاہیئے۔ تو اس نے جھٹ میرے ہاتھ سے سیب لے لیا اور کھانا شروع کر دیا۔‘‘
لیکھرام اپنی تحریر اور مجلس میں نہایت رکیک اور سوقیانہ حملے کرتا تھا۔ مگر آپ ان کو نظر انداز کرکے تحقیقی جوابات دیتے تھے اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ وہ دیانتدارانہ روش اختیار کرکے آپ کی دعوت نشان نمائی پر رضا مندی اختیار کرے۔ دوران خط وکتابت میں آپ نے اسلام کی صداقت کا قائل کرنے کے لیے اس کے سامنے اپنا وہ مخصوص علم کلام بھی پیش کیا۔ جس نے دنیائے اسلام میں زبردست انقلاب برپا کر رکھا تھا یعنی دعویٰ اور دلیل دونوں مذہبی کتاب سے پیش کرنے چاہیں۔ لیکن جب لیکھرام کے مذہبی لیڈر اور آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کو اس جری پہلوان کے سامنے آنے کی جرأت نہ ہو سکی تو لیکھرام کو کیا جرأت ہوتی ؟ لیکھرام ہر دفعہ نہایت چالاکی سے اس آسمانی حربہ کی زد سے بچنے کی خاطر صرف نشان دکھائے جانے کا مطالبہ دہرا دیتا اور اپنے ہزلیات کے فن میں مشاقی کے جو ہر دکھانے میں ہی کامیابی سمجھتا تھا۔
پنڈت لیکھرام نے اپنے عرصہ قیام قادیان کے دوران مرزا امام الدین کا آلہ کاربن کر اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگاتار سوقیانہ حملے کیے۔ ایک مرتبہ تو یہاں تک نوبت آپہنچی کہ اس کی زبان درازی کو دیکھ کر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے بڑے بیٹے مرزا سلطان احمد صاحب جیسے مرنجان مرنج طبیعت انسان نے اسے مباحثے کا چیلنج دے دیا۔ بلکہ پورے جوش کے عالم میں ہندو بازار تک جا پہنچے۔ مگر ہندو ان کی یہ جرأت دیکھ کر سہم گئے اور لیکھرام کو باہر نہ نکلنے دیا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
پھر ملتا ہے کہ 13؍دسمبر کو لیکھرام نے قادیان سے ہی ایک خط میں لکھا :’’اگر آپ فارغ نہیں تو مجھے بھی تو کام بہت ہے۔ اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان تو مانگیں تا فیصلہ ہو۔‘‘ حضرت اقدس نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا :’’جناب پنڈت صاحب آپ کا خط میں نے پڑھا۔ آپ یقیناًسمجھیں کہ ہم کو نہ بحث سے انکار ہے اور نہ نشان دکھلانے سے مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق نہیں کرتے۔ بے جاشرائط زیادہ کر دیتے ہیں۔ آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں…‘‘اس کے علاوہ بھی حضور علیہ السلام نے اسے ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی۔
پنڈت لیکھرام کم و بیش دو ماہ تک قادیان میں رہا۔ اس عرصہ میں خط و کتابت کے نتیجہ میں یہ تبدیلی ضرور ہوئی کہ200روپیہ ماہوار کی بجائے تیس روپیہ ماہانہ رقم پر آگیا۔ مگر اس کے مقابل اس کی بدلگامی اور بیہودہ سرائی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اوروہ اپنی ضد پر آخر وقت تک قائم رہا۔ مرزا امام الدین کا آلہ کار بن کر اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سوقیانہ حملے کرتا رہا۔ پنڈت لیکھرام کی یہ مخالفانہ کارروائی سال کے آخر تک پوری طرح جاری رہی۔
لاہور میں پنڈت لیکھرام کے سلام کرنے کا واقعہ یوں ملتا ہے :’’نومبر1893ء میں حضوراپنے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحب کو جوان ایام میں محکمہ نہر میں ملازم تھے ملنے کے لئے فیروز پور تشریف لے گئے۔14؍دسمبر1893ء کو وہاں سے واپسی پر لاہور اسٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضوفرمارہے تھے کہ مشہور آ ریہ سماجی لیڈر پنڈت لیکھرام نے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا مگر حضور نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے اس خیال سے کہ شاید آپ نے سنانہیں دوسری طرف سے آ کر سلام کیا مگر آپ نے پھر بھی کوئی توجہ نہ دی۔ جب پنڈت جی مایوس ہو کر لوٹ گئے تو کسی نے یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام کا سلام سنانہیں ہوگا۔حضور سے عرض کیا کہ حضور پنڈت لیکھرام آئے تھے اور سلام کرتے تھے۔حضور نے یہ سنتے ہی بڑی غیرت کےساتھ فرمایا ’’اسے شرم نہیں آتی ہمارے آقا کوتو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتاہے۔‘‘ (بحوالہ لاہورتاریخ احمدیت۔ مرتبہ شیخ عبدالقادر، سابق سوداگرمل۔ صفحہ 30-31)
پھر جماعتی تاریخ کے ماخذ اخبار البدر کے 16؍جنوری 1903ءکے پرچہ کے صفحہ نمبر 90 کے حوالہ سے ملتا ہے کہ فروری 1897ء میں بھی لیکھرام قادیان میں مقیم تھا۔
الغرض پنڈت لیکھرام اپنے قتل کے واقعہ سے قریباً ایک ماہ قبل بھی قادیان میں ہی تھا۔ لیکن اپنی بدزبانی اور شامت اعمال کے باعث خدا کی قہری تجلی کا مورد بن گیااورخدا کے بھیجے ہوئے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے فیض، حسن سلوک، رحم وعطا اور مہمان نوازی سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔